مراکش میں حقیقی تبدیلیاں

ایک دن مراکش کے وزیراعظم عبداللہ بن کیران (Abdelilah Benkirane) گھر جارہے تھے کہ راستے میں چند مشتعل نوجوانوں نے ان کا قافلہ روک لیا اور شکوہ کیا کہ آپ نے تو نوکری دینے کا وعدہ کیا تھا مگر پولیس ہم پر تشدد کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے وعدہ کیا کہ اگر کوئی پولیس افسر قانون توڑتا ہوا پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس بات پر چند نوجوانوں نے تالیاں بجاکر انہیں داد دی۔

مراکش میں چند ایک تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ جس جاگیردارانہ نظام نے ملک کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا تھا وہ اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں۔ سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ ڈبل ڈیکر ٹرینیں متعارف کرائی گئی ہیں جو وقت پر چل رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ ملک میں بحیرہ روم کی سب سے بڑی بندرگاہ کو توسیع دی جارہی ہے۔ گزشتہ برس جب عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر پیدا ہوئی تو بیشتر عرب ممالک میں آمروں نے خود کو بچانے کے لیے طرح طرح کے جابرانہ اقدامات کیے مگر مراکش کے بادشاہ محمد پنجم نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ انہوں نے نیا آئین متعارف کرایا جس کے تحت چند اصلاحات کی گنجائش پیدا ہوئی اور عوام کو ان کے مزید حقوق ملے۔ انہوں نے منتخب حکومت کو بہت حد تک اختیارات منتقل کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ایک سال کے اندر محمد پنجم نے اسلامی اصولوں کا پرچار کرنے والی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (پی جے ڈی) کی بھرپور انتخابی کامیابی کو قبول کرلیا۔

پی جے ڈی نے پیشرو (حکومت) کے اطوار مسترد کر دیے ہیں۔ نظام میں جسے زیادہ اختیارات حاصل تھے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ حکومت کے سربراہ عبداللہ بنکیران ریاست کے دیئے ہوئے شاندار محل کے بجائے اپنے گھر میں رہتے ہیں جس کی حفاظت پر صرف دو افراد مامور ہیں۔ حلف برداری کے موقع پر انہوں نے بادشاہ سے معانقہ کیا مگر رسمی طور پر جھک کر ان کے ہاتھ کو بوسہ نہیں دیا۔ وہ عربی کے بجائے عوام کی بولی بولتے ہیں جو عربی اور فرانسیسی کا مرکب ہے۔ ان کی کابینہ کے ارکان ریستوراں میں اجلاس کرتے ہیں اور ریل گاڑی میں عوام کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔

محمد پنجم کے والد حسن ثانی کا انتقال ۱۹۹۹ء میں ہوا۔ انہوں نے چند ایک اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے ایک ایسے لیفٹسٹ کو وزیراعظم بھی بنایا جسے انہوں نے کبھی سزائے موت بھی سنائی تھی۔ مگر مجموعی طور پر اختیارات بادشاہ ہی کے پاس رہے۔ وزیر اعظم کا منصب بہت حد تک نمائشی تھا۔ اس کے مقابلے میں عبداللہ بنکیران بجٹ پیش کرسکتے ہیں، اپنی کابینہ کے ارکان کا انتخاب کرسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا عمل بھی اپنی صوابدید کے مطابق آزادی سے مکمل کرسکتے ہیں۔ مراکش کا دربار مخزن اب بیشتر امور میں حتمی رائے دینے کے اختیار سے بہت حد تک دستبردار ہوچکا ہے۔ مراکش کی پولیس بھی حکومت اور نظام کے مظاہرین کے خلاف میدان میں آتی ہے مگر عرب دنیا کے دیگر ممالک کی پولیس کی طرح نہیں جو مظاہرین پر اندھا دھند لاٹھیاں اور گولیاں برساتی ہے۔

مراکش میں اسلام نواز عناصر نے اشرافیہ کو یہ احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ نظام کو چلانا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان پر مکمل بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ عبداللہ بنکیران کہتے ہیں ’’مصر اور تیونس میں جمہوریت کی حفاظت فوج کرتی ہے، مراکش میں یہ فریضہ بادشاہ انجام دیتا ہے۔‘‘ بنکیران کی پارٹی نے اینٹی سیکولر باتیں بند کردی ہیں۔ کل تک سیکولرازم کے خلاف بڑھک لگانے سے گریز نہیں کیا جاتا تھا۔ شراب کی تجارت کے خلاف بھی اب آواز بلند نہیں کی جاتی۔ ایک وزیر کا کہنا ہے ’’ہم اخلاقی اقدار کو بچانے والا محکمہ (اوامر و نواہی) نہیں۔‘‘ مراکش کے بہت سے مغربی اتحادی، بالخصوص فرانس، بہت حد تک شکوک میں مبتلا تھے۔ مگر اب سب کے شکوک رفع کیے جاچکے ہیں۔ مراکش کے اسلامی عناصر نے کسی زمانے میں فرانس کو دیئے جانے والے ۲ ارب ۴۰ کروڑ ڈالر کے ٹرین کنٹریکٹ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے سابق آقاؤں کو نوازنے کا اقدام قرار دیا تھا مگر اب عندیہ دیا گیا ہے کہ اس منصوبے کی مخالفت مکمل طور پر ترک کردی جائے گی۔

اسلامی عناصر کے لیے ایک مشکل مرحلہ اپنے ووٹروں کو بھرپور یقین دلانا ہے کہ ان کی تمام خواہشات پوری ہوں گی۔ مراکش کا گلا سڑا نظام ہٹانا اور اس کی جگہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظام لانا بنیادی کام ہے جو آسان نہیں۔ عبداللہ بنکیران کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کے باوجود مایوسی کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی۔ ایک ٹریڈ یونین رہنما کا کہنا ہے کہ صرف چہرے تبدیل ہو رہے ہیں، نظام اور پالیسیاں وہی ہیں۔ یعنی کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔

وزیراعظم بن کیران کی خوش نصیبی یہ ہے کہ ان کے مخالفین اب تک ناکام رہے ہیں۔ ناراض گروپ اتحاد قائم نہیں کرسکے ہیں۔ بادشاہت کی مخالف پارٹی عدل والاحسان نے گزشتہ ماہ حکومت کے خلاف احتجاج ختم کردیا۔

مراکش میں رسمی حزب اختلاف ختم ہوگئی ہے مگر غیر رسمی نوعیت کی حزب اختلاف ابھر رہی ہے۔ مراکش کی تین کروڑ کی آبادی کے غریب ترین افراد دیہات میں رہتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں حکومت مخالف آوازیں ابھرتی رہتی ہیں۔ شمالی مراکش کے دو قصبوں میں عوام کو احتجاج سے روکنے کے لیے کرفیو لگایا جاتا ہے اور آبی توپیں بھی استعمال کی گئی ہیں مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بنیادی سہولتوں کے بڑھتے ہوئے چارجز کے خلاف احتجاج میں شدت آتی جارہی ہے۔ اگر ایسے میں ملک کو قحط کا سامنا ہوا تو صورت حال مزید خراب ہو جائے گی۔

مالیاتی صورت حال بھی تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔ سابق حکومت نے یورپ کے مالیاتی بحران کے اثرات کا عمدگی سے مقابلہ کیا۔ مگر مقصد کے حصول کے لیے زر مبادلہ کے ذخائر استعمال میں لائے گئے۔ تنخواہوں کے علاوہ زر اعانت کے طور پر زر مبادلہ سے کام لیا گیا۔ اب ملک میں زر مبادلہ اتنا نہیں رہا کہ کسی بڑے بحران کا سامنا کیا جاسکے۔ یورپ اور لیبیا سے ہزاروں بیروزگار مزدوروں کی واپسی نے معیشت پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔

شہروں میں جرائم کی شرح بلند ہو رہی ہے۔ پولیس پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند برسوں کے دوران پولیس اپنے اختیارات سے مجموعی طور پر محروم رہی ہے۔ اب وہ اپنی ساکھ بحال کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں نے چند برسوں کے دوران غیر قانونی طور پر تعمیر کیے جانے والے ۴۴ ہزار مکانات میں سے کچھ کو گرانا شروع کردیا ہے۔ طاقت کا یہ مظاہرہ شدید ردعمل کی راہ بھی ہموار کرسکتا ہے۔

اگر حکومت چاہے تو بڑی آسانی سے، ہر پریشانی کے لیے سابق حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہراسکتی ہے۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ اسلامی عناصر صورت حال کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی خرابی ہے اس کے لیے وہذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہیں۔ ان کا وعدہ ہے کہ سرکاری ٹھیکوں اور ادائیگیوں میں شفافیت یقینی بنائی جائے گی اور دولت معاشرے کے تمام طبقات میں ایمانداری اور عدل سے تقسیم کی جائے گی۔ حکومت نے غیر قانونی طور پر دیے جانے والے بس پرمٹس کی فہرست جاری کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے مرحلے میں وہ جرنیلوں کی جانب سے دیے جانے والے غیر قانونی فشنگ لائسنسز کو منظر عام پر لے آئے۔ مگر خیر، وزیر اعظم کی راہ میں حائل ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کی کابینہ میں بہت سے ارکان ایسے ہیں جو سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ ان سے غیر معمولی اقدامات کی توقع نہیں وابستہ نہیں کی جاسکتی۔

مراکش میں جمہوریت کا تجربہ ناکام ہوا تو پوری قوم کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ فرانس میں حال ہی میں ایک کتاب ’’دی پریڈیٹر کنگ‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بادشاہ محمد پنجم نے گیارہ برسوں میں بے اندازہ دولت جمع کی ہے اور معیشت میں ایک واضح حصہ اس کا ہے۔ پابندی کے باوجود یہ کتاب آن لائن مقبولیت میں بہت سی کتابوں کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب دنیا کے دیگر بادشاہوں کے مقابلے میں محمد پنجم کا احترام کرنے والے اہل وطن زیادہ ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے چند انتہائی لالچی درباریوں سے جان چھڑالی ہے۔

(“Power to Some Other People”…Weekly “The Economist”. March 17th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*