جن علمائے کرام نے ترجیحات کے مسئلے پر توجہ دی اور معاشرے کو ان میں کوتاہی کرنے پر متنبہ کیا ان میں سے ایک امام غزالیؒ تھے۔ یہ چیز ان کی انسائیکلوپیڈیا احیاء علوم الدین میں اچھی طرح سامنے آتی ہے۔ اسے قاری، پوری کتاب میں اور اس کی پوری چالیس فصلوں میں محسوس کرتا ہے، مگر اس کی زیادہ وضاحت اس کتاب کی فصل ذم الغرور میں ہوتی ہے۔ یہ المہلکات والے حصے کی دسویں فصل ہے۔
اس میں انہوں نے ایسے لوگوں کی کئی قسمیں ذکر کی ہیں جو غرور کی وجہ سے ہلاک ہو گئے، اور انہیں اس کا اندازہ ہی نہ ہوسکا۔
اس میں انہوں نے بعض اہل علم کا ذکر بھی کیا ہے۔ بعض عبادت گزار، بعض صوفیا، مال و دولت کے مالکان اور دوسرے عام لوگوں کے حوالے سے لکھا ہے۔ پھر ہر صنف میں غرور میں مبتلا لوگوں کے مختلف فرقے ذکر کیے ہیں اور ان کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ کس طرح نفس کے دھوکے میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے شیطانوں نے کیسے ان کے لیے برے اعمال مزین کردیے، جنہیں انہوں نے اچھا محسوس کیا۔ اس مقام پر انہوں نے لوگوں کی صفت بیان کرنے اور ان کی تصویر کشی کرنے میں بہت عمدگی اپنائی ہے اور اس کے ساتھ ضروری علاج کا مشورہ بھی دیا ہے۔
یہاں ہم ان کے مضبوط، گہری اور ذی بصیرت نقد کی صرف دو مثالوں پر اکتفا کریں گے۔ اسی سے ہم ان کی فقاہت فی الدین، مہارت فی الدنیا اور لوگوں کی ظاہری و باطنی اصلاح کے لیے ان کے دل میں موجزن جذبے کا اندازہ لگا سکیں گے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ ترجیحات کے مسئلے کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔
اعمال کی شرعی ترتیب
پہلی مثال اعمال کی شرعی ترتیب میں خلل کے حوالے سے ہے۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو دین دار اور عبادت گزار تھے اور نیک اعمال کرنے والے تھے، مگر ان کو شیطان نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ ان کے بارے میں وہ فرماتے ہیں:
ان میں ایک فرقہ وہ ہے جنہوں نے فرائض کو غیر اہم قرار دیا ہے اور فضائل و نوافل میں مشغول ہوگئے ہیں۔ بعض اوقات وہ فضائل میں اتنے ڈوب جاتے ہیں کہ سرکشی اور اسراف تک پہنچتے ہیں۔ جیسے کسی شخص پر وضو میں وسوسہ غالب ہوتا ہے اور وہ اس میں بہت مبالغہ کرتا ہے۔ وہ اس پانی پر بھی راضی نہیں ہوتا جس کی طہارت کا شرعی فتویٰ دیا گیا ہو۔ وہ طہارت میں بعید احتمالات کو قریب سمجھتا ہے۔ لیکن اگر حرام کھانے کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ قریب احتمالات کو بعید تصور کرتا ہے! بلکہ کبھی تو حرام محض کو بھی کھا لیتا ہے۔ اگر پانی اور طعام کے بارے میں اس احتیاط کو الٹ دیا جاتا تو یہ بات صحابہ کی سیرت کے زیادہ قریب ہوتی۔ حضرت عمرؓ نے ایک بار نصرانی لوٹے سے وضو کیا، حالانکہ نجاست کا احتمال ظاہر تھا۔ اس کے ساتھ وہ بعض حلال چیزیں بھی چھوڑ دیتے تھے، اس خوف سے کہ کہیں حرام میں نہ پڑ جائیں۔ (کتاب: الرسول والعلم، ص ۲۰۔۲۳)
ایک اور فرقہ ہے جو نوافل کی بڑی حرص رکھتا ہے اور ان کو فرائض پر حاوی کرنا کوئی بڑی بات نہیں معلوم ہوتی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے کوئی شخص نماز اشراق سے بہت خوش ہوتا ہے، تہجد بھی پڑھتا ہے اور اس طرح کے دوسرے نوافل بھی ادا کرتا ہے، مگر انہیں فرض نماز میں کوئی لذت محسوس نہیں ہوتی۔ اسے اول وقت پر ادا کرنے میں اس کی حرص اتنی شدید نہیں ہوتی۔ وہ اس موقع پر رسول اللہﷺ کا وہ قول بھول جاتا ہے جو آپﷺ اپنے رب تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں: ’’کوئی عبادت گزار میرے قریب ہونے کے لیے جو طریقے استعمال کرتا ہے، ان میں میرے مقرر کردہ فرائض سے زیادہ کوئی چیز کارگر نہیں ہے۔ نیک اعمال میں ترتیب کو ترک کرنا بھی شرور (یعنی معصیت) کی قبیل سے ہے‘‘۔(بخاری)
بلکہ بعض اوقات ایک انسان پر دو فرائض لازم ہو جاتے ہیں جن میں سے ایک فوت ہوتا ہے اور دوسرا فوت نہیں ہوتا، یا اس کے سامنے دو فضائل ہوتے ہیں جن میں سے ایک کا وقت مختصر ہوتا ہے اور دوسرے کے وقت میں وسعت ہوتی ہے، اگر اس نے ان میں ترتیب کا خیال نہ رکھا تو وہ گھاٹے میں رہے گا۔
اس کی مثالیں گنتی سے باہر ہیں، کیونکہ معصیت بھی ظاہر ہے اور طاعت بھی ظاہر ہے۔ جس چیز میں خفا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ان میں سے کس کو کس پر مقدم کیا جائے۔ جیسے سارے فرائض کو نوافل پر مقدم کرنا، فرائضِ عین کو فرائضِ کفایہ پر مقدم کرنا۔ اور پھر ایسے فرض کفایہ کو مقدم کرنا جس کا کسی اور بھلائی سے بھی تعلق ہو، اس فرضِ کفایہ پر جس کا کسی اور نیکی سے تعلق نہ ہو۔ اہم تر فرضِ عین کو عمومی فرض عین پر مقدم کرنا۔ ان فرائض کو مقدم کرنا جو فوت ہوتے ہیں، ان فرائض پر جو فوت نہیں ہوتے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے والدہ کی حاجت کو والد کی حاجت پر مقدم کیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ میں کس کے ساتھ بھلائی کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ سوال کیا گیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ پھر سوال کیا گیا: اس کے بعد کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ چوتھی بار سوال ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: اپنے باپ کے ساتھ۔ اس کے بعد جب ایک بار پھر سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بعد جو زیادہ قریب ہو، اس کے ساتھ زیادہ احسان کرو‘‘۔ (ترمذی۔ حاکم)
چنانچہ ضروری ہے کہ جو رشتہ دار زیادہ قریب ہوں، پہلے ان کی صلہ رحمی کی جائے۔ اگر رشتے میں سب برابر ہوں تو پھر جس کو صلہ رحمی کی زیادہ ضرورت ہو، ان کو مقدم کیا جائے اور حاجت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر ان کو مقدم رکھے جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہوں۔
اسی طرح جس کا مال اتنا نہیں ہے کہ اس سے والدین کا حق بھی ادا کرے اور حج بھی کرے، تو اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ وہ حج کرتا ہے، مگر یہ شخص بھی دھوکے میں مبتلا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ والدین کے حق کو حج پر مقدم کیا جائے۔ یہ اہم تر فرض کے کم اہم فرض پر مقدم کرنے کے قبیل سے ہے۔
اسی طرح ایک آدمی کا کسی سے وعدہ ہو اور اس دوران جمعہ کا وقت ہو جائے تو اگرچہ وعدہ پورا کرنا فی نفسہٖ نیک کام ہے، مگر اس سے جمعہ فوت ہوتا ہے۔ اس صورت میں وعدے کو وفا کرنے کے لیے جمعے کو چھوڑ دینا گناہ ہوگا۔
اسی طرح بعض اوقات آدمی کے کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے والدین اور گھر والوں پر سختی کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نجاست بھی بری چیز ہے اور والدین کی ایذارسانی بھی، مگر ان کی ایذارسانی نجاست سے زیادہ بُری چیز ہے۔
اس طرح کی ممنوع اور مطلوب اعمال کے درمیان تقابل کی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں گنتی نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب میں جس نے ترتیب کا خیال نہیں رکھا تو وہ دھوکے میں مبتلا ہے اور یہ دھوکا زیادہ مخفی ہے۔ کیونکہ اس میں ایک آدمی کسی نیک کام کے بارے میں دھوکے میں ہوتا ہے، مگر اسے اس کی سمجھ نہیں آتی کہ میری نیکی گناہ میں بدل چکی ہے، کیوں کہ میں نے اس کی وجہ سے ایک ایسی نیکی چھوڑ دی ہے جو اس سے زیادہ اہم تھی۔
یہ ہے وہ بات جسے عظیم فقیہ امام غزالیؒ نے بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کے داعی اس کی سمجھ اور فہم کے بہت زیادہ محتاج ہیں۔ میں کچھ عرصے سے اکثر اوقات انقلابی نوجوانوں اور دینی جماعتوں کو اس چیز کی دعوت دیتا آیا ہوں جسے میں فقہ مراتب الأعمال کی اصطلاح سے یاد کرتا ہوں۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ وہ ہر عمل کو اس کی شرعی قدر و قیمت عطا کریں، اور مامورات یا منہیات کی سیڑھی میں اس کو وہی مقام دیں جو اس کا حقیقی مقام ہوتا ہے۔ میں نے اس سے پہلے امام غزالیؒ کے ان افکار کو اتنی گہرائی سے نہیں پڑھا تھا جو انہوں نے یہاں اس مسئلے میں پیش کی ہیں اور ان کا خلاصہ ان صاف الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ ’’بھلائیوں کے درمیان ترتیب کو ترک کرنا شرور کی قبیل سے ہے‘‘۔
ان کے کلام سے مزید مثالیں بھی سامنے آجائیں گی۔
بے محل انفاق
دوسری مثال بعض مالدار لوگوں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ان میں جو لوگ دھوکے میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے کئی فرقے ہیں۔ ان میں سے ایک فرقہ مساجد اور مدارس اور مسافر خانوں کی تعمیر کا بڑا شوقین ہوتا ہے جو سارے لوگوں کو نظر آتے ہیں اور جن پر ان کے نام تختیوں پر کندہ کرکے لگائے جاتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے ان کا ذکر دائمی ہوجاتا ہے اور اس کا اثر موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ بخشش کے مستحق ہو جاتے ہیں مگر اس سلسلے میں وہ دو طرح سے دھوکے میں مبتلا ہیں۔
ایک یہ کہ انہوں نے یہ مال ظلم، لوٹ کھسوٹ، رشوت اور دوسرے حرام طریقوں سے کمایا ہوتا ہے، چنانچہ انہوں نے یہ مال کمانے میں بھی اللہ کے غضب کو دعوت دی ہوتی ہے اور اس کو خرچ کرنے میں بھی۔ ان پر لازم تھا کہ اس طرح کا مال پہلے تو نہ کماتے، مگر اس کے کمانے میں اللہ کی نافرمانی کرنے کے بعد ان پر توبہ اور اللہ کی طرف رجوع لازم تھا۔ اور اس مال کو بعینہٖ اپنے حقیقی مالکوں کے سپرد کرنا لازمی تھا یا اگر بعینہٖ ادا نہ کر سکتے تو اس کی جگہ اس کا بدل دینا چاہیے تھا۔ مالکوں کو واپس کرنے سے عاجز ہونے کی صورت میں ان کے وارثوں کو لوٹانا تھا اور ان کے وارث بھی نہ ہوتے تو پھر ان اموال کو اہم تر مصالح کے لیے خرچ کرنا ضروری تھا۔ اور اکثر اوقات اہم تر مصلحت یہ ہوتی ہے کہ اسے غریبوں میں تقسیم کیا جائے۔ مگر یہ لوگ یہ کام نہیں کرتے۔ انہیں خوف ہے کہ یہ معاملہ لوگوں کے سامنے آئے گا۔ لہٰذا وہ اینٹوں اور پتھروں کی عمارتیں بناتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد ریاکاری، لوگوں کی طرف سے تعریف و توصیف یا ان کا باقی رہنا ہوتا ہے۔ اور باقی رہنا بھی اس لیے نہیں کہ اس سے خیر کی اشاعت ہو، بلکہ اس لیے کہ اس سے ان کا نام دنیا میں زندہ رہے۔
دوسری یہ کہ وہ اپنے اوپر اخلاص کا گمان کرتے ہیں اور ان تعمیرات سے ان کا مقصود بھلائی کرنا ہوتا ہے، مگر ان میں سے ایک آدمی کو مجبور کیا جائے کہ ایک دینار ویسے خرچ کرے اور اس جگہ میں اپنا نام نہ لکھوائیں جہاں یہ دینار خرچ کیا گیا ہے تو ان کا نفس انہیں اس کی اجازت نہیں دیگا۔ حالانکہ اللہ کو تو علم ہوتا ہے، خواہ اس پر کسی کا نام لکھا ہو یا نہ لکھا ہو۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کی رضا چاہتا ہے نہ کہ اللہ کی رضا تو وہ اس بات کی کوئی حاجت محسوس نہ کرتا کہ اس کا نام کسی جگہ لکھا جائے۔
مال دار اور بدنی عبادات
مال داروں کا ایک اور گروہ ہے جو اسی کام میں مشغول ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے مال کو بچا کر رکھتے ہیں، اور بخل کرتے ہوئے اسے اپنے پاس ہی رکھنے پر مصر ہوتے ہیں۔ وہ ایسی عبادات میں مشغول ہو جاتے ہیں جن میں مال خرچ کرنا نہیں ہوتا، جیسے روزے رکھنا، نماز تہجد پڑھنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا، وغیرہ۔ یہ لوگ بھی دھوکے میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ ان کے باطن پر بخل جیسی ہلاکت خیز بیماری غالب آچکی ہے۔ اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے مال خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ایسے فضائل میں مصروف ہوگیا ہے جس کی اسے اتنی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کی آستین میں سانپ گھس چکا ہو جس سے اس کی ہلاکت کا خطرہ ہو اور وہ سکنجبین پکانے میں مصروف ہو، تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنے صفرا کو پرسکون بناسکے۔ مگر جب سانپ اسے ڈس کر ہلاک کر دے گا تو سکنجبین کا اسے کیا فائدہ ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک آدمی سے کہا گیا: فلاں آدمی بہت زیادہ روزے رکھتا ہے اور نمازیں پڑھتا ہے تو اس نے کہا: وہ بے چارہ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کاموں میں دخل دے رہا ہے۔ اس کا کام یہ تھا کہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا اور مسکینوں پر خرچ کرتا، یہ اس کے لیے اس سے بہتر تھا کہ وہ اپنے آپ کو بھوکا رکھتا ہے، خود نمازیں پڑھتا ہے اور اپنی دنیا کو جمع کرکے اسے فقرا پر خرچ کرنے سے جی چراتا ہے۔
نفل حج میں مال خرچ کرنا
امام غزالیؒ نے ان صاحبِ ثروت دین داروں پر بھی گرفت کی ہے جو اپنا مال نفلی حج پر خرچ کرتے ہیں اور پے درپے حج و عمرے کرتے رہتے ہیں اور ان کے پڑوسی بھوکے ہوتے ہیں۔
یہ تو وہی بات ہے جو حضرت ابن مسعودؓ نے فرمائی تھی کہ آخری دَور میں حاجی بِلاسبب بہت بڑھ جائیں گے، ان کے لیے سفر کرنا آسان ہو گا، ان کے رزق میں کشادگی ہوگی، مگر وہ محروم اور خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ ان میں کسی آدمی کی سواری اسے پہاڑ اور صحرائیں عبور کرائے گی اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی تنگ دست ہوگا، مگر یہ اس کے ساتھ غم خواری نہیں کرے گا۔
گویا کہ ابن مسعودؓ نے غائبانہ طور پر ہمارے دور کو دیکھ لیا تھا اور اسی کو انہوں نے بیان کیا ہے۔
ابونصرالتمار کہتے ہیں: ایک آدمی آیا وہ بشر بن الحارث سے رخصت لے رہا تھا اور اس نے کہا کہ میں نے حج کا ارادہ کرلیا ہے، کیا آپ مجھے کوئی نصیحت کریں گے؟ انہوں نے پوچھا: سفر خرچ کے لیے کتنی رقم جمع کی ہے؟ اس نے کہا: دو ہزار درہم۔
بشر نے کہا: تمہارا حج کرنے سے کیا مقصد ہے؟ دنیا سے بے نیازی یا بیت اللہ کی زیارت کا شوق یا اللہ کی رضا؟ اس نے کہا: اللہ کی رضا۔
بشر نے کہا: اگر تم گھر میں بیٹھے رہو اور تمہیں اللہ کی رضا مل جائے، یعنی اگر تم دو ہزار درہم خرچ کرلو اور تمہیں یقین ہو کہ تمہیں اللہ کی رضا مل جائے گی تو ایسا کرلو گے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔
بشر نے کہا: تو پھر اس کو دس قسم کے آدمیوں کو دے دو: قرض دار کو کہ وہ اپنا قرض ادا کرے، فقیر کو کہ وہ اس سے اپنا بکھرا ہوا شیرازہ سمیٹ لے، عیال دار کو کہ وہ اپنے اہل و عیال کو کھلائے، یتیم کے ذمہ دار کو کہ وہ اسے خوش کرسکے، اس سے کسی مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرو، کسی کو تکلیف سے نجات دلائو اور کمزور کی مدد کرو۔ یہ تمہارے لیے فرض حج کے بعد سو عدد حجوں سے بہتر ہے۔ اب جلدی کرو، جیسا کہ ہم نے کہا ہے، اس کے مطابق یہ رقم نکالو، ورنہ ہمیں صاف صاف بتا دو کہ تمہارے دل میں کیا ہے۔
اس نے مجھے مخاطب کرکے کہا: ابونصر! میرے دل میں سفر کا ارادہ زیادہ قوی ہے۔
حضرت بشرؓ ہنسنے لگے اور اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا: جو مال تجارت اور شبہات کے میل کچیل سے جمع کیا جائے تو نفس یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس سے اس کی کوئی حاجت پوری کی جائے اور وہ مختلف نیک اعمال ظاہر کرتا ہے۔ مگر اللہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس شخص کے سوا کسی کے عمل کو قبول نہیں کرتا جسے وہ پورے عزم و یقین کے ساتھ ادا کر رہا ہو۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo
اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے، تو سب کی سننے اور اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (البقرۃ:۱۲۷)
ترجیحات کا مسئلہ اور بعض دوسرے علما
امام غزالیؒ کے معاصرین میں ایک علامہ راغبؒ اصفہانی (ف ۵۰۲ھ) ہیں۔ ترجیحات کے مسئلے میں ان کے کلمات بھی بڑے روشن ہیں۔ ہم نے سنن کو فرائض پر مقدم کرنے کے بارے میں ان کی ایک عبارت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: جو نفل کے بجائے فرض میں مصروف رہا، وہ معذور ہے اور جو فرض کے بجائے نفل میں مصروف رہا، وہ مغرور (یعنی دھوکے میں مبتلا) ہے۔
اس کے بعد ہم عالمِ نقاد امام ابن الجوزیؒ (ف ۵۹۷ھ) کو دیکھتے ہیں۔ انہیں معاشرتی زندگی اور اس کے مختلف طبقات کی حالت، ان کے ہاں ترجیحات کے تہہ و بالا ہونے، اور ان پر شیطانی التباسات کے حوالے سے یدطولیٰ حاصل تھا۔ اس کا اظہار ان کی کتابوں، خاص طور پر تلبیس ابلیس، صید الخاطر، ذم الہوی، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ابن الجوزیؒ کو ایک اور اہم پہلو کی طرف بھی توجہ ہوئی جس کے عام لوگوں کے ہاں ترجیحات کے خراب ہونے میں گہرے اثرات ہیں اور وہ ہیں موضوع اور واہیات احادیث۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنی دو بڑی کتابیں یعنی الموضوعات اور العلل المتناہیۃ فی الأحادیث الواہیۃ تالیف کیں۔
اس کے بعد ہمیں سلطان العلماء عزالدین بن عبدالسلامؒ (ف ۲۶۰ھ) ملتے ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے ترجیحات کے مسئلے میں دوررس نگاہ اور صائب فکر عطا کی تھی جس کے آثار ان کی بنیادی کتاب قواعد الأحکام فی مصالح الأنام میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ہم نے دوسری فصل میں ان کے چند فقرے نقل کیے تھے۔ وہ اتنے روشن ہیں کہ اس مضمون پر اچھی طرح دلالت کرتے ہیں۔
ترجیحات کا مسئلہ اور امام ابن تیمیہؒ
اور ان ائمہ ہدیٰ میں جن کو اللہ تعالیٰ نے ترجیحات کے مسئلے میں رسوخ عطا کیا تھا، ایک شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (ف ۷۲۸ھ) ہیں۔ اور ان کے محقق شاگرد امام ابن قیمؒ (۷۵۱ھ) بھی اسی نہج پر چلے تھے۔
میں نے اپنی کتاب: أولویات الحرکۃ الاسلامیۃ میں دو فصلیں شیخ الاسلامؒ کی کتابوں سے نقل کی ہیں جو اس میدان میں ان کی فکر اور فقاہت کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں۔ انہیں میں نے کتاب کے آخر میں ضمیمے کے طور پر شامل کیا تھا۔
شیخ کی کتابوں، ان کے رسائل، ان کے فتاویٰ اور دوسرے اقوال میں بہت کچھ ہے، جس سے اس موضوع پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور جس سے آدمی اطمینان حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی آرا ہدایاتِ الٰہی اور ہدایاتِ نبوی کے منابع سے حاصل کی ہیں۔ ہم یہاں ان میں سے دو مثالوں پر اکتفا کریں گے۔ یہ اس مقام پر ان شاء اللہ ہمارے اطمینان کے لیے کافی ہوں گی۔
اختلافاتِ حالات اور فضیلتِ عمل
اس سلسلے میں پہلی مثال جیسا کہ میں نے اپنی کتاب الصحوۃ الاسلامیۃ بین الجحود والتطرف میں بتایا ہے، اس حوالے سے ہے کہ عمل کی فضیلت احوال و ظروف کے اختلاف کے ساتھ اور لوگوں کا دل رکھنے کے لیے مختلف ہے۔
امام رحمہ اللہ کافی بحث و مناقشہ کے بعد فرماتے ہیں:
ایک ہی عمل ہوتا ہے کبھی اس کا کرنا مستحب ہوتا ہے اور کبھی ترک، اس اعتبار سے کہ کبھی شرعی دلائل کے ساتھ ایک فعل کا کرنا راجح ہوتا ہے اور کبھی اس کا نہ کرنا۔ ایک مسلمان بعض اوقات کسی ایسے مستحب فعل کو ترک کر دیتا ہے جس کے کرنے میں کوئی ایسا فساد ہوتا ہے جو اس کی مصلحت پر غالب ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبیﷺ نے بیت اللہ کی تعمیر ان بنیادوں پر اٹھانے سے اجتناب فرمایا جن پر حضرت ابراہیمؑ نے اسے اٹھایا تھا۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’اگر تیری قوم نئی نئی جاہلیت سے (اسلام میں) نہ آئی ہوتی تو میں کعبے کو ڈھا کر اس کو زمین کے ساتھ برابر کر دیتا اور اس میں دو درو ازے بنا لیتا ایک اندر داخل ہونے کے لیے اور ایک باہر نکلنے کے لیے۔
یہ حدیث صحیحین میں آئی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبیﷺ نے وہ کام تَرک فرمایا جو آپﷺ کے نزدیک افضل تھا، مگر اس کے خلاف ایک بات ایسی تھی جو فساد کا ذریعہ بن سکتی تھی۔ وہ بات یہ تھی کہ قریش کے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اس کام میں ان کی بغاوت کا خطرہ تھا، چنانچہ اس کا فساد اس کی مصلحت پر بھاری تھا۔
اس وجہ سے ائمہ کرام مثلاً احمد وغیرہ نے یہ بات مستحب قرار دی ہے کہ امام مقتدیوں کی تالیف قلب کے لیے کوئی ایسا کام چھوڑ دے جو اس کے نزدیک افضل ہو۔ مثلاً یہ کہ اس کے نزدیک افضل یہ ہو کہ دو رکعتوں پر سلام پھیرے اور وتر کی ایک رکعت الگ ادا کرے، مگر وہ ایسے لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہو جو وتر کو اکٹھا ہی پڑھتے ہیں۔ یہاں اگر اس کے لیے افضل پر عمل ممکن نہ رہا تو اس کے بدلے میں اس نے لوگوں کی تالیفِ قلب کی جو مصلحت اپنائی ہے، وہ اس کے لیے افضل پر عمل کرنے سے زیادہ راجح ہے اور اس کی مصلحت اس مصلحت سے راجح ہے جو افضل کی صورت پر عمل کرنے میں ملحوظ تھی۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کراہت محسوس کرتے۔ اسی طرح اگر ایک آدمی ان لوگوں میں سے ہے جو بسم اللہ کو خاموشی سے پڑھنا افضل سمجھتے ہیں یا اسے جہراً پڑھنا افضل قرار دیتے ہیں اور مقتدی اس کی رائے کے خلاف ہوں تو اس کے لیے مفضول پر عمل کرنا، اس مصلحت کی وجہ سے کہ وہ ان کے ساتھ موافقت اختیار کرکے ان کی دلجوئی کرتا ہے، جائز ہے۔ کیونکہ یہ مصلحت اس مصلحت کے مقابلے میں راجح ہے جو افضل پر عمل کرنے کی صورت میں حاصل ہوتی۔
اسی طرح اگر ایک آدمی افضل کے خلاف عمل کرتا ہے، اس مقصد کے لیے کہ سنت کا بیان ہو جائے اور ان کو تعلیم دینے کا موقع مل سکے جن کو سنت کا علم نہیں ہوتا تو یہ مستحسن ہوگا۔ مثلاً ایک آدمی نماز کے آغاز میں تعوذ اور تسمیہ میں جہر کرتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ نماز میں اس کا پڑھنا جائز اور حسن ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس پر جہر کیا۔ انہوں نے تکبیر کے بعد کہا: ’’اے اللہ! تو پاک ہے، تعریف تیرے لیے ہے، تیرا نام مبارک اور تیری شان اونچی ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے ستر سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں۔ وہ جب تکبیر کرتے تو اس کے بعد یہ پڑھتے تھے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ استفتاح مشہور ہوگیا اور یہی وجہ ہے کہ اب اکثر لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ تعوذ جہر کے ساتھ پڑھتے تھے، اور کئی صحابہ کرام بسم اللہ جہر کے ساتھ پڑھتے تھے۔ یہی معاملہ جمہور ائمہ کے ہاں بھی ہے جو مستقل طور پر اسے جہر کے ساتھ پڑھنا سنت نہیں کہتے، مگر جب لوگوں کو اس کی تعلیم کا معاملہ درپیش ہو تو وہ بھی اس کے پڑھنے کو سنت کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے حدیث صحیح میں ثابت ہے کہ انہوں نے ایک جنازہ پڑھایا تو انہوں نے اس میں سورۂ فاتحہ جہر کے ساتھ پڑھی۔ اور پھر کہا کہ میں نے یہ اس لیے کیا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بھی سنت ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جنازے کے بارے میں لوگوں کے دو اقوال ہیں:
بعض کے نزدیک اس میں قرأت کسی حال میں جائز نہیں ہے، جیسا کہ زیادہ تر سلف نے کہا ہے اور یہی امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا مذہب ہے۔
اور بعض کہتے ہیں اس میں قرأت سنت ہے، جیسا کہ امام شافعیؒ اور احمدؒ کا قول ہے۔ اس کی دلیل حضرت ابن عباسؓ کی یہ حدیث اور بعض مزید دلائل ہیں۔
پھر ان میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں قرأت اسی طرح واجب ہے جیسے نماز میں۔
اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سنتِ مستحبہ ہے، واجب نہیں ہے۔ یہ قول تینوں میں سے معتدل قول ہے۔ کیونکہ سلف میں بہت سے لوگوں نے یہ کیا ہے اور بہت سوں نے وہ کیا ہے۔ ان کے ہاں دونوں فعل مشہور ہو چکے ہیں۔ وہ قرأت کے ساتھ بھی جنازہ پڑھتے تھے اور بغیر قرأت کے بھی۔ اسی طرح کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے تھے اور کبھی بغیر جہر کے۔ اور اسی طرح کبھی ثناء پڑھتے تھے اور کبھی نہیں پڑھتے تھے۔ کبھی رفع الیدین کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے۔ کبھی دو سلام کرتے تھے اور کبھی ایک ہی سلام۔ کبھی امام کے پیچھے خاموشی سے پڑھتے تھے اور کبھی نہیں پڑھتے تھے۔ جنازے پر کبھی چار تکبیریں پڑھتے تھے کبھی پانچ اور کبھی سات۔ اور ایک ہی نماز میں وہ لوگ بھی ہوتے جو اس مذہب پر عمل پیرا ہوتے اور وہ بھی جو اُس مذہب پر عمل پیرا ہوتے۔ یہ ساری باتیں خود صحابہ سے ثابت ہیں۔
اسی طرح ان سے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں سے کوئی اذان میں ترجیع (بعض جملوں کو چار بار دہرانا) کرتا تھا اور کوئی نہیں کرتا تھا۔ اور ان میں کوئی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اقامت میں ایتار (قد قامت الصلوٰۃ کے سوا سارے جملوں کو ایک بار پڑھنا) کرتا تھا اور کوئی شفع (سارے جملوں کو دو بار دہرانا) کرتا تھا۔ اور یہ دونوں طریقے نبیﷺ سے ثابت ہیں۔
یہ سارے امور ایسے ہیں کہ ان میں اگرچہ ایک راجح اور ایک مرجوح ہوتا ہے، جس نے مرجوح پر عمل کیا اس نے بھی ایک جائز عمل کیا اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جس نے مرجوح پر عمل کیا ہے وہ کسی مصلحت کی وجہ سے راجح بن جائے۔ جیسا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی راجح عمل کسی مصلحت کی وجہ سے مرجوح بن جائے۔
یہ معاملہ عمومی اعمال کے بارے میں ہے۔ وہ عمل جو فی نفسہٖ افضل ہو، بعض مواقع پر غیر افضل بن جاتا ہے۔ جیسا کہ جنس نماز افضل ہے جنس قرأت سے اور جنس قرأت افضل ہے جنس ذکر سے اور جنس ذکر افضل ہے جنس دعا سے۔ پھر فجر اور عصر کے بعد نماز ممنوع ہے اور ان اوقات میں تلاوت اور ذکر اور دعا اس سے بہتر ہیں۔ اسی طرح رکوع اور سجدے میں قرأت ممنوع ہے اور اس میں ذکر افضل ہے۔ اور نماز کے آخر میں تشہد سے پہلے دعا ذکر سے بہتر ہے۔
بعض اوقات کوئی مفضول عمل کسی معین شخص کے حق میں افضل ہوتا ہے کیونکہ وہ افضل سے عاجز ہوتا ہے یا یہ کہ مفضول کے ساتھ اسے زیادہ محبت اور رغبت ہوتی ہے، وہ اس کا زیادہ اہتمام کرتا ہے اور اس میں لذت محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے لیے افضل بن جاتا ہے، کیونکہ اس سے اس کو مزید عمل کے لیے رغبت اور خواہش ہوگی اور وہ اس سے خوب متمتع ہوگا۔ جیسا کہ ایک مریض اپنی پسندیدہ دوا سے جس قدر فائدہ حاصل کرتا ہے، اتنا فائدہ وہ اس دوا سے نہیں حاصل کرسکتا جو اسے ناپسند ہے۔ اگرچہ اس کی جنس افضل ہو۔
اسی بنا پر بعض لوگوں کے لیے بعض اوقات ذکر افضل ہوتا ہے قرأت سے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے بعض اوقات قرأت افضل ہوتی ہے نماز سے۔ اور اس طرح کی اور مثالیں لی جاسکتی ہیں۔ ان میں یہ تفضیل جو آئی تو اسی وجہ سے کہ ان میں اس کے لیے نفع زیادہ ہوتا ہے نہ اس وجہ سے کہ وہ فی نفسہٖ افضل یا مفضول ہیں۔
یہ باب کسی عمل کے فرض یا حرام ہونے کا نہیں، بلکہ کسی عمل کے افضل یا مفضول ہونے کا ہے۔ اور ان چیزوں میں بہت سے اعمال حالات کے مختلف ہونے سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ اگر اس تنوع کا خیال نہ رکھا جائے تو بہت سے اعمال میں اضطراب پیدا ہو جائے گا۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب کسی عمل کے استحباب یا اس کے راجح ہونے کا یقین کرلیتے ہیں تو اس کی اتنی پابندی کرتے ہیں جتنی واجبات کی بھی نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اس پر معاملہ خواہش اور جاہلی تعصب و حمیت تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ اسے ان لوگوں میں دیکھ سکتے ہیں جو اِن امور میں سے کسی امر کو اختیار کرتے ہیں اور اسے اپنے مذہب کا شعار بنالیتے ہیں۔
اور ان میں سے کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں چیز کا ترک کرنا افضل ہے تو اس کے ترک کی اتنی پابندی کرتے ہیں جتنی کسی حرام سے بچنے کی نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ معاملہ خواہش اور حمیت جاہلیہ تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ اسے ان لوگوں میں دیکھ سکتے ہیں جو کسی چیز کا ترک اپنے مذہب کا شعار بنالیتے ہیں۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں اور یہ سب کچھ غلط ہے۔
ضروری یہ ہے کہ ہر ذی حق کو اس کا حق دیا جائے۔ کسی معاملے کو اتنی وسعت دی جائے جتنی وسعت اللہ اور اس کے رسول نے دی ہو، اور کسی چیز سے اتنی الفت رکھی جائے جتنی کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس کے ساتھ رکھی ہو۔ اس میں انہی مصلحتوں اور مقاصدِ شرعیہ کا خیال رکھا جائے جو اللہ اور اس کے رسول کے ہاں پسندیدہ ہوں۔ ہر معاملے میں یہ جانا جائے کہ سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر سیرت نبیﷺ کی سیرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں رحمت للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور انہیں ہر معاملے میں دنیا و آخرت دونوں کی سعادت عطا فرمائی ہے۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کے پاس اس بات کی تفصیل موجود ہو جو اس اجمال کی وضاحت کرے۔ اگر یہ نہ ہوگا تو بہت سے لوگ اسے مجمل صورت میں ضروری سمجھیں گے اور جب تفصیل کا موقع آئے گا تو اسے چھوڑ دیں گے، جہالت کی وجہ سے یا ظلم اور سرکشی کی بنا پر، یا پھر خواہشات کی پیروی میں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے۔ ان لوگوں کو راستہ جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جو انبیا ہیں، صدیقین ہیں، شہدا ہیں اور صالحین ہیں، یہ لوگ بہترین رفیق ہیں۔
اس فقاہت کی روشنی میں امام حسن البناؒ سے جب اختلاف کرنے والوں نے نماز تراویح کے بارے میں سوال کیا کہ ہم بیس رکعت پڑھیں جیسا کہ حرمین وغیرہ میں ہوتا ہے اور وہی ائمہ اربعہ کا مشہور مذہب ہے، یا آٹھ پڑھیں جیسا کہ بعض سلفیوں کا اصرار ہے؟ یہ سوال امام حسن البناسے اس وقت کیا گیا تھا کہ اس بستی والے اس مسئلے پر لڑنے کے قریب تھے تو ان کا جواب یہ تھا کہ نماز تراویح سنت ہے اور مسلمانوں کا اتحاد فرض ہے۔ ہم ایک فرض کو کسی سنت کی وجہ سے کیوں ترک کردیں؟ اگر یہ لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں اور آپس میں لڑنے جھگڑنے اور دشمنی کرنے سے محفوظ رہیں تو یہ زیادہ بہتر اور درست ہوگا۔
☼☼☼
Leave a Reply