
عملی اور اعتقادی بدعتیں
اس مقام پر وہ چیز بھی گناہوں کے ساتھ شامل کر سکتے ہیں جو شریعت میں بدعت کے نام سے مشہور ہے۔ اور بدعت وہ ہوتی ہے جسے لوگوں نے دینی معاملات میں نیا ایجاد کیا ہو۔ خواہ وہ اعتقادی بدعت ہو، جسے بدعت قولی بھی کہتے ہیں یا عملی بدعت ہو، جسے بدعت فعلی بھی کہتے ہیں۔
یہ بھی محرمات کی ایک قسم ہے مگر عمومی معاصی سے مختلف ہے۔ اس کا فاعل ان سے اللہ کا قرب چاہتا ہے اور اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت کر رہا ہے۔ یہی اس کا اصل نقصان ہے۔
بدعت کبھی اس طرح ہوتی ہے کہ آدمی اس حق کے خلاف عقیدہ رکھے، جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مبعوث فرمایا ہے اور جس کے ساتھ اس نے اپنی کتاب نازل فرمائی ہے۔ اسے اعتقادی یا قولی بدعت کہتے ہیں۔ اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کی طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو اس نے کی نہیں ہوتی۔ یہ ایک بہت بڑی حرام چیز ہے۔ بلکہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ یہ سب سے بڑی حرام چیز ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں، بے شرمی کے کام (خواہ کھلے ہوں یا چھپے) اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو، جس کے متعلق تمہیں معلوم نہ ہو (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے)‘‘۔ (الاعراف: ۳۳)
اس باب میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ اللہ کی حلال کردہ اشیا کو بغیر کسی دلیل کے حرام کیا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ان سے کہو، تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اُتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرا لیا! ان سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی یا تم اللہ پر افترا کر رہے تھے؟‘‘ (یونس: ۵۹)
کبھی بدعت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے مگر ایسے طریقوں اور شکل و صورت کے ساتھ جو شریعت میں مشروع نہیں ہوتی، بلکہ نئی ایجاد ہوئی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا‘‘۔ (الشوریٰ:۲۱)
اور حدیث میں آیا ہے: ’’(دین میں) نئی نئی چیزوں سے بچ کر رہو، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہوتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
ایک اور حدیث میں ہے: ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز پیدا کی، جو اس میں سے نہ ہو، تو وہ مردود ہے‘‘۔ (متفق علیہ، بخاری، مسلم)
یہ دونوں بدعتیں جیسا کہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں، ایک دوسرے کے لازم اور ملزوم ہیں، اور کم ہی ایسا ہوا ہو گا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئی ہوں۔ کسی نے کہا ہے کہ قولی بدعت نے عملی بدعت کے ساتھ شادی کی ہے۔ پھر دونوں میاں بیوی نے زفاف کی ہے اور اس سے ان کے ہاں بہت سے حرامی بچے پیدا ہوئے ہیں، جو اسلامی ممالک میں رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے اللہ کی زمین اور اس کے بندے اللہ کے ہاں فریادی ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ حقیقتِ کافرہ نے بدعتِ فاجرہ سے شادی کی ہے جنہوں نے مل کر دنیا و آخرت کا نقصان ہی جنم دیا ہے۔ ابلیس کو گناہ کے مقابلے میں بدعت زیادہ محبوب ہے، کیونکہ اس کا صاحب اس سے نہ توبہ کرتا اور نہ اس سے باز آتا ہے۔ بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہے۔ پھر ضمنی طور پر اللہ اور اس کے رسول کے مسترد کردہ امور کو معتبر سمجھا جاتا ہے اور ان کی معتبر کردہ امور کو مسترد کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں سے اللہ اور اس کے رسول کی موالات ہے، ان سے اس کی دشمنی ہوتی ہے اور جن سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی دشمنی ہوتی ہے، ان سے اس کی موالات ہوتی ہے۔ جن چیزوں کی اللہ اور اس کے رسول نے نفی کی ہوتی ہے انہیں یہ ثابت کرتا ہے اور جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ثابت کیا ہوتا ہے یہ ان کی نفی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ بدعتیں ساری ایک مرتبے کی نہیں ہوتیں۔ کچھ بدعات مغلظہ ہوتی ہیں اور کچھ مخفف، کچھ متفقہ ہوتی ہیں اور کچھ اختلافی۔
بدعات مغلظہ میں بھی بعض وہ ہوتی ہیں جو … اللہ کی پناہ… آدمی کو کفر تک پہنچا دیتی ہیں۔ جیسے وہ فرقے جو دینِ اسلام کے اصول ہی سے نکل گئے اور امت سے الگ تھلگ ہو گئے۔ مثلاً نصیریہ، درزیہ، متشدد شیعہ، اسماعیلیہ (آغاخانی) اور اس طرح کے دوسرے لوگ جن کے بارے میں امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ان کی ظاہری صورت رافضیوں کی اور ان کا باطن کافروں کا ہے۔ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ سے بڑے کافر ہیں۔ اس وجہ سے ان کی عورتوں سے شادی جائز نہیں اور ان کا ذبیحہ کھانا بھی ناجائز ہے، حالانکہ اہلِ کتاب کا ذبیحہ کھایا جاسکتا ہے اور ان کی عورتوں سے شادی بھی جائز ہے۔ (یہ لوگ فاطمی حکمراں حاکم بامراللہ کی تقدیس کرتے ہیں اور ابومحمد عبداللہ الدرزی کی طرف منسوب ہیں۔مترجم)
کچھ بدعتیں ایسی ہیں جو غلیظہ تو ہیں مگر وہ آدمی کو کفر تک نہیں پہنچاتیں بلکہ اسے فسق تک پہنچا دیتی ہیں۔ اور یہ اعتقادی فسق ہوتا ہے عملی نہیں۔ اس طرح کا بدعتی بعض اوقات سب سے زیادہ اور لمبی لمبی نمازیں پڑھتا ہے، اکثر روزے رکھتا ہے اور قرآن کی تلاوت بھی بہت زیادہ کرتا ہے۔ جیسا کہ خوارج کا حال تھا۔ جن کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ایک شخص اپنی نماز کو ان کی نمازوں، اپنے روزوں کو ان کے روزوں اور اپنی تلاوتوں کو ان کی تلاوتوں کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا‘‘۔
مگر ان کی خرابی ان کے ضمیر میں نہیں بلکہ ان کی عقل میں ہے۔ وہ جمود کے شکار اور پتھر کی طرح سخت ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہلِ اصنام کو چھوڑتے ہیں۔
انہی خوارج کی طرح وہ لوگ بھی ہیں جو رافضیہ ہیں یا قدریہ ہیں، یا معتزلہ اور بہت سے وہ جہمیہ ہیں جو اپنے مذہب میں زیادہ سخت نہیں ہیں۔ جیسا کہ ان کے بارے میں ابن قیمؒ نے فرمایا۔ (دیکھیے مدارج المسالکین ۱:۳۶۲)
اس کے علاوہ کچھ بدعات خفیفہ ہیں جو اجتہادی غلطی کی وجہ سے یا استدلال میں التباس کی بنا پر پیدا ہوئی ہیں۔ ان کا شمار معاصی کے باب میں صغائر کے ساتھ ہوگا۔
کچھ بدعات ایسی ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی تائید کی ہوتی ہے اور بعض نے تردید۔ جیسے نبیﷺ اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں کو وسیلہ بنانا۔ یہ عملی اور فروعی مسائل ہیں، عقیدے اور اصول کے نہیں۔ جیسا کہ امام حسن البناؒ نے بالکل درست طور پر کہا ہے اور یہی بات امام محمد بن عبدالوہاب سے بھی منقول ہے۔
اسی طرح بعض عبادات کا التزام، کہ وہ بدعت میں شامل ہیں یا نہیں۔ مختصراً یہ کہ بدعتیں سب ایک درجے اور ایک سطح کی نہیں ہیں اور اسی طرح مبتدعین کا بھی ایک ہی مرتبہ اور درجہ نہیں ہے۔ بعض لوگ بدعتوں کے داعی ہوتے ہیں اور بعض لوگ دوسروں کی پیروی میں صرف خود بدعت کرتے ہیں اور وہ دوسروں کو دعوت نہیں دیتے۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا حکم ہے۔
Leave a Reply