
ترجیحات کا یہ مسئلہ دوسری قسم کے مسائل سے بھی تعلق رکھتا ہے جن میں بعض کی وضاحت ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔
ان میں سے ایک مسئلہ موازنات کا ہے۔ میں نے اس کے بارے میں اپنی کتاب أولویات الحرکۃ الاسلامیۃ میں گفتگو کی ہے۔ میں نے اس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے قیمتی اقوال ذکر کیے ہیں۔
موازنات کے مسئلے کے اہم ترین اہداف درج ذیل ہوتے ہیں:
۱۔ جائز مَصالح، مَنافع اور بھلائیوں کا آپس میں موازنہ۔
۲۔ ممنوع مَفاسد، مَضرّتوں اور برائیوں کا آپس میں موازنہ۔
۳۔ اسی طرح مصالح و مفاسد اور بھلائیاں اور برائیاں جب ایک دوسرے سے متصادم ہوں اس وقت ان کے درمیان موازنہ۔
مَصالح کا آپس میں موازنہ
پہلی قسم یعنی مصالح میں ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت کے متعین کردہ مصالح رتبے کے لحاظ سے سب ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ وہ … جس طرح کہ علمائے اصول نے ان کی وضاحت کی ہے… تین بنیادی مراتب پر مشتمل ہیں: ضروریات، حوائج اور محسنات۔ ضروریات وہ ہوتی ہیں جن کے بغیر زندگی نہیں گزرتی۔ حوائج وہ ہوتی ہیں جن کے بغیر زندگی گزر تو سکتی ہے مگر مشقت اور حرج کے ساتھ۔ اور محسنات وہ ہیں جو زندگی کو حسین و جمیل بناتے ہیں۔ ان کو عرف میں تکمیلی امور بھی کہتے ہیں۔
موازنات کا مسئلہ… اور اس کے ساتھ ہی ترجیحات کا مسئلہ بھی… ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ضروریات کو حوائج پر اور اس سے بھی زیادہ اہمیت کے ساتھ محسنات پرمقدم کریں۔ اور حوائج کو محسنات اور تکمیلی پر مقدم کریں۔
اسی طرح ضروریات خود آپس میں بھی مختلف اور متفاوت ہیں۔ وہ… جیسا کہ علما نے بیان کیا ہے… پانچ ہیں: دین، جان، نسل، عقل اور مال۔ اور بعض علما نے ان کے ساتھ ایک چھٹی چیز بھی شامل کی ہے اور وہ ہے: عزت۔
ان میں سے دین سب سے پہلے اور اہم ہے۔ وہ باقی ضروریات پرمقدم ہے۔ یہاں تک کہ جان پر بھی۔ اور جان پھر باقی ضروریات پر مقدم ہے۔
مصالح کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے گا:
٭ یقینی مصلحت، ظنی اور موہوم مصلحت پرمقدم
٭ بڑی مصلحت، چھوٹی مصلحت پرمقدم
٭ جماعتی مصلحت، انفرادی مصلحت پر مقدم
٭ اکثریت کی مصلحت، اقلیت کی مصلحت پر مقدم
٭ دائمی مصلحت، عارضی یا ختم ہونے والی مصلحت پر مقدم
٭ اصل اور بنیادی مصلحت، ظاہری اور جُزوی مصلحت پر مقدم
٭ مستقبل کی قوی مصلحت، حال کی کمزور مصلحت پر مقدم
صلح حدیبیہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اصل اور بنیادی اور مستقبل کی قوی مصلحتوں کوان ظاہری اور فوری مصلحتوں پر مقدم کرتے ہیں جن سے بعض لوگ چمٹے ہوئے تھے۔ اس لیے آپﷺ نے ایسی شرطوں کو بھی قبول کیا جن کے بارے میں پہلی نظر میں یہی کہا جاسکتا تھا کہ ان میں اسلامی جماعت کے لیے نقصان ہے، یا کم پر رضامندی ہے۔ آپ اس بات پر رضامند ہوئے کہ صلح نامے سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کے الفاظ مٹا کر ان کی جگہ بِاسْمِکَ اللّٰہُم لکھا جائے اور آپﷺ کے اسمِ مبارک سے رَسُوْلُ اللّٰہِکے الفاظ مٹا کر ان کی جگہ اِبْن عَبْدِاللّٰہِ کے الفاظ لکھے جائیں۔ ان تمام امور پررضامندی کامقصد یہ تھا کہ آپﷺ کچھ اطمینان کاسانس لیں، دعوت کی بڑے پیمانے پر اشاعت کے لیے فارغ ہوجائیں اور دنیا کے مختلف ممالک کے بادشاہوں کومخاطب کرسکیں۔ قرآن نے اس کوبجا طور پر فتح مبین کہا ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
مَفاسد اور مَضرّتوں کے درمیان موازنہ
دوسری قسم یعنی مفاسد اورمضرتوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بھی مصالح کی طرح باہم مختلف اورمتفاوت ہیں۔
وہ مَفسدہ جوکسی ’ضروری‘ چیزکو معطل کرنے کا ذریعہ بنے، اس مفسدہ سے مختلف ہے جو کسی ’حاجت‘ کومعطل کردے، اور وہ اس مفسد سے مختلف ہے جو کسی محسن چیزمیں رکاوٹ بنے۔
وہ مَفسدہ جو مال کے لیے مُضر بنے، اُس مفسدہ سے کم درجے میں ہے جو جان کے لیے مضر ہو اور یہ اُس مفسدہ سے کم ہے جو دین اور عقیدے کو نقصان پہنچائے۔
پھر مَفاسد اورمضرّتیں اپنے حجم، اثرات اور خطرات کے لحاظ سے بھی آپس میں مختلف اور متفاوت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا نے بعض قواعد وضع کیے ہیں جو دین کے اہم ترین احکام کومنضبط کرتے ہیں۔ ان میں سے چند قواعد درج ذیل ہیں:
لاَ ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ۔ نقصان پہنچانے میں پہل کرنا اور ضرر کا جواب ضرر سے دینا، دونوں ممنوع ہیں۔
اَلضَّرَرُ یُزَالُ بِضَرَرِ مِثْلِہٖ أَکْبَرَ مِنْہُ۔ ضرر کو ضرر سے زائل کرنا اُس سے بڑا ضرر ہے۔
یُرْتَکَبُ أَخَفٌ الضَّرَرَیْنِ وَأَھُوَنَ الشَّرَّیْنِ۔ دو ضرروں یادو شرَّین میں سے جو زیادہ خفیف ہوگا اس کا ارتکاب کیاجاسکتا ہے۔
یُتَحَمَّلُ الضَّرَرُ الْأدْنیٰ لِدَفعِ الضَّرَرِ اْلأعلیٰ۔ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹے نقصان کو برداشت کیا جائے۔
یُتَحَمَّلُ الضَّرَرُ الْخَاصٌ لِدَفْعِ الضَّرَرِ الْعَامِّ۔ عام ہو جانے والے ضرر سے بچنے کے لیے خاص رہنے والے ضرر کو برداشت کیا جائے۔
مَصالح و مَفاسد میں تعارض کے وقت موازنہ
اگر کسی معاملے میں مَصالح اور مَفاسد یا مَنفعت اور مَضرَّت، دونوں جمع ہوں، تو ان کے درمیان موازنہ کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اس میں ’اَغلب‘ اور ’اکثر‘ کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ ’اکثر‘، ’کل‘ کے حکم میں ہوتا ہے۔
اگر کسی معاملے میں مَفاسد اور مَضرتیں مصالح اور منافع پر غائب ہوں تو اس کام کو روکنا ضروری ہوگا۔ کیونکہ اس میں فساد کا غلبہ ہے۔ یہاں اُس منفعت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جو اس میں موجود ہے۔ یہی بات قرآن نے شراب کے مسئلے میں اُس وقت بیان فرمائی تھی جب پوچھنے والوں نے اس کے بارے میں پوچھا تھا:
’’پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو، ان دونوں چیزوں میں بڑی برائی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘۔ (البقرۃ: ۲۱۹)
اس کے برعکس جب منفعت بڑی اور غالب ہو تو اس کام کی اجازت دی جائے گی اور اسے مَشروع سمجھا جائے گا۔ اس میں جو چھوٹا مَفسدہ موجود ہے، اس کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں جو اہم ترین قواعد ہیں وہ درج ذیل ہیں:
دَرْئُ الْمَفْسَدَۃِ مُقَدَّمٌ عَلٰی جَلْبِ الْمَصْلَحَۃِ۔ خرابی کو دفع کرنا مصلحت کے حصول پر مقدم ہے۔
اس قاعدے کی تکمیل ایک اور قاعدے سے ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اَلْمَفْسَدَۃُ الْصَّغِیْرَۃُ تُغْتَفَرُ مِنْ أَجْلِ الْمَصْلَحَۃِ الْکَبِیْرَۃِ۔ چھوٹی خرابی کو بڑی مصلحت کی خاطر نظرانداز کیا جائے گا۔ اور تُغْتَفَرُ الْمَفْسَدَۃُ الْعَارِضَۃُ مِنْ أَجْلِ الْمَصْلَحَۃِ الدَّائِمَۃِ عارضی خرابی کو دائمی مصلحت کی خاطر نظرانداز کیا جائے گا۔
اسی طرح لَاتُتْرَکُ مَصْلَحَۃٌ مُحَقَّقَۃٌ مِنْ أَجْلِ مَفْسَدَۃٍ مُتَوَہَّمَۃٍ یقینی مصلحت کو موہوم خرابی کی وجہ سے نہیں چھوڑا جائے گا۔
موازنات کے اس مسئلے کی عملی زندگی میں بڑی اہمیت ہے، خاص طور پر شرعی سیاست کے باب میں۔ کیونکہ یہ وہ بنیاد ہے جس پر سیاستِ شرعیہ کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اور ترجیحات کے مسئلے کے لیے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔
مَصالح اور مَفاسد کی پہچان کیسے؟
قابلِ لحاظ مَصالح یادنیوی ہوں گی یا اُخروی، یا پھر دنیوی اور اخروی دونوں۔ اور یہی معاملہ یقینا مفاسد کا بھی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی پہچان کا شرعی یا عقلی یا دونوں لحاظ سے ایک طریقِ کار ہے۔
عزبن عبدالسلام کی رائے
امام عزالدین بن عبدالسلامؒ نے اپنی کتاب قواعد الاحکام فی مصالح الانام کی فصل فِیْمَا تُغْرَفُ بِہٖ الْمَصَالِحُ وَالْمَفَاسِدُ وَفِیْ تَفَاوُتِہِمَا۔ میں اس کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔ انہوں نے اس مقام پر بڑی پتے کی بات کہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
اکثر دُنیوی مَصالح و مَفاسد عقل سے ہی معلوم ہو جاتی ہیں اور وہی زیادہ تر قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرع کے وارد ہونے سے پہلے بھی ایک عاقل سے یہ بات چھپی نہیں تھی کہ انسان اور دوسری اشیا کے لیے مَصالح کا حصول اور مَفاسد کا سدباب اچھا اور قابل تعریف ہے۔ اسی طرح اچھے سے اچھے مَصالح کا حصول بھی قابلِ تعریف ہے اور مفاسد میں جو زیادہ خرابی کا ذریعہ بنتے ہوں، ان کا اپنے اپنے درجے کے مطابق سدِباب بھی قابل تعریف ہے۔ نیز غالب مَصالح کو مغلوب مَفاسد پر مقدم کرنا بھی محمود ہے اور غالب مَفاسد کو روکنا مغلوب مصالح کے حصول پر مقدم ہے۔
اس پر حکما کے درمیان اتفاق ہے۔ اسی طرح خون کی حرمت، مال و متاع اور عزت کی حرمت، اور اقوال و اعمال میں افضل سے اضل کے حصول کے قوانین کا معاملہ ہے۔
اگرچہ ان میں سے بعض میں اختلاف ہوا ہے، مگر اس کی غالب وجہ بھی یہی ہے کہ وہاں برابری یا ان کے درمیان کسی کے راجح اور کسی کے مرجوح ہونے میں اختلاف ہوا ہوتا ہے۔ جب دو امور میں مساوات ہوتی ہے تو عام لوگ حیرت کاشکار ہوتے ہیں اور جب تفاوت یا مساوات میں انہیں حیرت ہوتی ہے تو توقف اختیار کرتے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ طبیبوں اور ڈاکٹروں کا ہوتا ہے کہ وہ بڑی بیماری کو رفع کرتے ہیں خواہ اس کے ساتھ آدمی چھوٹی بیماری کا مستقل مریض ہی بن جائے۔ وہ دو صحتوں میں سے جو اعلیٰ ہوتی ہے، اس کو حاصل کرتے ہیں اور صحت کی چھوٹی قسم کے چلے جانے کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ مگر جب وہ مساوات یا تفاوت کے حوالے سے حیرت میں پڑ جاتے ہیں، تب وہ توقف اختیار کرتے ہیں۔ علمِ طب بھی شریعت کی طرح صحت و عافیت کے حصول اور صحت کی خرابی کو روکنے کے لیے ہے۔ ان میں جن بیماریوں کو رفع کیا جاسکتا ہے، ان کو رفع کیا جائے گا اور جن عافیتوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے، ان کو حاصل کیا جائے گا۔ اگر ساری بیماریوں کو رفع کرنا اور ساری صحتوں کو حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو پھر دوسرے طریقے سے دیکھا جائے گا۔ اگر سب آپس میں برابر ہیں، تو طبیب کو اختیار ہوگا کہ کس بیماری کو پہلے رفع کرے اور کس صحت کو پہلے حاصل کرے۔ اگر ان کے درمیان تفاوت پایا جاتا ہے تو ان کے درمیان ترجیح کی صورت کو پہچان کر اس پر عمل پیرا ہو جائے۔ اگر اسے ان کے درمیان تفاوت یا ترجیح کا علم نہیں ہے تو پھر توقف کر لے۔ جس نے شریعت وضع کی ہے، اسی نے طب کو بھی وضع کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اسی لیے وضع کیا گیا ہے کہ بندوں کے مَصالح کو حاصل کیا جائے اوران سے خرابیوں کو رفع کیا جائے۔
جس طرح کہ یہ جائز نہیں ہے کہ آدمی دینی مصالح میں غالب پہلو کے واضح ہونے تک ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے میں توقف ہی کرے، اسی طرح طبیب کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ غالب پہلو کے واضح ہونے تک بیماریوں میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے میں توقف بھی کرے اور علاج بھی شروع کرے۔ اس اصول سے کوئی بھی تجاوز نہیں کرتا سوائے اُس کے جو صالح و اَصلح اور فاسد و اَفسد میں فرق کرنے سے بے خبر ہو۔ وجہ وہی ہے کہ انسان کی طبیعت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے۔ اس کی خلاف ورزی صرف وہی کرے گا جو جاہل ہو اور اس پر شقاوت غالب آگئی ہو یا احمق ہو اور اس میں حماقت کا غلبہ ہو۔ کافروں میں سے جن لوگوں نے حیوان کا ذبح حرام قرار دیا اور اس نے حیوان کی مصلحت چاہی، وہ بھی حق کی پٹڑی سے اتر گیا۔ کیونکہ اس نے حیوانِ خسیس کی مصلحت کو حیوانِ نفیس کی مصلحت پر مقدم کر دیا۔ اگر وہ جہالت اور خواہشات کی پیروی سے آزاد ہو جاتا تو یقیناً وہ احسن کو خسیس پر مقدم کرتا اور قبیح پر عمل پیرا ہو کر وہ اَقبح کو رفع کرتا۔ لیکن، فَمَنْ یَّہْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰہُ وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَo (کون ہے جو اس شخص کو ہدایت دے سکے جسے اللہ نے گمراہ کر دیا ہو اور جس کا کوئی مددگار نہ ہو۔ الروم: ۲۹)
جن کو اللہ نے توفیق دی ہو، انہیں غلطی سے بچایا ہو اور مسئلے کے مَالَہَا وَمَا عَلَیْہَا کا علم دیا ہو اور پھر اس علم پر عمل کی توفیق بھی عطا فرمائی ہو، تو وہ یقیناً کامیاب ہوں گے، اور وہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے:
’ہم ان کو تھوڑا سمجھ رہے تھے۔ مگر پتا چلا کہ وہ قلیل سے بھی زیادہ قلیل بن گئے ہیں‘۔
اسی طرح مجتہدین فی الاحکام کا معاملہ ہوتا ہے۔ ان میں سے جسے اللہ نے توفیق دی ہو اور اسے غلطی سے محفوظ رکھا ہو، اس کو اللہ تعالیٰ نے راجح دلائل سے آگاہ کیا ہوتا ہے۔ اس طرح وہ حق تک پہنچ پاتا ہے۔ اس کے لیے دوگنا اجر ہوتا ہے، ایک ارادے کا اجر اور ایک حق تک پہنچنے کا۔ اس کے برعکس جو شخص کسی بات کو کسی پر ترجیح دینے میں غلطی کرتا ہے، اسے اپنے ارادے اور اجتہاد کا ثواب مل جاتا ہے اور اس سے جو غلطی ہو جاتی ہے وہ معاف ہوتی ہے۔ ان خطاؤں میں سب سے بڑی وہ ہوتی ہے جو مجتہد سے اصولی مسائل میں ہو جاتی ہے۔
جان لو کہ اصلح کو مقدم کرنا اور اَفسد کا سدباب کرنا، یہ دونوں باتیں انسانی طبیعت میں مرکوز کی گئی ہیں اور یہ ان پر رب الارباب کی خصوصی نظر کرم ہوتی ہے، جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں ذکر کیا ہے۔ اگر آپ ایک چھوٹے بچے کو لذیذ اور لذیذ تر میں انتخاب کا اختیار دے دیں تو یقیناً وہ لذیذ تر کو منتخب کرے گا۔ اسی طرح اگر اسے حسین اور حسین تر میں انتخاب کا اختیار دے دیں تو وہ حسین تر کو اپنائے گا۔ اگر اسے کانسی اور چاندی کے سکوں میں انتخاب کا اختیار دیا جائے تو وہ چاندی کے سکے کو منتخب کرے گا۔ نیز اگر اسے سونے اور چاندی میں انتخاب کا اختیار دیا جائے تو وہ سونے کا انتخاب کرے گا۔ اصلح پر صالح کو کوئی بھی مقدم نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ وہ اصلح کی فضیلت سے بے خبر ہو یا ایسا بدبخت ہو جس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو جاہل بنایا ہو اور وہ دونوں کے درمیان موجود فرق کو نہ دیکھتا ہو‘‘۔ [ قواعد الأحکام فی مصالح الأنام ۵:۱۔۷
’’رہے آخرت کے مَصالح اور مَفاسد تووہ نقل کے بغیر معلوم نہیں کیے جاسکتے‘‘۔
جن مَصالح کا تعلق دین اور دنیا دونوں سے ہے، وہ متفرق اور متفاوت درجات میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اونچے درجے کے ہوتے ہیں اور بعض ادنیٰ، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دونوں کے درمیان متوسط ہوتے ہیں۔ پھر جو متوسط ہوتے ہیں ان میں بھی کچھ متفق علیہ ہوتے ہیں اور بعض میں اختلاف ہوتا ہے۔
شریعت میں جس چیز کا حکم دیا جاتا ہے، اس میں یا تو دنیا اور آخرت دونوں کا فائدہ ہوتا ہے یا پھر کسی ایک کا۔ اور جس چیز سے روکا جاتا ہے، تو اس میں یا تو دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے یا ان میں سے کسی ایک کا۔ جس عمل کے کرنے سے بہترین مصلحت کو حاصل کیا جائے وہ افضل الاعمال ہوتا ہے اور جو اُن میں سے بدترین خرابی کا ذریعہ بنے تووہ اَرذل الاعمال ہوگا۔ چنانچہ دنیا میں کوئی سعادت نہیں ہے جو معرفتِ حق، ایمان اور اطاعتِ الٰہی سے زیادہ صالح ہو اور کوئی شقاوت نہیں ہے جو جہالت، کفر اور فسوق و عصیان سے زیادہ بری ہو۔
اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ مَصالح کے تفاوت سے اُخروی ثواب میں فرق واقع ہوتا ہے اور مَفاسد کے تفاوت سے اخروی عذاب میں تفاوت پیدا ہوتا ہے۔ مقاصدِ قرآن میں چند اہم مقاصد یہ ہیں:
مَصالح اوران کے اسباب کو حاصل کرنے کا حکم دینا اور مفاسد اور ان کے اسباب سے روک دینا۔ چنانچہ دنیا کے مَصالح اور مَفاسد کی آخرت کے مَفاسد و مَصالح سے کوئی نسبت نہیں۔ کیونکہ اُخروی مَصالح میں جنت میں دائمی قیام، اللہ کی رضامندی اور پھر اللہ کا دیدار اصل چیزیں ہیں۔ اے کاش! یہ واقعی دائمی نعمتیں ہیں! اسی طرح آخرت کے مفاسد میں دائمی عذابِ جہنم، اللہ کی ناراضی اور دیدارِ الٰہی سے محرومی ہے۔ ہائے افسوس! یہ واقعی دردناک عذاب ہے!
مَصالح کی تین قسمیں ہیں: ایک مباحات کے مصالح، دوسرے مستحبات کے مصالح اور تیسرے واجبات کے مصالح۔
مَفاسد کی دو قسمیں ہیں: ایک مفاسدِ مکروہات اور دوسرے مَفاسدِ محرمات۔
دارین کے مَصالح و مَفاسد کا پیمانہ
دنیا اور آخرت کے مصالح و مفاسد، ان کے شرعی اسباب جانے بغیر معلوم نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے کوئی چیز مخفی ہو جائے تو اسے شریعت ہی سے معلوم کیا جائے گا، اور شریعت نام ہے کتاب و سنت، اجماع، قیاسِ معتبر اور استدلالِ صحیح کا۔ رہے دنیا کے مصالح، اس کے اسباب اور اس کے مفاسد تو وہ ضروریات، تجربات، مشاہدات اور معتبر گمان سے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی مخفی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے مذکورہ دلائل سے معلوم ہو سکے گی۔ جو چاہتا ہو کہ ان متناسبات، مَصالح اور مَفاسد میں راجح اور مرجوح کو پہچان لے تو اسے اپنی عقل کے ترازو پر پرکھے، بشرطیکہ اس کے بارے میں شریعت کا کوئی صریح حکم موجود نہ ہو اور پھر اس کے اوپر احکام کی بنیاد رکھے۔ اس سے شاید کوئی بھی حکم خارج نہیں ہوگا، سوائے ان افعال کے جن کو اللہ نے بندوں پر عبادت کے طور پر لازم کیا ہے اور انہیں ان کی مصلحتوں یامفاسد سے آگاہ نہیں کیا۔ اس طرح سے اعمال کا حسن و قبح معلوم کیا جاسکتا ہے، باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ پر یہ بات لازم نہیں ہے کہ وہ حسن اشیا کے مصالح کو حاصل کرے اور قبیح اعمال کے مفاسد کو رفع کرے۔ اسی طرح اس پریہ بھی لازم نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کو پیدا کرے، اسے رزق دے، اسے مکلف کرے اوراسے ثواب یا عذاب دے۔ وہ حسن افعال کے مصالح کو حاصل کرتا ہے یا قبیح کے مفاسد کو دور کرتا ہے تو اپنے اختیار سے اور اپنے بندوں پر فضل و کرم کرتے ہوئے کرتا ہے۔
کتاب قواعد الاحکام کا مقصد
امام عزبن عبدالسلامؒ اپنی کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کی تصنیف کا مقصد عبادات، معاملات اور باقی اعمال کے مصالح کا بیان ہے تاکہ لوگ ان کے حصول کی سعی کریں۔ اسی طرح اس کا مقصد ممنوعات کی مصلحتوں کا بیان ہے تاکہ لوگ ان کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح جن مصالح کو مقدم کرنا ہے اور جن کو مؤثر کرنا ہے ان کا بیان بھی اس کا مقصد ہے۔ اس کے علاوہ ان اعمال کی مصلحتوں کا بیان بھی، جو انسانوں کی قدرت میں ہیں اور جو ان کی قدرت میں نہیں ہیں۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساری شریعت مصالح ہی مصالح ہیں۔ وہ یا تو مَفاسد کو رفع کرتی ہے یا مَصالح کو حاصل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب بھی فرماتا ہے کہ: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ [اے ایمان والو!] تو اس کے بعد جو حکم دیا جاتا ہے اس پر غور کریں۔ وہاں آپ کو اس کے سوا کوئی چیز نہیں ملے گی کہ یا تو تجھے بھلائی پر ابھارا جاتا ہے یا تجھے برائی سے روکا جاتا ہے، یا پھر یہ دونوں چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بعض چیزوں کے مَفاسد کھل کر بیان کر دیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے لوگوں کو برائی سے اجتناب پر ابھارا جائے۔ اسی طرح بعض احکام میں جو مَصالح ہیں ان کو بھی کھل کر بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو مَصالح کو عملی جامہ پہنانے پر ابھارا جائے‘‘۔ [قواعد الأحکام فی مصالح الأنام ج ۱، ص ۵۔۱۱[
☼☼☼
Leave a Reply