وعدوں کی روشنی میں صدر مرسی کی کارکردگی

مصری صدر محمد مرسی کو قصر صدارت میں داخل ہوئے سو (۱۰۰) دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پانچ مسائل (امن و امان، ٹریفک، توانائی، صفائی اور روٹی روزی) پر فوری کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔ اب بحث کی جارہی ہے کہ کیا صدر نے اپنے وعدے پورے کیے؟ اور کیا وہ باقی مسائل کو حل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں؟ شکی مزاج لوگ صدر کے مذکورہ پانچ وعدوں پر بحث کرتے ہیں، اور قصداً ان کی دیگر کارروائیوں سے نظر پھیر لیتے ہیں، خواہ ان میں سے ایک ہی کارروائی مذکورہ تمام وعدوں پر فوقیت رکھتی ہو۔ اگر اپوزیشن کو جمہوری عمل میں کار گزاریوں میں شک و شبہ پیدا کرنے اور غلطیاں نکالنے کا حق ہے، تو صدر کے معاونین پر بھی واجب ہے کہ کار گزاریوں کو کھول کھول کر بیان کریں اور ہر طریقے سے ان کا پروپیگنڈا کریں، نیز بعض وعدوں کے پورا نہ ہونے کے اسباب کی وضاحت بھی کریں۔

شاید صدر کی سب سے بڑی کارگزاری ( جو انقلاب روم کے نصف کے برابر ہے) فوج اور شہریوں کے درمیان اقتدار کے دہرے پن کو ختم کرنا ہے تاکہ ساٹھ کے فوجی نظامِ حکومت کے بعد مصر خالص شہری اسٹیٹ بن سکے۔ فوجی کونسل نے اس دعویٰ سے کہ اس نے انقلاب کے دوران عوام کی حفاظت کی تھی اور اس کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کیے تھے اور پبلک و پرائیویٹ اداروں کی حفاظت کی تھی، خود کو انقلاب پر وصی مقرر کر لیا تھا، پھر حسنی مبارک کے جانے کے بعد وہی عملاً مصر کی حاکم بن بیٹھی تھی، یہاں تک کہ صدر محمد مرسی نے ۱۲؍ اگست کو اپنی انقلابی قراردادوں کے ذریعے فیلڈ مارشل حسین طنطاوی، کرنل سامی، ملٹری کونسل کے دیگر نمایاں کمانڈروں کو مستعفی کرکے نئے وزیر دفاع، چیف آف آرمی اسٹاف اور بنیادی فوجی شعبوں کے کمانڈروں کو مقرر کیا، پھر نئے وزیر دفاع نے سابق نظامِ حکومت سے متعلق ستر فوجی افسران کو ریٹائر کیا، اس طرح عوام اور انقلاب کے ساتھ نئی فوجی قیادت کی حقیقی وفاداری قائم ہو گئی۔

صدر محمد مرسی نے اگر کچھ اور نہ کیا ہوتا تب بھی ان کا یہی کام ان کی اقدامی صلاحیت کے ثبوت کے لیے کافی تھا، لیکن انہوں نے اس کے علاوہ بھی بہت سے کام کیے، جیسے تکمیلیٔ دستور کے فوجی اعلان کا خاتمہ، ۱۹۶۷ء کے بعد پہلی مرتبہ فلسطین کے ساتھ مصری حدود کی آخری چوکی تک بھاری اسلحے اور مشینری کے ساتھ فوج کو بھیجنا اور سینا کو مجرم جم گھٹوں سے پاک کرنے کے لیے سخت جنگ، جنہوں نے یہ بتانے کے لیے کہ سینا مصری پولیس کے دائرے سے باہر ہے، وہاں فساد برپا کر رکھا تھا اور حدود پر متعین کئی مصری افسران اور سپاہیوں کو قتل کر دیا تھا۔

اجتماعی عدل و انصاف انقلاب کے بنیادی نعروں میں سے ایک تھا، اس سلسلے میں صدر نے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہزاروں کسانوں کو معافی دی، ملازمین اور پنشنروں کو پندرہ فیصد الاؤنس دیا، اجتماعی انشورنس کی رقم میں ماہانہ تین سو پونڈ کا اضافہ کیا، ہزاروں عارضی ملازمین و مزدوروں کو مستقل کیا، شمال مغربی خلیج سوئس کے غیر سنجیدہ سرمایہ کاروں سے ۲۶ ملین میٹر مربع زمین واپس لی، اس کے علاوہ پورٹ سعید کے مشرق میں اکتالیس ملین میٹر مربع زمین واپس لینے کے احکام صادر کیے، دیوان المظالم (شکایتی دفتر) قائم کیا اور تمام ضلعوں اور سرکاری اداروں میں اس کی شاخیں پھیلائیں۔ دو قسطوں میں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا، اس وعدے کے ساتھ کہ باقی قیدیوں کی رہائی کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ انقلاب کی ابتدا سے اقتدار کی منتقلی کے درمیان کی مدت میں انقلابی مقتولین کے حالات کا پتا لگانے اور دلائل جمع کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ شہدائے انقلاب کا قصاص لیا جاسکے۔ سابق نظام سے مربوط افسران کی تطہیر کا عمل جاری ہے چنانچہ انتظامی نگرانی ادارے کے صدر اور حسابات کے مرکزی ادارے کے صدر، پولیس افسران، مقامی حکومت کے رہنماؤں اور قومی اخبارات کے مدیروں وغیرہ کی چھٹی ہوئی۔

مصری صدر محمد مرسی کے بیرونی دورے اور ان میں کامیابیوں کو بھی بھلایا نہیں جاسکتا، ان میں اہم ترین کامیابی مصر کی علاقائی قیادت کی بحالی ہے۔ یہ دورے سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، ایران، اٹلی اور بروکسل میں یورپی یونین کے تھے۔ ان دوروں میں کئی ملین ڈالر کے انویسٹمنٹ کے معاہدے ہوئے، جن کے بہتر نتائج کا احساس اہل وطن کو عنقریب ہو جائے گا۔

سرکاری اور عوامی پیمانے پر صفائی اور تزئین کاری کی وسیع مہم جاری ہے، جس کی بدولت سڑکوں اور میدانوں سے ٹنوں کوڑا کچرا اٹھایا جارہا ہے۔ بجلی کی کمی پر فوری طور سے قابو پالیا گیا ہے، گیس پائپ لائن کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ روٹی بحران اور اس کی لمبی قطاریں غائب ہوگئیں۔ کیا ان تمام کامیاب کارگزاریوں کے بعد بھی بعض لوگوں کو ان سے صَرف نظر پر اصرار ہے؟ ان کا رویہ بڑا بُرا ہے۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘۔ بیروت۔ ترجمہ: مسعودالرحمن خان ندوی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*