
امریکا میں یہودیوں کا تشخص تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مذہب پر سختی سے کاربند نہ رہنے والے یہودیوں کا تناسب گھٹ رہا ہے۔ دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ بہت سے یہودی دیگر مذاہب میں شادی کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔
سال رواں کے اوائل میں جن ۳۵۰۰ پختہ عمر کے یہودیوں سے سوالات کے ذریعے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی، ان کی اکثریت نے بتایا کہ یہودیت مذہب سے بڑھ کر اجداد کا فسانہ اور ثقافت ہے۔ بہت سے امریکی یہودی اب بچے پیدا کرنے پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آرتھوڈوکس کے سوا یہودیوں کی تمام ہی شاخیں معاشرے میں تیزی سے ضم ہو رہی ہیں۔
مجموعی طور پر تمام یہودیوں میں دوسرے مذاہب والوں سے شادی کا رجحان ۵۸ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ نان آرتھوڈوکس یہودیوں میں مذہب سے باہر شادی کرنے والوں کا تناسب ۷۱ فیصد ہے۔ ۱۹۷۰ء میں یہ تناسب صرف ۱۷ فیصد تھا۔ دو تہائی یہودیوں کا تعلق کسی بھی سائناگاگ (معبد) سے نہیں یعنی وہ مذہب پر سختی یا پابندی سے کاربند نہیں۔ ایک چوتھائی یہودی کسی خالق یا رب کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ گزشتہ برس ایک تہائی یہودیوں نے کرسمس کے موقع پر اپنے گھر میں کرسمس ٹری کا اہتمام کیا۔
نیو یارک کی جیوئش تھیولوجیکل سیمینری میں امریکن جیوئش ہسٹری کے پروفیسر جیک ورٹہائمر کہتے ہیں: ’’امریکا میں آباد یہودیوں کے تشخص کے حوالے سے یہ صورتِ حال خاصی مایوس کن ہے‘‘۔
پیو ریسرچ سینٹر کے ریلیجن اینڈ پبلک لائف پروجیکٹ کے تحت کرائے جانے والے سروے میں یہودیوں نے تشخص کی گرتی ہوئی سطح اور مذہب سے قدرے بیزاری کے اظہار کے باوجود کہا کہ اُنہیں اب بھی اس بات پر فخر ہے کہ وہ یہودی ہیں۔
۶۹ فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ اسرائیل سے کسی حد تک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ ۴۰ فیصد کا کہنا تھا کہ جس سرزمین پر اس وقت اسرائیل قائم ہے، وہ یہودیوں کو خدا نے عطا کی ہے۔ صرف ۱۷ فیصد نے یہ کہا کہ اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کے لیے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں بساتے رہنا درست ہے۔
امریکی آبادی میں یہودی ۲ء۲ فیصد ہیں۔ یہ تناسب دو عشروں سے برقرار ہے۔ پختہ عمر کے یہودیوں کی تعداد ۵۳ لاکھ ہے اور تقریباً ۱۳؍لاکھ بچے جزوی طور پر یہودی کی حیثیت سے پرروش پا رہے ہیں۔ سروے میں اس نکتے پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ کون یہودی ہے اور کون خود کو یہودی سمجھتا ہے۔ ۲۲ فیصد رائے دہندگان نے بتایا کہ وہ اس لیے یہودی ہیں کہ ان کے والدین میں سے کسی ایک کا تعلق یہودیت سے تھا، یا پھر وہ ثقافتی و نسلی طور پر خود کو یہودی سمجھتے ہیں۔
یہودیوں میں ایسے لوگوں کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے جو برملا کہتے ہیں کہ ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ۱۹۸۰ء یا اس کے بعد پیدا ہونے والے یہودیوں میں مذہب سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والوں کا تناسب ۳۲ فیصد ہے، جو ایج گروپ کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔
پیو ریلیجن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ایلن کوپرمین کہتے ہیں کہ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ بوڑھے یہودی اس لیے یہودی ہیں کہ یہودیت ان کا مذہب ہے اور جواں سال یہودی ایسے یہودی ہیں، جن کا مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
سیکولراِزم یا مذہب سے واضح بیزاری کا رجحان امریکی آبادی میں تیزی سے سرایت کر رہا ہے۔ نئی نسل میں مذہب سے بیزاری نمایاں ہے۔ اس معاملے میں یہودی منفرد نہیں۔
مذہب سے تعلق نہ رکھنے والے یہودی اپنے بچوں کو یہودی کی حیثیت سے پروان نہیں چڑھاتے۔ اس رجحان کو یہودیت سے ہمدردی یا لگاؤ رکھنے والے انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے یہودیت کا تسلسل خطرے میں پڑ رہا ہے۔ مذہب سے بیزار یہودیوں میں دو تہائی سے زائد ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو یہودی کی حیثیت سے پروان نہیں چڑھا رہے۔ دوسری طرف مذہب سے لگاؤ رکھنے والے یہودیوں میں ۹۳ فیصد ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو یہودی کی حیثیت سے پروان چڑھا رہے ہیں۔
ریفارم جوڈائزم اب تک امریکی یہودیوں کی سب سے بڑی تحریک رہی ہے۔ ۳۵ فیصد امریکی یہودی اس سے وابستگی رکھتے ہیں۔ رجعت پسند یہودی ۱۸ فیصد ہیں اور ۱۰ فیصد یہودی آرتھوڈوکس ہیں۔ ’’تعمیر نو‘‘ اور ’’بحالی‘‘ کے تصور پر یقین رکھنے والے یہودیوں کا تناسب ۶ فیصد ہے۔ ۳۰ فیصد یہودی خود کو مذہب سے وابستہ قرار نہیں دیتے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۳۴ فیصد یہودیوں کا عقیدہ یا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیحا یا نجات دہندہ سمجھنے پر انسان یہودی رہ سکتا ہے۔
اپنے عقائد ترک کرنے پر یہودی مختلف نظریات کے حامل ہو جاتے ہیں۔ آرتھوڈوکس یہودی رجعت پسند بن جاتے ہیں۔ رجعت پسند اصلاح پسند یہودیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اصلاح پسند یہودی جب اپنا نظریہ چھوڑتے ہیں تو دہریے بن جاتے ہیں۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دو فیصد یہودی وہ ہیں جنہوں نے اس مذہب کو قبول کیا ہے یعنی کسی اور مذہب سے اس میں داخل ہوئے ہیں۔
امریکی یہودیوں میں سابق سوویت یونین سے تعلق رکھنے والے یہودیوں یا ان کی اولادوں کا تناسب ۱۰ فیصد ہے۔ آرتھوڈوکس یہودیوں کی پچھلی نسلوں میں سے بہتوں نے مذہب ترک کردیا تھا مگر اب نئی نسل کے آرتھوڈوکس مذہب پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آرتھوڈوکس یہودی جوانی میں شادی کرتے ہیں، وسیع گھرانے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دینے والے اسکول میں داخلہ دلانے پر توجہ دیتے ہیں۔
نیو یارک کے ہبریو یونین کالج، جیوئش انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجن میں امریکی یہودیوں کے ماہرِ عمرانیات اسٹیو ایم کوہن کہتے ہیں: ’’سروے سے اکیسویں صدی کے پہلے نصف میں نان آرتھوڈوکس یہودیوں کی آبادی یا تناسب میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلی اور آرتھوڈوکس یہودیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا پتا چلتا ہے‘‘۔
جیوئش فیڈریشنز آف نارتھ امریکا میں سینئر ڈائریکٹر آف ریسرچ اینڈ اینالسز لارنس کوٹلر برکووز کا کہنا ہے کہ پیو سینٹر کے سروے سے امریکی یہودیوں میں مذہب سے محبت اور مذہب سے بیزاری کی بنیاد پر پنپنے والے فاصلوں کا بھی سراغ ملتا ہے۔
سروے کے نتائج بہت سے یہودیوں اور ماہرِ عمرانیات کے لیے حیرت انگیز ثابت ہوئے ہیں۔ ۲۰ فروری سے ۱۳؍جون ۲۰۱۳ء کے دوران کیے جانے والے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی یہودیوں میں مذہب سے بیزاری بڑھتی جارہی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں یہودی بہت حساس اور جانبدار ہوتے ہیں۔ مگر اب اندازہ لگایا جارہا ہے کہ امریکی یہودی مذہب سے وابستگی کے معاملے میں پہلے سے حساس نہیں رہے۔
(“Poll Shows Major Shift in Identity of U.S. Jews”… “New York Times”. Oct. 1, 2013)
Leave a Reply