
پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور قوم کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں مغربی پروپیگنڈا پھر زور پکڑ رہا ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں ایسے مضامین اور کتابیں شائع کی جارہی ہیں جن میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے طرح طرح کے شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق اسلحہ انسپکٹر ڈیوڈ البرائٹ کی کتاب “Peddling Peril: How the Secret Nuclear Trade Arms America’s Enemies” ۱۶ مارچ کو شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں دعووں پر مبنی ’’حقائق‘‘ پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کا حامل بنانے میں چین نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کوشش کا بنیادی مقصد ایک تیر سے دو شکار کرنا ہے، یعنی پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے لیے بھی مخالف فضا تیار کی جائے۔ اس کتاب کے چند اقتباسات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:
پاکستان کو ایٹم بم کی تیاری کے لیے حتمی ڈیزائن اور ضروری آلات سے متعلق ڈرائنگز چین نے فراہم کی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی ابتدائی کوششوں میں ناکام ہوگئے تھے (!) چین نے پاکستان کو چھوٹے ایٹمی ہتھیار کا ڈیزائن فراہم کیا جسے طیارے یا میزائل کے ذریعے بھارت پر داغا جاسکتا تھا۔ یہ ہتھیار ۱۲ ؍ہزار ٹن دھماکہ خیز مواد کی قوت کا حامل تھا۔ چین نے ساتھ ہی پاکستان کو ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا ۵۰ کلو یورینیم بھی فراہم کیا۔ Chic4 نام کا یہ ایٹمی ہتھیار اسی شدت کا تھا جس شدت کا ایٹم بم امریکا نے جاپان میں گرایا تھا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر دنیا کی نظریں جمی تھیں۔ ۱۹۷۰ کی دہائی کے اوائل میں جب پاکستان نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تو مغربی دنیا، بالخصوص امریکا کے کان کھڑے ہوئے۔ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں ایٹمی ٹیکنالوجی، پرزوں اور مواد کا حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے ایجنٹ اس حوالے سے تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ پاکستانیوں نے بیشتر معاملات میں غیر معمولی رازداری برتی۔
۱۹۷۹ء کی دہائی کے اواخر میں کارٹر انتظامیہ کو چین کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کا ڈیزائن پاکستان کو فراہم کیے جانے کا علم ہوچکا تھا تاہم امریکا اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اس ایٹمی پروگرام اور اس سے متعلق بین الریاستی اشتراکِ عمل کے خلاف کچھ کر پاتا۔ افغانستان پر سوویت لشکر کشی کے بعد سوویت یونین کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے پاکستان کی شکل میں امریکا کو اہم اتحادی درکار تھا۔ اگر امریکا پاکستان پر ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دبائو ڈالتا تو بہت بگاڑ پیدا ہوتا۔ یہی سبب تھا کہ امریکا نے پاکستان کے ایٹی پروگرام کے حوالے سے سرگرمیاں مشکوک ہونے کے باوجود نظریں پھیر لیں۔ اس روش نے پاکستان کو کُھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔
پاکستان جیسے صنعتی طور پر پسماندہ ملک کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بڑا کارنامہ انجام دیا اور ڈیزائن ملنے کے بعد یورپی کمپنیوں سے مختلف آلات حاصل کیے۔ یہ سب یورپ میں موجود ایجنٹوں کے ذریعے کیا گیا۔ پاکستان کے لیے یہ سب کچھ آسان نہ تھا۔ دنیا بھر کے سیکریٹ ایجنٹ صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ایک مرحلے پر برطانوی خفیہ ایجنٹوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق اہم معلومات حاصل کرکے امریکا کے حوالے کیں۔
۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۴ء تک پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں نے چین سے بھرپور معاونت حاصل کی۔ انہوں نے بیجنگ جاکر چین کے ایٹمی ماہرین کے خطابات سنے اور اہم نکات کے نوٹس لیے۔ ان خطابات میں شریک ہونے کا مقصد ایٹمی ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کے حوالے سے رہ جانے والی مشکلات اور خامیوں کو دور کرنا تھا۔ چین نے پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے غیر معمولی مشوروں اور عملی معاونت سے نوازا۔ دوسری جانب چین کو بھی پاکستان سے اپنے ایٹمی پروگرام میں مدد ملی کیونکہ اسے یورپ سے چرائی جانے والی Advance Centrifuge Technology تک رسائی ملی۔ اس ٹیکنالوجی تک رسائی نے چین کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کو آگے بڑھانا ممکن بنایا۔ ۱۹۸۰ کی دہائی میں چینی ماہرین پاکستان کی ایٹمی تنصیبات میں موجود رہے۔‘‘
خلیج کی جنگ سے کچھ دن قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایک ایجنٹ نے عراق کے صدر صدام حسین کو ایٹمی ہتھیار بنانے میں فیصلہ کن تکنیکی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ یہ پیشکش خاصی اہم اور حساس تھی۔ خفیہ عراقی سرکاری دستاویزات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایک ایجنٹ نے اپنی پیشکش میں کہا تھا کہ ۱۵ کروڑ ڈالر کے عوض عراق کو ایٹم بم کے ڈیزائن ہی نہیں، پروڈکشن پلانٹ اور بم کی تیاری کے دوران ماہرین کی جانب سے نگرانی کی خدمات بھی فراہم کی جائیں گی! عراقی حکومت کی ایک یادداشت کے مطابق پیشکش میں کہا گیا کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کے حوالے جو پیش رفت دس سال میں ۳۰ کروڑ ڈالر خرچ کرکے یقینی بنائی وہ عراق کے لیے صرف تین سال میں یقینی بنائی جائے گی۔ ضروری آلات اور مواد کی فراہمی کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ تین پاکستانی ایٹمی سائنس دان مستعفی ہوکر عراق میں پروجیکٹ پر کام کریں گے۔ یہ واضح نہیں کہ اس پیشکش پر صدام حکومت کا رد عمل کیا تھا اور معاملات کس حد تک آگے بڑھ سکے تھے۔‘‘
(بحوالہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۱۰ مارچ ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply