
اسکول کا مقصد پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو بہترین تعلیم دینا ہے۔ بھارت کی ریاست اترپردیش میں ’’ودیاگیان لیڈرشپ اکیڈمی‘‘ غریب خاندان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا رہی ہے۔ اس بورڈنگ اسکول کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں ہر سال ۲۰۰ نشستوں کے لیے ڈھائی لاکھ سے زیادہ درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔
یہ اسکول شِو نادر فاؤنڈیشن نے قائم کیا تھا، جو ایسی تعلیم مکمل طور پر مفت فراہم کرتا ہے جو عام طور پر صرف انتہائی امیر خاندان ہی برداشت کر سکتے ہیں۔
روشنی نادر ملہوترا فاؤنڈیشن کی ٹرسٹی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اسکول کا تصور بھارت کے ان نجی اسکولوں سے لیا گیا ہے، جن سے نکل کر طلبہ اعلیٰ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے اور پھر اونچے عہدوں پر فائز ہونے کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔
روشنی نادر ملہوترا چاہتی ہیں کہ ان کے اسکول سے بھارت کی نئی قیادت ابھر کر سامنے آئے لیکن ودیا گیان اسکول صرف انتہائی ذہین اور انتہائی غریب طلبہ کو داخلے دیتا ہے۔ اسکول میں صرف انہی خاندان کے بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے جن کی سالانہ آمدن سوا لاکھ انڈین روپوں سے کم ہو۔ اور اسکول اس بات کی جانچ پڑتال بھی کرتا ہے کہ کہیں امیر خاندانوں کے بچے تو داخلے کی کوشش نہیں کر رہے۔
روشنی ملہوترا کہتی ہیں: ’بھارت کا بڑا حصہ دیہی ہے، اور آبادی کے بڑے حصے کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ ان کی رسائی اچھی یونیورسٹیوں تک نہیں ہو پاتی۔
’ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا ہم داخلے کا کوئی ایسا نظام وضع کر سکتے ہیں جو خالصتاً میرٹ پر مبنی ہو‘۔
اسکول چاہتا ہے کہ اس کے طلبہ دنیا کے کسی بھی ملک کے طلبہ سے مقابلہ کر سکیں۔ ابتدائی ڈھائی لاکھ درخواستوں کے بعد تقریباً سوا لاکھ بچوں کو تحریری امتحان کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ اس امتحان کے نتائج کی روشنی میں چھ ہزار طلبہ کی ابتدائی فہرست تیار کی جاتی ہے، جنھیں ایک اور امتحان میں بٹھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسکول کی انتظامیہ طلبہ کے گھروں کے دورے بھی کرتی ہے۔ اس عمل کی چھلنی سے گزر کر دو سو طلبہ، لڑکے اور لڑکیاں، منتخب کیے جاتے ہیں جن کی تعلیم، رہائش، کھانا پینا اور لباس سب کا خرچہ اسکول برداشت کرتا ہے۔
یہ بچے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور ذات پات کا امتزاج موجود ہوتا ہے۔ انھیں ایسی تعلیم دی جاتی ہے جس کی بدولت وہ نئے مواقع سے روشناس ہو سکیں۔
اسکول میں داخلے کی مانگ کا یہ عالم ہے کہ اب جگہ جگہ ایسی اکیڈمیاں کھل گئی ہیں جن میں داخلے کے امتحان کی تیاری کروائی جاتی ہے۔
داخلے کے بعد طلبہ کے تمام اخراجات اسکول برداشت کرتا ہے۔
اسکول قائم کرنے پر پونے چار ارب بھارتی روپے سے زیادہ خرچ اٹھ چکا ہے، اور روشنی ملہوترا کے مطابق اس بات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا اس رقم کا بہتر استعمال زیادہ بڑی تعداد میں طلبہ کو بنیادی تعلیم دے کر کیا جا سکتا تھا۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ اس اسکول کے پیچھے یہ تصور کارفرما ہے کہ ایسی قیادت پیدا کی جائے جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھارت کے اعلیٰ طبقوں سے مسابقت کے لیے تیار کر سکے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم اَن پڑھ کسانوں کے بچوں کو ایسی صلاحیتوں سے مالامال کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سیاست، کاروبار یا کھیل کی دنیا میں اعلیٰ ترین مقام تک پہنچ سکیں۔ جس سے ان طلبہ کی کامیابیوں کا اثر ان کے پورے علاقے پر پڑے گا اور اس سے ان کے پورے گاؤں میں مثبت لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس اسکول کو دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں داخلے کی ابتدائی سیڑھی قرار دیا جاتا ہے، یہ طلبہ امید کی کرن بن جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ طلبہ جب گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو وہ کئی طرح کے فلاحی کاموں میں حصہ لیتے ہیں، مثلاً صاف پانی کی فراہمی، کچرے کی صفائی یا کھانا پکانے کے محفوظ طریقے وغیرہ۔
روشنی ملہوترا چاہتی ہیں کہ ان کے اسکول کے فارغ التحصیل طلبہ دنیا میں کسی بھی ملک کے اعلیٰ ترین طلبہ سے مقابلہ کر سکیں۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ طلبہ مستقبل میں بھارت کی قیادت ثابت ہوتے ہیں یا نہیں، لیکن روشنی پرامید ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’وہ اس منزل کی جانب رواں دواں ہیں‘۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۲؍اکتوبر ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply