
زبان کا تلفظ زَبان ہے یا زُبان، دونوں طرح سے درست ہے، مختلف فیہ مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ بعض لوگ تخصیص کرتے ہیں کہ زَبان (Zabaan) جیبھ کے لیے ہے اور زُبان (Zubaan) بولی (Language) کے لیے۔ لُغَت کے کچھ اساتذہ اور طلبہ مُصر ہیں کہ زُبان جیبھ کے لیے ہے اور زَبان بولی کے لیے۔ اہلِ علم کی غالب اکثریت اس تخصیص کو نہیں مانتی۔ اس صورتِ حال میں تحقیق کے طالبِ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ لغوی مصادر کی طرف رجوع کرے۔ اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ’’زبان‘‘ پہلوی (فارسی) لفظ ہے اور ایران سے ہندوستان میں آیا ہے۔ فارسی کی چار اور اردو کی آٹھ لغات (فرہنگیں) میرے پیشِ نظر ہیں۔ ’’زبان‘‘ کے تلفظ، اعراب اور معنی و مفہوم کے حوالے سے حاصل مطالعہ قارئین کی نذر ہے۔ چوں کہ ایک ہی لفظ ’’زبان‘‘ کا تلفظ، اعراب اور معنی زیرِ بحث ہیں، لہٰذا اس تحریر میں لفظی اور معنوی تکرار غیراختیاری امر ہے۔
سب سے پہلے ایران سے شائع ہونے والی سہ جلدی فرہنگِ عمید کا نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی جلد دوم میں زَبان (بفتحِ اوّل) اور زُبان (بضمِ اوّل) مندرج ہیں۔ یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ پہلوی میں اس کی اصل زقان ہے۔ اس کے دو مفہوم رقم کیے گئے ہیں:
۱۔ عضوِ گوشت و متحرک کہ در دَہانِ انسان و حیوان قرار دارد۔ وآں مزۂ چیز ہا چشیدہ می شود و بہ جوع بدن غذا بلع آں کمک می کندو انسان بوسیلۂ آں حرف می زند۔
۲۔ بہ معنی لہجہ و طرزِ تکلّم و گفتار ہر قوم و ملت نیز می گویند۔
لغاتِ کِشَوَری (کِشْوری نہیں) برصغیر پاک و ہند میں فارسی کی مستند لغات مانی جاتی ہے۔ اس میں زَبان (بفتحِ اوّل) مندرج ہے جس کا اردو میں معنی لکھا گیا ہے: ’’بولی اور مُنْہ میں جو زبان (جیبھ) ہے‘‘۔
فیروزاللغات (فارسی) میں زَبان اور زُبان، ہر دو طرح سے درست مانا گیا ہے۔ جیبھ اور بولی دونوں معنی لکھے گئے ہیں لیکن زَبان (بفتحِ اوّل) کا ایک اور معنی بتایا گیا ہے جو کسی اور لغات میں مندرج نہیں:
’’دشمن کی فوج میں سے گرفتار کیا ہوا آدمی جس سے دشمن کی فوج کے حالات اور تعداد معلوم ہو سکے۔‘‘
جامع فارسی لغات میں ’’زبان‘‘ بغیر کسی اعراب کے مرقوم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زبر اور پیش دونوں کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ یہاں تین معنی لکھے گئے ہیں۔ جیبھ، بول چال کا ذریعہ اور بول چال۔
اب اردو کی فرہنگوں میں موجود لفظ ’’زبان‘‘ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ نوراللغات اردو کی جامع اور مستند فرہنگوں میں سے ایک ہے۔ اس لغات میں ’’زبان‘‘ کے اعراب کے بیان میں ایک سنگین سہو ہوا ہے۔ نوراللغات میں مرقوم ہے: زبان (بفتحِ اوّل و نیز بضمِ دوم)
جس کا مطلب اور مفہوم صرف یہی نکلتا ہے کہ زاء پر زبر اور باء پر پیش، لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ’’زبان‘‘ کے باء کے آگے الف ہے جس کی وجہ سے باء پر پیش لکھی اور بولی نہیں جاسکتی۔ صاحبِ نور اللغات کے پیشِ نظر غالباً یہ عبارت ہو گی:
’’زبان (بفتحِ اوّل نیز بضمِ اوّل) یعنی زبان کے پہلے حرف زاء پر زبر اور پیش دونوں آسکتے ہیں۔‘‘
اس کے معانی کی فہرست کچھ اس طرح ہے: جیبھ، بول چال، روز مرہ بولی جس کے ذریعے سے انسان اپنے دل کی بات ظاہر کر سکے۔ اقرار اور وعدہ وغیرہ۔
فرہنگِ آصفیہ میں زَبان اور زُبان ہر دو طریقے سے مرقوم ہے۔ جیبھ، لسان، بول چال، گویائی، نطق، بولی، محاورہ، بات، قول و قرار، وعدہ اور بیان اس کے معانی بتائے گئے ہیں۔
اردو لغت بورڈ (ترقی اردو بورڈ) کراچی کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی معروف فرہنگ اردو لُغَت میں زبان (بفتحِ اوّل و نیز بضمِ اوّل) یعنی زَبان اور زُبان دونوں طرح سے مُندرج ہے۔ اس کے معانی ہیں: مُنہ کے اندر کا وہ عضو جس میں قوتِ ذائقہ ہوتی ہی اور جو نطق کا آلہ ہے یعنی جیبھ۔ بولی، جس کے ذریعے انسان تکلم یا تحریر کی صورت میں اپنے خیالات اور جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ بول چال، روزمرہ بات، قول، اقرار، وعدہ، اندازِ بیان، قلم کی نوک، تیر و خنجر کی نوک وغیرہ۔
جامع اللغات میں زَبان اور زُبان، دونوں طرح سے لکھا ہوا ہے۔ معانی کی فہرست کچھ اس طرح ہے: گوشت کا سُرخ ٹکڑا جو منہ میں ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ ذائقہ ہوتی ہے اور انسان اس کے ذریعے بولتا ہے یعنی جیبھ۔ بولی، جس سے انسان اپنے خیالات ظاہر کرتا ہے۔ بول چال، روز مرہ، بدزبانی، اقرار، وعدہ، بیان کرنے کا انداز، شعلہ، تیغ و خنجر سے استعارہ کرتے ہیں۔
شان الحق حقی نے فرہنگِ تلفظ میں زُبان (بضمِ اوّل) لکھنے کے بعد ’’زبان‘‘ سے تشکیل پانے والے محاوروں میں زَبان (بفتحِ اوّل) لکھا ہے۔ زباں (غُنّہ کے ساتھ) کو بھی زَباں (بفتحِ اوّل) اور زُباں (بضمِ اوّل) رقم کیا ہے۔
محمد عبداﷲ خان خویشگی کی فرہنگِ عامرہ میں بھی زَبان اور زُبان، دونوں مرقوم ہیں۔
آخر میں دو ایسی فرہنگوں کا ذکر بہت اہم ہے جن میں زبر کے بجائے پیش سے زُبان مرقوم ہے۔ ان میں پہلی وارث سرہندی کی علمی اردو لغت اور دوسری ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رافع اللغات ہے۔ ان دونوں فرہنگوں میں زَبان کے بجائے زُبان ہے۔ علمی اردو لغت کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں زبان کی ذیل میں اڑھائی سو کے لگ بھگ زبان سے تشکیل پانے والے محاوروں اور کہاوتوں میں زُبان کی زاء پر بڑی التزام کے ساتھ پیش لگایا گیا ہے۔
اس پورے جائزے سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ اس تخصیص کا تاثر زائل ہو جاتا ہے کہ زَبان اور زُبان میں سے ایک جیبھ کے لیے ہے اور دوسرا بولی (Language) کے لیے۔
۲۔ زیر، زبر اور پیش کی ترتیب کے لحاظ سے فرہنگوں میں پہلے زبر کے ساتھ زَبان اور پھر پیش کے ساتھ زُبان مرقوم ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کہ ’’زَبان‘‘ زبر کے ساتھ لکھنے اور بولنے کو ترجیح حاصل ہے۔
۳۔ فارسی اور اردو کے دستیاب مصادر میں سے دو کے علاوہ باقی میں زَبان اور زُبان دونوں درست ہیں۔ علمی اردو لغت اور رافع اللغات میں زبر کے بجائے پیش کے ساتھ زبان لکھا ہوا ملتا ہے لیکن ان دونوں میں یہ بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ زبر کے ساتھ زَبان غَلَط ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’اخبارِ اُردو‘‘ اسلام آباد۔ نومبر،دسمبر ۲۰۱۴ء)
بہت خوب
Nice