قادر پور گیس فیلڈ کی نج کاری

لبرلائزیشن، آزاد معیشت اور نج کاری کے عمل کو دنیا کے اطراف میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے فروغ دیا اور اسے ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے بطور شرط بھی پیش کیا۔ بہرحال تازہ ترین مالیاتی بحران نے اس اقتصادی فلسفے کو کُلّی طور سے ناکام ثابت کر دیا۔ Bear Sterns اور Lehman Brothers جیسے بڑے بڑے مالیاتی ادارے منظر سے غائب ہو چکے ہیں اور دوسرے ادارے حکومتوں اور سینٹرل بینکوں کی جانب سے عطا کردہ حیاتِ مصنوعی کے سبب باقی ہیں۔ لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن اور پرائیویٹائزیشن کی ساجھے داری کے مثلث نے عالمی مالیاتی مندی کو جنم دیا ہے۔ مستقبل کا پالیسی فریم ورک جواب وضع کیا جا رہا ہے وہ قدرے کم لبرل اور زیادہ پابندِ ضابطہ ہے اور ترکِ نج کاری کے رجحان پر مبنی ہے۔ گزشتہ دہائی میں نج کاری کو امداد کے لیے ایک لازمی شرط کے طور پر پاکستان پر مسلط کیا گیا۔ پاکستان نے اپنے بینکوں نیز شہری سہولیات سے متعلق دیگر اداروں مثلاً PTCL اور KESC کی بھی نج کاری کر ڈالی۔ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کو سپر یم کورٹ نے روک دیا اس لیے کہ اس عمل میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کی بُو آ رہی تھی۔ جن لوگوں کے ہاتھوں یہ فروخت کیا جا رہا تھا اُن میں سے ایک سات فوجداری مقدمات میں ملوث تھا۔ پاکستان کو سنگین قسم کے زرِ واجب الادا (Balance of Payments) کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی بے تابی سے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے مدد کا طالب ہے۔ ’’فرینڈز آف پاکستان‘‘ ابھی تک کچھ نہیں کر سکے ہیں۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ جس کی منفیت کی شناخت “CCC” ہے دنیا میں سب سے کمتر ہے۔ جبکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ اعلان کیا ہے کہ قادر پور گیس فیلڈ کی نجکاری کا منصوبہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یہ بات واقعتا پریشان کُن ہے کہ ملک کے اس اہم گیس فیلڈ کی نج کاری ایسے وقت میں زیر غور ہے جبکہ کوئی بیرونی سرمایہ کار اس کی قیمت کا اندازہ لگانے اور اس فیلڈ کے معائنہ کے لیے پاکستان نہیں آئے گا۔ حتیٰ کہ آئی ایم ایف کا وفد قدرے محفوظ جگہ اسلام آباد آنے کو تیار نہیں ہوا اور اس نے مذاکرات کے لیے دبئی کے انتخاب پر زور دیا۔ لہٰذا کوئی قادر پور جیسی غیر محفوظ جگہ بھی نہیں جائے گا اور شاید اس گیس فیلڈ کے لیے ٹینڈرز بھی طلب دبئی ہی میں کیے جائیں گے۔ اس کے باوجود کہ وزیراعظم نے یہ بات کہہ دی کہ ’’اگر ہم نج کاری کے منصوبے پر پیش رفت کرتے ہیں تو ہمیں اُس قیمت کا ایک معمولی سا حصہ ملے گا جو عام حالات میں ان کی متعین ہوتی ہے‘‘۔

