
نئے سال کے آغاز پر صدر پرویز مشرف کا یہ اعلان کہ وہ فوجی وردی نہیں اتاریں گے‘ کسی کے لیے بھی باعثِ حیرت نہیں ہے۔ پی ٹی وی سے نشر ہونے والی اپنی ۵۰ منٹ کی جارحانہ تقریر میں جنرل نے ہمیں جو بات بتائی وہ یہ تھی کہ وہ کس قدر ناگزیر ہیں اور یہ کہ آرمی چیف کے عہدہ سے ان کی دستبرداری ملک کے لیے کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ یہ احساس کوئی نیا نہیں بلکہ سابقہ فوجی حکمرانوں کے احساس کی صداے بازگشت ہے۔ تقریباً ہر ایک فوجی حکمراں نے اپنی سیاسی گرفت کو دوام بخشنے کی خاطر اسی طرزِ استدلال سے کام لیا ہے۔ تقریباً ایک سال پہلے جنرل مشرف نے قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ فوج سے الگ ہو کر ۲۰۰۴ء کے آخر تک ایک غیرفوجی رہنما بن جائیں گے۔ یہ وعدہ کبھی پورا ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔ اس وعدہ نے بہرحال پارلیمنٹ سے ایل ایف او کی منظوری میں ان کی بڑی مدد کی نیز اس نے انہیں اتنا وقت فراہم کر دیا کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر سکیں۔ اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ پرویز مشرف ۲۰۰۷ء کے بعد بھی دستبردار ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس دعوے سے زیادہ بڑا کوئی فریب نہیں ہو سکتا کہ وہ ملک میں مکمل جمہوریت بحال کرنے اور سیاسی استحکام لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنے فوجی منصب کو برقرار رکھنے کا ان کا فیصلہ سیاسی غیریقینیت میں اضافے اور جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا موجب ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک روز افزوں فوج کاری (Militarisation) ہے جس نے ملک کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اپنے آپ کو برسرِ اقتدار رکھنے کے لیے مشرف کا مکمل انحصار فوج اور امریکی حمایت پر ہے۔ فوجی منصب سے دستبردار ہونے کے اپنے اعلانیہ وعدہ سے روگردانی کے سبب وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں جبکہ اس اقدام کے سنگین سیاسی نتائج و عواقب سامنے آنے کا خطرہ ہے۔ بیک وقت دو مناصب پر فوج کا قبضہ اسے گہرے سیاسی دلدل میں کھینچ لے جائے گا اور موجودہ سیاسی انتشار کو مزید پیچیدگی سے دوچار کر دے گا۔ زیادہ تر مبصرین اس خیال سے متفق ہیں کہ پرویز مشرف کا دیر تک وردی میں برقرار رہنا ان فوجی افسروں کو بھی ناگوار ہو گا جو اب تک پوری طرح ان کے ساتھ ہیں۔ صدر کے اس فیصلے سے بے چینی میں اضافہ ہو گا‘ بالخصوص ان کی بے چینی میں جو ملک میں مکمل طور سے سویلین حکومت دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ اپنے سربراہ کا مکمل فوجی وردی میں عوامی ریلیوں سے خطاب انہیں مضحکہ خیز معلوم ہو گا اور اس صورت حال پر یقینا بہت سارے نکتہ چینوں کی انگلیاں اٹھیں گی۔ ایک ریٹائرڈ آرمی افسر کا کہنا ہے کہ مشرف شیر پر سواری کر رہے ہیں۔ دریں اثنا بش انتظامیہ کی جانب سے پرویز مشرف کی مضبوط حمایت کے سبب ان کے حوصلے اور بھی بلند ہوئے ہیں۔ پرویز مشرف ٹونی بلیئر کے بعد دوسرے رہنما ہیں‘ صدر بش نے ازسرِ نو منتخب ہونے کے بعد جن کا وائٹ ہائوس میں استقبال کیا ہے۔ اس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ واشنگٹن پرویز مشرف کو اس وقت تک وردی میں دیکھنا چاہتا ہے جب تک کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم جاری ہے۔ بش انتظامیہ کے لیے جمہوریت یقینا کوئی Issue نہیں ہے کیونکہ پاکستان کا فوجی حکمراں جمہوری حکمراں کے مقابلے میں امریکا کے لیے کہیں زیادہ مفید ثابت ہو گا۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کا حکمراں فوجی جنرل مغرب کے لیے پریشان کن نہیں ہو گا۔ جب تک کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر حلیف رہتا ہے۔ لیکن یہ حمایت غیرمشروط نہیں ہے۔ واشنگٹن جوہری پھیلائو کے اسکینڈل پر مشرف کے ہاتھ مروڑنے کا سلسلہ جاری رکھے گا جو کہ ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف ایکشن لیے جانے سے ختم نہیں ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ کا ایک مضبوط حلقہ اب بھی ان اطلاعات سے مطمئن نہیں ہے جو پاکستانی حکومت نے اس مسئلے پر فراہم کی ہیں۔ یہ شکنجہ مزید کسا جائے گا‘ جونہی امریکا یہ محسوس کرے گا کہ پرویز مشرف کی افادیت اب ختم ہو چکی ہے۔ ممکن ہے واشنگٹن کی حمایت نے پرویز مشرف کو بہت اونچا چڑھایا ہو لیکن اس سے درونِ خانہ حقائق نہیں بدلیں گے۔ امریکا اور فوج کی حمایت کے باوجود پرویز مشرف کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسا نظام جنم دیا ہے جو فوجی اور جمہوری حکومت کا آمیزہ ہے۔ یقینا یہ کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ اب تک فوج کی حمایت سے اس نظام کو استحکام جیسی چیز فراہم ہوئی ہے لیکن یہ خود اپنے تضادات کے نتیجے میں ٹوٹ رہا ہے۔ اس نظام کا عوامی رنگ‘ جو فوج کا چڑھایا ہوا ہے‘ نظام کو پائیدار بنانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ اور کابینہ تقریباً ناکارہ ہیں۔ تین ماہ کے مختصر دورانیے میں پرویز مشرف نے ایک وزیراعظم کو معزول کیا۔ دوسرے کو کنارے لگا دیا اور تیسرے کو وزیراعظم مقرر کر دیا‘ اس سے قبل کہ وہ قومی اسمبلی کی مستعار نشست بذریعہ ضمنی انتخاب حاصل کرتے۔ وزیراعظم محض ایک شو پیس ہے جبکہ فوج کی ملک پر مضبوط گرفت ہے۔ پرویز مشرف کے شخصی اندازِ حکومت نے ملک میں جمہوری عمل کے جڑ پکڑنے کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ نظام پر اعتماد کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ پارلیمنٹ اور کابینہ غیرضروری معلوم ہونے لگے ہیں کیونکہ اہم داخلی و خارجی مسائل پر جو فیصلے لیے جاتے ہیں وہ ان لوگوں کے ذریعہ لیے جاتے ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے گرد ہالہ بنایا ہوا ہے۔ صدر نے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر انتظامی اختیارات وزیراعظم کے حوالے کر دیے ہیں لیکن واقعی جو صورتحال ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ قوت کا اصل مرکز کہاں ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ایک موثر جمہوریت کا تصور محال ہے جہاں پارلیمنٹ کی تقدیر کے مالک خود پارلیمنٹ کے ارکان نہ ہوں بلکہ ایک ایک فوجی جنرل ہو۔ ان کے نظام میں جانشینی کا کوئی اصول نہیں ہے۔ جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف کو کچھ ہوا تو اس صورت میں ایک دوسرا جنرل اقتدار پر قابض ہو جائے گا۔ مشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کی کوشش شروع کر دی ہے‘ جب سے وردی اتارنے کے حوالے سے ان پر دبائو میں اضافہ ہوا ہے۔ آصف علی زرداری کی ۸ سالہ قید سے رہائی بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے قاصد کے مابین مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد عمل میں آئی۔ اس بات چیت میں ایک اہم فوجی افسر شامل تھا اور اس کا سلسلہ چند ماہ قبل شروع ہوا تھا۔ لیکن اس گفتگو کو مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنماوں تک سے مخفی رکھا گیا۔ شجاعت حسین کو بہت بعد میں اعتماد میں لیا گیا۔ ابھی بہت عرصے تک ڈیل کے سہارے پرویز مشرف کو چلنا ہے‘ کم از کم ۲۰۰۷ء تک۔ اس گفتگو میں بے نظیر بھٹو کا پاکستانی حکومت سے سب سے اہم مطالبہ سوئس عدالت میں جاری منی لانڈرنگ مقدمے کو واپس لینے کا تھا۔ ان مذاکرات نے اپوزیشن کو تقسیم کر دیا اور پرویز مشرف کی وردی پر سے ان کی توجہ ہٹا دی۔ مفاہمت کی یہ کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی جب پرویز مشرف آئندہ انتخابات میں ایم ایم اے کو کنارے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی یہ پالیسی اس پالیسی کے بالکل برعکس ہے جو انہوں نے ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں اپنائی تھی۔ جب انہوں نے پی پی پی اور پی ایم ایل کو نیچا دکھانے کے لیے ایم ایم اے کو کافی بڑھاوا دیا تھا۔ پرویز مشرف کی حوصلہ افزائی امریکا کی جانب سے بھی ہوئی ہے‘ جو دو کلیدی صوبوں میں ایم ایم اے کے سیاسی اثر و رسوخ سے خوش نہیں ہے‘ یعنی سرحد اور بلوچستان میں۔ اس ڈیل کے نتیجے میں ممکن ہے کہ پی پی پی کی وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت میں شامل کر لیا جائے۔ پی پی پی کے ساتھ مذاکرات کی دوسری وجہ ایم کیو ایم کی سرگرمیوں کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا عدم اطمینان ہے۔
بھارت کے دورے کے دوران الطاف حسین کے بیانات نے ایم کیو ایم اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں خرابی پیدا کر دی جو کہ تازہ تازہ استوار ہوئے تھے۔ مشرف کو بھی پی پی پی کی حمایت کی ضرورت ہے جبکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے جارہے ہیں۔ سیاست میں فوج کی بالادستی ہمیشہ تقسیم کی موجب رہی ہے اور اس نے چھوٹے صوبوں میں بے اطمینانی کی کیفیت پیدا کی ہے۔ بلوچستان میں بغاوت کا بڑھتا ہوا رجحان ملک کی سلامتی اور استحکام کو ایک سنگین خطرے سے دوچار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مشرف نے متنازعہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حکم صوبوں کے ساتھ اتفاقِ رائے پیدا کیے بغیر ہی دے دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اہم مسائل پر منقسم ہے‘ خاص طور سے بھارت کے ساتھ امن تعلقات کے مسئلے پر۔ جبکہ پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے بعض مثبت قدم اٹھائے ہیں تاہم اس حوالے سے ان کے بیانات بہت ہی زیادہ متضاد ہیں۔
نومبر میں مسئلۂ کشمیر کے حل کے لیے مشرف ایک نئی تجویز سامنے لائے لیکن جلد ہی وہ اس سے پیچھے ہٹنے لگے‘ جب انہوں نے دیکھا کہ بھارت کا رویہ اس حوالے سے بالکل ٹھنڈا ہے۔ بیشتر تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ علی الاعلان اس طرح کی تجویز دینا ایک سنگین غلطی تھی‘ خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ بھارت سے بات چیت کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ صدر جب ایک افطار پارٹی میں یہ تجویز سامنے لائے تو اس سے پہلے نہ ہی کابینہ کو اور نہ ہی وزارتِ خارجہ کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا۔ بعض سینئر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ یہ اعلانیہ بیان فضول تھا جبکہ دونوں ممالک کے مابین بیک چینل مذاکرات جاری تھے۔ اس اقدام سے مسئلہ صرف پیچیدہ ہوا ہے۔ اگرچہ مشرف اپنے آپ کو ریفارمر کے طور پر پیش کر رہے ہیں‘ اس وعدہ کے ساتھ کہ وہ آزاد معاشرہ کے قیام کی کوشش کریں گے‘ حکومتی اداروں کو استحکام بخشیں گے اور مذہبی انتہا پسندی کو ختم کریں گے۔ تاہم ان کی پالیسیاں تضادات سے بھری پڑی ہیں۔ ماضی کے فوجی حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مشرف نے اپنے حلیف‘ اُن میں سے تلاشے ہیں جو انتہائی رجعت پسند سیاسی و سماجی قوتوں سے متعلق رہے ہیں اور جو یقینا ان کے اعلانیہ مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں وڈیروں اور بدعنوان سیاستدانوں کا ٹولہ اپنے ساتھ جمع کر لیا ہے جو ہمیشہ جنرلوں کی تابعداری کرنے والی ہے اور جو فوج کے اقتدار سنبھالتے ہی فوجی گاڑی میں سوار ہو جاتے ہیں۔ سیاسی مصلحت اندیشی اب بھی سکۂ رائج الوقت ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آج بھی کابینہ کے بیشتر ارکان کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ یہ ہے وہ جمہوریت جسے خلق کرنے کا پرویز مشرف دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا یہ وعدہ کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا قلع قمع کر دیں گے‘ ابھی تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ شدت پسند اسلامی روایتی حلیفوں سے تعلقات منقطع کرنے میں فوج کی پس و پیش اور پھر لبرل اور سیاسی پارٹیوں پر جبر نے ملک کو انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا ہے۔ بے دلی سے جو اقدامات اٹھائے گئے‘ وہ بیشتر عالمی دبائو سے مجبور ہو کر اٹھائے گئے۔ چنانچہ یہاں عزمِ مسمم کا مکمل فقدان نظر آئے گا۔ ’’مبنی براعتدال روشن خیالی‘‘ سے متعلق مشرف کا وِژن ممکن ہے ملک کی ثقافتی فضا میں کچھ بہتری لایا ہو اور مغرب سے اس پر انہیں شاباشی بھی ملی ہو لیکن اس حوالے سے ان کی کوششیں اسی نکتہ پر آکر منتہی ہو جاتی ہیں۔ بہت سارے کلیدی مسائل پر وہ دائیں بازو کے حلیف (پی ایم ایل۔ق) اور ملائوں کے دبائو میں آکر پیچھے ہٹے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات جس کا بہت شور کافی عرصہ سے معرضِ تعطل میں ہے‘ اس لیے کہ پی ایم ایل (ق) کے اعلیٰ قائدین اور ایم ایم اے نے نصاب میں تبدیلی کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف جو بل پیش ہوا‘ اس میں اتنا دست و برد ہوا کہ اس کی موثر افادیت ہی نہ رہی۔ پرویز مشرف کے ادھورے اقدا م معاشرے سے انتہا پسندی کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ فرقہ واریت پر مبنی فسادات کے بڑھتے ہوئے واقعات سے شدت پسند اسلامی گروہوں کا پھر سے فعال و متحرک ہو جانا واضح ہے۔ پرویز مشرف کا ایک اہم منصوبہ یہ بھی تھا کہ وہ مدارس میں اصلاحات لائیں گے اور اس کے لیے ضوابط بنائیں گے۔ اس لیے کہ یہ مدارس جہاد کے کلچر کو فروغ دینے کے سبب بین الاقوامی اداروں کی نظروں میں آگئے تھے۔ ان کی حکومت جہادی نیٹ ورکس کو ختم کرنے‘ مذہبی انتہا پسندی کا زور توڑنے جیسے وعدوں کو پورا کرنے میں کوئی خاص کامیابی کا مظاہرہ نہ کر سکی اور یہ چیزیں ہنوز پاکستان کی داخلی سلامتی اور علاقائی و بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اب بھی بہت سارے پاکستانی مدارس افغانستان میں طالبان کو جہادی فراہم کر رہے ہیں۔ مشرف کی ناکامی اصلاحات نافذ نہ کرنے کی وجہ سے شاید کم ہے بلکہ فوجی حکومت کی اپنی عدم آمادگی کی وجہ سے زیادہ ہے۔ جہاں فوجی حکومت نے القاعدہ کے مفروروں کو گرفتار کرنے میں بھرپور چوکسی کا مظاہرہ کیا‘ وہیں اس نے داخلی انتہا پسندوں کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے گریز کیا۔ سیاسی مصلحت اندیشی نے دائیں بازو کے مذہبی گروہوں نیز اسلامی انتہا پسندوں کو اپنے دائرۂ اثر و رسوخ کو پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ سیاسی‘ مذہبی اور نسلی خطوط پر معاشرے کی افقی اور عمودی تقسیم کا عمل گذشتہ چند سالوں سے بہت تیز ہو گیا ہے جو کہ خود پرویز مشرف اور پاکستان دونوں کی بقا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’نیوز لائن‘‘۔ کراچی)
Leave a Reply