اسلامی عناصر اور عرب دنیا کے آئین

عرب دنیا میں ۲۰۱۱ء میں بیداری کی لہر اٹھی اور نئی حکومتوں کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ مگر ایک خوف بھی پیدا ہوا کہ اگر کہیں پرانی آمریتیں چلی گئیں اور اسلامی عناصر کی شکل میں نئی آمریتیں اٹھ کھڑی ہوئیں تو؟ شام میں اقلیتیں اس قدر خوفزدہ ہیں کہ انہوں نے اکثریت پر مظالم ڈھانے کو بھی برداشت کرلیا ہے۔ سیکولر ازم کو بچانے کے نام پر سبھی کچھ روا سمجھ لیا گیا ہے۔ مصر اور تیونس میں کچھ کچھ ایسا ہی خوف پایا جاتا ہے۔ ان دونوں ممالک میں نئے آئین کی تشکیل پر زور دیا جارہا ہے تاکہ کوئی بھی نیا نظام من مانی نہ کرسکے۔ ان تینوں ممالک میں اسلامی عناصر نے خاصے مختلف انداز سے معاملات کو نپٹایا اور نبھایا ہے۔

مصر میں انقلاب کے بعد اپنائے جانے والے قواعد نے ۱۰۰ رکنی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل پر زور دیا۔ اب یہ اسمبلی قائم کی جاچکی ہے۔ ملک بھر سے ہر طبقے اور مکتب فکر کے لوگوں کو آئین ساز اسمبلی کا حصہ بنانا تھا مگر اسلامی عناصر نے، جو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے حامل ہیں، آئین ساز اسمبلی میں بھی اپنے ہی ہم خیال لوگوں کو نمایاں مقام پر بٹھادیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آئین ساز اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی برائے نام ہے۔ بدوؤں کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ آئین اور قانون سے متعلق امور کے سرکردہ ماہرین کو بھی آئین ساز اسمبلی سے دور رکھا گیا ہے۔

جن غیر اسلام نواز شخصیات کو آئین ساز اسمبلی کی رکنیت دی گئی تھی، انہوں نے یہ دیکھتے ہوئے برہم ہوکر استعفیٰ دے دیا کہ قومی اتحاد اور یگانگت کا سنہری موقع ضائع کیا جارہا ہے۔ اسلام نواز عناصر کا کہنا ہے کہ انہوں نے سب کچھ جمہوری اصولوں کے مطابق کیا ہے، آئین ساز اسمبلی میں سب کو نمائندگی دی گئی ہے۔ اگر سیکولر عناصر ایسی پوزیشن میں ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے۔ ان کی بات درست ہوسکتی ہے، مگر خیر جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ برے نتائج کا حامل بھی ہوسکتا ہے۔ اخوان المسلمون اور سلفیوں کا اتحاد اس امر کا غماز دکھائی دیتا ہے کہ مصر کے نئے سیاسی نظام میں سب کچھ وہی ہوگا جو جمہوری معاشروں میں اکثریت کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے۔ سلفیوں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کا عندیہ مشکل ہی سے ملتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس صورت حال سے فوج کو بھی فائدہ پہنچے جس سے اخوان کی بیان بازی کی جنگ چل رہی ہے۔ آئندہ صدارتی انتخابات تک یہ سب کچھ شدت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

تیونس میں اسلامی عناصر کی جماعت النہضہ نے قدرے مختلف طرز عمل اختیار کیا ہے۔ عام انتخابات میں ۴۱ فیصد نشستیں حاصل کرنے والی النہضہ نے معاملات کو عمدگی اور توازن سے چلانے کی کوشش کی ہے۔ آئین میں کسی تبدیلی کا عندیہ نہیں دیا گیا ہے۔ ملک اسلامی جمہوریہ ہی رہے گا مگر سخت شرعی قوانین کے نفاذ کی کوئی بات نہیں کی جارہی۔

النہضہ کی اس روش نے تیونس میں سلفیوں کو ناراض کیا ہے۔ انہوں نے وسطی تیونس میں ایک زبردست مظاہرہ کیا جس میں سیاہ پرچم بھی لہرائے گئے۔ سلفیوں نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی اس لیے النہضہ تین جماعتی حکومت میں سیکولر عناصر کے ساتھ عمدگی سے کام کرسکتی ہے۔ النہضہ نے مارچ ۲۰۱۳ء میں نئے انتخابات کا عندیہ دیا ہے اور ساتھ ہی نئے آئین کے نفاذ پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔

مصر اور تیونس میں جو کچھ ہوا ہے اس نے شام میں بھی حکومت کے مخالفین کی سوچ کو ضرور متاثر کیا ہوگا۔ شام میں حزب اختلاف کا سب سے بڑا گروپ سیرین نیشنل کونسل ہے مگر بہت سے لوگ اس گروپ کی وابستگی سے اس لیے بچنا چاہتے ہیں کہ اس پر اخوان المسلمون کا اثر نمایاں ہے۔ ترک شہر استنبول میں حال ہی میں شامی صدر بشارالاسد کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران اخوان کی شامی شاخ نے مستقبل کے خدشات کے حوالے سے چند اصولوں کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ نئے آئین میں سب کو برابر کی آزادی دی جائے گی اور کسی بھی قسم کی اقلیت کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالا جائے گا۔ یعنی نظری اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ کوئی عیسائی عورت صدر کے منصب پر فائز ہو۔ اس نوعیت کی یقین دہانیاں لازم ہیں کیونکہ شام میں عیسائیوں، علویوں اور دروز کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر اسلامی عناصر اقتدار میں آئے تو ان پر مظالم ڈھائیں گے۔

شام میں حزب اختلاف میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک شام میں فورسز کے ہاتھوں قتلِ عام رُک نہیں جاتا، نئے آئین اور ممکنہ سیاسی ڈھانچے کی بات بہت عجیب اور قبل از وقت ہے۔ بشارالاسد انتظامیہ کے خاتمے کے بعد بہت کچھ بدل سکتا ہے۔

(“Put Faith in Writing”…..
“The Economist”. March 31st, 2012)

Similar Posts