گیس پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا نصف حصہ پورا کرتی ہے۔ گیس حاصل کیے جانے کے لحاظ سے یہ پاکستان کا دوسرا بڑا گیس فیلڈ ہے لیکن گیس کے ذخائر کے اعتبار سے یہ پاکستان کی سب سے بڑی فیلڈ ہے ایسی حالت میں جبکہ سوئی گیس کا ذخیرہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ یہ گیس فیلڈ پاکستان میں پیدا ہونے والی گیس کی کل مقدار کا بڑا حصہ پیدا کر رہی ہے اور ملک میں پیدا کی جانے والی کل توانائی کا چھ فیصد سے زائد حصہ اس فیلڈ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ قادر پور کی پیداوار کا سلسلہ گیس کے تین معلوم ذرائع سے ہے اور ۴ ابھی دوسرے ذرائع پر کام ہو رہا ہے۔ اگر یہ تمام ذخائر پیداوار دینے کے قابل ہو جاتے ہیں تو قادر پور گیس فیلڈ سے گیس کے حصول کی مقدار تقریباً دو گنا ہو جائے گی۔ اس وقت جو بیرونی سرمایہ کاروں کی پیشکش ہے وہ معلوم ذخائر کی بنیاد پر ہے نہ کہ ممکنہ ذخائر کی بنیاد پر جو کہ کہیں زیادہ ہے۔ کوئی بھی ملک حتیٰ کہ قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات جیسے چھوٹے ممالک بھی اپنی گیس فیلڈ کو بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں فروخت نہیں کرتے ہیں۔ تمام ترقی پذیر ممالک میں آئل اور گیس فیلڈز اقتدار ِ اعلیٰ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور یہی صورت حال روس اور اوپیک ممالک میں بھی ہے۔ چینی امریکی آئل فیلڈ Unocal خریدنا چاہتے تھے جس کی پیداوار امریکا کی کل داخلی پیداوار کا صرف ایک فیصد تھی لیکن امریکی کانگریس اور میڈیا میں اس قدر شور مچا کہ چینی اپنی یہ پیشکش واپس لینے پر مجبور ہو گئے۔ نج کاری کے ذریعہ اپنے اثاثوں کو بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں فروخت کرنے سے نئی بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات پیدا نہیں ہوتے ہیں اس کی وجہ سے سرمائے میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ نج کاری فی نفسہٖ مالکیت کو تبدیل کر دیتی ہے، سرمایہ اور منافع میں بغیر کوئی تبدیلی لائے۔ اس کی وجہ سے ایک وقت میں نقد رقوم کی بھاری مقدار کی آمد تو ہو جاتی ہے لیکن بیرونی زرِمبادلہ کے مستقل خرچ ہونے کا بھی دائمی دروازہ کھل جاتا ہے۔ پاکستان اسٹرکچرل کرنٹ اکاؤنٹس خسارے کا شکار رہا ہے جو ۲۰۰۸ء کے مالیاتی سال میں ۱۴ بلین ڈالر سے بھی زیادہ آگے چلا گیا ہے۔ اس خسارے کے پیچھے جو عوامل کار فرما رہے ہیں اُن میں ایک بیرونی کمپنیوں کے ذریعہ جو پاکستان میں کاروبار کر رہی ہیں بھاری منافع بیرونِ ملک بھیجا جانا ہے۔ قادر پور گیس کی نجکاری سے بیرونِ ملک بھیجی جانے والی رقوم میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

فی الحال حکومت نے اُس گیس پر جو OGDCL اور دیگر بیرونی فرموں کے ذریعہ فروخت ہوتی ہے اس کی علیحدہ قیمت مقرر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ قادر پور گیس SNGPL کو ۱۶ء۲ ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (Per mbtu) کے حساب سے فروخت کی جاتی ہے جبکہ ENI نامی ایک بیرونی فرم گیارہ ڈالر فی mbtu کے حساب سے گیس فروخت کر رہی ہے۔ اگر قادر پور کی نجکاری کر دی جاتی ہے تو بیرونی خریدار تو اُسی قیمت کا مطالبہ کرے گا جس کی اجازت دوسری بیرونی کمپنیوں کو دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے قادر پور گیس کی قیمت میں جس کی فراہمی SNGPL کو ہو رہی ہے تقریباً پانچ گنا اضافہ ہو جائے گا اور یوریا، بجلی اور CNG سیکٹرز میں نیز گھریلو استعمال کے لیے فراہم کی جانے والی گیس کی قیمت میں اتنا ہی اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان کی معیشت توانائی کے بحران کے سبب پہلے ہی سے زیر بار ہے چنانچہ گیس کی قیمت میں کسی بڑے اضافے سے زراعت، صنعت اور خانہ داری سبھی بری طرح متاثر ہوں گی۔ فی الحال یوریا پیداوار سیکٹر میں جو گیس فروخت کی جاتی ہے وہ رعایتی قیمت پر فروخت کی جاتی ہے۔ ایک بیرونی خریدار اس رعایت کا بوجھ اپنے سر نہیں لے گا۔ لہٰذا یوریا کی قیمت بڑھ جائے گی اس اضافے کے نتیجے میں زراعت بری طرح متاثر ہو گی جبکہ ضرورت ہے کہ زراعت کو ہر ممکن سہولیات اور رعایت دی جائے۔ بجلی کے شعبے میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک تہائی بجلی گیس سے پیدا ہوتی ہے اور اس چیز نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی قیمت سے پڑنے والے اثرات سے ہمیں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اگر بیرونی کمپنی کے ذریعہ فراہم شدہ گیس کی قیمت تیل کی قیمت کے ساتھ بڑھتی ہے تو بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا جس کے سبب صنعت پر اس کے سنگین منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ بجلی کی پیداوار کے لیے دی جانے والی سبسڈی (رعایت) میں ابتدا ہی میں اضافہ ہو گا تو بجلی کی قیمت میں بھی بتدریج اضافہ ہو گا جو گیس کی افزودہ قیمت کا آئینہ دار ہو گا۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ سیکٹر کے لیے مخصوص CNG کی قیمت میں بھی اضافہ ہو جائے گا جس کی وجہ سے متوسط طبقہ کے لیے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ رکھنا تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ دنیا میں یہ کارپوریٹ کی عام روش ہے کہ جب کبھی OGDCL کی طرح کی کوئی کارپوریشن اپنی نمائندہ یونٹوں میں سے کسی کی فروخت کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اپنے تمام شیئر ہولڈروں سے رابطہ کرتی ہے۔ OGDCL کے پاس ملکی اور بیرونی دونوں طرح کے شیئر ہولڈرز ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں اس نے ایک گلوبل Depository Receipt (GDR) کے ذریعہ اپنے شیئرز کا دس فیصد حصہ لندن اسٹاک ایکسچینج میں ۸۷۰ ملین ڈالر کے عوض فروخت کر دیا۔

اپنی سب سے بڑی فیلڈ کو بیچنے کے نتیجے میں منافع اور ہر شیئر کی آمدنی میں بھی کمی واقع ہو گئی اور تمام شیئر ہولڈر بالخصوص بیرونی شیئر ہولڈر نے اپنے آپ کو فریب خوردہ محسوس کیا۔ اگر کمپنیاں ان اثاثوں میں جو ان کے پاس انٹرنیشنل کیپیٹل مارکیٹ میں GDR کی فروخت کے وقت تھیں کسی اثاثہ کو کھو بیٹھتی ہیں تو اس سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی مزید حوصلہ شکنی ہو گی۔

قادر پور سے ملنے والا ریونیو OGDCL کو وہ ذرائع فراہم کرتا ہے جن کی مدد سے وہ ملک میں مزید تیل کے کنوئیں کھود سکتی ہے۔ اگرچہ آئل اور گیس ڈریلنگ میں پاکستان کی کامیابی غیرمعمولی ہے پھر بھی ۸۰ سے کم کنوؤں کی ڈریلنگ ہر سال ہوتی ہے جن میں سے نصف سے زائد کی ڈریلنگ OGDCL کے ذریعہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں تمام کھدائیاں جو ملک کے قدرے غیر محفوظ علاقے میں ہوتی ہیں OGDCL کے ذریعہ ہوتی ہیں۔ البتہ دوسری بیرونی کمپنیاں اس میں OGDCL کے ساتھ اشتراک و تعاون کرتی ہیں۔ قادر پور کی نجکاری تازہ ڈریلنگ کے لیے OGDCL کے وسائل کو نچوڑ لے گی۔ آئل اور گیس شیلڈ میں نئے کنوؤں کی کھدائی کے لیے پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اس طرح کہ وہ بیرونی کمپنیوں کو بہت منافع بخش مالیاتی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اگر ہم بیرونی سرمایہ کاری کا رُخ معلوم اور بڑے ذخائر کی خریداری کی طرف موڑ دیتے ہیں تو ہم گویا تازہ کھدائی کے لیے سرمایہ کی فراہمی میں سست رفتاری کا مظاہرہ کریں گے۔

گیس پاکستان کا واحد معدنی ذریعہ ہے اور ہمارے پاس ملک میں ایک عظیم الشان گیس نیٹ ورک ہے جسے اصلاً حکومت کی زیر ملکیت کارپوریشنیں چلا رہی ہیں ہماری معیشت کا اصل انحصار گیس پر ہے۔ یہ سیکٹر نسبتاً بہتر طریقے سے چل رہا ہے اور نج کاری کے ذریعہ اس پر مغزماری کی ضرورت نہیں ہے۔ قادر پور گیس فیلڈ کی نج کاری محض ایک غلطی نہیں ہوگی بلکہ ہماری معیشت کے لیے عظیم غلطی ہو گی۔

نوٹ: مضمون نگار سابق سیکریٹری برائے پلاننگ ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۱۷ نومبر ۲۰۰۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*