جو شخص عہد حاضرمیں داعیانِ دین اور مصلحین کی زندگی پر نظر ڈالے گا، اسے عملی پہلو سے معلوم ہو جائے گا کہ ان میں سے ہر ایک نے دعوت و اصلاح کے میدان میں ایک متعین پہلو کو اپنائے رکھا۔ اسی پہلو کو دوسروں پر مقدم کیا اور اپنی پوری فکر اور سعی اس کی طرف متوجہ کی۔ اس کی بنیاد یہی تھی کہ ایک طرف انہوں نے اسلام کی حقیقت یہی سمجھی اور دوسری طرف انہوں نے اسلامی زندگی میں اس پہلو کے لحاظ سے کمی کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے سمجھا کہ اس وقت امت مسلمہ کو اپنی احیا اور بقا کی خاطر اور اعلائے کلمۃاللہ اور نشاۃ ثانیہ کے لیے یہ پہلو اپنانے کی ضرورت ہے۔
امام محمد بن عبدالوہاب
جزیرۂ عرب میں امام محمد بن عبدالوہاب کے نزدیک عقیدے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اس کے ذریعے وہ توحید کی کھیتی کو ان شرکیات اور کفریات سے محفوظ کرنا چاہتے تھے جس کا چشمہ آلودہ ہو چکا تھا اور جس کی شفافیت ماند پڑ گئی تھی۔ انہوں نے عقیدے کے بارے میں اپنی کتابیں اور مکتوبات لکھے اور اسی کی خاطر انہوں نے مظاہرِ شرک کو منہدم کرنے کی دعوتی اور عملی مہم چلائی۔
سید محمد احمد مہدی
سوڈان میں محمد احمد مہدی کی اصل ترجیح جہاد تھی، وہ اپنے پیروکاروں کی اس انداز سے تربیت کرتے تھے جس کے ذریعے وہ مشکلات کو برداشت کرنے کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں اور وہ شدت کے ساتھ برطانوی استعمار اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کریں۔
سید جمال الدین
سید جمال الدین افغانی کے سامنے یہ ترجیح تھی کہ امت کو بیدار کیا جائے اور اسے استعمار کے خلاف اٹھایا جائے۔ کیونکہ استعمار نہ صرف امت کی دنیوی زندگی کے لیے خطرہ تھا بلکہ اس کی اخروی زندگی بھی اس سے متاثر ہو سکتی تھی۔ وہ مسلمانوں کو یہ شعور دینا چاہتے تھے کہ وہ ایک امت ہیں، جن کا قبلہ مشترک، عقیدہ مشترک، رُخ ایک اور انجام ایک ہے۔ یہ بات ان کی زندگی اور پوری سیرت میں نمایاں ہے۔ ان کے رسالے العروۃ الوثقیٰ سے بھی اس کی خوب وضاحت ہوتی ہے جسے وہ اپنے شاگرد اور دوست محمد عبدہٗ کی معیت میں نکالتے تھے۔
امام محمد عبدہٗ
امام محمد عبدہٗ نے اس مسئلے کو اہمیت دی کہ مسلمانوں کو ذہنی غلامی کی بیماری سے نکالا جائے اور انہیں اسلام کے صاف و شفاف چشموں سے مربوط کیا جائے۔ وہ اپنے بارے میں اوراپنے اہداف کے بارے میں خود ہی فرماتے ہیں:
میں نے دو اہم معاملات کی طرف دعوت دی۔ ایک یہ کہ فکر کو تقلید کی قید سے آزاد کیا جائے اور دین کو اسی طریقے پر سمجھا جائے، جیسا کہ اسے امت کے سلف نے اختلافات کے ظہور سے پہلے اس کو سمجھا تھا۔ اس کے معارف سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے اس کے پہلے منبع کی طرف رجوع کیا جائے اور انہیں عقلِ انسانی کے اس میزان سے تولا جائے جنہیں اللہ نے مقرر کیا ہے تاکہ یہ امت ڈھلان سے واپس لوٹے اور وہ اپنی زندگی میں جو خلط و خبط دیکھتی ہے، اس میں کمی پیدا کرے۔ اس سے عالم انسانی کی حفاظت میں اللہ کی رحمت کا اتمام ہوگا۔ اس بنا پر ’عقل انسانی‘ علم دوست سمجھی جاتی ہے اور یہ اس بات پر ابھارتی ہے کہ آدمی کائنات میں پنہاں اسرار کی تلاش کرے۔ یہ اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ثابت شدہ حقائق کا احترام کرے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نفس کی تہذیب اور عمل کی اصلاح میں اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ ان ساری چیزوں کو میں ایک سمجھتا ہوں۔ اس کی طرف دعوت دینے میں بعض اوقات میں ان دو بڑے گروہوں کی رائے کے خلاف کرتا ہوں جن سے امت مسلمہ کا جسم مرکب ہے۔ میری مراد علومِ دین کے طالب علم اور اس دور کے فنون کے طالب علم ہیں۔
دوسری چیز عربی زبان کے اسالیب کی اصلاح کرنا تھی۔
ایک اور بات بھی تھی جس کی طرف میں دعوت دیتا تھا اور سارے لوگ اس سے بالکل کورے اور اس کے سمجھنے سے قاصر تھے۔ لیکن وہ ایک ایسی بنیاد تھی جس پر ان کی معاشرتی زندگی قائم تھی۔ ان کے اوپر جس کم ہمتی، کمزوری اور ذلت کا غلبہ ہوچکا تھا، اس کی وجہ سے انہوں نے اس بنیاد سے صَرف نظر ہی کیا تھا۔ وہ بنیاد یہ تھی کہ حکومت کے حق یعنی عوام کی طرف سے اس کی اطاعت، اور عوام کے حق یعنی حکومت کی طرف سے ان کے درمیان عدل، دو الگ الگ باتیں ہیں اور ان کے درمیان فرق کرنا چاہیے اور یہ کہ حکمرانوں کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے، مگر وہ بھی انسانوں میں سے ہوتے ہیں، جن سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور خطا بھی اور ان پر خواہش کا غلبہ بھی ہوسکتا ہے۔ ان کو ان کی غلطیوں اور خواہشات سے روکنے کا طریقہ یہی ہے کہ قوم ان کو نصیحت کیا کرے، نہ صرف قول کے ساتھ بلکہ فعل کے ساتھ بھی۔ ہم نے علی الاعلان یہ بات اُس وقت کہی تھی، جب استبداد پورے جوبن پر تھا اور ظلم اپنی لاٹھی ہاتھ میں لیے دندناتا پھر رہا تھا۔ ظالم کا ہاتھ فولادی تھا اور لوگ سارے کے سارے اس کے مکمل طور پر غلام بن چکے تھے۔
امام حسن البناء
امام حسن البناء نے سب سے پہلے مسلمانوں میں اسلام کے صحیح فہم کی طرف توجہ دی۔ جو چیزیں مغرب زدہ اور سیکولر مفکرین کے ہاتھوں اسلام سے خارج کر دی گئی تھیں، امام حسن البناء نے انہیں دوبارہ اس میں داخل کر دیا۔ ان مفکرین کا مقصد یہ تھا کہ اسلام قانون کو چھوڑ کر محض ایک عقیدے کی شکل اختیار کرلے، یہ ایک ایسا دین ہو جس کی کوئی حکومت نہ ہو، یہ حق ہو مگر اس کے پاس کوئی قوت نہ ہو، اس میں امن ہو مگر جہاد کے بغیر۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ دوسروں کے آگے جھک جائے۔ مگر امام حسن البناء چاہتے تھے، اور یہی اس کے شارع کا بھی ارادہ تھا کہ اسلام عقیدہ بھی ہو اور قانون بھی، دین بھی ہو اور حکومت بھی، حق بھی ہو اور اس کے پاس قوت بھی ہو، اس میں امن بھی ہو اور جہاد بھی، اس میں مصحف بھی ہو اور تلوار بھی۔ انہوں نے لوگوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے بڑی کوشش صَرف کی کہ سیاست اسلام کا ایک جز ہے اور آزادی مسلمانوں (کا حق ہی نہیں بلکہ ان) کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی پوری قوت ایک نئی مسلمان نسل تیار کرنے پر صَرف کی جس کا مقصود اللہ کی رضا ہو، جس کا نقطہ نظر اسلامی ہو اور جس کا اسوہ محمدؐ ہو۔ ایسی نسل جو اسلام کو گہرائی میں جاکر سمجھے، اس پر دل کی گہرائیوں سے ایمان لے آئے اور اس کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرلے۔ پہلے اس پر خود عمل پیرا ہو جائے اور پھر اس مقصد کے لیے کوشش اور جہاد کرے کہ اس کی روشنی میں ایک انقلاب برپا ہو جائے اور ساری زندگی اسی کے رنگ میں رنگ جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اکٹھے ہوں، الگ الگ نہ ہوں اور ان کے درمیان وحدت ہو، انتشار نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے موضوعات نہیں چھیڑتے تھے، جن سے خطرہ ہوتا تھا کہ اس سے امت کی صفوں میں دراڑیں پڑیں گی، ان کی آواز متفرق ہوگی اور لوگ پارٹیوں اور گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ان کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو اسلام کے اصول و کلیات اور اس کے ضروری مبادیات پر جمع کیا۔
انہوں نے اپنی یادداشتوں میں وہ موقف بیان کیا ہے جو اُن کی اصابت فکر کی روشن دلیل ہے، حالانکہ اس وقت وہ اپنی عمر کے دوسرے عشرے میں تھے۔ ان کا یہ موقف تھا کہ امت کو بنیادی عقائد، قوانین اور اخلاق پر جمع کیا جائے اور ان کو ایک مٹھی بنا دیا جائے۔ اس سلسلے میں فروعی مسائل سے اجتناب کیا جائے، جو ختم ہونے والے نہیں ہیں۔
اس وقت ان کی ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کو زاویہ کہتے تھے۔ امام حسن البناء اس میں اپنے دروس پیش کیا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں خود فرماتے ہیں:
اس دوسرے زاویہ کو حاجی مصطفی نے ثواب کی نیت سے تعمیر کروایا تھا۔ یہاں طالب علموں کی ایک جماعت جمع ہوئی اور گہری اخوت و محبت کی فضا میں آیاتِ الٰہی اور حکمتِ خداوندی کا مطالعہ کرنے لگی۔
زیادہ عرصہ نہ گزرنے پایا تھا کہ ہمارے اس درس کی خبر لوگوں میں مشہور ہوگئی، جو مغرب سے عشاء تک کے وقت پر محیط ہوتا۔ اس کے بعد مدرس قہوہ خانوں کی طرف نکل جاتا جس کی وجہ سے ان درسوں میں خلافیات کے مشتاق لوگ، اور سابقہ فتنوں کے شہسوار بھی شامل ہو جاتے تھے۔
ایک رات میں نے ایک عجیب صورتحال دیکھی۔ یہ تفرقہ پسندی اور دوسرے سے بیزار ہونے کی کیفیت تھی۔ میں نے دیکھا کہ درس کے سامعین ایک دوسرے سے الگ الگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگوں نے نشستیں بھی الگ کرلی تھیں۔ جوں ہی میں نے درس شروع کیا مجھ سے پوچھا گیا: وسیلے کے بارے میں استاذ کی کیا رائے ہے؟
