
نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے مزین و آراستہ سکیورٹی کونسل چیمبر میں ۳۱ اکتوبر کو جو تماشا ہوا‘ اس میں نپی تلی پاور ڈپلومیسی کی تمام چالوں کو شامل کیا گیا تھا۔ تین پرانے و نئے استعماری و سامراجی طاقتوں کے وزراے خارجہ وہاں موجود تھے۔ جیک اسٹرا اور ان کے فرانسیسی ہم منصب خاص طور سے اس سیشن کے لیے بذریعہ جیٹ تشریف لائے‘ جس طرح کہ کونڈو لیزا رائس واشنگٹن سے تشریف لائی تھیں۔ یہ رعب و دبدبے کا بے تحاشا اظہار تھا۔ طاقت کے اظہار کو ضروری خیال کیا گیا ہے تاکہ اپنے تازہ شکاری شامیوں کے دلوں میں خوف بٹھایا جاسکے۔ کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تاکہ شام کو عالمی برادری کے نام پر دبائو میں لیا جاسکے۔ عالمی برادری کی اصطلاح ایک ایسی اصطلاح ہے جو مکمل طور سے ہتک و توہین سے پُر رہی ہے اور جسے واشنگٹن نوقدامت پرستوں کے زیرِ اثر بلاتامل اور بلاسبب استعمال کرتا رہا ہے۔ بہرحال فیصلے کے دن استعماری قوتیں سکیورٹی کونسل کو جھکانے میں کامیاب نہ ہو سکیں‘ اس لیے کہ روسیوں اور چینیوں نے اپنے موقف کو مضبوطی سے پکڑے رکھا‘ پھر ایک حد کھینچ دی اور خام دھمکیوں اور گیڈر بھپکیوں کے ایجنڈے کا زیادہ عرصہ تک ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن کونسل نے قرارداد نمبر۱۶۳۶ کو اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا اور اس مطالبے کی تائید کی کہ شام اقوامِ متحدہ کی خصوصی تحقیقاتی کمیشن کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرے جو اس امر کا پتا لگانے پر مامور ہے کہ گذشتہ فروری میں ہوئے لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل میں کون کتنا ملوث اور کس کس پر اِس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس بات پر واضح ناراضی ہے کہ کونسل نے ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا جن کا مقصد پابندیوں کی دھمکی دے کر شام کو ڈرانا تھا۔ یہ دھمکیاں ٹارچر میڈیسن ہیں‘ جسے بڑی بے رحمی کے ساتھ ۱۳ سال کے طویل عرصے تک عراق کے خلاف استعمال کیا گیا۔ مغربی طاقتیں اسے دمشق کے خلاف پورے شدومد کے ساتھ احتجاج کی صورت میں استعمال کر رہی ہیں۔ فرانس نے اونچی اخلاقی بنیاد کا سہارا لیا اور مکمل جوابدہی کا مطالبہ کیا۔ جیک اسٹرا نے شام کو بڑا سانڈھ کہہ کر دبائو میں لینے کی کوشش کی ہے اور انتباہ دیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قوتِ برداشت لامحدود نہیں ہے۔ کونڈو لیزا رائس بھی شام پر اعتراض کے اس دوڑ میں شامل ہو گئیں‘ یہ کہتے ہوئے کہ اگر شام نے واشنگٹن کی خواہش کے مطابق اقدام نہیں کیا تو اسے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ جو لوگ ان باتوں سے اکتائے ہوئے ہیں‘ ان کے نزدیک یہ بازو مروڑنے کی ترکیب ہے جو بین الاقوامی بازی گروں کا کارنامہ ہے۔ لیکن ایک عام آدمی کو بھی جو عالمی سفارت کاری کے رازوں یا پراسرار نوعیت کی فنکاری سے بہت زیادہ واقف نہیں ہے‘ اسے بھی یہ عجیب سا لگے گا کہ پرانے اور نئے استعماریوں نے اچانک رفیق حریری کے قتل پر شدومد کے ساتھ اپنی تشویش جتلانا شروع کر دیا۔ اس معاملے میں وہ اس حد تک پُرجوش معلوم ہوتے ہیں کہ انہیں اگر رفیق حریری کے قاتلوں کو سزا دینے کے لیے تنہا بھی میدان میں آنا پڑے تو وہ اس کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ جو لوگ عالمی سیاست کی بے ایمان روش سے واقف ہیں‘ انہیں یاد ہو گا کہ رفیق حریری جب تک زندہ رہے‘ کبھی بھی مغرب کی منظورِ نظر شخصیت نہیں رہے۔ اس کے برعکس مغربی میڈیا کے جغادریوں نے ہمیشہ حریری کی ایسی تصویر پیش کی خصوصاً جب وہ اقتدار میں تھے کہ گویا وہ سعودی حکومت کی پروردہ ایک شخصیت ہیں جو اس کی سرپرستی کے مرہونِ منت تھے۔ وہ دولت کمانے کے مشتاق تھے اور جنہوں نے بیروت کی تعمیرِ نو کے نام پر اپنی اور اپنے خاندان کی سلطنت کھڑی کی۔ یہ بالکل صفر سے ایک دولت مند آدمی بن گئے اور یہ سب کچھ لبنان کی خانہ جنگی کو ختم کرانے کے عوض انہیں حاصل ہوا۔ لیکن جونہی حریری کا قتل ہوا‘ وہی لوگ جو زندگی میں ان کی کردارکشی میں مصروف تھے‘ انہیں اپنی آنکھوں کا تارا بنا لیا۔ درحقیقت نئے اور پرانے استعماری گِدھ جو حریری کی لاش پر اپنی جان بنا رہے ہیں‘ حریری کے قتل کو شام کو اپنی اوقات میں رکھنے کا خدا کی طرف سے ایک اچھا موقع خیال کرنے لگے۔ شام گیارہ ستمبر سے بہت پہلے ہی سے نوقدامت پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے۔ ۱۹۹۶ء میں بہت سارے سخت گیر اور انتہا پسند امریکی افسران جو بعد میں جارج ڈبلیو بش کی کابینہ میں شامل ہوئے مثلاً Paul Wolfowitz‘ Richard Perle‘ Douglas Feith اور David Wurmser وغیرہ نے عظیم تر اسرائیل کا ایک خاکہ ترتیب دیا تھا۔ اس ڈرافٹ کو انہوں نے A Clean Break: A New Strategy for Securiing the Realm کا عنوان دیا تھا۔
ڈرافٹ کمیشن میں انہیں اس وقت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے شامل کیا تھا۔ نئی حکمت عملی میں معتدل اسرائیلی رہنما یزتاک رابن کی ’’زمین برائے امن ‘‘ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شام کو لگام دینے او رکمزور کرنے کی بات کی گئی تھی اور اس کی لبنان سے واپسی پر تاکید کی گئی تھی۔ استعماری حکمت عملی کو کامیاب بنانے کا بیڑا ایریل شیرون نے دل سے اٹھایا جب اسرائیل میں اسے اقتدار ملا اور جارج بش نے بھی اس حکمت عملی کی روح کو اپنالیا‘ اگرچہ ظاہراً اسے ہوبہو اختیار نہیں کیا۔ یہ حکمت عملی مشرق وسطیٰ کے لئے جارج بش کی پالیسی کی جان تھی۔ جونہی ان لوگوں نے عراق پر اپنا قبضہ مکمل کیا توقدامت پرستوں نے شام کو دبائو میں لینے کے لیے فضا کو ہموار کرنا شروع کردیا۔ باہر کی دنیا کو بے خبر رکھتے ہوئے امریکی کانگریس نے ۲۰۰۴ء کے اوائل میں خاموشی کے ساتھ شام کے خلاف ایک بل بھی منظور کرلیا جسے بش نے بڑی چاہت کے ساتھ دستخط کرکے قانون کی حیثیت دیدی اور اسے شام کی جوابدہی اور لبنان کی خومختاری کی واپسی ایکٹ (Syrian Accountability & Lebnon Sovereignty Restoration Act- Salas) کا نام دیا گیا۔ اس کا مخفف salsa امریکی حلقوں میں مذاق بن گیا جیسا کہ اس میں میکسیکو کے ایک پین کیک کی صدائے با زگشت سنائی دیتی ہے۔ باہری دنیا میں بعض کو یہ لگا کہ بل کلنٹن کی صدارت میں بھی امریکی کانگریس نے عراق کے خلاف اس سے مشابہ بل منظور کیا تھا۔ بش نے salsa سے فائدہ اٹھاتے ہوئی مئی ۲۰۰۴ء میں شام پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں ذرا بھی وقت ضائع نہیں کیا۔ پھر ستمبر ۲۰۰۴ء میں اس نے فرانس کو مجبور کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو منظور کروانے میں معاون ہو جس میںشام سے کہا گیا تھا کہ وہ لبنان سے اپنی فوج واپس بلالے۔ شام کی فوج لبنان میں اس وقت سے تعینات تھی جبکہ ۷۰ کی دہائی کے وسط میں وہاں خانہ جنگی کی شروعات ہوئی تھی۔ فرانس نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا کہ وہ واشنگٹن کے نو استعماریوں کی بات مان لے اس لیے کہ عراق مسئلے پر ساتھ نہ دینے کے نتیجے میں جو امریکا سے دوری پیدا ہوئی تھی وہ دوری بغیر کسی خرچ کے ختم ہوجائے گی اور برطانیہ کی طرح امریکا کے ساتھ اس کے بھی تعلقات خوشگوار ہوجائیں گے۔ لیکن جیک شیراک کے زیر قیادت فرانس خود بھی استعماری مرض میں مبتلا ہے جو شام او رلبنان کے حوالے سے نمایاں ہو گیا۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد لبنان فرانسیسی استعمار کی اختراع پردازیوں کا شاہکار تھا۔ بدنامِ زمانہ Sykes-Picot معاہدہ جنگ کے دوران برطانیہ اور فرانس کے مابین خفیہ طریقے سے طے پایا تھا۔ اس معاہدہ کی رو سے ان دونوں نے لیوانت میں موجود خلافت عثمانیہ کی ملکیت کو آپس میں بانٹ لیا تھا۔ شام ‘ فرانس کے قبصے میں آیااور اس نے فوراًہی یہاں ایک مسیحی علاقے لبنان میں بیچ ہیڈ بنا کر اسے مختصر کردیا جو کہ Frankish Colonies کی یاد دلاتا ہے‘ جنہیں صلیبی جنگ کے دوران قائم کیا گیا تھا۔ کرسچین میرونائٹس اور فلانجسٹوں کو لبنان کی حکومت میں جو کردار دیا گیا وہ متناسب کردار کا آئینہ دار نہیں تھا۔ ان کی ذمہ د اری دراصل فرانسیسی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ حریری کے قتل نے مغرب کو یہ بہانہ دے دیا کہ وہ شام کے خلاف اپنے ایجنڈوں پر عمل کریں۔ یہ ایجنڈا تقریباً دس سال پہلے تیار کیا گیا تھا۔ اس اقدام سے یہ کھل کر سوال سامنے آیا کہ کیا شامی جانتے بوجھتے سادہ لوحی کا مظاہرہ کریں گے اور دشمن کے ہاتھوں میں بندوق تھما دیں گے؟ شام کو ٹھکانے لگانے اور عرب دنیا میں بعث حکومت کی آخری نشانی سے جان چھڑانے سے خطے میں اہم استعماری مفادات اور ترجیحات کو فائدہ پہنچے گا۔ پہلی اور سب سے اہم ترین بات یہ ہوگی کہ اس طرح اسرائیل کے گوشت سے کانٹا نکال لیا جائے گا۔ سوویت یونین کی موت کے بعد سے شام اسرائیل کو کسی قسم کی دھمکی دینے سے عاجز ہے۔ لیکن چھوٹی چھوٹی ناخوشگوار چیزوں کا نوٹس لینا بھی ضرور ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شام کو حزب اللہ لبنان کا سرپرست گردانا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی یہ وہ واحد تنظیم ہے جسے اسرائیل کو میدان جنگ میں ذلت سے دوچار کرنے کا او رلبنان سے پسپائی پر مجبور کردینے کا شرف حاصل ہے۔ ایریل شیرون جو بیروت کا قصاب ہے بہت دنوں سے حزب اللہ لبنان کو سبق سکھانے کے لئے پیچ و تاب کھارہا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ شام کو غیر موثر بنانا اس لئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ عراق میں نوقدامت پرستوں کے ہر غرور کو ختم ہونے سے روکا جاسکے جیسا کہ عراق میں ان کی مہم جوئی سخت ناکامی سے دوچار ہے۔یہ لوگ عرصے سے دمشق پر یہ الزام رکھتے آئے ہیں کہ یہ عراقی مزاحمت کو غذا فراہم کررہا ہے نیز القاعدہ رہنما ابو معصب الزرقاوی کے حامیوں کو تحفظ اور پناہ فراہم کررہا ہے۔ آخری دو اہم بات یہ ہے کہ شام کو جو تہران کا دوست خیال جاتا ہے سزا دے کر ایران کو پیغام دینا مقصود ہے جو ایک ایسا ملک ہے جسے صدر بش بدی کا محور قرار دے چکے ہیں۔ شام ۸۰کی دہائی کے عراق ایران جنگ کے زمانے سے ہی ایران کا سب سے قریب ترین عرب حلیف ہے۔ نوقدامت پرست عرصے سے اپنی چھتوں پر کھڑے ہوکر یہ چلاتے رہے ہیں کہ حزب اللہ جو ایران کا پراکسی ہے شام کے راستے پہنچنے والے کمک کے سبب فعال اور سرگرم ہے۔ ان کا خیال ہے حزب اللہ کی رگِ جاں اسی وقت کاٹی جاسکتی ہے جبکہ شام کو قابو میں کرلیا جائے۔ شام کی تقدیر کمزور دھاگے سے بندھی ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین قرارداد شام کو پابند کرتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ Detlev Mehlis کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے۔ بہرحال جرمن جج مہلس ابھی تک رفیق حریری کے قتل کے معاملے میں شام کا جرم ثابت کرنے سے بہت دور ہیں۔
نوٹ: مضمون نگار ایک سابق سفیر ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ ۱۲ نومبر۲۰۰۵ء)
Leave a Reply