
صغائر محرمات کے بعد مشتبہات کی باری آتی ہے۔ مشتبہات وہ ہوتی ہیں جن کا حکم اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا۔ وہ اس کے حلال یا حرام ہونے کے حوالے سے اشتباہ میں ہوتے ہیں۔ یہ ان محرمات کی طرح نہیں ہیں جن کی حرمت قطعی ہوتی ہے۔
جو شخص اہلِ اجتہاد میں سے ہو اور اس کا اجتہاد اسے کسی مشتبہ چیز کی اباحت یا اس کی حرمت کے بارے میں یکسو کر دے تو اسے اپنے اجتہاد پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کو چھوڑ کر دوسروں کے خیالات پر تکیہ کرے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے اجتہاد کے حوالے سے مکلف کرتا ہے، بشرطیکہ وہ اجتہاد کے اہل ہوں۔ پھر خواہ کسی مخصوص مسئلے میں ان کا اجتہاد غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اس صورت میں وہ معذور ہوں گے اور ان کو اپنے اجتہاد کا ایک اجر بھی ملے گا۔
اور جو شخص اہل تقلید میں سے ہو، اس کے لیے گنجائش ہے کہ وہ علما میں سے جس پر اعتماد کرتا ہے اس کی تقلید کرے۔ اگر اس کا دل اپنے مقتدا کے علم اور اس کے ایمان پر مطمئن ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ جس پر معاملہ مشتبہ ہو جائے اور اس کے سامنے حق کا پہلو غالب نہ ہو تو اس کے بارے میں اشتباہ کا حکم ہے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہوتا ہے کہ اپنے دین اور اپنی عزت کو بچانے کے لیے اس چیز سے اجتناب کرے۔ جیسا کہ متفق علیہ حدیث میں آیا ہے: ’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو مشتبہات سے بچا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت بچالی۔ اور جو مشتبہات میں پڑ گیا وہ گویا حرام میں لت پت ہو گیا، اس چرواہے کی طرح جو اپنی بکریاں باڑ کے قریب قریب چَراتا ہے، اس کے بارے میں ہر وقت یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس کی بکریاں باڑ میں گھس جائیں گی‘‘۔ (بخاری، مسلم)
ایک اَن پڑھ آدمی کو اس طرح کے مواقع پر کسی بااعتماد عالم سے پوچھنا چاہیے تاکہ اسے معلوم ہو سکے کہ اس کے مسئلے کا حل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اہلِ ذکر سے پوچھو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘۔ (النحل: ۴۳)
اور حدیث میں ہے کہ ’’اگر ان کو معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کسی سے پوچھا کیوں نہیں؟ لاعلم کی بیماری کا علاج یہی ہے کہ وہ پوچھے‘‘۔ (ابودائود)
مشتبہات کے بارے میں لوگوں کے درمیان بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ اختلاف ایک طرف ان کے نقطہ ہائے نظر کے حوالے سے ہے اور دوسری طرف ان کی طبیعتوں کے اختلاف کی وجہ سے اور تیسری جانب تقویٰ وغیرہ کے بارے میں ان میں نقطۂ نظر کے اختلاف کی وجہ سے۔
بعض لوگ وسوسے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جو انتہائی معمولی مناسبت ہونے کے باوجود مشتبہات کی تحقیق کرتے ہیں اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کو معلوم کرکے رہیں گے۔ ان کی مثال وہ لوگ ہیں جو مغربی ممالک میں کسی معمولی سے معمولی شک کی وجہ سے گوشت کے حلال ہونے میں شک کرتے ہیں۔ وہ بعید تاویلات کو قریب لاکر رکھتے ہیں اور جو کام تقریباً ناممکن ہو، اسے ایک حقیقت واقعی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ بار بار پوچھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اپنے لیے مسئلہ مشکل بنا دیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آسانی رکھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں‘‘۔ (المائدہ: ۱۰۱)
کسی مسلمان سے اس قدر گہرائی میں جانے اور اتنی نکتہ چینی کا تقاضا نہیں ہے۔
اور اس حدیث میں جو بخاری نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے، آیا ہے کہ نبیﷺ سے پوچھا گیا:’’کوئی قوم ہمارے پاس گوشت لے کر آتی ہے مگر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس پر اللہ کا نام لیا ہوگا یا نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اس پر اللہ کا نام لو اور اسے کھائو‘‘۔
امام ابن حزمؒ نے اس حدیث سے ایک قاعدہ اخذ کیا ہے اور وہ یہ کہ مَا غَابَ عَنَّا لَانَسْأَلُ عَنْہُ۔ جو چیز ہم سے چھپی ہے، ہم اس کے بارے میں نہیں پوچھتے۔
ایک روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کسی راستے سے گزر رہے تھے۔ ان پر کسی پرنالے سے پانی گر گیا۔ ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ اس نے پرنالے والے سے پوچھا: بھائی! یہ پانی صاف تھا یا نہیں؟ حضرت عمرؓ نے فوراً مداخلت کرتے ہوئے پرنالے والے سے فرمایا: بھائی! آپ ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہ بتائیں، ہمیں تکلف سے روکا گیا ہے۔
اور نبیﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ آپﷺ سے ایک ایسے آدمی کی شکایت ہوئی جسے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ وہ نماز میں یا مسجد میں کوئی چیز محسوس کرتا ہے۔ (یعنی اسے خیال آتا ہے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا) آپﷺ نے فرمایا: اس کو (اپنی نماز یا مسجد سے) نہیں جانا چاہیے، جب تک کہ وہ کوئی آواز نہ سنے یا کوئی بُو محسوس نہ کرے۔
اسی سے علما نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ، یقین کو شک زائل نہیں کرسکتا۔ اور یہ کہ، اصل پر عمل کیا جائے اور شک کو مسترد کیا جائے۔ یہ قاعدہ وسوسے کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے ایک یہودی کی دعوت قبول کی اور اس کے ہاں کھانا کھایا اور اس سے یہ نہ پوچھا کہ یہ حلال ہے یا حرام اور اس کے برتن صاف ہیں یا نہیں؟
آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرامؓ کے پاس وہ کپڑے اور برتن لائے جاتے تھے جنہیں کفار نے تیار کیا ہوتا تھا اور آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ انہیں بے تکلفی سے استعمال کیا کرتے تھے۔ جہاد کے موقع پر بھی مختلف قسم کے برتن اور کپڑے ہاتھ آتے تھے۔ آپﷺ انہیں تقسیم کرتے تھے اور انہیں استعمال بھی کرتے تھے۔ بلکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آپﷺ نے مشرکین کے چھوڑے ہوئے مشکیزے سے منہ لگا کر پانی پیا۔ (بخاری)
اس جواز کے بالمقابل ایسے لوگ بھی ہیں جو ان چیزوں میں سخت رائے رکھتے ہیں۔ ان کی دلیل نبیﷺ کی وہ صحیح حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ آپﷺ سے اہل کتاب کے برتنوں کے بارے میں پوچھا گیا، جو سور کھاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس کے علاوہ اور برتن نہ ہوں تو ان کو پانی سے دھو لو اور پھر ان میں کھائو‘‘۔ (متفق علیہ، بخاری، مسلم)
امام احمدؒ نے مشتبہ کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ یہ حلال اور حرام کے درمیان ایک تیسرا درجہ ہے۔ ان کی تفسیر میں حرام سے مراد مطلق حرام اور حلال سے مراد مطلق حلال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو اس (تیسرے درجے) سے بچا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا۔ کبھی وہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ وہ چیز ہے جس میں حلال اور حرام خلط ملط ہو گئے ہوں۔
علامہ ابن رجبؒ فرماتے ہیں کہ اس سے اُس شخص کے معاملے میں استدلال کیا جاتا ہے جس کے مال میں حرام اور حلال دونوں خلط ملط ہوں۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ اس سے اجتناب ضروری ہے، سوائے اس کے کہ چیز بہت تھوڑی ہو اور قابلِ ذکر نہ ہو۔ ہمارے اصحاب کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کم یا زیادہ دونوں صورتوں میں کیا یہ مکروہ ہے یا حرام۔
اگر کسی کا زیادہ مال حلال ہو تو اس کے ساتھ معاملہ بھی درست ہے اور اس کے مال میں سے کھانا بھی ٹھیک ہے۔ حارث نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حکمران کی طرف سے ملنے والے انعام کے بارے میں فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ تمہیں جو حلال دے رہا ہے وہ اس کے دیے ہوئے حرام سے زیادہ ہے۔ نبیﷺ اور آپﷺ کے صحابہ مشرکین اور اہل کتاب سے لین دین کرتے تھے، باوجودیکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ تمام محرمات سے اجتناب نہیں کرتے۔
اور اگر معاملہ مشتبہ ہو جائے تو وہ مشتبہات میں سے ہے اور اس کا چھوڑنا تقویٰ کا تقاضا ہے۔ سفیانؒ کہتے ہیں کہ مجھے اس سے کوئی رغبت نہیں، اسے اختیار کرنے کے مقابلے میں مجھے اس کا ترک زیادہ مرغوب ہے۔
زہریؒ اور مکحولؒ کہتے ہیں کہ اس سے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جب تک کہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ بعینہٖ حرام ہے۔ اگر کسی کے مال میں حرام بعینہٖ معلوم نہ ہو، مگر اتنا معلوم ہو کہ اس میں شبہ ہے تو اس کے ہاں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی تصریح امام احمد نے اس روایت میں کی ہے جو انہوں نے حنبل سے نقل کی ہے۔
اسحق بن راہویہ کی رائے وہی ہے جو ابن مسعودؓ، سلمان وغیرہ سے منقول ہے اور وہ رخصت کی رائے ہے۔ اور سود یا جوئے کے بارے میں جب کسی کے حق میں فیصلہ ہو جائے تو اس کے مال میں سے لینا مباح ہے۔ اس مسئلے میں انہوں نے حسنؒ اور ابن سیرینؒ کی رائے کو ترجیح دی ہے۔یہ رائے ان سے ابن منصور نے نقل کی ہے۔
امام احمدؒ اس مال کے بارے میں، جس کا حلال اور حرام ہونا مشتبہ ہو، کہتے ہیں کہ اگر وہ مال کثیر ہو تو اس میں سے حرام کے برابر نکالا جائے اور باقی میں تصرف کیا جائے۔ اگر تھوڑا مال ہو تو سارے کو چھوڑ دے۔ اس لیے کہ اگر مال قلیل ہو اور اس میں سے کوئی چیز لے لے، تو پھر بھی حرام سے بچنا بعید ہے۔ جبکہ زیادہ مال ہو تو اس میں حرام سے آسانی کے ساتھ بچا جاسکتا ہے۔ ہمارے اصحاب میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے اسے پرہیزگاری پر محمول کیا ہے نہ کہ تحریم پر۔ انہوں نے قلیل و کثیر دونوں سے حرام کے برابر نکال کر باقی میں تصرف کو مباح قرار دیا ہے۔ یہ حنفیہ وغیرہ کا قول ہے۔ اہل تقویٰ میں سے بھی بعض لوگوں نے اس قول کو قبول کیا ہے جن میں سے ایک بشرالحانی ہیں۔
سَلف میں سے کچھ لوگوں نے ایسے شخص کے ہاں کھانے کی بھی اجازت دی ہے جسے یہ تو معلوم ہو کہ اس کے مال میں حرام ہے مگر یہ معلوم نہ ہو کہ جو کچھ کھلا رہا ہے وہی حرام ہے۔ جیسا کہ مکحول اور زہری کے قول میں گزر چکا ہے۔ اسی طرح کا قول فضیل بن عیاضؒ سے بھی منقول ہے۔
اس کے بارے میں سلف سے کئی آثار منقول ہیں۔ حضرت ابن مسعودؓ سے صحت کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: ایک آدمی کا پڑوسی ہے جو کھلم کھلا سُود کھاتا ہے اور حرام مال لینے سے ہچکچاتا نہیں ہے، وہ مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلاتا ہے تو میں کیا کروں؟ انہوں نے جواب دیا: اس کی دعوت قبول کرو۔ یہ تمہارے لیے جائز ہے اور گناہ اسی کے ذمے ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ سائل نے کہا: مجھے اس کے مال میں حرام اور خبیث مال کے سوا کوئی چیز معلوم نہیں ہے، تو انہوں نے کہا: اس کی دعوت قبول کرو۔ امام احمد نے اسے ابن مسعودؓ سے صحیح قرار دیا ہے مگر انہوں نے اس قول کے ساتھ اُس روایت کے ذریعے معارضہ کیا ہے جو انہی سے منقول ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے کہا: گناہ دلوں پر اثر کرتا ہے یا ان پر قابو پالیتا ہے۔(طبرانی)
بہرحال وہ امور جن میں اشتباہ ہو اور ان کے بارے میں بہت سے لوگوں پر یہ بات واضح نہ ہو کہ یہ حلال ہیں یا حرام، جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا: بعض اوقات ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کے سامنے ان کے بارے میں واضح ہو جاتا ہے کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام، کیوں کہ اس کے پاس ان چیزوں کے بارے میں زیادہ علم ہوتا ہے۔ نبیﷺ کا ارشاد بھی اس کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ان مشتبہات کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو ان کے بارے میں جانتے ہوں۔ جو لوگ نہیں جانتے ان کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ لوگ جو ان کے اشتباہ کی وجہ سے ان میں توقف کرتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو ان کے بارے میں مشتبہ ہونے کا گمان نہیں کرتے۔ رسول اللہﷺ کا قول اس پر دال ہے کہ ان کے علاوہ کچھ لوگ ہیں جو ان کو جانتے ہیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں حلال یا حرام ہونے کے لحاظ سے وہ جو بھی ہوں مگر کوئی شخص ان کو اپنے طور پر (صحیح یا غلط) جانتا ہے۔ یہ اس بات کی سب سے واضح دلیل ہے کہ وہ مسائل جو حلال و حرام کے درمیان مشتبہ ہیں اور اس وجہ سے ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ان میں عنداللہ حق پر ایک ہوتا ہے۔ اور دوسرے لوگ اس کا علم نہیں رکھتے بایں معنی کہ وہ عنداللہ اس کے حقیقی مراد تک رسائی نہیں پاسکے۔ اگرچہ اس کے بارے میں اس کا جو عقیدہ ہے وہ اس کے نزدیک کسی دلیل پر مبنی ہے مگر وہ حقیقت میں دلیل نہیں بلکہ شبہ ہے۔ اس طرح کا آدمی اپنے اجتہاد کی وجہ سے اللہ کے ہاں مأ جور ہوگا اور اس کی غلطی قابلِ معافی ہوگی کیونکہ وہ اسے غلطی نہیں سمجھ رہا تھا۔
رسول اللہﷺ کے اس قول نے کہ (جو مشتبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو مشتبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا) ان امور کے بارے میں لوگوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا۔ اور یہ قسمیں ان لوگوں کے لحاظ سے ہیں جس کے لیے اشتباہ پیدا ہوگیا ہو۔ اور یہ وہی ہے جو نہ جانتا ہو۔
جو شخص اس کا علم رکھتا ہے اور وہ اس چیز کی پیروی کرتا ہے جس کی طرف اس کے علم نے اس کی رہنمائی کی ہوتی ہے تو یہ تیسری قسم ہے جسے حدیث میں اس لیے ذکر نہیں کیا گیا کہ اس کا حکم ظاہر تھا۔ یہ قسم تینوں میں سے افضل قسم ہے۔ کیونکہ اس نے ایک مشتبہ مسئلے میں اللہ کے متعین کردہ حکم کو جان لیا اور اس کی پیروی کی۔
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم نہ ہو ان کی دو قسمیں ہیں:
ایک وہ جو اِن مشتبہات سے بچتے ہیں، اس لیے کہ یہ مشتبہات ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ اِسْتَبْرَأَ کے معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے دین اور عزت کے لیے ہر نقص اور عیب سے برأت طلب کی۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عزت کے لیے برأت طلب کرنا قابلِ تعریف ہے۔ اسی وجہ سے یہ قول وارد ہے کہ جس چیز سے آدمی نے اپنی عزت بچائی وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔
دوسرے وہ جو اشتباہ کے باوجود اِن شبہات میں پڑتے ہیں۔ مگر جو آدمی کوئی ایسا کام کرتا ہے جس میں دوسرے لوگوں کو شبہ نظر آرہا ہو، اور وہ اسے اس وجہ سے کرتا ہے کہ اس کے خیال میں یہ کام حقیقتاً حلال ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حرج نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ اس کے بارے میں اس وجہ سے ہچکچاتا ہے کہ لوگ اس پر اعتراض کریں گے تو اس کا چھوڑنا اس کے لیے عزت کی حفاظت کے طور پر بہتر ہوگا۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسا کہ نبیﷺ کو کسی آدمی نے حضرت صفیہؓ کے ساتھ کھڑے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا: یہ تمہاری ماں صفیہ بنت حُیّی ہے۔ (بخاری، مسلم)
اور حضرت انسؓ ایک دن جمعہ کے دن نکلے تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ کر جا رہے ہیں۔ ان کو شرم آئی اور ایک ایسی جگہ میں گھس گئے جہاں کوئی ان کو نہ دیکھ سکے۔ پھر انہوں نے کہا: جو لوگوں سے حیا نہیں کرتے وہ اللہ سے بھی حیا نہیں کرتے۔
لیکن اگر کسی نے اس اعتقاد کے ساتھ اس کام کو اختیار کیا کہ یہ حلال ہے، کسی جائز اجتہاد کی وجہ سے، یا جائز تقلید کی وجہ سے، مگر وہ اپنے اس اجتہاد میں غلطی پر تھا تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو اس سے پہلے بیان ہوا۔ اگر اس کا اجتہاد ضعیف ہو یا جائز نہ ہو اور اس کو صرف خواہش نے اس کام پر آمادہ کیا ہو تو اس کا حکم وہ ہوگا جو اشتباہ کے باوجود اس کو اپناتا ہے۔
وہ شخص جو شبہات کے باوجود ان کا ارتکاب کرتا ہے، اس کے بارے میں نبیﷺ نے خبر دی ہے کہ وہ حرام میں پڑ گیا۔ پھر اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔
ایک یہ کہ اس کا مشتبہ چیز کو اپنانا۔۔ باوجودیکہ وہ جانتا ہو کہ یہ مشتبہ ہے۔۔ تدریج اور تسامح کی وجہ سے اس بات کا ذریعہ بن رہا ہو کہ وہ ایک ایسے حرام کا ارتکاب کرے گا جس کی حرمت اس کے نزدیک بھی یقینی ہو۔ جیسا کہ اس حدیث کی صحیحین ہی میں مذکور دوسری روایت میں ذکر ہے: ’’یعنی جو مشکوک گناہ پر جری ہوتا ہے بعید نہیں کہ وہ اس گناہ میں بھی پڑ جائے جو کھلا گناہ ہو‘‘۔ (بخاری)
دوسرے معنی یہ ہیں کہ جو شخص ایسے کام کا اقدام کرتا ہے جو اس کے نزدیک مشتبہ ہے۔ یعنی اسے نہیں معلوم کہ یہ حلال ہے یا حرام ہے، تو یہ قوی امکان ہے کہ وہ حقیقت میں حرام ہی ہو۔ اس طرح وہ حرام کا ارتکاب کرلے گا اور اسے یہ بھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ یہ حرام ہے یا حلال۔
اللہ تعالیٰ نے ان محرمات کی حفاظت فرمائی ہے اور اپنے بندوں کو ان کے قریب جانے سے روکا ہے۔ اس مقصد کے لیے کچھ حدود بھی مقرر کی ہیں۔ اس نے ایسے شخص کے بارے میں، جو اپنی بکریوں کو باڑ کے اردگرد اور اس کے قریب چَراتا ہے، یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ اس کی بکریاں باڑ میں گھس جائیں اور اس میں چَر جائیں۔ اسی طرح جو شخص حلال سے تجاوز کرتا ہے اور مشتبہات میں پڑتا ہے تو وہ حرام کے انتہائی قریب ہو جاتا ہے۔ اس کی حالت کے ساتھ یہی مناسب ہوتا ہے کہ وہ خالص حرام میں لت پت ہو جائے اور اس میں گر پڑے۔ اسی میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ محرمات سے فاصلے پر رہنا چاہیے اور اپنے اور گناہ کے درمیان کوئی نہ کوئی رکاوٹ رکھنا چاہیے۔
امام ترمذی اور ابن ماجہ نے عبداللہ بن یزید کی روایت سے نقل کیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی متقین کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ان چیزوں کو نہ چھوڑے جن میں کوئی حرج نہیں ہے، ان چیزوں سے محتاط رہنے کے لیے جن میں کوئی حرج ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، ترمذی)
حضرت ابوالدرداءؓ فرماتے ہیں: پورا تقویٰ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، یہاں تک کہ ذرّہ برابر چیز کے بارے میں بھی اس کا خوف رکھے اور بعض ایسی چیزوں کو بھی حرام کا خدشہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دے جن کے بارے میں اس کا خیال ہوتا ہے کہ یہ جائز ہیں اور اس طرح وہ اپنے اور گناہ کے درمیان میں ایک آڑ پیدا کرے۔
حضرت حسن کہتے ہیں: متقین اس وقت تک تقویٰ پر قائم رہیں گے جب تک کہ وہ بہت سے حلال کو صرف اس وجہ سے چھوڑیں گے کہ وہ حرام میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
امام ثوری کہتے ہیں: متقیوں کا نام متقی اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ ان چیزوں سے بھی بچتے ہیں جن سے بچا نہیں جاسکتا۔
حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ میں اپنے اور حرام چیزوں کے درمیان کسی حلال کی ایک آڑ رکھوں جسے میں پھاڑ نہ دوں۔
اور میمون بن مہران کہتے ہیں: کوئی آدمی کے حلال سے محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک کہ وہ اپنے اور حرام کے درمیان حلال کی کوئی آڑ نہ رکھے۔
حضرت سفیان بن عینیہؓ فرماتے ہیں: ایک آدمی ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، یہاں تک کہ اپنے اور حرام کے درمیان حلال کی ایک آڑ رکھے، یہاں تک کہ وہ گناہ اور اس کے مشابہ چیزوں کو بھی چھوڑ دے۔
یہاں ہر انسان کو اپنے مرتبے کے حدود میں رہتے ہوئے کوئی طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر مشتبہات میں پڑ جانے پر کسی ناپسندیدگی کا اظہار تک نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ محرمات میں ڈوبے ہوتے ہیں بلکہ کبھی تو۔۔ اَلعِیَادُ بِاللّٰہِ۔۔ وہ کبائر بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مشتبہ کو مشتبہ کے درجے میں رکھا جائے اور اسے صریحی اور قطعی حرام کے درجے تک نہ پہنچایا جائے۔ سب سے خطرناک بات یہی ہے کہ احکامِ شرعیہ میں مراتب کی حدود کو ختم کیا جائے، کیونکہ شارع نے ان کے نتائج و آثار کے درمیان بھی فرق رکھا ہے۔
مکروہات
منہیات کے سب سے ادنیٰ درجے میں مکروہات کی باری آتی ہے۔ ان سے مراد مکروہ تنزیہی ہیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ مکروہات میں بعض مکروہ تحریمی ہیں اور بعض تنزیہی۔ مکروہ تحریمی اس کو کہتے ہیں جو حرام کے زیادہ قریب ہو اور مکروہ تنزیہی اس کو کہتے ہیں جو حلال کے زیادہ قریب ہو۔ اور جب مکروہ کا لفظ مطلقاً بولا جاتا ہے تو اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہوتی ہے۔ اس کی کئی معروف مثالیں ہیں۔ جو شخص امام نوویؒ کی ریاض الصالحین جیسی کتابیں دیکھے گا ان کو مکروہات کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ جیسے ٹیک لگا کر کھانا، مشکیزے سے منہ لگا کر پینا، کوئی چیز پیتے ہوئے اس میں پھونک مارنا، دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا، بغیر عذر کے دائیں ہاتھ سے عضو کو چھونا، ایک جوتے میں چلنا، مسجد میں لڑنا اور آواز اونچی کرنا، جمعہ کے دن امام کے خطبے کے دوران مسجد میں احتبا کرنا (گھٹنوں کو کھڑا کرکے کسی کپڑے یا اپنے ہاتھوں کو ان کے گرد لپیٹ کر بیٹھنا، عرب اکثر اسی طرح بیٹھا کرتے تھے)، بخار کو گالیاں دینا، مرغ کو گالی دینا، منہ پھاڑ کر باتیں کرنااور دعا میں یہ کہنا کہ اے اللہ! اگر تُو چاہے تو مجھے بخش دے، یہ کہنا کہ مَاشَائَ اللّٰہُ وَشَائَ فُلانٌ، نمازِ عشاء کے بعد گفتگو کے لیے جاگتے رہنا، کھانا حاضر ہونے کے وقت نماز کے لیے اٹھنا، جمعہ کے دن کو روزے کے لیے اور اس کی رات کو قیام کے لیے مخصوص کرنا، اور ریحان کو بِلا عذر لوٹا دینا وغیرہ۔
مکروہ جیسا کہ علما فرماتے ہیں وہ ہیں جن کے تَرک کرنے میں اَجر ہوتا ہے اور ان کے کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس شخص پر کوئی سزا لازم نہیں ہوتی جس نے مکروہ تنزیہی کا ارتکاب کیا ہو۔ صرف اس پر تھوڑی سی ناپسندیدگی ظاہر کی جائے گی، بشرطیکہ وہ ایسے لوگوں میں ہو جس پر ناپسندیدگی کا اظہار کوئی معنی رکھتا ہو، خاص طور پر اس صورت میں جب وہ اس مکروہ کا ارتکاب بار بار کرے۔ مگر ایسے آدمی پر محض انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ اس پر انکار میں سختی کی جائے۔
اسی طرح یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ لوگ مکروہات کا مقابلہ کرنے میں لگے رہیں، خواہ وہ خود بھی صریحی گناہوں میںمبتلاہوں۔
☼☼☼
اسلام علیکم 9 اور 10 محرم کو لوگ کھانا تقسیم کرتے بیں اب ہمیں معلوم ںہیں کے اللہ کے نام کا ہے یا غیر اللہ کے نام کا تو کیا یے بھی شبہے والی چیز کے حکم میں ھو گا اسکو بغیر سوچے سمجھے کھا لیں یا تحقیق کریں؟۔