
سرکاری بیانات پر اگر یقین کر لیا جائے تو پاکستان ایک خوددار ملک ہے۔ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی طرف اگر کوئی میلی آنکھ سے دیکھے تو آنکھ نکالنے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے۔ اصولوں پر ہرگز سودے بازی نہیں ہوتی۔ ملکی سالمیت کا اندرونی اور بیرونی طور پر تحفظ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا محور ہے۔ بار بار یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور پہلا مسلمان ایٹمی ملک ہے اور اس ناطے عالمِ اسلام کی قیادت کا پوری طرح اہل ہے۔ لیکن جب امریکا اچانک سے بیچ میں آجائے تو پھر تصویر بدل جاتی ہے۔
ایمل کانسی کی گرفتاری کے بعد امریکی ریاست ورجینا کا ایک معمولی سا اٹارنی اٹھ کر یہ کہہ دے کہ یہ لوگ وقت پڑنے پر ماں کو بھی فروخت کر سکتے ہیں تو اس کے بعد یہ خبر دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں کہ پاکستانی سفیر کو صلاح مشورے کے نام پر ہی سہی لیکن اسلام آباد واپس بلا لیا گیا ہے۔
اگر اخبار واشنگٹن پوسٹ ایسا کارٹون چھاپ دے جس میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک وفادار کتے کے طور پر شاباش دی جارہی ہے تو حکومت اخبار کے خلاف توہین اور ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی تو ضرور دیتی ہے لیکن یہ مقدمہ کبھی دائر نہیں ہوتا۔
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ میں اٹھارہ عام شہری امریکی میزائل حملے کا نشانہ بن جاتے ہیں(باجوڑ میں حال ہی میں ایک مدرسے پر بمباری سے ۸۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے)جس کے بعد حکومت یہ کہتی ہے کہ امریکی سفیر کو وزارتِ خارجہ طلب کر کے جھاڑ پلائی گئی ہے۔ لیکن بعد میں یہی حکومت اعتراف کرتی ہے کہ امریکی سفیر کو طلب نہیں کیا گیا تھا بلکہ کسی سرکاری ملاقات کے دوران پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا گیا تھا۔
اکثر خبریں آتی ہیں کہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر کسی پاکستانی وزیر یا اعلیٰ افسر کی جوتے اتروا کر تلاشی لی گئی۔ آج تک کسی امریکی اہلکار کی کسی پاکستانی ایئرپورٹ پر تلاشی نہیں ہوئی۔ بلکہ امریکی صدر کے دورے کے موقع پر ایئرپورٹ اور ٹریفک کا انتظام تک امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے ہو جاتا ہے۔
جیکب آباد ایئرپورٹ امریکیوں کے حوالے کرنے کا معاملہ پاکستانی اقتدارِ اعلیٰ کے لیے سوالیہ نشان نہیں بنتا لیکن جب کوئی مقامی صحافی اس ایئرپورٹ کی تصاویر بنانا چاہتا ہے تو وہ تین ماہ کے لیے غائب ہو جاتا ہے۔ وزیرستان میں صحافی حیات اﷲ جب ایک مکان پر گرنے والے امریکی میزائل کے ٹکڑوں کی تصویر بناتا ہے تو وہ بھی غائب ہو جاتا ہے اور سات ماہ بعد اس کی لاش ملتی ہے۔
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کی شام تک پاکستان کی جانب سے تسلیم شدہ طالبان حکومت کے سفیر ملا ضعیف کو امریکی سکیورٹی ایجنٹ آنکھوں پر پٹی باندھ کر پاکستانی فوجی افسروں کے سامنے مارتے ہوئے ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر اڑ جاتے ہیں اور کوئی یہ نہیں کہہ پاتا کہ یہ سفیر ہمارا مسلمان تھا۔ اسے کم از کم ہمارے سامنے تو مت مارو۔
صدر پرویز مشرف نے ایک امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے تصدیق کی کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکی نائب وزیرِ خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے الٹی میٹم دیا کہ پاکستان نے اگر امریکا کا غیرمشروط ساتھ نہ دیا تو اس ملک کو بمباری کر کے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا۔ یہ دھمکی اس پاکستان کو دی گئی تھی جس نے پچاس کے عشرے میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کو فضائی جاسوسی کی سہولیات اور اَسّی کے عشرے میں جنگ افغانستان میں امریکا کا بھرپور ساتھ دے کر اپنی سالمیت کو دائو پر لگا دیا تھا۔
انٹرویو لینے والے نے صدر مشرف سے پوچھا کہ کیا انھیں رچرڈ آرمٹیج نے خاص تلخ بات کی تھی۔
رچرڈ آرمٹیج اس دھمکی کے بعد بھی امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے طور پر کئی ماہ پاکستانی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے رہے۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام)
Leave a Reply