
آلِ سعود نے مختلف ادوار دیکھے اور دکھائے۔ شاہ سعود۔۔ شاہ عبد العزیز پھر ان کے بیٹے شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد، شاہ عبد اللہ اور اب شاہ سلمان۔ آل سعود کی مثبت اور منفی باتوں پر مشتمل عروج و زوال کی دو سو سال کی تاریخ ہے۔
اس ناچیز کو شرق اوسط کے مختلف ممالک کو براہ راست قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، جن میں مصر، امارات، بحرین، کویت اور سعودی عرب شامل ہیں۔ عام طور پر ہندوپاک کے لوگ یا تو مکہ مدینہ دیکھتے ہیں، یا اپنی ملازمت ہی سے کام رکھتے ہیں، یا امدادی لجنات سے وابستہ رہتے ہیں، یا جامعات کا ماحول دیکھتے ہیں۔
طبقہ امراء، عرب بیوروکریسی، شاہی بیوروکریسی اور ان کے دوسرے ممالک سے روابط کے بارے میں ان کی معلومات بہت کم ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان کی رائے بہت ہی سطحی ہوتی ہے، خصوصا مذہبی جماعتوں کے لوگ۔ شاہی کتنی ہی اسلامی ہو بہرحال شاہی ہی ہوتی ہے۔
۱۹۸۵ء میں کنگ خالد ملٹری سٹی حفر الباطن کی تعمیر امریکی فوج کررہی تھی۔ میں بھی حاضر تھا وہاں۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہی فوجی چھاؤنی عراق کویت جنگ میں ۱۹۹۱ء میں استعمال کی جائے گی۔
اب شہزادہ محمد بن سلمان کو ولی عہد بنادیا گیا ہے۔ یہ ایک بنیادی تبدیلی ہوگی۔ اب شاہ عبد العزیز کے بیٹے نہیں، پوتا شاہ بنے گا۔ شاہ عبد اللہ کی سیسی کو ۱۲؍ارب ڈالر کی مدد، کوئی عام واقعہ نہ تھا۔ ۲۰۰۰ء کے قریب اخوانیوں کے قتل کو چشم فلک نے دیکھا۔ اللہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے، وہ علیم بذات الصدور ہے۔ وہ مہلتِ عمل دیتا ہے۔ اس سانحے میں امارات کی بیوروکریسی اور بحرین کا بڑا ہاتھ تھا۔
امارات جو فحاشی کا اڈا ہے۔ بحرین جہاں عرصے سے ہندوستانی مجرے، شراب، جسم فروشی کے ساتھ اور بھی اباحیت ہے۔ نماز جمعہ کے وقت تمام دکانیں بند نہیں ہوتیں۔ ہر بقالے پر سور کا گوشت ملتا ہے۔ شاہ سلمان خود امامت کراتے ہیں۔ ان کی دینی حمیت سے خوشی ہوتی۔ انہوں نے جب تویجری کو فارغ کیا تو ان سے توقعات اور بڑھ گئیں۔ لیکن،
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مشرق بعید کے دورے پر جو اسراف اور فضول خرچی دیکھی گئی۔۔۔الحفیظ و الامان۔ اب ولی عہد کی تبدیلی۔۔۔ محمد بن سلمان صرف ۳۲ سال کے ہیں۔ والد بہت بوڑھے ہیں۔ اس وقت بالفعل یہی اصل حکمران ہیں۔ ان سے بھی اچھی توقعات تھیں۔ لیکن انہوں نے ذاتی استعمال کے لیے ایک مہنگا جہاز خریدا تو پھر امیدوں پر پانی پڑ گیا۔
اب ٹرمپ سے ڈیل ہوئی تو اور خدشات سامنے آرہے ہیں۔ ملک خسارے میں جارہاہے۔ اسے کنگال کیا جارہا ہے۔ نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ گرانی بڑھ رہی ہے۔ عمرے پر ۲۰۰۰ ریال مزید وصول کیے جارہے ہیں۔
حرمین کی عمارات کہیں مغربی سرمایہ داروں کے لیے آمدنی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ یمن کی جنگ میں وزیر دفاع کی حیثیت سے ان ہی کا کردار تھا۔ امریکا ایک طرف ایران کو شہہ دے رہا ہے تو دوسری طرف سعودی عرب کو۔ شرق اوسط میں اقتدار امریکا اور برطانیہ کے درمیان منقسم ہے۔ دبئی، بحرین اور بصرہ برطانیہ کے تسلط میں ہیں۔ کویت، قطر اور سعودیہ امریکا کے نرغے میں۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان کی ولی عہدی کا یہ سودا نہ صرف سعودی عرب کو بلکہ مسلم امہ کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوگا۔ اگر سعودی عرب، اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو تخطیط اور نقشہ کار نکھر کر سامنے آجائے گا۔ جس طرح پاکستان کی مجبوریاں ہیں، اسی طرح سعودی عرب کی بھی مجبوریاں ہیں۔ دو کروڑ کی آبادی کا وسیع ملک ۴ لاکھ سے زیادہ پولیس اور فوج نہیں رکھتا۔اس ملک میں دفاع کی کوئی صلاحیت نہیں۔
کویت کی جنگ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قطر کو فتح کرنے میں ۸ گھنٹے سے کم وقت لگے گا۔ اور سعودی عرب کو فتح کرنے میں تین دن سے کم وقت۔ سعودیہ کی تقسیم کے منصوبے ہیں۔ مکہ اور مدینہ بین الاقوامی شہر قرار دیے جائیں گے۔ شیعت کو مزید تقویت دی جائے گی۔ امت کو مزید فکری طور پر آوارہ کیا جائے گا۔ عرب بہار کو کچل دینا مغرب کا اصل ایجنڈا ہے۔ مغرب نہ تو حنبلی ہے اور نہ سلفی۔
یہاں نائن الیون سے پہلے مغرب سلفیت کے خلاف بہت گرجتا تھا۔ اب اخوانیوں کی باری ہے۔ سیاسی اسلامی بیداری کی مخالفت اب ہر مسلمان ملک کا بنیادی ہدف قرار دے دیا گیا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق میں مشغول کردیے جائیں گے۔ رحماء بینہم کا سبق بھلا دیا جائے گا۔ مسلمان ممالک کی تعداد ۵۷ سے بڑھ کر ۷۷ کردی جائے گی۔
صدام جا چکے۔ قذافی جاچکے۔ اک سواری جائے گی، اک آئے گی، باری باری سب کی باری آئے گی۔ نہ بنو امیہ رہے، نہ بنو عباس۔ فاطمی رہے نہ عثمانی۔ کچھ حکومتیں قائم ہیں۔ کچھ کو چلتا کردیا گیا ہے۔ منہا قائم و منہا حصید۔ قرآن کا لا زوال سبق یہی کہتا ہے۔
وقت بتائے گا کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر محمد بن سلمان تاریخ میں اپنا نام کن لوگوں کی صف میں لکھواتے ہیں؟ اتحاد امت کے داعی کی حیثیت سے، یا افتراق امت کے سہولت کار کی حیثیت سے۔ اے اللہ! امت پر رحم فرما۔ قرآن و سنت سے وابستہ کردے۔
مشرق وسطی کے تمام ممالک میں سیاسی استحکام صرف جمہوریت سے ہی حا صل ہو سکتا ہے