
قلبی گناہوں میں جو کبائر ہیں ان میں سے تین مہلکات وہ بھی ہیں، جن سے اِس حدیث میں محتاط رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: تین باتیں مہلکات میں شامل ہیں: ایک، طمع و لالچ، جس کی پیروی کی جائے۔ دوسری، خواہشِ نفس، جس کے پیچھے چلا جائے اور تیسری، آدمی کی خودپسندی (اپنے آپ میں گم ہو جانا ہے)۔ (طبرانی)
شُحّ ھالِعٌ (شدید طمع و لالچ)
طمع و لالچ کی مذمت میں کئی احادیث آئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
٭ طمع و لالچ اور ایمان، ایک مسلمان بندے کے دل میں کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ (احمد۔ بخاری)
٭ ایک آدمی میں سب سے زیادہ بُری چیز اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ ہے شدید حِرص اور انتہائی بزدلی ہے۔ (بیہقی)
٭ ظلم سے بچ کر رہو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اور طمع و لالچ سے بچو، کیوں کہ اس نے تم سے پہلے والے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اسی نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہائیں اور اللہ کے محارم (جنہیں حرام یا ممنوع کر دیا گیا) کو حلال سمجھیں۔ (مسلم)
٭ طمع و لالچ سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں وہ اسی کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ طمع و لالچ ان کو قطع رحمی کا حکم دیتا تھا تو یہ اسے قطع کر دیتے تھے۔ وہ انہیں بخل کا حکم دیتا تھا تو بخل کرتے تھے اور وہ انہیں گناہوں کا حکم دیتا تھا تو وہ گناہ کرتے تھے۔ (ابودائود۔ حاکم)
علما کہتے ہیں کہ شُحّ (طمع و لالچ) دراصل بخل اور حِرص کے مجموعے کا نام ہے، چنانچہ اس کی ممانعت حِرص سے بھی زیادہ شدید ہے۔ بُخل صرف مال کے حوالے سے ہوتا ہے اور شُحّ کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو نفس کو مال خرچ کرنے، کسی سے بھلائی کرنے یا کسی بھی عبادت میں کشادہ دلی سے روکتی ہے۔ اور شُحٌّ ہَالِعٌ (یعنی شدید طمع و لالچ) وہ ہوتی ہے جو اپنے صاحب کو پریشانی اور اضطراب سے دوچار کرتی ہے۔ اپنی حرص کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہوتا ہے کہ اپنا حق کس طرح اس سے نکالے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حرص و لالچ اللہ کی معرفت کے ساتھ کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ سخاوت اور مال کے انفاق میں جو چیز مانع ہوتی ہے، وہ غریبی کا ڈر ہے۔ اور یہ اللہ سے غافل رہنا اور اس کے وعدوں پر یقین نہ ہونا ہے۔ اسی وجہ سے حدیث نے ایک دل میں ایمان اور حرص و لالچ کے جمع ہونے کی نفی فرمائی ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے، بلکہ ان میں سے ایک جاتی ہے تب دوسری آتی ہے۔
شدید خواہشِ نفسانی
حدیث میں جن مہلکات کا ذکر ہے، ان میں سے ایک ’شدید خواہشِ نفسانی‘ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس سے قرآن نے بھی متعدد مقامات پر محتاط رہنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائودؑ سے فرمایا: ’’اور خواہشِ نفس کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔‘‘
خاتم النبیینﷺ سے فرمایا: ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار اِفراط و تَفریط پر مبنی ہے‘‘۔ (الکہف: ۲۸)
مزید فرمایا: ’’اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر، بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے‘‘۔ (القصص:۵۰)
ایک قوم کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپّہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں‘‘۔ (محمد: ۱۶)
قرآن نے یہ بات بیان کی ہے کہ خواہشِ نفس کی پیروی آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ وہ آدمی کو علم کے باوجود گمراہ کر دیتی ہے۔ وہ اس کی بصیرت و بصارت کو چھین لیتی ہے۔ پھر وہ نہ کچھ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ فرمایا: ’’کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟‘‘ (الجاثیہ:۲۳)
یہی وجہ ہے کہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: زمین میں بدترین معبود، جس کی عبادت کی جاتی ہے، خواہشِ نفس ہے۔
قرآن نے جنت میں داخل ہونے کے جو اسباب بیان کیے ہیں، ان میں خواہشِ نفس کی پیروی سے بچنا سرفہرست ہے: ’’اور جس نے اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بُری خواہشات سے دور رکھا، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی‘‘۔ (النازعات: ۴۰۔۴۱)
خودپسندی
تیسری مہلک چیز جو حدیث میں بیان ہوئی ہے، وہ خودپسندی ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی اپنے آپ میں مگن رہے۔ جو شخص خودپسندی میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ اپنے عیبوں کو نہیں دیکھ پاتا، خواہ وہ کتنے ہی بڑے ہوں۔ وہ اپنے محاسن اور زینت کو خوردبین سے دیکھتا ہے اور انہیں بڑا سمجھتا اور بڑا کر کے پیش کرتا ہے۔
قرآن نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ خودپسندی نے کس طرح مسلمانوں کو ہزیمت سے دوچار کردیا، حتیٰ کہ وہ دوبارہ اپنی رشد کی حالت میں اور اپنے رب کی طرف لوٹے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غزوہ حنین کے روز (اس کی دست گیری کی شان تم دیکھ چکے ہو)۔۔۔ تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرہ تھا، مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اُتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے‘‘۔ (التوبۃ: ۲۵۔۲۶)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ وہ برائی جو تمہیں پریشان کر دے، اس بھلائی سے بہتر ہے جو تمہیں خودپسندی میں ڈال دے۔
ابن عطا نے بھی یہی معنی لیے ہیں اور اسی مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کسی عبادت کا راستہ کھول دیتا ہے، مگر قبولیت کا دروازہ نہیں کھولتا۔ اور کبھی وہ تمہارے لیے ایسی معصیت مقدر کر دیتا ہے جو تمہارے منزلِ مقصود پر پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ معصیت جس پر تم اپنے آپ کو ذلیل محسوس کرو اور انکسار اختیار کرو، بہتر ہے اس عبادت سے جو تمہارے اندر خودپسندی اور استکبار پیدا کرے۔
ریاکاری
افعالِ قلوب میں جو کبیرہ گناہ ہیں، ان میں ایک وہ ریا ہے جو اعمال کو ضائع کر دیتا ہے اور اسے اللہ کے ہاں قبولیت سے محروم کر دیتا ہے، اگرچہ اس کا ظاہر لوگوں کے لیے کتنا ہی خوب صورت اور حسین ہو۔
اللہ تعالیٰ منافقین کے بارے میں فرماتا ہے: ’’محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔ (النسائ:۱۴۲)
دوسری جگہ فرمایا: ’’پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔ (الماعون: ۴۔۷)
ریاکار شخص کے انفاق کی تصویر کشی اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے: ’’اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی‘‘۔ (البقرۃ:۲۶۴)
احادیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ریا ایک طرح کا شرک ہے۔ ریاکار کا اپنے عمل سے اصل مقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس سے راضی ہوں، اس کی تعریف کریں اور اس کی شرافت و بزرگی کے گُن گائیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں شرک سے بالکل بے نیاز ہوں۔ جس نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شریک کے سپرد کر دوں گا‘‘۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’میں اِس سے بَری ہوں اور اُس کا عمل اس کے شریک کے لیے ہے‘‘۔
اس سلسلے میں جو مشہور احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جسے امام مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ قیامت کے دن تین آدمیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے۔ ان میں سے ایک مجاہد اور شہید ہوگا، دوسرا وہ ہوگا جس نے علم حاصل کر کے دوسروں کو تعلیم دی ہوگی اور وہ قرآن پڑھنے والا ہوگا۔ اور تیسرا وہ شخص ہوگا جس نے اپنا مال بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا ہوگا۔ مگر اللہ تعالیٰ، جو اُن کی نیتوں اور رازوں سے آگاہ ہے، سارے لوگوں کے سامنے ان کو جھٹلائے گا اور ان میں سے ہر ایک سے کہے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ تم نے جو کچھ کیا تھا وہ تو اس لیے کیا تھا کہ دنیا میں لوگ تمہاری تعریف کریں، اور تمہاری وہ تعریف ہو چکی ہے۔
انسان کی طرف سے اس طرح کی جعلسازی، عام طور پر بھی بدترین عمل اور شدید ترین جرم ہے۔ پھر جب اس طرح کی جعل سازی مخلوق کی طرف سے خالق پر ہو تو اس کا جرم اور زیادہ ناپسندیدہ اور گھنائونا بن جاتا ہے۔ یہ اس شخص کا عمل ہے جو لوگوں کو راضی کرنے کے لیے عمل کرتا ہے اور جھوٹ بنا کر لوگوں کو دکھاتا ہے کہ وہ لوگوں کے رب کو راضی کر رہا ہے۔ تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس دن شرمندہ اور ذلیل کرے جب دنیا کے سارے راز کھولے جائیں گے۔ پھر اسے اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ۔
دنیا کی محبت اور اس کی طلب
قلبی گناہِ کبیرہ میں سے ایک دنیا کی محبت اور اس کی طلب اور اسے آخرت پر مقدم کرنا ہے۔ یہ ہر غلطی کا سِرا ہوتا ہے۔ یہاں خطرے کی بات دنیا کا مالک ہونا نہیں ہے بلکہ خطرے کی بات اِسی کو منزل مقصود بنانا اور اِس کے مال و متاع اور زیب و زینت کا حریص ہونا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کہیں دنیا اور آخرت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو دنیا کو ترجیح دی جائے۔ یہی چیز دنیا اور آخرت دونوں میں ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔
آخرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی‘‘۔ (النازعات: ۳۷۔۳۹)
’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں، ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جوکچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے‘‘۔ (ہود: ۱۵۔۱۶)
’’جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے، اور جسے دنیا کی زندگی کے سوا کچھ مطلوب نہیں ہے، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ایسے لوگوں کا مَبلغِ علم بس یہی کچھ ہے‘‘۔ (النجم: ۲۹۔۳۰)
’’تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے، وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اِس سے بہتر اور زیادہ دیر باقی رہنے والا ہے‘‘۔ (القصص: ۶۰)
دنیا کے بارے میں اس حدیث میں آیا ہے جو امام احمد اور ابودائود نے حضرت ثوبانؓ سے روایت کی ہے۔ اس میں یہ ذکر ہے کہ امت کی ہلاکت کا راز کیا ہوگا، حالانکہ ان کی تعداد کم نہیں ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا: ’’دنیا کی محبت اور موت سے ڈرنا‘‘۔
مال، جاہ اور عہدے کی محبت
دنیا کی محبت مال و دولت، جاہ و جلال، شہرت اور مقام و مرتبہ کی محبت کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ پھر ان چیزوں کی حرص کی وجہ سے آدمی اپنی اقدار اور روایات سے بھی دستبرداری کا اعلان کرتا ہے۔ اس طرح اس کا دین بھی ضائع ہوتا ہے اور ایمان بھی۔ اسی کے بارے میں وہ حدیث وارد ہوئی ہے کہ: ’’دو بھوکے بھیڑیے بکریوں میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ ان کے لیے اتنے نقصان دہ نہیں ہیں جتنا کہ (دین کے لیے) یہ بات نقصان دہ ہے کہ آدمی مال اور مرتبہ کی حرص میں مبتلا ہو جائے‘‘۔ (احمد۔ ترمذی)
’’حرص‘‘ کی انسان کو ضرورت بھی ہے، مگر ایک معلوم حد کے اندر۔ اگر کسی کی حرص کی حد نہ ہو اور اس کی ہوائیں چلتی ہی رہیں تو نفس بے قابو ہو جاتا ہے اور وہ ضروری حدود سے آگے بڑھتا ہے اور پھر وہ بھی اسی طرح فساد کرتا ہے جیسا کہ دو بھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے درمیان میں چھوڑ دیا جائے۔ یہ فساد اس وجہ سے برپا ہوتا ہے کہ اس کی حرص، شرعی طور پر مذموم تکبر اور فساد کا تقاضا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے‘‘۔ (القصص:۸۳)
اسی طرح دنیا کی محبت اور اس کے چاہنے کا ایک مظہر، عہدوں اور مناصب کی حرص، امارت کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر جھپٹنا اور نمایاں ہونے میں رغبت رکھنا ہے۔
یہ وہی بات ہے جس سے نبیﷺ نے اپنی امت کو خبردار کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم عنقریب امارت کی حرص کرو گے، مگر یہ قیامت کے دن حسرت اور ندامت ثابت ہوگی۔ پس بہت اچھی دودھ پلانے والی ہے اور بہت بُری دودھ چھڑانے والی ہے‘‘۔ (بخاری۔ نسائی)
یہاں استعارۃُ میں امارت اور ولایت سے حاصل ہونے والے نفع کو حالتِ رضاع سے تشبیہ دی اور اس سے معزول ہونے یا مر جانے کی صورت میں محروم ہونے کو دودھ چھڑانے سے تشبیہ دی۔ امارت و ولایت حاصل کرنے کے بعد آدمی پر کچھ عرصے تک عارضی انعامات کی بارش ہوتی ہے۔ پھر جب وہ امارت سے محروم ہوتا ہے تو وہ نوازشات زائل ہو جاتی ہیں اور یہ اس پر حسرت کرتا رہ جاتا ہے اور اس کے عواقب کو بھگتتا ہے۔ چنانچہ کسی عاقل کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسی لذتوں کی حرص کرے جس کے بعد حسرت ہی حسرت ہو۔
حسرت و یاس
قلبی گناہِ کبیرہ میں سے ایک حسرت و یاس اور اللہ کی رحمت سے ناامیدی و مایوسی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان سے کہتا ہے: ’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔ (یوسف: ۸۷)
دوسری جگہ فرمایا: ’’ابراہیمؑ نے کہا: اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں‘‘۔ (الحجر: ۵۶)
مزید قسمیں
قلبی کبائر میں سے ایک، اللہ کی پکڑ سے بے پروا یا مطمئن ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔ (الاعراف: ۹۹)
ان میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ آدمی چاہے کہ مسلمان معاشرے میں فحاشی پھیلے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا او رآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں‘‘۔ (النور:۱۹)
یہ وہ بعض کبائر ہیں جو ہلاکت اور تباہی میں ڈالنے والے ہیں اور ان کا تعلق دل کی دنیا سے ہے، باطن اور اندرونی کیفیات سے ہے۔ یہ وہ دل کی بیماریاں ہیں جن سے اکثر لوگ غفلت کرتے ہیں اور اپنی زیادہ تر توجہ ظاہری اعمال کی طرف رکھتے ہیں۔ یہ باطنی گناہ ہیں جنہیں امام غزالیؒ نے المہلکات کہا ہے (ہلاک کر دینے والی برائیاں)۔ انہوں نے اپنی جامع اور مشہور کتاب احیاء علوم الدین کی تیسری چوتھائی کو انہی کے لیے خاص کیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی طرف اہلِ دین اور دعوت کے علم برداروں کو اُسی طرح اور اُسی قدر اہمیت اور توجہ دینی چاہیے جس طرح کی اہمیت شریعت نے دی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنے دل و دماغ کو ان کی طرف متوجہ رکھیں اور انہیں فہم و شعور، سمجھ بوجھ اور تعلیم و تربیت کا محور بنائیں۔
☼☼☼
Leave a Reply