جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ویسے ویسے پاکستان بھر میں سیاسی منظر نامے بھی بدلتے جار ہے ہیں ۔ نواز شریف بھی اب انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں مگر انصاف پارٹی کے عمران خان اور جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد اپنے موقف پر اب بھی قائم ہیں۔ ہم ذیل میں انہی حالات کے پس منظر اور پیش منظر کے حوالے سے کچھ پیش کر رہے ہیں۔
جمہوری آزادی صبر طلب ہے
سب سے پہلے آپ روز نامہ جنگ میں لکھنے والے مشہور صحافی نذیر ناجی کے کچھ خیالات ملاحظہ فرمائیں۔ انتخابات سر پہ آگئے ہیں بے نظیر بھٹو کی واپسی پر ان کا جو بھر پور استقبال ہوا اس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ اگر ان کے حریف نواز شریف کو انتخابی میدان میں نہ اتارا گیا تو وہ فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں آسکتی ہیں۔ چنانچہ ضرورت محسوس کی گئی کہ نواز شریف کو انتخابی عمل میں شریک کیا جائے۔ نواز شریف اور صدر پرویز مشرف کے درمیان بالواسطہ رابطے ہوئے اور جن پانچ شرائط کا ذکر کیا جاتا ہے ان کی بنیاد پر دوبارہ واپسی کا فیصلہ ہوا جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آخر کار نواز شریف کو وہی راستہ اختیار کرنا پڑا جس کا بے نظیر بھٹو نے انتخاب کیا تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ بے نظیر بھٹو انتخابات میں حصہ لے رہی ہوں اور نواز شریف ان کا بائیکاٹ کرتے ؟ یہ بائیکاٹ ممکن ہی نہیں تھا۔ اسی وجہ سے میں نے گزشتہ دنوں اپنے کالم میں اعتماد سے لکھ دیا تھا کہ وہ بائیکاٹ نہیں کریں گے ۔ انہیں انتخابات میں حصہ لینا ہوگا کیونکہ ان کی واپسی کے سمجھوتے میں یہ بات شامل ہے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف کی جماعت نہ صرف انتخابات میں حصہ لے رہی ہے بلکہ وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم بھی چلا رہے ہیں اور یہی سیاسی فہم و فراست کا تقاضا تھا۔ پاکستان جیسے آمریت زدہ ملک میں جمہوری آزادیاں پلیٹ پر رکھ کر پیش نہیں کی جاتیں اور نہ ہی انہیں طاقت ور حکمرانوں کے ساتھ کھلے مقابلے کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ جمہوری آزادیوں کا حصول بہت صبر طلب کام ہے اس کے لیے مناسب حکمت عملی کی تشکیل بھی ضروری ہے اور اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی قوتوں کا انتخاب بھی ناگزیر ہے۔
افسوس کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے مشترکہ مفاد یعنی بحالی جمہوریت کے لیے متحد ہو کر طویل جدو جہد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے پر سبقت لے کر آمریت کی قوتوں سے جا ملے اور جتنا اقتدار بھی اسے ملتا ہے حاصل کر لے ۔ اب پھر محترمہ اور نواز شریف دونوں بظاہر تعاون کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن مقصد پھر ایک دوسرے کو پچھاڑنا ہے میری اس بات کی تصدیق انتخابی نتائج آنے کے بعد ہو جائے گی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو دھکیل کر پیچھے کرنے میں لگے ہوں گے اور وزارت عظمیٰ پرویز الہٰی کے پاس چلی جائے گی۔
جنرل کیانی کا ایک اہم بیان
اطہر مسعود روزنامہ جناح کے کالم نگار ہیں موصوف نے اپنی ایک تحریر میں جو خاص نکتہ بیان کیا ہے وہ یقیناً چونکانے والی خبر ہے یہ درست ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد صدر پرویز مشرف کی روانگی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اور بقول غالب
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھے تھے
نہ ہاتھ باگ پر ہے ،نہ پا ہے رکاب میں
ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے اقتدار کی جوانی بڑھاپے کی طر ف بڑھ رہی ہے اور بڑھاپا مرض الموت میں بدلنے والا اس کا پہلا اشارہ جنرل کیانی کی طرف سے ۲۰۰۸ ء کو ’’سولجر زایئر‘‘ قرار دینے سے ملتا تھا تو حتمی اظہار ان کا یہ بیان ہے کہ جس کے مطابق انہوں نے پاک فوج کے جوانوں سے کہا کہ وہ خود کو صرف پیشہ ورانہ امور تک محدود کر لیں ان کی بات کا آسان لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ فوج نے یہ مان لیا ہے کہ سیاست میں حصہ نہیں لینا اور جنرل کیانی نے اپنی کمان میں کام کرنے والوں کو یہ بتادیا ہے کہ فوج کا پیشہ ورانہ فرض قومی سرحدوں کا دفاع ہے قوم پر حکومت کرنا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی بھی کارروائی میںکامیابی کو یقینی بنانے کے لیے قوم کا تعاون حاصل کرنا ازبس ضروری ہے گویا انہوں نے عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کر لیا ہے انہوں نے خود کو ایک پیشہ ور سپاہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ جنرل ایوب خان جنرل یحییٰ خان ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طرح اپنی وردی کو داغ دار نہیں ہونے دیں گے، وہ سیاست میں حصہ نہ لینے کے اپنے حلف کی پاسداری کریں گے اور آئندہ انتخابات میں عوام جو بھی رائے دیں گے فوج اس کو بدلنے کی اجازت کسی کو نہیں دے گی، کسی کو بھی نہیں، صدر پرویز مشرف کو بھی نہیں۔ ان حالات میں انتخابات سے دور رہنا لوگوں کو بائیکاٹ پر اکسانا عملی طور پر عوامی حکمرانی کے عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ اس وقت اہم ترین کام منشتر قوم کو اکھٹا کرنا ہے انہیں جدا جدا کرنا نہیں۔ اس اختلاف سے ملک وقوم کا فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ان لوگوں کافائدہ ہو گا جو اپنی آمریت کے لیے قوم کو حصوں بخروں میں جدا جدا رکھنا چاہتے ہیں۔
قاضی حسین احمد کا جواز
جماعت اسلامی (پاکستان) کے چیف قاضی حسین احمد نے اپنے ایک مضمون کے ذریعے (جو کئی روزناموں شائع ہوا ہے ) الیکشن کے بائیکاٹ کی وجوہ بیان کی ہیں اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔
فرض کیجئے کہ ایسے انتخابات میں ایک تعداد اپوزیشن جماعتوں کی اسمبلیوں میں پہنچ جائے تو سب سے پہلا سوال یہ اٹھے گا کہ ۳ نومبر کے اقدام کا کیا ہو جس میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ۶۰ سے زائد جج فارغ کر دیئے گئے اور مرضی کے مطابق ججز بھرتی کیے گئے۔ بعض قوانین اور آئین میں من پسند ترامیم کی گئیں۔ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پیمرا آرڈیننس اور سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی گئیں۔ اور اگر ان تمام اقدامات کو خود ساختہ سپریم کورٹ کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا گیا تو کیا اس آئین کے تحت حلف اٹھانا ہے یا پھر طویل عرصے تک ڈیسک بجا کر نو پی سی او (NO PCO) کا راگ الاپنا ہے اور بالآخر پھر ستر ھویں ترمیمی بل کی طرح کی ایک ترمیم پر دستخط کرنے ہیں؟ کیونکہ فریاد کا واحد ادارہ سپریم کورٹ بھی برباد کر دیا گیا ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں نے پہلے ہی سارے غیر آئینی عمل کو جائز قرار دے رکھا ہے۔ ایسی معلق پارلیمنٹ بنانے کے پورے انتظامات کر دیے گئے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کو مل کر بھی اکثریت حاصل نہ ہو سکے گی اور وہی جماعتیں حکومت کریں گی جو امریکی مرضی کے تابع ہو کر چلنے اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کو ایندھن بنائے رکھنے پر تیار ہوں۔ ایسی حالت میں ایمان و ضمیر کا سودا کرنے والے لوگ ہی اسمبلیوں کی ممبری پر قناعت کر سکتے ہیں۔ اگر کسی کو مجبوری کی یہ حالت تسلیم نہ ہو اور فوجی اداروںکے تحت اور امریکی مرضی کے مطابق کام کرنے پر آمادگی نہ ہو تو اس وقت بھی تحریک چلانے اور عوام کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔ اگر بالآخر یہی کرنا ہے تو پھر حکومت کے پھیلائے ہوئے اس انتخابی جال میں پھنسنے کی کیا ضرورت ہے ۔
قاضی صاحب کاکہنا ہے کہ بین الاقوامی رائے عامہ معلوم کرنے والے ادارے گیلپ کے مطابق پاکستان کے ۵۶ فیصد عوام ان الیکشن کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں۔ وکلاء میڈیا طلبہ اور ملک کے مظلوم عوام کے ساتھ مل کر ہماری یہ تحریک جاری رہے گی اور ہم ان ڈھونگ انتخابات کے بائیکاٹ کو مزید موثر بنائیں گے اور ایک ایسی فضا پیدا کرنے کی جدو جہد جاری رکھیںگے جس میں آئین اپنی اصل صورت میں بحال ہو۔
٭پاکستانیوں کے اعلیٰ صاحبان صحافت و سیاست کے خیالات آپ نے ملاحظہ کیے اب عام پاکستانی اس وقت روٹی کی جس آگ میں جل رہا ہے وہ روداد اس کالم میں چھپی تصویر چھپی ہے مگر ایک نوجوان شاعر فرحت عباس شاہ کا ایک شعر شاید اس تصویر کا اصل کیپشن ہے :
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز مرے گھر میں اتر شام کے بعد
(بحوالہ:روز نامہ ’انقلاب ‘ حیدر آباد دکن،۱۵ دسمبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply