
صدر مُرسی، ہم آپ کو سلام پیش کرتے ہیں، کیونکہ مصر میں انصاف کے بغیر قید خانہ حضرت یوسفؑ کے لیے تھا جب: ’’انہوں نے کہا، اے میرے رب! قید مجھے منظور ہے، بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں‘‘۔ (سورئہ یوسف۔۳۳)
مصر میں قید خانہ سید قطبؒ کے لیے تھا، جب انہوں نے کہا، ’’ایک رہنما کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ رعایتیں حاصل کرے۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، میں نے شہادت کی خاطر پندرہ سال جدوجہد کی ہے۔ (پھانسی سے چند لمحوں قبل انہوں نے کہا) یہ انگلی جو نماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے، اس نے اس جابر کے اقتدار کی توثیق میں خط لکھنے سے انکار کردیا ہے‘‘۔
مصر میں انصاف کے بغیر قید خانہ زینب الغزالیؒ کے لیے تھا، جب انہوں نے کہا، ’’عبدالناصر کو قتل کرنا اخوان المسلمون کے مقاصد میں نہیں ہے۔ بلکہ ہم توحید، اللہ کی عبادت، قرآن اور سنت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
ظالموں کے اس عقل سے پیدل ٹولے نے آپ کو کوئی اہمیت نہیں دی مگر یہ ان کی اپنی تذلیل اور بدقسمتی ہے۔ انہوں نے اس قرآن کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جو آپ نے سینے میں سجا رکھا تھا، آپ ایک حافظِ قرآن تھے، اپنی صابر اہلیہ اور پانچ بچوں کی طرح۔ مصری صنعت میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک انتہائی قابل انسان کے طور پر آپ کی کلیدی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ امریکا میں آپ کی دعوتی سرگرمیوں اور جدوجہد کی تاریخ کو بھی انہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ ان لوگوں نے آپ کو اُس وقت بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جب آپ دنیا میں کسی بھی صدر سے کم تنخواہ پر مصری حکومت سنبھالنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ایک صفائی کرنے والے کی تنخواہ پر، کیونکہ بلاشبہ یہ صفائی کا ہی کام تھا؛ بدعنوانی کا صفایا، غیرذمہ دار گورنروں اور ناکارہ سپہ سالاروں کی برطرفی اور اُن سیکڑوں افراد کو سچے انصاف کی فراہمی کا کام، جو ۲۰۱۱ء میں حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ان لوگوں نے آپ کا تختہ الٹ دیا، خود پاک صاف ہونے کے دعوے دار بن کر آپ کو ۲۰ برس قید کی سزا سنا دی، آپ کے حق میں نکلنے والے تین ہزار سے زائد افراد کا قتلِ عام کیا، یہ لوگ اُس ایک کروڑ بتیس لاکھ آبادی کا حصہ تھے جو آپ کو ووٹ دینے کی خاطر جلتے سورج کے نیچے انتظار کرتے رہے۔ یقینا آپ ایک ایسے گروہ سے ابھرے تھے جس نے ایک ہزار غیر سرکاری تنظیمیں چلائیں، غریب اور بے گھر افراد کے لیے شفاف ادارے قائم کیے، رہنما پیدا کیے اور غاصبوں کے قدم اکھاڑ دیے۔ ہم ’’امید بھرے اُس سال‘‘ کو نہیں بھولیں گے جس میں آپ نے حکومت کی۔ مسلسل مظاہروں اور میڈیا کی بیہودہ گوئی کے باوجود، آپ کی انتظامیہ نے مصر کو کئی دہائیوں کے فوجی دور کے بعد ایک شہری ریاست بنا دیا۔ زرعی برآمدات ۲۰ فیصد تک بڑھ گئیں، مرکزی بینک کا خسارہ ۴۵ فیصد تک کم ہوگیا اور معاشی شرحِ نمو ۴ء۲ فیصد پر پہنچ گئی۔
دانشوروں، اساتذہ اور سیاست دانوں نے کمال شفافیت کے ساتھ دنیا سے روابط قائم کیے اور ہر مسلمان کی نگاہیں امنگوں بھری امید لیے مصر پر مرکوز تھیں۔ خون آشام حکومت کے ساتھ مصر کے تعلقات منقطع کرتے ہوئے شامیوں کی گریہ و زاری کا جو جواب آپ نے دیا، جس طرح سننے والوں کو پکار کر کہا، ’’شام! ہم تمہاری پکار سن رہے ہیں‘‘، اور جس انداز میں وہاں کے عوامی انقلاب کی حمایت کی، وہ ہم نہیں بھولیں گے۔ ہم آج بھی وہ عظمت محسوس کرتے ہیں جو اُس وقت ہمارے دلوں میں جاگزیں تھی، جب آپ نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے غزہ میں ایک اور قتلِ عام کے لیے تیار ہوتی اسرائیلی جنگی مشین کو خاموش کردیا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ کس طرح آپ نے صہیونی ریاست سے اپنے سفیر کو واپس بلایا اور اپنے وزیراعظم کو غزہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں اور مزاحمت کاروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جاسکے۔ آپ کے جذبے کے پیشِ نظر غزہ کے لوگ پوچھ رہے تھے کہ کیا اس کے بعد ان کا قتلِ عام نہیں ہوگا، وہ نہیں جانتے تھے کہ شیطانی ہوائیں آپ کو جیل میں لے جا پھینکیں گی اور غزہ میں ۲۰۱۴ء میں ایک اور قتلِ عام کی راہ ہموار کردیں گی، جب مصر میں ایک سنگدل اور ہیبت ناک حکومت آچکی ہوگی۔ ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس طرح آپ نے اسلام کا چہرہ متعارف کرایا، اور کس طرح تہران کے قلب میں حضرات عمرؓ، ابوبکرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کے نام بلند کیے۔
آج ہم اخوان المسلمون کے ۱۴؍سینئر ارکان سمیت صدر مُرسی کی ۲۰ سالہ قید کے لیے بیان کردہ جواز کا تجزیہ نہیں کریں گے، نہ ہی ان واقعات کو دہرائیں گے جو محمد مُرسی کے آئینی فرمان کے بعد اتحادیہ صدارتی محل کے سامنے پیش آئے۔ ہم ہوش و حواس سے عاری ہجوم کی جانب سے اخوان المسلمون کے صدر دفتر کو بِلا روک ٹوک نذرِ آتش کرنے، وزارتِ داخلہ کی ناکامی، ملی بھگت اور خفیہ ساز باز کے ذریعے صدارتی محل تک پہنچنے اور مخلص حامیوں اور ووٹروں کو اپنے صدر کے دفاع پر مجبور کرنے جیسی باتیں بھی نہیں دہرائیں گے۔ ہم مغربی میڈیا کی ان بہترین کاوشوں کا ذکر ضرور کریں گے جو اس نے سیاست زدہ نمائشی عدالتوں کو قانونی اختیار کا حامل ظاہر کرکے جواز فراہم کرنے، اور اتحادیہ کے واقعات کو دہراتے ہوئے انہیں جائز قرار دینے کے لیے کیں، جبکہ ان حقائق کو نظرانداز کردیا جو سورج سے زیادہ روشن تھے۔ ہم بی بی سی کے اس اعتراف کا بھی ذکر کریں گے کہ اتحادیہ میں اس وقت مرنے والے زیادہ تر صدر مُرسی کے حامی تھے جبکہ ان حکومتوں کی جانب سے جمہوریت کا اسقاط کیا جارہا تھا جن کی آواز ہمیشہ سنوائی جاتی ہے۔
’’محمد مُرسی کہتے کیا ہیں؟‘‘ بی بی سی نے سوال اٹھایا اور خود ہی جواب دیا، ’’محمد مُرسی نے عدالتوں کے اختیار کو مسترد کردیا ہے۔ عزیز قاری آپ کوئی سوال نہ اٹھائیں، ہم حقیقت ازخود آپ کے سامنے لائیں گے۔ ’اکیلے‘ محمد مُرسی نے عدالتوں کے دائرئہ اختیار پر سوال اٹھایا ہے اور ’ہم‘ (یعنی بی بی سی) ایک برابری کی بنیاد پر لڑی جانے والی ’قانونی جنگ‘ کے درمیان میں ہیں۔ عزیز قاری آپ مصر کی سات ہزار سالہ تاریخ کی پہلی جمہوریت کا تختہ الٹنے کی بابت سوال نہ کریں۔ عزیز قاری آپ اس عدالت کے اختیار کا سوال نہ اٹھائیں جس نے بچوں اور غیرموجود افراد سمیت سیکڑوں لوگوں کو ایک ساتھ موت کی سزائیں سنائیں۔ آپ ’جج‘ ناجی شحاتہ کی راست بازی کا سوال نہ اٹھائیں جس کا رویہ ایک سفاک منشیات فروش کا ہے لیکن اسے ’دہشت گردی‘ سے نمٹنے کے لیے قائم چھ عدالتی سرکٹس کا سربراہ بنایا گیا ہے، جو ۲۰۰۵ء میں انتخابی دھاندلی، اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے اخوان المسلمون کے ارکان کی نقل اتارنے اور انہیں گالیاں دینے اور ’الجزیرہ‘ کے تین صحافیوں کو باضابطہ کارروائی کے بغیر سزا دینے کا ذمہ دار ہے‘‘۔
صرف محمد مُرسی ہی عدالتوں کے اختیار کو رد کرتے ہیں، بظاہر بی بی سی ایسا نہیں کرتا۔ ’’عزیز قاری آپ اس عدالت سے متعلق سوال نہ اٹھائیں، جس نے حسنی مبارک اور اس کے ساتھیوں کو ۲۳ سال تک کی گئی بدعنوانی کے تمام الزامات سے بری کردیا۔ یہ سوال بھی نہ اٹھائیں کہ ۲۰۱۱ء میں کم ازکم ۷۷۰ مظاہرین کی ہلاکت، ۲۰۱۳ء میں رابعہ العدویہ کے پُرامن دھرنے کے بیچوں بیچ ہونے والے ہولوکاسٹ اور مبارک کے آخری دنوں سے سیسی کے برسرِ اقتدار آنے تک مارے جانے والے تقریباً پانچ ہزار لوگوں کی ہلاکت کے کسی ایک ذمہ دار کو بھی سزا کیوں نہ دی جاسکی۔ سیسی کو عورتوں کی بے حرمتی، لاشوں کو جلانے اور مسخ کرنے اور غزہ کے ساتھ سرحد کو ’محفوظ‘ بنانے کے لیے صحرائے سینا میں پانچ کلومیٹر طویل تعمیرات میں مدد دینے کی خاطر مغرب کی جانب سے مصر میں سفارتی نمائندگی اور اسرائیل کے بعد سب سے بڑے پیمانے پر عسکری امداد کی بحالی پر بھی سوال نہ اٹھائیں۔‘‘
امریکا اور اس کے بدخصلت ساتھیوں سے ہم یہ سنتے ہیں کہ صدر مُرسی کو اگر موقع دیا جاتا تو یقینا وہ بہتر کام کرسکتے تھے۔ محمد مُرسی کی پانچ متواتر انتخابات میں کامیابیوں (۲۰۱۱ء کی آئینی رائے شماری، ۱۲۔۲۰۱۱ء کے عوامی اسمبلی انتخابات، ۲۰۱۲ء کے ایوانِ بالا کے انتخابات، ۲۰۱۲ء کا صدارتی انتخاب اور نئے آئین پر رائے شماری) اور عدلیہ کی بدحالی سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اختیارات کو کسی بھی عدالت سے بالاتر کرنے میں حق بجانب تھے۔ صدر مُرسی کو ’’چاہیے تھا‘‘ کہ وہ اپنی کابینہ مکمل طور پر منتخب نمائندوں (یعنی اخوان المسلمون کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے ارکان) سے تشکیل دیتے، کیونکہ ان کی بے انتہا برداشت اور کبھی نہ خوش رہنے والوں کو خوش رکھنے کی کوششوں کے باوجود (جس میں کابینہ کی ۳۵ میں سے محض چار نشستیں اپنی جماعت کو دے کر باقی خواتین اور عیسائیوں کو دینا شامل ہے) انہوں نے بظاہر ’’اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا‘‘ اور وزارتوں اور حکومتی عہدوں کو ’’اسلامی سانچے‘‘ میں ڈھال دیا۔ ’’جمہوری دنیا کی دیگر تمام حکومتیں‘‘ کابینہ کے اوپر اپنا غاصبانہ اختیار چلاتی ہیں، لیکن اسلامی صدور تک آتے آتے یہ جمہوریت تسلیم کیے جانے کے قابل نہیں رہتی اور ان کے لیے مغربی دنیا دوہرے معیارات کا نیا مجموعہ تشکیل دے دیتی ہے۔
اگر سیسی کی ’’اصلاحات‘‘ کے بعد ابھرنے والا جبر، بدعنوانی اور سیاست زدہ قانون کا حامل مصر ہی اقوامِ متحدہ کو اچھا لگتا ہے اور سیسی کو جنرل اسمبلی میں مرکزی اہمیت دی جاتی ہے، اسے برطانوی وزیراعظم کے محبت بھرے خط موصول ہوتے ہیں، خلیجی ریاستوں سے کئی بلین ڈالر امداد ملتی ہے اور روس کے ساتھ کلیدی عسکری معاہدے ہوتے ہیں، تو پھر ہم صدر مُرسی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے مغربی دنیا کو غیرت، سیاسی چابکدستی اور جمہوریت کا اصل سبق پڑھا دیا۔ چاہے صدر مُرسی کو روشنی آج یا آنے والے کل میں نظر آئے یا کبھی نہ دکھائی دے، سیسی کو کبھی مصر کا صدر تسلیم نہیں کیا جائے گا، سو اس نے جو بھی مصنوعی اختیار اپنے لیے وضع کیا ہے، اس کا لطف اٹھانے دیں۔ اس کے اور ہمارے درمیان ایک خدائے منصف ہے، آخرت ہے اور جہنم کی جانب گرتی ہوئی کھائی ہے۔
’’اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو اِنہیں ٹال رہا ہے، اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔‘‘ (سورئہ ابراہیم۔۴۲)
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“President Morsi, we salute you”.
(“islam21c.com”. April 22, 2015)
Leave a Reply