میں نے کہا: میرے بھائی! میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے اسی ایک مسئلے کے بارے میں سوال نہیں کر رہے بلکہ آپ مجھ سے اذان کے بعد درود و سلام، جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت، درود شریف میں نبیؐ کے اسم مبارک کے ساتھ سیدنا کا لفظ پڑھنے، نبیﷺ کے والدین کے انجام، مردے کے لیے قرآن خوانی اور ایصال ثواب اور حلقہ ہائے تصوف و طریقت کے بارے میں بھی پوچھیں گے کہ ان میں ثواب ہے یا نہیں۔ میں نے ایک ایک کرکے وہ تمام اختلافی مسائل گنوانے شروع کیے جو سابقہ فتنوں کا موضوع بحث ہوتے تھے۔
آدمی یہ سن کر متحیر ہوگیا اور اس نے کہا: جی ہاں! میں ان تمام سوالوں کا جواب چاہتا ہوں۔
میں نے کہا: بھائی! میں عالم نہیں ہوں۔ میں ایک عام مدرس ہوں۔ مجھے قرآن کریم کی کچھ آیات اور چند احادیث یاد ہیں اور کتابوں کا مطالعہ کرکے میں نے کچھ دینی احکام سیکھ لیے ہیں۔ اب میں رضاکارانہ طور پر لوگوں کو ان کا درس دیتا ہوں۔ اگر آپ مجھے ان حدود سے باہر لے جائیں تو مجھے مشکل میں ڈال دیں گے۔ اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا تو یہ بھی ایک فتویٰ ہے۔ اگر آپ کو میری باتیں اچھی لگیں اور ان میں آپ کو خیر کا کوئی پہلو نظر آئے تو ازراہِ کرم انہیں سماعت فرمائیں۔ اگر آپ کو معلومات میں مزید اضافہ درکار ہو تو اس کے لیے میرے علاوہ دوسرے علما و فضلا سے جاکر پوچھیں جو اپنے اپنے میدان میں ماہر ہیں اور آپ کو اس مسئلے میں فتویٰ دے سکتے ہیں جس کے بارے میں آپ سوال کر رہے ہیں۔ میرا مبلغِ علم تو اتنا ہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
آدمی میری بات کی گرفت میں آگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ یوں میں نے اس حکمت عملی سے اس کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ بات کو بڑھا دیتا۔ تمام حاضرین یا ان کی اکثریت میری اس گلوخلاصی سے مطمئن ہوگئی۔ لیکن میں نے بھی نہ چاہا کہ یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے دیا جائے۔
حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر میں نے کہا: میرے بھائیو! مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ بھائی اور آپ میں سے اکثر حضرات اس سوال کے جواب میں دراصل یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ نیا مدرس کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ کیا یہ شیخ موسیٰ کی پارٹی کا آدمی ہے یا شیخ عبدالسمیع کی پارٹی کا۔ یہ تحقیق آپ کے لیے بالکل مفید نہیں ہے۔ اس فتنہ آرائی میں آپ لوگ پورے آٹھ سال لگا چکے ہیں۔ اتنا ہی کافی ہے۔ ان مسائل میں مسلمان صدیوں سے اختلاف کرتے چلے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سے باہمی محبت اور اتحاد کے ذریعے راضی ہوتا ہے، وہ ہمارے اختلاف اور تفرقہ بازی کو ناپسند کرتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ لوگ اللہ سے عہد کریں گے کہ ان باتوں کو ترک کردیں گے اور کوشش کریں گے کہ ہم سب مل کر دین کے اصول و قواعد سیکھیں گے، اس کے اخلاق و فضائل پر کاربند ہوں گے اور اس کے متفق علیہ تعلیمات پر عمل کریں گے۔ فرائض و سنن کو ادا کریں گے اور موشگافی و تکلف سے اجتناب کریں گے۔ تاکہ دل صاف و شفاف ہو جائیں اور ہم سب کا اصل مقصد معرفتِ حق ہو، نہ کہ کسی مسلک کا غلبہ۔ اس کے بعد ہم ان تمام مسائل کو باہمی اخلاص و محبت اور اعتماد و اتحاد کے سائے میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ لوگ میری رائے کو قبول کریں گے اور اس پر ہمارے درمیان ایک پختہ عہد استوار ہوگا۔
پھر ایسا ہی ہوا۔ اس درس سے ہم یہ عہد کرکے رخصت ہوئے کہ ہر معاملے میں باہمی تعاون کو پیش نظر رکھیں گے، دین کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے اور اس کے لیے ایک مٹھی بن کر کام کریں گے۔ ہم اختلافی امور کو پس پشت ڈالیں گے اور ان میں ہر شخص اپنی اپنی رائے پر قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر فرما دے، جو اَٹل ہے۔
اس کے بعد زاویے کا درس اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس انداز سے جاری و ساری رہا کہ ہم اختلاف سے دور تھے۔ اب میں کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے اہلِ ایمان کی باہمی اخوت و مودّت کے پہلوئوں کو زیر بحث لاتا تھا۔ میں اس کو موضوع گفتگو بناتا تھا کہ لوگوں کے دلوں میں بھائی چارے کا احساس جاگزیں ہوجائے۔ میں بعض ایسے اختلافی گوشوں کو بھی منتخب کرلیتا جو ان کے درمیان محل نزاع نہ تھے، بلکہ سب کے لیے عقیدت و احترام کا ذریعہ تھے۔ ان گوشوں کو میں سلف صالحین کی باہمی رواداری کے لیے بطور مثال پیش کرتا تھا اور اس کی بنیاد پر ان کے دل میں یہ بات بٹھاتا تھا کہ ہم آپس میں بھی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک عملی مثال بھی پیش کی۔ میں نے ان سے پوچھا: آپ میں حنفی کون ہے؟ ایک شخص آگے بڑھا، میں نے پوچھا: شافعی کون ہے؟ یہ سن کر ایک اور شخص آگے آیا، میں نے لوگوں سے کہا: میں ابھی ان دونوں بھائیوں کو نماز پڑھائوں گا۔ پھر میں نے حنفی سے پوچھا: آپ قرأت فاتحہ کے بارے میں کیا طریقہ اختیار کریں گے؟ اس نے کہا: میں خاموش رہوں گا اور فاتحہ نہیں پڑھوں گا۔ میں نے شافعی سے پوچھا: آپ کیا طریقہ اپنائیں گے؟ اس نے کہا: میں تو ضرور فاتحہ پڑھوں گا۔
میں نے کہا:جب ہم نماز سے فارغ ہوں گے تو اے شافعی! آپ مجھے یہ بتائیں کہ اپنے حنفی بھائی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہوگی؟ اس نے کہا: اس کی نماز باطل ہوگی کیونکہ اس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔ اور قرأت فاتحہ نماز کا ایک رکن ہے۔
پھر میں نے حنفی سے پوچھا: اپنے شافعی بھائی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہوگی؟ اس نے کہا: وہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب کرے گا۔ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
اس کے بعد میں نے دونوں سے مخاطب ہو کر کہا: کیا تم دونوں ایک دوسرے کے فعل کو منکر سمجھو گے؟ دونوں نے یک زبان ہو کر کہا: ہر گز نہیں!
پھر میں نے دیگر سامعین سے پوچھا: کیا تم ان دونوں میں سے کسی کو بُرا سمجھو گے؟ انہوں نے بھی کہا: ہر گز نہیں۔
میں نے کہا: سبحان اللہ! اس معاملے میں تو آپ لوگوں کے لیے سکوت کی گنجائش ہے، حالانکہ یہ نماز کی صحت و فساد کا معاملہ ہے۔ مگر آپ کسی نمازی کے ساتھ اس بات پر رواداری کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ تشہد میں اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ پڑھے یا اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ پڑھے۔ آپ لوگ اتنی سی بات کو ایسا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ اگر آپ کی بات نہ مانی گئی تو پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔
میرا یہ اسلوب خاصا مؤثر رہا۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں اپنے رویے پر نظرثانی کرنے لگے اور وہ جان گئے کہ اللہ کے دین میں بہت وسعت اور آسانی ہے اور اس میں کسی ایک فرد یا گروہ کی حکومت نہیں چلتی۔ ہر چیز کا مرجع اللہ اور اس کا رسول یا پھر مسلمانوں کی جماعت اور ان کا امام ہے۔ اگر فی الواقع ان کی کوئی جماعت اور کوئی امام موجود ہو۔
امام مودودیؒ
امام ابوالاعلیٰ مودودی کی ترجیح یہ تھی کہ جدید جاہلیت کے خلاف جنگ کی جائے، لوگوں کو دین اور عبادت۔۔ جامع معنی میں۔۔ کی طرف بلایا جائے اور صرف اللہ وحدہٗ کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے۔ اس کے علاوہ جتنی حاکمیتیں دنیا میں قائم ہیں، ان سب کو مسترد کیا جائے، خواہ اس کا مقام و مرتبہ کچھ بھی ہو، خواہ یہ حاکمیتیں علمی و فکری رہنمائوں کی ہوں یا سیاسی قائدین کی۔
ان کا مقصد ایک امتیازی اسلامی ثقافت کا قیام تھا۔ ایک ایسی ثقافت جو تمدن، معیشت، سیاست اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں مغربی فکر کو مسترد کرے اور انقلاب اور تبدیلی کے لیے اپنا ایک مستقل طریق کار طے کرلے۔ اس سلسلے میں ان کی کئی کتابیں اور رسالے سامنے آئے جو اسلامی دعوت اور اسلام کی تجدید میں ان کی فکر کو بیان کرتے ہیں۔ پھر اس بنیاد پر عمارت کی تعمیر اور اس فکر کو عام کرنے کے لیے ایک جماعت وجود میں آئی۔
ان کی یہ فکر ان کی تمام کتابوں میں نمایاں ہے جس کا ایک نمونہ سورۂ شوریٰ کی آیت اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کا وہ تفسیری نوٹ ہے جس میں اقامت دین کی ایک غلط تعبیر پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا، اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کرکے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے، اپنے پیروئوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دینِ حق کو فکری، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے، جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ ’’اے نبیﷺ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے‘‘۔ (النساء: ۱۰۵)
اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گئے ہیں، وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ:۱۰۳)۔ اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے (البقرہ:۲۷۹)، وہ اسی صورت میں روبعمل آسکتا ہے، جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ:۱۷۸)، چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ: ۳۸)، زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور:۴۔۲)، اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم (البقرہ:۱۹۰۔۲۱۶) یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا ہے کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوج بھرتی کرکے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم (التوبہ:۲۹) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے۔
اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکی سورتوں میں بھی دیدۂ بینا کو علانیہ یہ نظر آسکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا، وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا، نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا۔
سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے، وہ خود رسول اللہﷺ کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضورﷺ نے ۲۳ سال کے زمانۂ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کردیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھا۔ اگر حضورﷺ کے اس پورے کام کو اقامتِ دین کے اس حکم کی تعبیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیا سمیت آپﷺ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں۔ یا تو معاذاللہ حضورﷺ پر الزام عائد کیا جائے کہ آپﷺ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے، مگر آپﷺ نے اس سے تجاوز کرکے بطور خود ایک حکومت قائم کردی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا، جو شرائع انبیا کی قدرِ مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورۂ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہوگیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورہ کی اعلان کردہ ’اقامت دین‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا‘‘۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ، ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’اقامتِ دین‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہو تو ہم ضرور یہ معلوم کرنا چاہیں گے۔ (تفہیم القرآن، ج ۴، ص ۴۹۱۔۴۹۲)
(۔۔۔ جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply