
بڑے بحرانوں کی پہلے آہٹ محسوس ہوتی ہے، پھر وہ خود آجاتے ہیں۔ جب وہ خود آتے ہیں تب بہت سوں کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہو کیا گیا ہے۔ کچھ ایسا ہی آج کل معیشت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ دھیرے دھیرے، خاصی خاموشی کے ساتھ ڈیجیٹل یا کمپیوٹرز اور موبائل فون سسٹم سے جُڑا ہوا نظام معیشت کے حوالے سے چلن میں آچکا ہے۔ اس حوالے سے خاصی بحث و تمحیص بھی ہو رہی ہے تاہم اس نکتے پر کم ہی بات ہو رہی ہے کہ یہ سب کچھ ہماری معیشت کو کس طور بدل رہا ہے۔ اور یہ کہ یہ تبدیلی ہر شخص کے مفاد میں ہے بھی یا نہیں۔ تکنیکی (ٹیکنالوجیکل) پیش رفت نے کاروبار کے مختلف شعبوں میں درمیانے ایجنٹس یا بچولیوں (مڈل مین) کے لیے شدید خطرات پیدا کردیے ہیں۔
گزشتہ دنوں متعدد بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لاکھوں تقسیم کاروں اور سیلنگ ایجنٹس کے حوالے سے ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عام جنرل اسٹور تیزی سے بڑے کاروباری خاندانوں کے تھوک اور خوردہ دونوں ہی طرح کے کاروباروں سے جڑ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مڈل مین کے ہاتھوں ہونے والی فروخت میں ۲۰ سے ۲۵ فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ملک بھر میں ایسے افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے جو شہروں اور دیہی علاقوں میں دکانوں پر جاکر آرڈر لیتے اور مال فراہم کرتے ہیں۔ اب تکنیکی ترقی کی بدولت دکان دار کمپنی سے مال براہِ راست مانگ سکتے ہیں۔ اب دکان دار ایپس کے ذریعے مال کا آرڈر دیتے ہیں اور کمپنی ۲۴ گھنٹے میں ڈلیوری کردیتی ہے۔ اس صورت میں دکان داروں کو مال سستا ملتا ہے کیونکہ تھوک فروش کو مڈل مین کی تنخواہوں اور دیگر مدوں میں خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اس چلن سے مڈل مین کا دھندا چوپٹ ہو رہا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، چھوٹا دکان دار یا کوئی اور شخص مال وہیں سے خریدے گا جہاں سے اُسے سستا ملے گا۔
حالات کی روش دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مڈل مین اُسی وقت میدان میں رہ سکتے ہیں جب وہ بھی چھوٹے دکان داروں کو مال سستا دیں۔ ایسا بہت مشکل ہے کیونکہ صنعت کار بالعموم بڑی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر مال دیتے ہیں۔ یہ کمپنیاں مل کر اجارہ داری بھی قائم کرلیتی ہیں۔ عام مڈل مین کے لیے اُن سے مسابقت ممکن نہیں۔ عام مڈل مین کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ بڑے پیمانے پر مال لے کر آگے سستا دے۔ اور اگر چند ایک مڈل مین مل کر کوئی ادارہ قائم کر بھی لیں تو بازار میں اتار چڑھاؤ کی ایک چھوٹی سی لہر بھی اُن کا سب کچھ بہاکر لے جاسکتی ہے۔ تکنیکی معاملات میں بڑی کمپنیاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔ چھوٹے کاروباری افراد یعنی مڈل مین ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ وہ کم از کم تکنیک کے میدان میں تو بالکل مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیے تو معیشت میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو رہی ہے کیونکہ مڈل مین کا کردار ختم ہوتا جارہا ہے۔
اصل مصیبت یہ ہے کہ تکنیکی ترقی کے نتیجے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں انہیں کسی قانون کے ذریعے روکا نہیں جاسکتا۔ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا کہ دکان دار تھوک فروش سے مال براہِ راست لینے کے بجائے مڈل مین سے خریدیں۔ اس معاملے میں انہیں پابند نہیں کیا جاسکتا۔ بازار تو لاگت، مال کی ترسیل، طلب اور منافع کے کھیل سے چلتا ہے۔ مڈل مین یا تو مال سستا دیں یا مال کے ساتھ کچھ اضافی دیں تب تو دکان دار اور عام لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر لاگت اور قیمتِ فروخت کے کھیل میں جو جیتے گا سارے گاہک اُسی کی طرف جائیں گے۔ بڑے کاروباری ادارے اس کھیل میں کُھل کر جیت رہی ہیں۔
قیمت کا تعلق اس بات سے ہے کہ اُس میں کون سا فریق کون سی قدر جوڑ رہا ہے۔ مثلاً اخبار دفتر میں تیار ہوتا ہے، پریس میں طبع ہوکر کئی بچولیوں کی وساطت سے قارئین کے گھر تک پہنچتا ہے۔ قارئین اخبار کی جو قیمت ادا کرتے ہیں اُس میں سے ان بچولیوں کو حصہ ملتا ہے۔ اگر مڈل مین نکال دیے جائیں تو اخبار کی قیمت کم ہوجائے گی۔ اخبار کو انٹرنیٹ کی مدد سے کمپیوٹر یا موبائل فون پر پڑھنے والوں کو زیادہ قیمت نہیں چُکانا پڑتی کیونکہ مڈل مین ہوتا ہی نہیں۔
تکنیکی ترقی سے مڈل مین کا دھندا ہی چوپٹ نہیں ہو رہا بلکہ اور بھی کئی خطرات اُبھر رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کے لیے ان خطرات کو سمجھنا لازم ہے۔ کچھ کچھ تو وہ سمجھ ہی رہے ہیں۔ تکنیکی ترقی (یعنی ٹیکنالوجیکل پیش رفت) سے وابستہ کمپنیوں کے شیئر بھی اب مارکیٹ میں ہیں۔ اشیائے خور و نوش اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کی خرید و فروخت سے جُڑی ہوئی کمپنیوں کو زیادہ قبول کیا جارہا ہے۔ ان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ بیشتر سرمایہ کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ تکنیکی معاملات سے جُڑی ہوئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہی بہترین حکمتِ عملی ہے کیونکہ ایسی صورت میں منافع کی شرح بڑھتی ہی جائے گی۔
کسی بھی کمپنی کی منافع کمانے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ سرمایہ کاروں کو تکنیکی کمپنیوں کے شیئرز میں بھرپور دلچسپی لینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے کہیں اُن کا سرمایہ خطرے میں تو نہیں پڑ جائے گا۔ کوئی بھی کمپنی اُس وقت تک ہی پُرکشش رہ سکتی ہے جب تک وہ زیادہ منافع کماتی ہے۔ اگر منافع کمانے کی صلاحیت کمزور پڑ جائے تو سرمایہ کار اُس سے منہ موڑنا شروع کرتے ہیں۔ یہ بالکل فطری معاملہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں آئے دن شدید نوعیت کا اُتار چڑھاؤ دکھائی دیتا ہے۔ تکنیکی کمپنیوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔
تکنیکی ترقی اپنے آپ میں بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں ہے۔ اگر آج کوئی کمپنی تکنیکی اعتبار سے بہت اچھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ منافع کماکر دیتی رہے گی۔ بعض تکنیکی اداروں کے شیئر غیر معمولی قیمت کے ہوتے ہیں مگر جب گراوٹ آتی ہے تو کوئی اُنہیں بچانے والا نہیں ہوتا۔ اس وقت سرمایہ کار تیزی سے تکنیکی کمپنیوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت اچھا دکھائی دے رہا ہے مگر بہت خطرناک بھی ہے۔ تکنیک کی دنیا میں بہت کچھ بہت تیزی سے بدلتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے بڑے تکنیکی ادارے تیزی سے ابھرتے ہیں اور پھر اُتنی ہی تیزی سے لاپتا سے ہو جاتے ہیں۔ تحقیق و ترقی کے شعبے میں کام اِتنا زیادہ اور اِتنی تیزی سے ہو رہا ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی کسی تکنیکی کمپنی کے لیے وقت کے ساتھ چلنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھنے کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے مگر یہ لازم نہیں کہ ہر ٹیکنالوجی ہمیں کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائے گی۔ کبھی کبھی ٹیکنالوجی بہت کچھ لے بھی لیتی ہے۔
سرمایہ کاروں کو اب بہت سنبھل کر چلنا ہوگا۔ جو کاروباری ادارے ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر بیچ کے لوگوں کو نکال رہے ہیں وہ ایک بہت بڑا بحران پیدا کر رہی ہیں۔ اس بحران سے بطریقِ احسن نمٹنے کے لیے سوچنا لازم ہے۔ ہر شعبے کے بچولیوں کو سوچنا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے معیشتی ڈھانچے میں وہ کس طور جی سکیں گے، کام جاری رکھ پائیں گے۔
پیدا کار اور حتمی صارف کے درمیان سے سبھی لوگوں کے نکل جانے کی صورت میں معیشت کے لیے نئی الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ عام دکان دار یا خوردہ فروش کو مال سستا ملے یہ اچھی بات ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کا فائدہ حتمی صارف کو بھی مل پاتا ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو پھر یہ ساری مشقّت کسی کام کی نہیں۔ بچولیوں کا منافع ختم کرکے اگر خوردہ فروش اپنا منافع بڑھالے گا تو نقصان میں صرف حتمی صارف رہے گا۔ معیشت کو بہتر بنانے والے ذہنوں کو اس حوالے سے بھی سوچنا ہوگا۔
Leave a Reply