
ماحولیاتی سائنسدانوں کے ایک نئے جائزے سے پتا چلا ہے کہ ہوا کی آلودگی‘ عالمی موسم میں تبدیلی لانے والی گیسوں اور ماحول میں قدرتی اتار چڑھاؤ کس طرح دنیا کے گنجان آباد خطوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس جائزے کے لیے فنڈز امریکا کی NSF اور ناسا نے فراہم کیے۔ سائنسدانوں Chul Eddy Chung اور وی راماناتھن نے‘ جن کا تعلق کیلیفورنیا کے بحری علوم کے ادارے سے ہے‘ بحرِ ہند کے علاقے میں سطح سمندر کے درجہ حرارت اور دوسرے اعداد و شمار اور کوائف کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندر کے شمالی حصے میں معمول سے کم درجۂ حرارت نے علاقے میں قدرتی ماحولیاتی گردش اور مون سون کو کمزور کر دیا ہے‘ جس کے نتیجہ میں بھارت میں بارشوں میں کمی جبکہ افریقہ میں صحرائے اعظم کے جنوب میں ساحلی علاقے میں اضافہ ہوا ہے۔
استوائی علاقے میں واقع بحرِ ہند میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجۂ حرارت میں اضافہ جبکہ گنجان آبادی والے شمالی بحرِ ہند کا علاقہ باقی حصوں کی طرح تیزی سے گرم نہیں ہو رہا‘ جس کے باعث خشک موسم میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا اثر جنوبی ایشیا کے دو ارب لوگوں پر پڑ سکتا ہے۔ ایسے حالات مختلف صنعتوں اور قدرتی وسائل پر اثرانداز ہوتے ہیں‘ جن میں زراعت سے تازہ پانی تک کے وسائل شامل ہیں۔ ان تبدیلیوں کے پیچھے کارفرما عنصر‘ دراصل وہ پیچیدہ تصادم ہے جو ہوا کی آلودگی‘ گرین ہاؤس گیسوں اور قدرتی طور پر پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے درمیان جاری ہے۔ ماضی میں جو جائزے لیے جاتے رہے ہیں‘ ان میں ان سائنسدانوں اور بین الاقوامی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے یہ معلوم کیا کہ آلودگی والے ذرات‘ گرمی کے اثرات کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے خلاف غلاف کا کام دیتے ہیں۔
بادلوں اور ماحول کے سینٹر کے ڈائریکٹر راماناتھن کے بقول موجودہ جائزے سے بھی اسی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس پورے استوائی خطے کو مخالف سمتوں میں دھکیلا جارہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسیں اسے ایک طرف دھکیل رہی ہیں اور سمندر کو گرم کر رہی ہیں اور مزید بارش برسانے کا سبب بن رہی ہیں‘ جبکہ ایروسول (گیسوں میں پائے جانے والے ٹھوس ذرات) اسے مخالف سمت میں دھکیل رہے ہیں‘ جس سے سمندر ٹھنڈا ہو رہا ہے اور جس کی وجہ سے بارشیں کم ہو رہی ہیں۔
ان تمام عوامل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مون سون کی بارشیں جنوبی ایشیا سے ہٹ کر استوائی اور جنوبی سمندروں کے علاقے کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔ بعض برسوں کے دوران ’ایروسول‘ جیت سکتے ہیں اور بعض برسوں کے دوران گرین ہاؤس کا اثر جیت سکتا ہے۔ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ آنے والے عشروں میں ان دونوں اسباب میں زیادہ شدت آجائے گی اور اس طرح اس کا مقابلہ کرنا مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔
نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے موسمیاتی تبدیلیوں کے پروگرام کے ڈائریکٹر جے فین کا کہنا ہے کہ اس جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کا ماحول‘ قدرتی عناصر اور انسانی سرگرمیوں کے درمیان ایک بہت نازک شاخ پر لٹک رہا ہے۔ ایسے اسباب کا جاننا‘ جو اس موسمیاتی توازن میں بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں‘ آج کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسی طرح آلودہ بادلوں کو دنیا کے کئی خطوں میں دیکھا جاسکتا ہے‘ جن میں امریکا میں لاس اینجلس اور ڈینور جیسے بڑے شہری مراکز شامل ہیں۔
راماناتھن کے بقول پانچ سے دس سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ آلودگی صرف شہری علاقوں کا مسئلہ ہے‘ لیکن اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آلودگی والے بادل تیزی سے سفر کرتے ہیں اور پورے سمندر کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ صرف پانچ دن کے اندر ہوا کے ذریعے سفر کرنے والے عوامل آلودگی‘ چین سے امریکا تک جا سکتے ہیں اور صرف تین سے چار دن کے عرصے میں وہ امریکا سے یورپ تک پہنچ سکتے ہیں۔
(بشکریہ: ’’خبر و نظر‘‘ امریکی شعبۂ تعلقاتِ عامہ‘ اسلام آباد۔ جون‘ جولائی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply