سیّد قطب شہید
سید قطب شہید کے ہاں ترجیح یہ تھی کہ نظام سے پہلے عقیدے کو پختہ کیا جائے اور اس کی بنیاد پر زمین میں اللہ کی حاکمیت قائم کی جائے۔ یہ بات انہوں نے اپنی آخری دور کی کتابوں میں اور خاص طور پر ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں بار بار دہرائی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حاکمیت کا نظریہ مودودی اور قطبی نظریہ ہے! مگر یہ سخت غلطی اور جہالت ہے۔ یہ تو ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علمائے اہل اصول کا اتفاق ہے اور انہوں نے اس مسئلے کو اصول فقہ کی بحث الحکم میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ حاکم اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ کا کام اس کی تبلیغ کرنا تھا۔ توحید کے جو عناصر قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ’’تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے‘‘۔ (الانعام: ۱۱۴)
اسی طرح سید قطب شہیدؒ نے اسلام کے اعتقادی تصور کو درست کرنے پر بھی توجہ دی۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک فاسد یا بیمار تصور سے کوئی صالح عمل برآمد ہوسکے۔ اگر لکڑی ٹیڑھی ہو تو اس کا سایہ سیدھا کیسے ہوسکتا ہے۔
اس بنا پر انہوں نے ہر میدان میں جدید جاہلیت کو مسترد کر دیا، عقیدے میں، فکر میں، کردار میں، فرد کی زندگی میں، خاندان اور معاشرے کی زندگی میں۔ انہوں نے دنیا کے کونے کونے میں قائم تمام معاشروں کو یہاں تک کہ مسلمان معاشروں کو بھی جاہلی معاشرے قرار دیا کیونکہ یہ اللہ کی حاکمیت نہیں مانتے۔ حاکمیت سے مراد ان کی وہ حاکمیت تھی جو قوانین وضع کرنے، اقدار و موازین کا تقرر کرنے اور مفاہیم اور ضوابط کا تعین کرنے میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ حاکمیت جس کی بنیاد پر پورے معاشرے کی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ ان معاملات میں جس طرح بھی غیر اللہ کو حکم بنایا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کا یہ حق غصب کرنا ہے، کہ اپنی مخلوق کے لیے قانون سازی کا اختیار اس کو حاصل ہے۔
یہ ایک کلی معاملہ تھا جس کو دوسروں پر ترجیح حاصل ہونی چاہیے تھی اور اسے ان جزئیات اور فروعیات پر مقدم ہونا چاہیے تھا، جن میں بعض پاک طینت مسلمان بہت شدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جیسے جزوی منکرات سے لوگوں کو روکنا اور ان منکرات سے غفلت برتنا، جو اس سے کئی گنا بڑے ہیں اور جن پر معاشرے کی بنیادیں قائم ہیں۔
میں یہاں ’’فی ظلال القرآن‘‘ سے ایک اقتباس نقل کرنا چاہتا ہوں۔ بنی اسرائیل کے بارے میں اللہ کے ارشاد: ’’انہوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، بُرا طرزِ عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا‘‘ (المائدہ:۷۹) کی تفسیر کرتے ہوئے سید قطب شہید فرماتے ہیں:
اصل جدوجہد اور زیادہ قربانیوں کا رُخ سب سے پہلے ایک اچھے معاشرے کے قیام کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔۔ اور اچھا معاشرہ وہ ہوتا ہے جو اللہ کے مقرر کردہ اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔۔ یہ کام اس سے پہلے ہونا چاہیے کہ ہم اپنی جدوجہد، اپنی قوت اور اپنی قربانیوں کو جزوی، انفرادی اور شخصی اصلاحات کی طرف متوجہ کریں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے ہو سکتی ہیں۔
اگر پورا معاشرہ خراب ہو، جاہلیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو، معاشرہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصولوں پر قائم نہ ہو اور اس کا قانون اللہ کا مقرر کردہ قانون نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس کی اصلاح کے لیے جزوی کوشش کریں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اصلاح کی کوشش بنیاد سے شروع کی جائے اور اسے بنیاد سے اٹھایا جائے۔ اس صورت میں ساری کوشش اور پورا جہاد زمین میں اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے ہوگا۔ پھر جب یہ حکمرانی مضبوط ہوگی تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اپنی اساس کے ساتھ مربوط ہو جائے گا۔
اس کے لیے ایمان کی ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ آدمی اس ایمان کی حقیقت کا ادراک کرے اور نظامِ حیات میں اس کی حدود سے واقفیت حاصل کرے۔ اس سطح پر ایمان وہ چیز ہے جو آدمی کا اعتماد پورے کا پورا اللہ پر قائم کر دیتا ہے اور اسے اس بات پر پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی نصرت ’خیر‘ کے ساتھ کر دے گا، خواہ راستہ کتنا ہی لمبا ہو، اسے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ مجھے اجر اسی کے پاس سے مل سکتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ میری کوشش کا اس دنیا میں کوئی پھل نکل آیا یا نہیں اور اس کام کے لیے میرے ساتھ کوئی اور تیار ہوا یا نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ گمراہ معاشرے نے اس کی قدر کی یا نہیں کی۔ نہ اسے یہ امید ہوتی ہے کہ اہل جاہلیت میں سے کوئی شخص اس کی مدد کو آئے گا۔
قرآن و سنت کی وہ تمام نصوص جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم آیا ہے، وہ سب اس بات سے بحث کرتی ہیں کہ ایک اسلامی معاشرے میں مسلمان کا فرض کیا ہونا چاہیے، یعنی وہ معاشرہ جو بنیادی طور پر اللہ کی حاکمیت کا معترف ہوتا ہے اور اپنے فیصلے شریعت الٰہی کے مطابق کرتا ہے۔ خواہ پھر اس میں بعض حالات میں اس حاکمیت سے کسی بھی حد تک سرکشی پائی جائے اور بعض حالات میں اس کے اندر گناہ کس قدر عام ہو جائے۔ رسول اللہﷺ کے اس ارشاد میں یہی بات ملتی ہے کہ ’’افضل ترین جہاد یہ ہے کہ ظالم ’امام‘ کے سامنے کلمہ حق کہا جائے‘‘۔ اس میں ’امام‘ کا ذکر ہے اور وہ امام نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ پہلے اللہ کی حکمرانی اور اس کی شریعت کے فیصلہ کن ہونے کا اقرار نہ کرے۔ جو شخص شریعت کو فیصلہ کن نہیں بناتا، اس کو امام نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون پر فیصلے نہیں کرتے، وہ کافر ہیں‘‘۔ (المائدہ: ۴۴)
اب وہ جاہلی معاشرے جو اللہ کے قانون سے فیصلے نہیں کرواتے، ان میں اہم اور بڑا منکروہ ہے جس کے منبع سے سارے منکرات پھوٹتے ہیں، اور وہ ہے اللہ کی شریعت کو دنیا کی زندگی سے بے دخل کرکے بالواسطہ اس کی الوہیت سے انکار کرنا۔ یہ منکر جو بڑا اور بنیادی ہے، سب سے پہلے اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔ یہ کام اس سے پہلے کرنے کا ہے کہ آدمی جزوی منکرات میں داخل ہو جائے جو اس بڑے منکر سے نکلے ہوئے ہیں، اس کی فروع اور اس کا سایہ ہیں۔
کوئی فائدہ نہیں ہے اگر کچھ نیک اور اچھے لوگ اپنی جدوجہد کو جزوی منکرات کا قلع قمع کرنے میں ضائع کریں، جو فطرتاً اس بڑے منکر کی وجہ سے پیدا ہو چکے ہیں۔ وہ بڑا منکر اللہ کی مخالفت کرنے کی جرأت کرنا، اس کی الوہیت والی خصوصیات کا دعویٰ کرنا اور زندگی کے لیے اس کے دیے ہوئے نظام کو مسترد کرکے اس کی الوہیت سے انکار کرنا ہے۔ ایسے منکرات کو ختم کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنا بالکل بے فائدہ ہے، جو اس بڑے منکر کے مقتضیات میں سے ہیں اور بِلا اختلاف اس کے بُرے نتائج میں سے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہم کب تک لوگوں کی طرف سے کیے جانے والے ان منکرات کے بارے میں فیصلے صادر کریں گے۔ ہم ان کے اعمال کو کس میزان میں تولیں گے، تاکہ ہم ان سے کہہ سکیں کہ یہ منکر ہے اور اس سے اجتناب کرو۔ جب آپ ان سے کہیں گے کہ یہ منکر ہے تو اِدھر اُدھر سے دس آدمی تمہاری طرف متوجہ ہوں گے اور تم سے کہیں گے کہ ’’نہیں جی، یہ منکر نہیں ہے۔ یہ تہذیب و تمدن سے خالی دور میں منکر ہوتا ہوگا مگر اب دنیا ترقی کر رہی ہے اور معاشرہ ’ایڈوانس‘ ہو رہا ہے‘‘۔ اس طرح کے حالات میں چیزوں کے اعتبارات مختلف ہوتے رہتے ہیں۔
اس لیے ایک ایسی میزان کی ضرورت ہوگی جو ثابت ہو اور جس کی طرف ہم اپنے اعمال کے لیے رجوع کر سکیں۔ اسی طرح ایسی اقدار کی ضرورت ہے جو سب کے نزدیک معتبر ہوں، جن پر ہم معروف اور منکر کو جانچ سکیں۔ یہ اقدار ہمیں کہاں سے ملیں گی اور یہ میزان ہم کہاں سے لائیں گے۔
کیا ہم یہ میزان لوگوں کے اندازوں، ان کے عرف، ان کی چاہتوں اور خواہشوں سے حاصل کریں گے جو ہر وقت تغیر پذیر ہوتی ہیں اور ایک حالت پر کبھی نہیں ٹھہرتیں؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو گویا ہم نے ایک ایسے جنگل کا رخ کیا جس میں کوئی رہنما نہیں اور ایک ایسے سمندر میں اتر پڑے جس میں کہیں نشانات موجود نہیں ہیں۔
اس لیے ضروری ہوا کہ ہم پہلے ایک میزان قائم کریں اور یہ میزان بھی ایسی ہونی چاہیے جو مستقل ہو اور وہ خواہشات سے متاثر نہ ہو۔
یہ مستقل میزان صرف اور صرف اللہ کی میزان ہے۔
اگر معاشرہ ابتداً اللہ کی حاکمیت کا اعتراف نہ کرے اور وہ اللہ کی شریعت کے مقابلے میں کسی اور شریعت کو فیصلہ کن بنائے بلکہ جب وہ ان لوگوں کو ہنسی مذاق اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے جو اُن کو اللہ کے منہج کی طرف دعوت دیتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟
کیا یہ کوشش ضائع اور عبث اور مسخرہ پن نہیں ہوگی کہ وہ ایسے معاشرے میں کھڑا ہو کر لوگوں کو زندگی کے ایسے جزئیات کے بارے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے جن کی حیثیت بالکل ثانوی ہے؟ حالانکہ ان کی میزان مختلف ہوتی ہیں، ان کی اقدار میں کوئی مماثلت نہیں پائی جاتی اور ان کے درمیان خواہشات اور آرا میں اختلاف کا ایک وسیع سمندر حائل ہو۔
یقینا یہ بات ضروری ہے کہ بنیادی طور پر ان کے درمیان ایک حکم، ایک میزان، ایک اقتدار اور ایک رخ کے بارے میں اتفاق ہو جس کی طرف اختلاف کرنے والے لوگ اپنی آرا اور اپنی خواہشات کے حوالے سے رجوع کرسکیں۔
ضروری ہے کہ پہلے بڑے معروف کا حکم دیا جائے، اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اس کے منہج کا اعتراف کرنا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ پہلے بڑے منکر کو روکا جائے، اور وہ ہے اللہ کی شریعت کو بحیثیت قانون مسترد کرکے اس کی الوہیت سے انکار۔ اس بنیاد کی تعمیر کے بعد کہیں یہ ممکن ہو سکے گا کہ اس پر عمارت کو اٹھایا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی قوت فراہم کی جائے اور اسے ایک جہت میں جمع کیا جائے تاکہ وہ بنیاد تعمیر ہوسکے جس پر اس عمارت کو اٹھایا جانا ہے۔
انسان کو بعض اوقات افسوس کرنا پڑتا ہے کہ بعض نیک سیرت لوگ اپنی کوششیں فروعی مسائل کے بارے میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہوئے صَرف کرتے ہیں، حالانکہ وہ بنیاد جس پر اسلامی معاشرے کی عمارت تعمیر ہوتی ہے اور جس کی بنیاد پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام کو آگے بڑھانا ہوتا ہے، وہ منہدم ہوئی پڑی ہے۔
اس بات کا کیا فائدہ ہوگا کہ آپ ایک ایسے معاشرے میں مثلاً لوگوں کو حرام کھانے سے روکیں جس کی معاشی بنیاد سُود پر قائم ہے، جو اس کے سارے مال کو حرام میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں ایک فرد کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ حلال کا رزق کھاسکے۔ کیونکہ اس کا معاشرتی اور معاشی سارا نظام اللہ کی شریعت کی مخالف بنیادوں پر قائم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ابتداً اللہ کی حاکمیت سے انکار کرکے گویا اس کی الوہیت کو چیلنج کیا ہے۔
اسی طرح کیا فائدہ ہوگا کہ ایک ایسے معاشرے میں لوگوں کو فسق سے روکا جائے جو زنا کو صرف اس وقت جرم کہتا ہے جب وہ بالجبر ہو، اور اس صورت میں بھی وہ اللہ کی شریعت کے مطابق سزا نہیں دیتا۔ کیونکہ اس نے ابتدا ہی میں اللہ کی حاکمیت سے انکار کرکے اس کی الوہیت سے انکار کیا ہے۔
اسی طرح کیا فائدہ ہے کہ لوگوں کو ایک ایسے معاشرے میں شراب پینے سے روکا جائے جس کا قانون شراب کے چلن کو مباح قرار دیتا ہے اور وہ شارع عام میں کھلم کھلا شراب پینے کے سوا کسی کو مجرم نہیں کہتا۔ یہاں تک کہ ایسے شخص کو بھی وہ کوئی سزا نہیں دیتا کیونکہ وہ ابتداًاللہ کی شریعت کو مسترد کرکے اس کی الوہیت کو مسترد کر چکا ہے۔
اس کا کیا فائدہ ہے کہ لوگوں کو ایک ایسے معاشرے میں دن کو گالیاں دینے سے روکا جائے جو اللہ کی حکمرانی کا معترف نہ ہو، وہ اس میں اللہ کی عبادت نہ کرتے ہوں بلکہ اللہ کے سوا دوسروں کو رب بنا بیٹھے ہوں۔ وہ اس معاشرے کے لیے شریعت اور قانون تیار کرتے ہوں اور ان پر اپنے نظام اور اپنے قواعد نافذ کر رہے ہوں۔ اس کے اپنے میزان اور اقدار ہوں۔ اس میں گالیاں دینے والے اور دیے جانے والے، سب اللہ کے دین پر عمل پیرا نہ ہوں۔ بلکہ یہ دونوں اور ان کے معاشرے کے باقی لوگ ان ’ارباب‘ کے دین پر عمل پیرا ہوں جو اُن کے لیے قوانین بناتے ہیں، ان کے لیے شریعت وضع کرتے ہیں اور ان کے لیے اقدار اور میزانوں کا تعین کرتے ہیں۔
ان حالات میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا کیا فائدہ ہے اور صغائر تو درکنار، ان کبائر سے لوگوں کے روکنے کا کیا فائدہ ہے، جبکہ سب سے بڑی کبیرہ کھلے عام رائج ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے نظام حیات سے انکار کرکے اس کی الوہیت سے انکار کیا جارہا ہے۔
یہ معاملہ اس سے زیادہ بڑا، زیادہ وسیع اور زیادہ گہرا ہے جس میں یہ لوگ اپنی قوتیں، اپنی صلاحیتیں اور اپنی ہمتیں خرچ کر رہے ہیں۔ یہ مرحلہ ایسا ہے کہ اس میں فروعیات کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، خواہ وہ کتنے ہی بڑے ہوں، یہاں تک کہ وہ حدود اللہ میں سے کیوں نہ ہوں۔ حدود اللہ بھی بنیادی طور پر اسی فکر پر قائم ہوتے ہیں کہ پہلے اللہ کی حاکمیت تسلیم کی جائے اور اس کے سوا سب کی حاکمیت کا انکار کیا جائے۔ اگر یہ اعتراف حقیقت کے روپ میں سامنے نہ آئے جو اللہ کی شریعت کو قانون سازی کا واحد ذریعہ قرار دیتی ہو اور اللہ کو واحد مقتدرِ اعلیٰ کی حیثیت سے تسلیم کرے تو اس کے بعد فروع کے بارے میں ہر کوشش ضائع جائے گی۔ دوسرے منکرات میں جو منکر سب سے بڑا ہے، وہ اس بات کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کے خلاف اپنی کوشش اور جہد کو صَرف کیا جائے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
Leave a Reply