
۹۳سالہ پروفیسر غلام اعظم نے بنگلا دیش کے ایک قید خانے میں آخری ہچکی لی اور اُس سفر پر روانہ ہو گئے، جس پر ایک دن ہر اُس شخص کو جانا ہے، جو اِس دنیا میں آیا ہے۔ بنگلا دیش کی اس وزیراعظم کو بھی کہ جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اس نام نہاد عدالت کے نام نہاد ججوں کو بھی جنہوں نے اس مردِ ضعیف کو ۹۰ سال قید کا حکم یہ کہہ کر سنایا تھا کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ پھانسی کی سزا نہیں دے رہے، رحم کھا رہے ہیں۔ پروفیسر غلام اعظم کا قصور یہ تھا کہ ۱۹۷۱ء میں وہ جس ملک، پاکستان کے شہری تھے، انہوں نے نہ صرف اس کے خلاف سازش کرنے اور بندوق اٹھانے سے انکار کیا تھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس کے خلاف ساز باز کرنے والوں اور اسے دو لخت کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف سینہ سپر ہو گئے تھے۔ پروفیسر غلام اعظم نے وہی کیا، جو ایک غیرت مند پاکستانی کو کرنا چاہیے تھا، جو ہر ملک کا وفادار شہری کرتا ہے، جو تاریخ میں بار بار مختلف ملکوں کے باوقار شہریوں نے کیا ہے اور جس پر وہ سلام اور اکرام کے حق دار ٹھہرے ہیں۔
پروفیسر غلام اعظم بنگلا دیش بنانے کے حق میں نہیں تھے کہ وہ سازش اور خفیہ ہتھکنڈوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ۱۹۷۰ء کی انتخابی مہم میں عوامی لیگ نے کبھی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ اس نے پاکستان کو مضبوط بنانے کے بہانے ووٹ لیے تھے، پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے صوبائی خود مختاری کا نعرہ لگایا تھا۔ اس کی کامیابی پاکستان کے خلاف ووٹ نہیں تھا، بنگلا دیش کے نام سے کوئی علیحدہ ملک بنانے کے حق میں لوگوں کا اظہار نہیں تھا۔ پھر انتخابات کے بعد علیحدگی کی تحریک کیسے چلائی جا سکتی تھی اور پاکستان کا کوئی غیرت مند شہری اس کا ساتھ کیسے دے سکتا تھا؟
پروفیسر غلام اعظم اور ان کی جماعت اسلامی ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں شکست کھا گئے تھے۔ انہوں نے جیتنے والوں کا راستہ نہیں روکا، انہیں اقتدار منتقل کرنے کے حق میں آواز بلند کی، لیکن جب انہوں نے اقتدار سنبھالنے میں پس و پیش سے کام لیا اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا کو بہانہ بنا کر اس کے دوبارہ طلب کیے جانے والے اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کر کے علم بغاوت بلند کر دیا تو ان کے اور ان کے ہزاروں، لاکھوں ہم نواؤں کے سامنے کوئی چارہ نہ رہا، کہ وہ اپنے وطن کے ساتھ کھڑے ہو جاتے۔ بھارتی سینا کے مقابلے میں اس کی فوج کا ساتھ دیتے۔ اپنے ملک کی حفاظت کرنا، اس کے لیے لوگوں کو منظم کرنا، جان لڑانا، تاریخ عالم میں نہ کبھی جرم قرار پایا ہے، نہ قرار پا سکے گا۔
بھارت کی فوجی مداخلت سے بنگلا دیش کا قیام ممکن ہوا تو پروفیسر صاحب ڈھاکا میں نہیں تھے، وہ مغربی پاکستان میں مقیم تھے۔ کچھ عرصے بعد بیرون ملک چلے گئے۔ وہ بنگلا دیش کے پیدائشی شہری تھے، لیکن ان کی شہریت سلب کر لی گئی، واپسی کا راستہ روک دیا گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری، ان کا دل صاف تھا اور ضمیر مطمئن، وہ پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا لے کر ڈھاکا پہنچے اور پھر باہر جانے سے انکار کر دیا۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، طویل قانونی جدوجہد کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے ان کی شہریت بحال کر دی تو انہوں نے ڈنکے کی چوٹ اپنے پرانے سفر کا تازہ آغاز کر دیا۔ بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ۔۔۔ بنگلا دیش کو ایک اسلامی مملکت بنانے کے خواب میں نئے رنگ بھرے جانے لگے۔ جماعت اسلامی بنگلا دیش ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہی تھی۔ اتحادی سیاست کے ذریعے آگے بڑھنے لگی، اقتدار تک بھی پہنچی اور انتخابی صدمے بھی اٹھانا پڑے۔
بنگلا دیشی معاشرے میں جاگیردار تھے نہ وڈیرے، اس لیے پاکستان کے مقابلے میں رفتار تیز معلوم ہوتی تھی۔ اس منظر نے مخالفوں کی نیندیں حرام کر دیں، وہ اس کے خلاف سازشیں کرنے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے دہشت گرد بن گئے۔ حسینہ واجد نے گزشتہ انتخابات جیتنے کے بعد ۱۹۷۱ء کے حوالے سے انتقام کا بازار گرم کر دیا۔کئی رہنما پکڑے گئے، ان پر مقدمات قائم ہوئے، خصوصی ٹریبونلز سے سزائیں ملنے لگیں، پھانسی کے پھندے جھولنے اور زنداں کے دروازے کھلنے لگے۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگی، بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کا گھیرا تنگ کیا گیا، پروفیسر غلام اعظم پر بھی مقدمہ قائم ہو گیا، انصاف کا خون کر کے انہیں سزا سنا دی گئی۔ اب ان کو یوں رہائی ملی ہے کہ قیدِ زندگی سے چھوٹ گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پروفیسر صاحب تو ۹۳سال کے تھے، طویل اننگ کھیل چکے اور ان کے رب نے جو صلاحیت ان کو عطا کی تھی، اس کا حق ادا کر چکے تھے، لیکن ان کی اور ان کے رفقا کی جدوجہد کو ماہ وسال کی کوٹھڑی میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ نظریے اور عقیدے کو فنا کے گھاٹ اتارا نہیں جاسکتا کہ اس کے لیے خالق کائنات نے کوئی عزرائیل پیدا نہیں کیا۔ بنگلا دیش کے اربابِ اقتدار جان لیں کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں کہ کٹھ پتلیوں کو آبِ حیات پلایا نہیں جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ پروفیسر غلام اعظم پر اپنی رحمتیں نازل کرے، ہمارے اہلِ اقتدار کیسے ہی بے ذوق اور کم کوش کیوں نہ ہوں اور پاکستان کے بنگلا دیشی جانثاروں کے اعتراف میں کتنا بھی بخل سے کام کیوں نہ لیں، اہلِ پاکستان کے دل میں ان کے یہ بھائی ہمیشہ زندہ رہیں گے، پاکستان ان کی یاد اور ان کے ذکر سے مہکتا رہے گا، حوصلہ پاتا رہے گا۔ پروفیسر صاحب، آپ کو آپ کے کروڑوں ہم وطنوں کا سلام پہنچے۔
(بشکریہ: اداریہ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور۔ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply