ترجیحات کا مسئلہ اور فقہ المقاصد:
ترجیحات کے مسئلے کا تعلق مقاصدِ شریعت کے مسئلے کے ساتھ بھی ہے۔ یہ بات متفَق علیہ ہے کہ شرعی احکام کسی نہ کسی عِلّت کے ساتھ مُعَلَّل ہوتے ہیں اور ان کی ظاہری شکل کے پیچھے ایک مقصد پوشیدہ ہوتا ہے جن کو وجود میں لانا شریعت کے پیش نظر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام حکیم ہے۔ یہ نام قرآن پاک میں کم و بیش ۹۰ بار استعمال ہوا ہے۔ اور یہ بات متعین ہے کہ حکیم کسی عبث اور فضول چیز کو قانونی شکل نہیں دیتا۔ جیسا کہ وہ کسی چیز کو عبث اور باطل طور پر پیدا نہیں کرتا۔ اللہ اس سے پاک ہے۔
یہاں تک کہ عباداتِ محضہ کے بھی اپنے شرعی مقاصد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے عبادات کی بھی حکمتیں بیان کر دی ہیں۔ چنانچہ نماز کے بارے میں فرمایا کہ: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت:۴۵) ’’بے شک نماز بے حیائی اور مُنکَر سے روکتی ہے‘‘۔
زکوٰۃ کا مقصد ہے: تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا (التوبہ:۱۰۳)۔ ’’تم اس کے ذریعہ ان کی تطہیر اور تزکیہ کرو‘‘۔
روزے کا مقصد ہے:
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo ’’تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔
اور حج کے بارے میں فرمایا:
لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ (الحج:۲۸) ’’تاکہ وہ اپنے فائدے کے لیے حاضر ہو جائیں اور اللہ کا ذکر کریں‘‘۔
دین کے صحیح فہم کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم شریعت کے مقصود سے آگاہی حاصل کریں تاکہ ہم ان کو وجود میں لانے کے لیے کام کر سکیں اور اپنے آپ پر یا دوسرے لوگوں پر ایسی چیزوں کے بارے میں شدت اختیار نہ کریں جن کا تعلق شریعت کے مقاصد اور اہداف کے ساتھ نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مجھے اس بات کا کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ ہم اپنے دور میں صدقہ فطر کو اشیائے خورد و نوش کی صورت میں دینا لازمی قرار دیں، یہاں تک کہ شہری علاقوں میں بھی یہی فتویٰ جاری کریں۔ اس میں اصل مقصود اشیائے خورد و نوش کا کسی کو دینا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ اس مبارک دن میں غریب آدمی اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کریں۔
اسی طرح میں اس بارے میں بھی شدت کے کوئی معنی نہیں سمجھتا کہ حج کے دوران شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے لیے زوال سے پہلے کا وقت لازمی قرار دیں، خواہ اس طرح کتنا ہی ہجوم ہو جائے اور اس کی بنا پر کتنے ہی لوگ بھیڑ میں پاؤں تلے کچلے جائیں، جیسا کہ پچھلے چند سالوں میں ہوتا رہا ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ زوال سے پہلے شیطانوں کو کنکریاں مارنا مقصود بالذات ہے۔ اصل مقصود تو اللہ کا ذکر اور آسانی پیدا کرنا اور حرج کو دور کرنا ہے۔
یہاں پر یہ بات بھی ضروری ہے کہ مسائل ثابتہ اور وسائل متغیرہ میں تمیز کی جائے۔ پہلی چیز کے بارے میں ہمیں فولاد کی طرح سخت ہونا چاہیے اور دوسری کے بارے میں ریشم سے زیادہ نرم۔ یہ بات ہم نے اپنی کتاب کیف نتعامل مع السنۃ النبویۃ میں خوب واضح کی ہے۔
ترجیحات کا مسئلہ اور فقہ النصوص:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترجیحات کے مسئلے کا جزئی نصوصِ شریعت کے فہم سے بھی گہرا تعلق ہے اور وہ اس طرح کہ یہ اسے مقاصدِ کلیہ اور قواعدِ عامہ کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ چنانچہ جزئیات کو اپنی کلیات کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور فروع کو اصول کی طرف۔
یہاں بھی یہ بات اہم ہے کہ قطعی اور ظَنّی نصوص کے درمیان اور مُحکَم اور مُتَشابہ کے درمیان فرق روا رکھا جائے۔ ظَنّی کو قطعی کی روشنی میں دیکھا جائے اور متشابہ کو محکم کی روشنی میں۔
اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ یہ فقہ زیادہ تفصیلات کے ساتھ کس قسم سے تعرض کرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فقہ کا سب سے زیادہ لزوم علمِ حدیث کے ساتھ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے فہم میں قرآن سے بھی زیادہ اختلاف پیدا ہوتا ہے اور اس کا عمل دخل بہت سی جزئیات اور تطبیقات میں ہوتا ہے۔ اس میں بعض قسمیں ایسی ہوتی ہیں جن کا تعلق قانون سازی کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض ایسی ہوتی ہیں جن کا تعلق قانون سازی سے نہیں ہوتا۔ مثلاً کھجور میں قلم لگانے کی حدیث یا اس طرح کی بعض اور احادیث ایسی ہیں جن کا تعلق قانون سازی کے ساتھ نہیں۔ پھر ان میں بعض ایسی ہوتی ہیں جو مستقل قانون سازی کے لیے ہوتی ہیں اور بعض ایسی بھی، جن کا تعلق عارضی قانون سازی کے ساتھ ہوتا ہے۔ نیز بعض اشیا عام قانون سازی کے لیے ہوتی ہیں اور بعض خاص قانون سازی کے لیے۔ یہ ساری باتیں محققین علما نے تفصیل کے ساتھ بیان کر دی ہیں۔
ہم نے بھی اسے اَلْجَانِبُ التَّشْرِیْعِیٌ لِلسُّنَّۃِ کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے مجلۃ مرکز بحوث السنۃ والسیرۃ میں اور اپنی کتاب السنۃ: مصدراً للمعرفۃ والحضارۃ میں بیان کیا ہے۔ جو لوگ زیادہ تفصیل چاہتے ہیں وہ ان کی طرف رجوع فرمائیں۔ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ۔
—جاری ہے!
***
Leave a Reply