
پرانے وقتوں میں کسی قوم، ملک یا سرزمین پر تسلط حاصل کرنے کے لیے وہاں پر باقاعدہ لشکر کشی کی جاتی تھی، لیکن آج کے دور میں کسی قوم یا ملک پر غلبے کا مفہوم کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ دنیا میں جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی قومیں ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی مختلف عیارانہ ہتھکنڈوں سے کمزور اور مجبور قوموں پر تسلط اور غلبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ کبھی تجارتی و اقتصادی دائو پیچ کے ذریعے، کبھی سیاسی چالوں سے، کبھی ہمدردی اور مالی امداد اور کبھی ملکی دفاع کو مضبوط کرنے اور عسکری معاونت کی آڑ میں، کبھی نفسیاتی ہتھکنڈوں اور کبھی دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے قوموں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا میں عالمگیریت کے فروغ اور نئے عالمی تجارتی قوانین کے ذریعے قوموں کے اختیارات رفتہ رفتہ سلب کیے جا رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے عالمی قوانین اور ضوابط کو لاگو کیا جا رہا ہے جن سے دنیا کے چند بڑے ممالک ہی مستفید ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں ریاست ہائے متحدہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جس کا دنیا کے ہر مسئلے یا ایشو سے بلاواسطہ تعلق ہے، یا اگر بالفرض کوئی ملک امریکا کی رسائی یا مداخلت سے بچنا بھی چاہے تو امریکا دنیا کے ’’پولیس مین‘‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے خود ہی وہاں کود پڑتا ہے۔ اگر دنیا کے تمام مسائل یا ایشوز پر نظر دوڑائیں تو ان سب کا ایک نہ ایک سرا امریکا سے جڑا نظر آتا ہے۔ عراق، افغانستان، مشرق وسطیٰ، ایران، شمالی کوریا سمیت دنیا کے لاتعداد ایشوز کے بگاڑ کے پیچھے امریکا ہی کا ہاتھ ہے۔
دنیا کے دیگر خطوں کی طرح امریکا لاطینی امریکا میں بھی اپنے اثر و رسوخ اور تسلط قائم کرنے کے لیے برس ہا برس سے سرگرم ہے۔ میڈیا میں ایسی لاتعداد رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکا مختلف حیلوں، بہانوں سے لاطینی امریکا کے ممالک میں مداخلت کر کے وہاں عسکریت پسندی کو فروغ دے رہا ہے جو وہاں پر امن و امان اور جمہوری نظام کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کی طرف سے لاطینی امریکا کے ممالک کو دی جانے والی دفاعی امداد میں ۲۰۰۰ء کے مقابلے میں ۲۰۰۵ء میں ۳۴ گنا اضافہ ہوا ہے۔ امریکی ریاست جارجیا میں بدنام زمانہ پولیس اور ملٹری ٹریننگ سینٹر ’’فورٹ بیٹنگ‘‘ جہاں پر بالخصوص لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے ملٹری اور پولیس کے افراد کو خفیہ تربیت دی جاتی تھی اب اس کی مختلف شاخیں لاطینی امریکا کے مختلف ممالک میں قائم کر دی گئی ہیں۔ اس ادارے میں مخالفین کو قابو کرنے اور ان سے معلومات اگلوانے کے لیے مختلف غیر انسانی ہتھکنڈوں اور ان پر نت نئے انداز میں ٹارچر کرنے کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں امریکا کے وفاقی بجٹ میں ایل سلواڈور میں قائم ’’انٹرنیشنل لاء انفورسمنٹ اکیڈمی‘‘ اور پیرو میں اس اکیڈمی اور سیٹلائٹ آپریشن کے لیے ۵ء۱۶ ملین ڈالر کا فنڈ مختص کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیاں کرنے کا استحقاق حاصل کرنے والی ان اکیڈمیوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ امریکی حکومت سے حاصل ہونے والے فنڈز سے تقریباً ڈیڑھ ہزار پولیس افسران، ججوں، پراسیکیوٹرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے افسران کو پورے لاطینی امریکا میں سالانہ تربیت فراہم کریں گی۔ ایل سلواڈور میں مذکورہ اکیڈمی کا قیام درحقیقت انٹرنیشنل لاء انفورسمنٹ کے اس نیٹ ورک کا حصہ تھا جس کے قیام کی منظوری امریکا کے سابق صدر بل کلنٹن نے ۱۹۹۵ء میں دی تھی، جس کا مقصد عالمی برادری کے تعاون سے دہشت گردی، جرائم اور منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانا تھا لہٰذا اس مطمح نظر کے تحت انٹرنیشنل لاء انفورسمنٹ اکیڈمی کی شاخیں بڈاپسٹ (ہنگری)، بنکاک (تھائی لینڈ)، گیبرون (بوٹسوانا) اور روزویل (نیومیکسیکو) میں قائم کی گئیں۔ زیادہ تر قائم کی گئی اکیڈمیوں کا خرچہ امریکا ادا کرتا ہے اور ان اداروں میں تربیت دینے والے زیادہ تر امریکی ایجنسیوں ہی کے اہم اور سرکردہ افراد ہوتے ہیں۔ ایل سلواڈور میں قائم ادارے میں قائم ایف بی آئی کا شروع سے یعنی ۱۹۹۵ء ہی سے بڑا عمل دخل ہے، جبکہ ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی، امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ کے افراد بھی کثرت سے یہاں دورے کرتے ہیں جو وہاں پر مختلف نوعیت کے تربیتی امور انجام دیتے ہیں۔
ستمبر ۱۹۹۶ء میں ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی رپورٹر ڈاٹا پریسٹ نے لاطینی امریکا میں قائم ان اداروں کی خفیہ، غیرانسانی اور پرتشدد سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ شائع کی۔ ان اداروں کو جنوبی امریکا میں ’’اسکولز آف امریکا‘‘ (SOA) کے نام سے جانا جاتا ہے۔بعد میں (SOA WATCH) کے بانی فادر رائے برجیوئس نے ان اداروں سے فارغ التحصیل گریجویٹس کی فہرست جاری کی، جس میں یہ حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا کہ ان میں سے بیشتر افراد کا تعلق بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ اور کائونٹر انسرجنسی گروپس سے تھا۔ جون ۲۰۰۵ء میں آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹ کے اجلاس میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائیس کے ایل سلواڈور میں ILEA کے قیام کے اعلان کے بعد فادر رائے نے لکھا کہ ’’اس قسم کے اداروں کا جنوبی امریکا کے ممالک میں قیام کا مقصد یہاں خونریزی، ٹارچر اور عام و بے گناہ لوگوں کو ٹارگٹ بنانا ہے‘‘۔
فادر رائے نے اس صورتحال کو پریشان کن اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا۔ فادر رائے کے یہ خدشات اس وقت مزید تقویت پکڑ گئے جب امریکا نے ان اداروں میں تربیت حاصل کرنے والے افراد کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر قانون کی گرفت سے مبرا قرار دیا۔ ایل سلواڈور کی پولیس جو کہ ۲۵ فیصد مذکورہ اکیڈمی کے تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہے اس کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ILEA کے قیام کے بعد اس کی کارروائیاں پرتشدد اور خفیہ سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ مئی ۲۰۰۷ء میں لیگل ایڈ اور ہیومن رائٹس ڈیفنس کے آرچ بشپ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ سلواڈورین پولیس ڈیتھ اسکواڈ گروپ کی طرز پر متعدد قتل کے کیسوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث پائی گئی۔ علاوہ ازیں اس کے ملازمین کا عام لوگوں سے رویہ دُرشت اور ان کے اندر کرپشن کیسوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ILEA کے فارغ التحصیل گریجویٹس کو پورے لاطینی امریکا میں نہ صرف مختلف امریکی سرکاری ایجنسیوں میں ملازمت کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں بلکہ ڈن کورپ انٹرنیشنل اور بلیک واٹر جیسی پرائیویٹ سیکوریٹی کمپنیوں میں بھی پورا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
امریکی کانگریس نے میریڈا انیشٹو کے نام سے ایک پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت سینٹرل امریکا اور میکسیکو کے لیے اینٹی گینگ کے نام سے ۴۵۰ ملین ڈالر جاری کیے اور سان سلواڈور میں ILEA پروگرام کے لیے ۲ ملین ڈالر کی رقم مختص کی۔ پولیس اور ملٹری کے افراد کو ٹریننگ کے نام پر سکھائے جانے والے پروگرام کی مکمل تفصیلات ابھی تک سربستہ راز ہی ہیں۔ کئی نامور صحافیوں اور لکھاریوں کی جانب سے ان کی حکومتوں کو ILEA کے تحت دی جانے والی تربیتی پروگرام کی تفصیلات کو طلب کیا گیا، مگر متعلقہ حکومتوں کی جانب سے یہ کہہ کر اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا کہ اس کی تفصیلات عوام الناس کے حق میں نہیں، مزید برآں اس سے سیکوریٹی خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔
امریکا جہاں ایک طرف وقت کے ساتھ ساتھ پورے جنوبی امریکا کے ممالک میں مختلف حیلے بہانوں سے اپنی افواج اور بحریہ کی موجودگی کو بڑھاوا دے رہا ہے وہیں دوسری طرف اب جنوبی امریکا کے ممالک میں امریکا کے ان اداروں کے خلاف مزاحمت بھی پروان چڑھ رہی ہے اور کچھ ممالک میں تو انتخابات کے بعد ایسی حکومتیں تشکیل پانا شروع ہو چکی ہیں جو امریکا کی ان کے ممالک میں بے جا مداخلت اور تخریبی کارروائیوں سے خوش نہیں ہیں۔ ۲۰ اپریل ۲۰۰۸ء کو فرنانڈولو کو پیراگوئے کے نئے صدر منتخب ہوئے ان کی کامیابی نے دائیں بازو کی کولوریڈو جماعت کے ۶۱ سالہ طویل دور حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ پیراگوئے کے صدر لوگو جو سابق بشپ ہیں وہ پیراگوئے میں سابق دور میں امریکا اور پیراگوئے ملٹری کے اشتراک سے ہونے والے ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کریک ڈائون اور مناسب تادیبی کارروائی کے حق میں ہیں۔ لوگو نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد واضح انداز میں واشنگٹن کو خبردار کیا تھا کہ اب لاطینی امریکا میں بننے والی نئی حکومتیں کسی بھی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گی، چاہے وہ کتنا بڑا بااثر ملک ہی کیوں نہ ہو۔
پیراگوئے کے قریب ہی واقع بولیویا میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صدر ایوومورالس کو دائیں بازو کی حزب اختلاف کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ امریکا مختلف ایجنسیوں کی وساطت سے اور خطیر سرمایہ خرچ کر کے امریکا نواز دائیں بازو کی اپوزیشن کو بولیویا کے صدر ایوومورالس کی حکومت کے خلاف تائید کر رہا ہے۔ یکم مارچ ۲۰۰۸ء کو کولمبیا کی فوج نے ایکواڈور کی سرزمین پر قائم ’’ریولوشنری آرمڈ فورسز آف کولمبیا‘‘ کے دفتر پر بم دھماکے سے اسے تباہ کر دیا تھا جس سے حالات خاصے خراب ہو گئے تھے۔ ریولوشنری آرمڈ فورسز کے دفتر پر بم دھماکہ اس طویل اختلاف کا نتیجہ تھا جو کولمبین آرمی اور ریولوشنری آرمڈ فورسز کے درمیان امریکا کی مداخلت اور کولمبین فوجوں کو فنڈ فراہم کرنے پر چل رہا ہے۔
۲۴ اپریل ۲۰۰۸ء کو پینٹاگان نے اعلان کیا کہ امریکی بحریہ کا ’’فورتھ فلیٹ‘‘ بحری بیڑا جنوبی و وسطی امریکا اور کیروبین کے علاقوں میں اپنی نگرانی بڑھا دے گا اور ساتھ ہی اس بیڑے کی پوزیشن کا بھی ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ امریکا کا فورتھ فلیٹ بحری بیڑا ۱۹۵۰ء سے اس خطے کی نگرانی پر مامور ہے۔ تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ اس خطے میں فورتھ فلیٹ بحری بیڑے کے ذریعہ نگرانی درحقیقت لاطینی امریکا کے ان لیڈروں کے لیے وارننگ ہے جو اس خطے میں امریکی تسلط سے باہر آنے کے لیے ایک پروگریسیو ریجنل بلاک تشکیل دینے کے خواہش مند ہیں۔ ان لیڈروں میں وینزویلا کے صدر ہوگوشاویز کا نام سب سے نمایاں ہے۔ لاطینی امریکا میں امریکی بالادستی کے عزائم کے حوالے سے عوام میں جو نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں اور جو تحریکیں عوامی سطح پر وہاں کام کر رہی ہیں ان کی تشہیر اور صحیح کوریج عالمی میڈیا میں نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اکثر میڈیا مغرب کے ہاتھ میں ہے جو اس قسم کی خبروں کی تشہیر میں تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لاطینی امریکا کے تقریباً تمام ممالک جن میں خود امریکا کے اہم اتحادی ممالک پیرو، کولمبیا وغیرہ شامل ہیں وہ اب اسلحے کے نئے معاہدوں کے لیے امریکا کی بجائے روس اور مغربی یورپ پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ پیرو جو امریکا کا لاطینی امریکا میں اہم اتحادی ملک ہے اس نے بھی ماسکو سے نہ صرف اچھے تعلقات استوار کر لیے ہیں بلکہ اس نے روسی ساختہ مگ اور سخوئی (Sukhois) طیارے اپنی فضائیہ میں شامل کر لیے ہیں۔ اس کے علاوہ فرانس سے میراج طیارے اور جرمنی کی بنی ہوئی آبدوزیں بھی اپنی فوج میں شامل کی ہیں۔ اگرچہ پیرو کے پاس امریکی ساختہ ٹینک ہیں، لیکن ان ٹینکوں کو بیک اپ کرنے کا ساز و سامان و دیگر بکتر بند گاڑیاں اور اسلحہ کا تعلق فرانس، جرمنی، اٹلی اور روس سے ہے، کولمبیا بھی جو کہ امریکا کا انتہائی قریبی حلیف سمجھا جاتا ہے، مکمل طور پر امریکی امداد و تعاون پر انحصار نہیں کر رہا ہے حالانکہ امریکا گزشتہ ایک دہائی کے دوران کولمبیا کو مالی و عسکری معاونت فراہم کر چکا ہے لیکن اس کے پاس فرانس کے میراج طیارے اور برازیل کے سپر ٹو کینوز طیارے موجود ہیں۔ کولمبیا اس سال ۵ روسی ساختہ ایم آئی ۱۷ ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر خریدے گا۔ اس کے علاوہ اس نے فرانس اور جرمنی سے درخواست کی ہے کہ وہ اس کی نیوی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اس کی مدد کرے۔ اسی طرح چلّی نے بھی حال ہی میں فرانس اور جرمنی کے ساتھ عسکری و دفاعی معاہدے کیے ہیں۔
موجودہ صورتحال پر اعداد و شمار اکٹھا کرنے والے ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ لاطینی امریکا میں ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۸ء کے دوران ڈیفنس کے اخراجات میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن ان حالیہ معاہدوں اور اسلحہ کی خریداری سے امریکا سے زیادہ یورپ اور روس کو فائدہ پہنچا ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply