
روس میں صدر ولادی میر پوٹن کی مقبولیت میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی نسل اُن کی دیوانی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُنہوں نے چند ایسے فیصلے بھی کیے ہیں جو اُن کے اقتدار کو خطرے میں ڈال سکتے تھے۔ نئی نسل چاہتی ہے کہ اُن کا لیڈر کسی بھی طرح کے حالات میں ہمت نہ ہارے اور مشکل فیصلے بھی کر گزرے۔
اٹھارہ سالہ اناستاسیا زخارووا فیشن ڈیزائنر ہے۔ اُس کے کمرے میں ہر طرف ولادی میر پوٹن اور اولمپکس میں سونے کی تمغے جیتنے والی چند روسی خواتین کی تصاویر بکھری ہوئی ہیں۔ روس کے مشہور اخبار ’’پراودا‘‘ کے چند پُرانے شمارے بھی پڑے ہیں۔ وہ چند ٹی شرٹس ڈیزائن کر رہی ہے۔ ایک ٹی شرٹ پر ولادی میر پوٹن کا نصف چہرہ دکھائی دے رہا ہے اور نیچے ’’فولادی پوٹن‘‘ لکھا ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روس کی نئی نسل پوٹن کو کس حد تک اپنے لیے باپ کا سا درجہ دیتی ہے۔
اناستاسیا زخارووا پوٹن سے محبت کرنے والے روسی نوجوانوں کی ایک تنظیم کی رکن ہے۔ اس تنظیم کے ارکان کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تنظیم کا روسی نام ’’سیٹ‘‘ ہے جس کا مفہوم ہے مچھلی پکڑنے کا جال یا نیٹ ورک۔ اس تنظیم کا ماسکو میں قائم دفتر ایسے تخلیقی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کی خدمات حاصل کرتا ہے جو حب الوطنی کے جذبے کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھا سکیں۔
یوکرین میں روس نے جو کچھ کیا ہے، اس پر پوٹن کو عالمی سطح پر غیرمعمولی دباؤ کا سامنا ہے مگر ملک میں ان کی پوزیشن خاصی مستحکم ہے۔ قوم اور بالخصوص نئی نسل ان کے ساتھ ہے۔ معیشت کا حال بُرا ہے مگر روسیوں کی اکثریت اِس نازک مرحلے پر اپنے لیڈر کے بخیے اُدھیڑنے کے بجائے اُس کا ساتھ دینا چاہتی ہے تاکہ وہ مسائل سے بہتر طور پر نمٹ سکے، اُن کا آبرو مندانہ حل تلاش کرسکے۔
پوٹن کے سیاسی کیریئر کے ابتدائی مرحلے میں فنکاروں کو اُن میں بہت سی ایسی باتیں دکھائی دیتی تھیں جن کا مضحکہ اُڑایا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ آج کے فنکاروں کو پوٹن میں ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی جس کا مضحکہ اُڑایا جاسکے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پوٹن پر دباؤ ہے اور یہ کہ وہ بھرپور توجہ سے ہر مسئلہ حل کرنے میں جُتے ہوئے ہیں۔ روس میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں صرف صدر پوٹن ہی مسائل کی دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ زخارووا کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جو لتھوانیا اور پولینڈ کی سرحد پر واقع ہے۔ اُس نے اپنے والد کے بغیر زندگی بسر کی ہے اور ماں کو بھی کم کم دیکھا ہے۔ اُس کی پرورش اُس کی نانی نے کی ہے۔ زخارووا کی نانی بھی اِس خیال کی حامل ہیں کہ پوٹن ہی روس کو تباہی اور بدحالی سے بچاسکتے ہیں۔
