سال ۲۰۱۹ء کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ روس کی ہمیشہ سے ایک ہی پالیسی رہی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی، کہ کسی طرح داخلی صورت حال کوآمرانہ انداز میں قابو کیاجائے اور بیرونی دنیا کے ساتھ سامراجی رویہ اختیار کیاجائے روسی صدر پوٹن بھی اسی حکمت عملی کے مطابق، روس کے سابق حکمرانوں کی طرح آمرانہ اور سامراجی پالیسیوں پر عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں، جس کے مضر اثرات مغرب پرواضح ہیں اگر پوٹن دیگر روسی حکمرانوں کی طرح اپنی پالیسی پر کاربند رہتے ہیں تواس کا ردعمل ان آمرانہ اور سامراجی رویے کے ساتھ مصلحت کرنا یا جنگ کرنا ہوسکتا ہے، لیکن کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا لیکن کیا ہوگا اگر پوٹن روسی قومی مفادات کے مطابق پالیسی پر کاربند نہیں رہیں تو وہ بھی دوسرے رہنماؤں کی طرح تاثراتی، نظریاتی اور اداروں کے دباؤ کاشکار ہوسکتے ہیں؟یہ دباؤ ایسے تاریخی واقعات کا بھی ہوسکتا ہے جو پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ پالیسیاں ملک کے بہترین مفاد میں بھی ہوں روس کی تعریف کرنے والے جانتے ہیں کہ کوئی بھی ریاست ہمیشہ ایک جیسے مفادات کے حصول کے لیے کوششیں نہیں کرتی، کیوں کہ ریاستوں اور ان کے اطراف میں حالات مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ روس آج سے چھ سو سال قبل والا ماسکووی نہیں، منگول مغربی لوگ نہیں تھے، کچھ سطحی مماثلتوں کے علاوہ پوٹن بھی کوئی قبائلی سردار نہیں۔ ایسے وقت میں جب جغرافیے اور حکمت عملی سے فرق پڑتا ہے تو خارجہ پالیسی میں سیاسی و جغرافیائی قومی مفادات، نظریات، طرز حکمرانی، رہنما کی شخصیت، تاریخی واقعات، سیاق وسباق اور دیگر عوامل اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔روس کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی ارتقا کا جائزہ لینا ضروری ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ روس کو سوویت یونین کا وارث سمجھا جاتا ہے، ایک انتہائی مرکزیت پسند ریاست جو غیر روسی ریاستوں کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کا تعین کرتی تھی اور پھر اس سلطنت کا اچانک سے خاتمہ ہوگیا تاریخ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ روس کے قومی مفادات ہمیشہ بدلتے رہے ہیں ۱۳ویں صدی کی ریاست ماسکووی نے ہی جدید روس کی بنیاد ڈالی ہے یہ ایک انتہائی چھوٹی ریاست تھی، جو پڑوس میں موجود دیگر چھوٹی ریاستوں کو شکست دے کر طاقتور بن گئی یہ لوگ سخت جان منگول کے نام سے جانے جاتے ہیں ۱۳۸۰ء میں دمتری ڈونسکوف نے کلیوکلو میں منگولوں کو شکست دے دی تھی۔
۱۴۸۰ء میں گرینڈ پرنس ایوان سوم نے دریائے اوگرا پر ماسکووی کے اقتدار کاخاتمہ کردیاتھا،اس کے۷۰برس بعد ماسکووی نے کازان اور اسٹرکھان پر قبضہ کرلیا اس وقت روسی مفادات کے مطابق یوکرائن اور باسفورس پر قبضے کا خیال ماسکووی میں کسی کو نہیں آیاتھا، کیوں کہ ماسکووی بہت دورتھا، بہت چھوٹا تھا اور اس کو مشرق کی جانب سے منگول خطرے کا سامنا بھی تھا جس کے بعد ماسکووی کو سائبیریا میں فتح ملی اور یہ سلسلہ۱۵۸۱ء سے ۱۶۴۹ء تک جاری رہا۔ یہاں سے انہوں نے خوب دولت حاصل کی، سائبیریا میں ان کا کوئی جیواسٹرٹیجک مفاد نہیں تھا۔ ۱۶ویں صدی تک یوکرائن اور خلافت عثمانیہ پر ماسکووی کی نظریں نہیں پڑی تھیں اس دوران لیتھوانیا، پولینڈ اور سویڈن ایک دوسرے کے ساتھ اور ماسکووی کے ساتھ جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔ یہ ۱۷ویں صدی کادوسرا نصف تھا جب پولش، ماسکووی، ترکوں، کریمین، تاتاروں اور یوکرائن کے درمیان مسلسل جنگیں جاری تھیں، جس کے نتیجے میں ماسکووی مشرقی یوکرائن پر قبضہ کرتے ہوئے بحیرہ اسود کے قریب پہنچ گیا اس طرح یوکرائن اور عثمانی ترکوں کاعلاقہ تزویراتی دلچسپی کے خطے میں تبدیل ہوگیا پیٹر دی گریٹ نے مغربی یورپ کے دورے کے بعد ماسکووی کے قومی مفاد کی تعریف کو تھوڑا تبدیل کردیا، اب ماسکووی کو جدید بنانے کی ضرورت تھی انہوں نے یوکرائن کے علما کی اس تجویز پر توجہ دی کہ ان کی سلطنت کو (موجودہ روس) قرون وسطیٰ کی کییوانرس ریاست سے تعلق کادعویٰ کرنا چاہیے، جو اصل میں آج کے یوکرائن میں واقع تھی یہ نظریاتی پیش رفت کسی قومی مفاد کے تحت نہیں کی گئی تھی پیٹر اتنی آسانی کے ساتھ یورپ کا سفر نہیں کرسکتا تھا اور شاید یوکرائنی علما نے بھی اس کو نہیں بتایا تھا کہ اس تاریخی غلط بیانی سے کہ کییوانرس روسیوں کے باپ دادا تھے سلطنت کی قانونی حیثیت میں اضافہ ہوجائے گا۔
جب روسی سلطنت ایک بار عثمانی ترکوں اور ان کے اتحادی کریمین تاتاروں سے رابطے میں آئی تو دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان تناؤ ناگزیر تھا پیٹر کے بعد روس نے بحیرہ اسود میں اپنی سلطنت کو مزید وسیع کردیا، جس کی وجہ کمزور ہوتی عثمانی خلافت اور روس کا ترکوں کو عیسائی دشمن سمجھناتھا، اس میں جیو اسٹرٹیجک ضروریات کے لیے باسفورس پر کنٹرول حاصل کرنابھی اہم تھا دوسروں کی کمزوری اورتنزلی اور روس کی توسیع بندی کی وجہ سے انیسویں صدی میں روس وسط ایشیا اور قفقاز پر قابض ہوگیا۔ بہرحال یہ سلطنت۱۹۱۸ء سے ۱۹۲۰ء کے درمیان تباہی کاشکار ہوگئی۔
سلطنتیں دوطریقے سے ختم ہوتی ہیں، کمزوریوں کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ علاقے چھن جاتے ہیں۔ نوآبادیات کے ملبے سے جنم لینے والی ریاستوں کے اپنے سابق حکمران سلطنت سے بہت محدود معاشی، عسکری، ثقافتی، سیاسی تعلقات ہوتے ہیں، یہ ریاستیں بہت کم ہی اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینے کی کوشش کرتی ہیں، کیوں کہ انہوں نے سلطنت کے خاتمے سے بہت پہلے ہی اپنے علاقوں کو کھودیاتھا خلافت عثمانیہ اس کی اچھی مثال ہے، عثمانیوں کا زوال ۱۶۸۳ء میں ویانا کے ناکام محاصرے سے شروع ہوا اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر سلطنت مکمل طور پر ختم ہوگئی، اس سلطنت کی بنیاد پر۱۹۱۹ء میں ترکی کے نام سے ایک ریاست وجود میں آئی اس نئی ریاست کا بنیادی چیلنج تین سو برس کے دوران کھوئے ہوئے علاقوں کو واپس لینا نہیں بلکہ اپنی آزادی کا دفاع کرنا اور یونانی اور آرمینا ئی اقلیتوں سے اپنی سرحدوں کے اندر بہتر انداز میں نمٹنا تھا سلطنتوں کے خاتمے کا دوسرا طریقہ یہ ہے، پیٹر دی گریٹ نے روسی سلطنت قائم کی، جو۱۹۱۸ء سے۱۹۲۱ء کے درمیان اپنی توسیع کے عروج پر پہنچ کر ختم ہوگئی۔ ویسے بھی سامراجی طاقتوں کے اچانک اور مکمل خاتمے کی توقع ہمیشہ موجود ہوتی ہے، بالشیک روس کے سابق نوآبادیات کے ساتھ معاشی، عسکری، ثقافتی اور سیاسی تعلقات کافی مضبوط رہے، بالشیکوں نے سلطنت کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی مہم چلائی اور۱۹۲۲ء میں سوویت یونین قائم ہوگیا۔ سوویت یونین، جنرل سیکریٹری میخائل گورباچوف کے دورِ اقتدار میں ٹوٹ گیا۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۱ء کو ریاست کا راتوں رات خاتمہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں ۱۴آزاد ریاستوں نے جنم لیا،لیکن ان میں بہت ساری ریاستیں روس کے ساتھ ایک ماتحت کے طور پر جڑی رہیں زیادہ ترروسیوں کی نظر میں ان کی ریاست اور قوم برتر ہے اور وہ اب بھی غیر روسیوں کو تہذیب یافتہ بنانے کے مشن میں مصروف ہیں کئی دہائیوں کی روسی پالیسیوں کی وجہ سے ان ریاستوں میں روسی زبان اور ثقافت کا غلبہ ہے، اور اس کے خاتمے کے لیے کوئی چھوٹا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے۔ تیل، گیس پائپ لائن اور دیگر چیزوں کے حوالے سے ایک ہی معیشت سے جڑاہونے کی وجہ سے یہ ریاستیں مجبوری میں روس پر انحصار کرتی رہیں اور یہ صورتحال اب بھی برقرار ہے غیر روسی ریاستوں کو ایک بڑی فوج اور اسلحے کے ذخائر ملے، جس کی تنظیم نو کے لیے انہیں بھرپور کوشش کرنی پڑی، یہ بنیادی طور پر ایک خودمختار فوج تھی غیر روسی اشرافیہ مکمل طور پر روسی اشرافیہ کے ساتھ جڑی ہوئی تھی اور ان کی وفاداری لازمی طور پر اپنی ریاستوں کے ساتھ نہیں تھی۔ بالآخر روسیوں کو عام طور پر اور ان کی اشرافیہ کو خاص کراپنی سلطنت کا خاتمہ ایک تذلیل محسوس ہونے لگااور وہ اپنے ممالک کو دوبارہ سے عظیم بنانے کاعزم کرنے لگے۔ پوٹن اور ان کے پیشرو بورس یلسن کی جانب سے سامراجی سلطنت دوبارہ قائم کرنے کی کوشش تھوڑی حیرت انگیز تھی۔ بورس یلسن کی جانب سے نرم پالیسی اختیار کی گئی۔ ’’کامن ویلتھ‘‘ کی آزاد ریاستوں میں مرکزیت کو فروغ دیا گیا اور غیر روسی ریاستوں میں موجود روسی اقلیتوں کو مضبوط کیا گیا۔ لیکن بورس یلسن نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد معاشی تباہی کے دور میں ملک کی قیادت کی، اس دور میں ملک میں جرائم اور بدعنوانی میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔
پوٹن صحیح وقت اور صحیح جگہ کے حوالے سے خوش قسمت رہے، جب وہ وزیراعظم اور صدر بنے توتیل کی قیمتیں آسمان پر پہنچنے کے باعث روسی معیشت دوبارہ مضبوط ہوگئی، جس نے انہیں طاقتور حکمران کے طور پر کردار ادا کرنے کے قابل بنایا اس تناظر میں پوٹن کا کریمیا سے الحاق اور مشرقی یوکرائن میں جنگ کرنا روس کے مستقل مفادات سے کوئی خاص تعلق نہیں رکھتا پوٹن ایک بار پھر روس کو طاقتوربنانا چاہتے ہیں، جس کے نیٹو اور مغربی ممالک مخالف ہیں۔ پوٹن نے انقلاب کی وجہ سے کمزور ہوتی یوکرائنی ریاست کو توسیع کا آسان ہدف بنالیا، انہوں نے آمرانہ حاکم کے طور دھمکی بھی دی کہ جمہوریت اور عوامی طاقت کے منفی نتائج بھی نکل سکتے ہیں، سامراجی نظریہ، یوکر ائن کی کمزوریاں اورناتوانی کے احساس نے مل کر حملے کا امکان انتہائی بڑھادیا تھا مغرب کا اسٹرٹیجک مقصد جمہوری اور توسیع پسندی کو ترک کردینے والا روس ہے، اس کے لیے غیر روسی ریاستوں کو خوشحال اور مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وہ روسی تسلط کے خلاف مزاحمت کرسکیں اور ماسکو کو دوستانہ و باہمی فائدوں پر مبنی تعلقات استوار کرنے کے لیے تیار کرسکیں اس صورتحال میں کس طرح مغربی اور روسی پڑوسی ممالک پوٹن کے سامراجی عزائم سے نمٹنے کی حکمت عملی بناسکتے ہیں؟ اول تو انہیں یہ کہہ کر روسی سامراجی رویے کو مزید ہوا نہیں دینی چاہیے کہ روس اپنے قومی مفادات کی تکمیل کے لیے پڑوسی ممالک پر تسلط قائم کررہا ہے، اس سے سامراجی منصوبے کو قانونی حیثیت ملتی ہے۔ توسیع پسندی روس کے مستقل قومی مفاد میں نہیں ہے، تمام سابق سامراجی سلطنتوں کی نظریاتی مہم آخر کار ختم ہوجاتی ہے، ایسا ہی روس کے ساتھ بھی ہوگا، سوائے اس کے کہ گمراہ مغربی پالیسی ساز اس عمل میں رکاوٹ بن جائیں دوسر ایہ کہ مغرب کو روس اورسابق روسی ریاستوں کے درمیان معاشی، سیاسی اور دفاعی تعلقات مضبوط بنانے کی کوششیں نہیں کرنی چاہییں، لیکن ان تعلقات کو مکمل طور پر ختم کرانے کی بھی ضرورت نہیں،کیوں کہ پڑوسی ہونے کے ناتے قریبی معاشی تعلقات تو ہوں گے، لیکن یہ سب کچھ روسی تسلط کے زیراثر نہیں ہوناچاہیے۔ مغرب اور خاص کر امریکا روس اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان معاشی، سیاسی اور دفاعی امور میں ایک توازن قائم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، جس کے لیے غیر روسی ریاستوں کی یورپ کے معاشی اور دفاعی اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے، جس میں چھوٹی ریاستوں کو جارحیت کی صورت میں دفاع کے لیے فوجی مدد دینا بھی شامل ہے۔
توانائی کے حوالے سے بھی متنوع پالیسی اپنانی ہوگی، توانائی کے ذرائع پر روسی اجارہ داری کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے غیر روسی ریاستوں کو توانائی کے حوالے سے اپنے وسائل تیار کرنے میں مدد کی جانی چاہیے۔ کم ازکم مغرب کو ٹرمپ کی طرح پوٹن کے لیے دوبارہ سے ’’نورڈ اسٹریم‘‘ کی طرز کی پائپ لائن کی حمایت نہیں کرنی چاہیے بدقسمتی سے مغرب کوبھی روس کے حوالے سے بدترین صورتحال یعنی ملک کی ٹوٹ پھوٹ اور مکمل خاتمے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا ۱۹۱۸ء میں سلطنت کے خاتمے کے بعد روس نے آزاد غیرروسی ریاستوں کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرلیے اور انتہائی آسانی وتیزی کے ساتھ پرانی سامراجی ریاست بحال ہوگئی۔ آج کاروس ایک عظیم علاقائی طاقت ہے، لیکن دوبارہ سے ایک حقیقی سلطنت قائم کرنے کی طاقت سے محروم ہے، یہ چھوٹے ممالک یا کسی ملک کے کسی حصے پر قبضہ کرسکتا ہے، جیسے ایسٹونیا اور لٹویا، لیکن روس قازقستان، ازبکستان اور یوکرائن جیسے ممالک پر دوبارہ سے قابض نہیں ہوسکتا، یہ واضح نہیں کہ روس بیلا روس کو دوبارہ فتح کرسکتا ہے یانہیں، بدقسمتی سے ایک عظیم سلطنت دوبارہ قائم کرنے کی خواہش روس اوراس کے پڑوسی ممالک کو غیر مستحکم کرسکتی ہے۔
پوٹن کے جغرافیائی وسیاسی عزائم کافی بلند ہیں، وہ افریقا سے مشرق وسطیٰ تک توسیع چاہتے ہیں، لیکن روس کی کمزور معیشت ان عزائم کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اس طرح کے سامراجی عزائم کے ساتھ لمبے عرصے تک استحکام قائم رکھنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ان کی خارجہ پالیسی کے اہداف Leonid Brezhnev کے سوویت یونین سے مماثلت اختیار کر جائیں گے، اس کے نتیجے میں روس منظم یا غیر منظم انخلا پر مجبور ہو جائے گا۔
اہم بات یہ ہے کہ پوٹن نے ایک ایسی نیم فسطائی ریاست تعمیر کی ہے جوانتہائی مرکزیت پسند ہے، بدعنوان ہے اور ترقی کرنے کے قابل نہیں، یہ صرف جبر کی صورت میں کام کرنے میں ماہر ہے پوٹن نے ریاست کی تباہی کو روکے رکھا ہے، جب وہ اقتدار سے رخصت ہوجائے گا تو ان کی اندرونی کمزوریاں آشکار ہوجائیں گی، پھرچاہے وہ جاہ طلب اشرافیہ ہو یا مایوس عوام، وہ حملے کے لیے پوری طرح تیار ہوں گے ستم ظریفی ہے کہ پوٹن روس کا سب سے بڑا دشمن بن کر ابھرا ہے، کیوں کہ وہ روس کو آمرانہ سلطنت بنانے کا عزم رکھتا ہے، یہ وہ کردار ہے جو زیادہ عرصے جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Putin May Want to Be an Emperor, but Russia Isn’t an Imperial Power”.(“Foreign Policy”. Oct. 28, 2019)
Leave a Reply