’’سیٹ‘‘ کے ارکان کی عمریں ۱۷ سے ۲۷ کے درمیان ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی زندگی صرف ماں کے ساتھ گزری ہے۔ انہوں نے یا تو باپ کو دیکھا ہی نہیں یا پھر کم کم دیکھا ہے۔ ایسے میں پوٹن ان کے لیے فادر فگر ہیں۔ وہ پوٹن میں اپنا بزرگ یا باپ تلاش کرتے ہیں۔ یہی وہ عامل ہے جو اس تنظیم کی مقبولیت میں دن رات اضافہ کر رہا ہے۔ ’’سیٹ‘‘ کے لیڈر مخار وکھلیان سیو کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے پوٹن بزرگ کا درجہ رکھتے ہیں۔
’’سیٹ‘‘ کے ارکان روزانہ کام ختم کرکے یا پھر یونیورسٹی کی کلاسوں کے بعد ملتے ہیں تاکہ سیاست، معیشت، معاشرت اور دیگر اُمور پر غور و خوض اور مشاورت کے بعد سوشل میڈیا پر پوٹن کا امیج مزید بہتر بنانے کے لیے کچھ کرسکیں۔ وہ ہر معاملے میں مشاورت کے عادی ہیں تاکہ معاملات بہتر طور پر درست کرنے میں مدد ملے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کی عادت بھی پڑے۔ پوٹن کے عہدِ اقتدار میں نوجوانوں کی اور بھی تنظیمیں قائم کی جاتی رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک تنظیم ’’ناشی‘‘ بھی تھی جس کا مفہوم تھا ہماری۔ یہ تنظیم بعد میں فاشسٹ گروپ میں تبدیل ہوگئی اور اِس نے چند ایک کام بھی کیے جن سے پوٹن کا امیج داغدار ہوا۔
نئے گروپ ’’سیٹ‘‘ نے پوٹن کے امیج کو بہتر بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ مقتدر حلقوں سے اس گروپ کے تعلقات گہرے اور مضبوط ہیں۔ اس نے حال ہی میں چین، یورپ، سائبیریا اور دیگر سرحدی خطوں سے کم و بیش ایک ہزار کارکنوں کو بھرتی کیا ہے جو پوٹن کا امیج بہتر بنانے اور انہیں عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کے حوالے سے اپنا کردار پوری جاں فشانی سے ادا کر رہے ہیں۔ گروپ لیڈر کا دعویٰ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، جس سے پوٹن یا روس بدنام ہو۔ ان کا بنیادی ہدف نوجوان ہیں اور بنیادی مقصد ان میں نئے رجحانات کی تخم ریزی اور آبیاری ہے۔
’’سیٹ‘‘ کے ارکان ایسے طریقوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں جن کی مدد سے پوٹن کے مخالفین کو زیادہ سے زیادہ نشانہ بنایا جاسکے۔ وہ مارکیٹ میں ایسے کھلونے بھی لانا چاہتے ہیں جن میں امریکی صدر براک اوباما اور پوٹن کے دیگر ناقدین کو نیچا دکھایا گیا ہو۔ ایسے وڈیو گیم تیار کیے جارہے ہیں، جن کا مقصد پوٹن کو برتر اور اُن کے مخالف عالمی لیڈروں کو کمتر ثابت کرنا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی یہ گروپ زیادہ کام کر رہا ہے۔ جب یوکرین میں بحران چل رہا تھا تب اس گروپ نے کریمیا کے ہزاروں بچوں کے لیے نئی ابجد بھیجی جس کا مقصد اُن کے ذہنوں میں نئے تصورات کو راسخ کرنا اور اُنہیں صورت حال سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ اس نئی ابجد میں O کے لیے لفظ otec رکھا گیا تھا جس کا مطلب ہے باپ۔ وہاں روس کے آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ کی تصویر تھی۔ اِس کے فوراً بعد P تھا۔ اس کے ساتھ پوٹن کی تصویر تھی!
’’سیٹ‘‘ ایسی تقریبات کا بھی اہتمام کرتا ہے جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طور یورپ کی دوسری اقوام اور بالخصوص اینگلو سیکسون نسلیں روس کا استحصال کرتی رہی ہیں اور کس طرح پوٹن نے استبداد اور استحصال کا تسلسل توڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حال ہی میں کالننگراڈ میں بھی ایک ایسی ہی تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا، جس کے بعد ایک لیکچر تھا۔ اس لیکچر میں روس کے استحصال کا ذکر تھا۔ اینگلو سیکسون نسلوں کے ہاتھوں روس پر لشکر کسی اور استحصال کی داستان سننے والے ہر طالب علم کو ۴۰۰ روبل (۶ ڈالر) دیے گئے۔
’’سیٹ‘‘ نے تصاویر کے ذریعے پوٹن کو نئی نسل کا ہیرو بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کے مرکزی دفتر کی دیواریں پوٹن کی تصاویر سے بھری پڑی ہیں۔ پوٹن کا ایسا امیج ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں وہ زیادہ سے زیادہ رحم دل اور انسان دوست محسوس ہوں۔ کہیں وہ جانوروں کو پیار کرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں وہ شرٹ کے بغیر ہیں۔ کہیں وہ گھڑ سواری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نئی نسل کو بتایا جارہا ہے کہ پوٹن ان کے لیے بہترین آئیڈیل ہیں۔ پوٹن نے اپنی صحت کا معیار بلند کرنے پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ نئی نسل کو ہر وہ شخص اچھا لگتا ہے جو اپنی صحت کا بھرپور خیال رکھتا ہے۔ ’’سیٹ‘‘ نے پوٹن کی فٹنس کو نئی نسل کے لیے زیادہ سے زیادہ پُرکشش بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
غیرمعمولی صلاحیت کے حامل فنکاروں کو یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ’’سیٹ‘‘ کے پلیٹ فارم سے کیا جارہا ہے، وہ محض پروپیگنڈا ہے۔ سوویت دور میں ’’کامزومول‘‘ اور اسی نوعیت کی دیگر تنظیمیں بھی ایسا ہی کچھ کیا کرتی تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک کسی کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات نہ پھیلے تب تک اُس میں لوگوں کی دلچسپی بڑھتی نہیں۔
بہت سے نوجوان ’’سیٹ‘‘ کی رکنیت اس لیے بھی حاصل کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انہیں اپنے محبوب رہنما کے نزدیک ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس گروپ کے ارکان کو پوٹن سے ملاقات کا اور ان سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت سے ارکان پوٹن کے ساتھ تصویر کھنچوانے کو بے تاب رہتے ہیں۔ پوٹن کے ساتھ چند لمحات ساتھ رہنا اور ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے سے ان کی معاشرتی حیثیت بلند ہوتی ہے۔
پوٹن کو نوجوانوں میں مقبولیت پسند ہے مگر وہ نہیں چاہتے کہ یہ مقبولیت پروپیگنڈے کا رنگ لیے ہوئے ہو۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا جو بھی امیج ہے، اُس کی پرستش نہ کی جائے بلکہ اُنہیں صلاحیتوں کی بنیاد پر سراہا جائے۔ اس معاملے میں وہ مقبولیت کو پروپیگنڈے سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔
پوٹن کے لیے جو پروپیگنڈا مٹیریل تیار کیا جاتا ہے، اس میں اب بھی فنکاری کے وہ نمونے شامل نہیں جو سوویت یونین کے ابتدائی دور میں ہوا کرتے تھے۔ بہت سے معاملات میں سختی سے ممانعت ہے۔ پوٹن نہیں چاہتے کہ اُن کے بارے میں یہ تاثر عام ہو کہ وہ نوجوانوں کی ایک بڑی تنظیم کے ذریعے اپنا امیج درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ پوٹن اپنے بارے میں کوئی بھی لطیفہ پسند نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بارے میں نوجوانوں کے ذہن میں کوئی بھی مضحکہ خیز بات نہ بوئی جائے۔
امریکا میں لوگ روس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے مگر روسیوں کے ذہن پر امریکا سوار رہتا ہے۔ روس کی نئی نسل امریکا اور امریکیوں کے بارے میں سوچتی رہتی ہے۔ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں پوچھا جائے کہ وہ امریکا کے بارے میں زیادہ کیوں سوچتے ہیں تو وہ کوئی واضح جواب نہیں دے پاتے۔ ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ جب یوکرین کے دروازے پر امریکا کی طرف سے جنگ کھڑی ہو تو امریکا کا نہ سوچیں تو کس کا سوچیں۔
“Putin Youth: The Young Russians Who See the President as a Father”
(“Newsweek”. Nov.24,2014)
Leave a Reply