
جب صدر براک اوباما ایران کے ساتھ طویل بحث و تمحیص کے بعد لوزان، سوئٹزرلینڈ میں طے پانے والے معاہدے کو لے کر کانگریس میں جائیں گے تو یقیناً وہ اپنا یہی موقف دہرائیں گے کہ یہ معاہدہ ’’ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا ایک پُرامن حل ہے‘‘۔ اس معاہدے پر سخت شکوک و شبہات کا شکار اپنے اتحادیوں، مثلاً سعودی عرب اور اسرائیل سے امریکا غالباً یہ کہے گا کہ امریکا اور ایران کے درمیان مخاصمت کے تیس سال بعد اپنی ’’آوارہ حیثیت‘‘ کو ختم کرنے کے لیے تہران کے پاس ایک انقلابی موقع ہے۔ معاہدے کے پیچھے کارفرما بنیادی منطق یہ ہے کہ ایک دفعہ بین الاقوامی جانچ پڑتال کے نظام کے تحت آجانے کے بعد ایران، سنی اسلامی انتہا پسندی کے خلاف امریکا کا اتحادی بن جائے گا۔ اس سودے کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ سودا واشنگٹن اور ماسکو کی مشترکہ کاوش کا ثمر نظر آتا ہے، جو یوکرین میں اپنے تمام تر تلخ اختلافات کے باوجود مشرقِ وسطیٰ میں امن کی خاطر کام کرنے کے لیے چند ثانیے کو اکٹھے ہو گئے ہیں۔
لیکن کاش ایرانی اور اُن کے روسی اتحادی بھی چیزوں کو اسی طرح سے دیکھتے۔
اس کے برخلاف ایرانی وزیرِ دفاع حسین دہقان کے مطابق ’’ایران اور روس تعاون، اشتراکِ عمل اور ممکنہ اسٹریٹجک صلاحیتوں کے ذریعے امریکا کی لالچ اور توسیع پسندانہ مداخلت کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں‘‘۔ جب اُن کے روسی ہم منصب سرگے شواگو جنوری میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون کے ایک جامع معاہدے پر دستخط کرنے تہران گئے تو انہوں نے ’’بیرونی طاقتوں (اشارہ امریکا کی طرف ہی تھا) کا مقابلہ کرتی ایران اور روس کی مشترکہ جدوجہد‘‘ کا حوالہ دیا اور پیش گوئی کی کہ ایک طاقتور روس اور طاقتور ایران مشترکہ طور پر بین الاقوامی سکیورٹی اور علاقائی استحکام کو پروان چڑھائیں گے۔
ان مذاکرات کے دوران روس نے ایران کو جدید ترین Antey-2500 اینٹی ایئر کرافٹ اور اینٹی میزائل دفاعی نظام کی پیشکش کی۔ یہ اینٹی میزائل دفاعی نظام S-300 نظام کی اعلی شکل ہے جو ۲۰۱۰ء میں بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے روس ایرانیوں کو مہیا نہیں کر سکا تھا۔
ایک سابق مغربی سفارت کار نے جو ایران جوہری بات چیت کی تفصیلی معلومات رکھتے ہیں، نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کے ساتھ یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایران ایک طرف تو اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام معطل کرنے کا وعدہ کرتا ہے! لیکن اسی دوران دوسری طرف وہ ایسا میزائل دفاعی نظام خریدنے پر مذاکرات بھی کر رہا ہے جو اس کی جوہری تنصیبات کو امریکا اور اسرائیل کے حملوں سے محفوظ بنا دے گا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں کو یہ یقین کرنے میں دشواری کیوں ہو رہی ہے کہ تہران خلوصِ نیت کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔
ایران پر بھروسا نہ کرنے کی دیگر وجوہات میں یمن میں حوثی باغیوں کے لیے اس کی حمایت، بحرین میں شیعوں کے درمیان بے چینی کو فروغ دینا، حماس اور حزب اللہ کو امداد اور اسلحہ کی فراہمی، عراق میں شیعہ عسکریت پسندوں پر اس کا اختیار اور دمشق میں بشار الاسد کو سہارا دینے کی کوشش شامل ہیں۔ یہ تمام وجوہات ناقدین کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ تہران اپنے آپ کو مغرب، اسرائیل اور سُنّی دنیا کا دشمن معیّن کرنے کی تگ و دو میں ہے اور اس سعی میں ماسکو ایک حد تک ایران کا مستعد ساتھی ضرور رہا ہے۔ عرب بہار کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے اندر بچ جانے والی اپنی واحد اتحادی، شام میں بشار الاسد کی حکومت کو مدد فراہم کرنے کے لیے روس ایران کے ساتھ قریبی روابط رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ چار سال میں روس نے بشار الاسد کو جان لیوا ہتھیار، گرینیڈ، ٹینک، لڑاکا جیٹ طیارے، جنگی ہیلی کاپٹر، فوجی مشیر، طیارہ شکن کروز میزائل اور فضا میں دور تک مار گرانے والے دفاعی میزائل فراہم کیے ہیں۔ ان میزائلوں نے کم از کم ایک نیٹو طیارہ (ترکی کا ایف۔۴ لڑاکا جہاز) ۲۰۱۲ء میں مار گرایا۔
روس نے اتنا پیسہ اور سفارتی سرمایہ ایک ایسے خطے میں مداخلت پر کیوں صَرف کیا ہے، جو اس کی سرحدوں سے کوسوں دور ہے؟ بَرڈ کالج کے والٹر رسل میڈ کے مطابق اس کا سبب یہ ہے کہ روس، ایران اور چین دنیا کی تین ایسی طاقتیں ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد، مغرب کی سربراہی میں قائم ’’اسٹیٹس کو‘‘ (Status Quo) کو مختلف انداز میں چیلنج کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ فارن افیئرز میگزین کے ایک مضمون میں دلائل دیتے ہوئے میڈ کا موقف تھا کہ ’’روس، سابق سوویت یونین کے ٹکڑوں کو جس حد تک جوڑ سکتا ہے، جوڑنا چاہتا ہے۔۔۔ ایران مشرقِ وسطیٰ میں سُنّی عرب ریاستوں کے غلبے اور سعودی عرب کی سربراہی میں قائم نظام کی موجودہ ترتیب بدلنا چاہتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’تینوں ممالک (روس، چین اور ایران) کے راہنما اس بات پر متفق ہیں کہ امریکی طاقت ان کے نو مرتب شدہ عزائم (Revisionist Goals) کی راہ میں مرکزی رکاوٹ ہے‘‘۔
دوسرے الفاظ میں، ایران کو ہتھیار بند کرنے اور اسد کی پشت پناہی کرنے میں ماسکو کا بنیادی منشا یہ ہے کہ ان معاملات سے فائدہ اٹھا کر اپنے گرد و پیش میں جو اپنی سلطنت وہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس پر واشنگٹن سے رعایت حاصل کی جائے۔ نیویارک یونیورسٹی میں عالمی امور کے ایک پروفیسر مارک گیلیوٹی کا کہنا ہے کہ ایران مذاکرات میں ماسکو اپنے کردار کو اس نظر سے نہیں دیکھتا کہ بذاتِ خود اس سودے سے کوئی خاص فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے، بلکہ اس کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ان مذاکرات کو استعمال کر کے اُن مفادات کو کیسے حاصل کیا جائے جو اس کے لیے مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات چیت کی وجہ سے مغرب ماسکو کو ایک عالمی طاقت ماننے پر مجبور ہے۔ ایران کو بھی احساس ہے کہ ماسکو ایک اچھا اتحادی ثابت ہوا ہے اور دیگر موجودہ یا مستقبل میں ممکنہ روسی اتحادیوں کو بھی نئے سرے سے یہ اطمینان حاصل ہوا ہے کہ روس ایک اچھا اتحادی ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن ایران پر سے اقوامِ متحدہ کی عائد کردہ پابندیاں اٹھانے پر روس کا اصرار کسی حد تک اس لحاظ سے بعید العقل ہے کہ عملی طور پر ایسا کوئی اقدام روس کی معیشت کے لیے انتہائی بری خبر ہوگا۔ میکرو ایڈوائزری کے تجزیہ نگار کرس ویفر کہتے ہیں کہ ایران کو نقد رقم کی ضرورت ہے اور وہ اوپیک کی تیل کی ترسیل میں کٹوتی کے منصوبے کا حصہ بننے پر راضی نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کے حوالے سے ہونے والا سودا اگرچہ توانائی کے شعبے کو سرمایہ کاری کے لیے کھول دے گا اور آخرکار ایک ملین بیرل کی یومیہ پیداوار کی بحالی کا باعث بھی بنے گا جو ایران پر پابندیاں سخت ہونے کے بعد سے موقوف تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ تیل اور گیس دونوں کی پیداوار میں طویل مدتی اضافے کا سبب بھی بنے گا۔
ایران کی قدرتی گیس کی فراہمی بہت زیادہ ہے اور اس کی سب سے آسان منڈی ایک اعلیٰ تعمیر شدہ پائپ لائن نیٹ ورک کے ذریعے براستہ ترکی یورپ ہے۔ اس طرح گیس کی براہ راست بلقان کے خطے تک رسائی ممکن ہے۔ یہی خطہ بلاشبہ گیزپروم (Gazprom) کے صارفین کا بنیادی گڑھ بھی ہے۔ روس کے بجٹ کا بیس فیصد حصہ گیزپروم (ریاستی ملکیت میں چلنے والی روس کی طاقتور گیس کمپنی) کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔
ایران کی طرف سے جاری گیس کی مسلسل ترسیل ان مسائل میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی جن کی وجہ سے گیزپروم سے حاصل ہونے والا منافع پچھلے چار سالوں میں پہلے ہی تیس فیصد تک گر چکا ہے۔ یورپ میں آنے والے معاشی اُتار نے توانائی کی کھپت کو کم کیا ہے۔ امریکا کا شیل گیس انقلاب تیل کی قیمتوں کو نیچے لا چکا ہے اور لکویفائیڈ نیچرل گیس ٹیکنالوجی کا فروغ قطر اور امریکا سے یورپ کو گیس کی فراہمی ممکن بنا رہا ہے۔ زیادہ اہم ’خوف کا عنصر‘ ہے جس نے ۲۰۱۴ء میں روس کی یوکرین میں مداخلت کے بعد سابق سوویت ریاستوں مثلاً بلقان اور پولینڈ میں صارفین کو متبادل ذرائع توانائی کی طرف جانے پر مائل کیا ہے۔
یوکرین کے قومی پائپ لائن آپریٹر کے مطابق گزشتہ سال کے دوران یوکرین نے روس سے گیس کی برآمد ۴۴ فیصد سے کم کر کے ۵ء۱۴ بلین کیوبک میٹر تک کر دی ہے۔ ۲۰۱۵ء کے آخر تک اس کا دعویٰ ہے کہ وہ گیزپروم پر اپنے انحصار کو ۸۰ فیصد تک کم کر دے گا۔ ایرانی گیس ترکی اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی گیزپروم کی جانب سے گیس کی فراہمی کو چیلنج کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ یاد رہے کہ ترکی اور یورپ روس کی مرکزی توانائی کی منڈیوں میں سے ہیں۔
روس کے معاشی مفادات کو جانچنے میں ایک دوسرا عنصر بھی قابلِ توجہ ہے۔ ایران کی جارحانہ علاقائی پالیسیاں روس میں ایک صنعت کو فروغ دینے میں ضرور کام آرہی ہیں اور وہ ہے جنگ کی صنعت۔ روس کی ریاستی جنگی صنعت رُوسٹیک کے سربراہ سرجے چیمیزوف نے جنوری میں ’’رائٹرز‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اسے نہیں چھپاتا اور ہر کوئی یہ بات سمجھتا ہے۔ جتنے زیادہ تنازعات ہوں گے، اُتنے ہی زیادہ وہ ہم سے ہتھیار خریدیں گے۔ پابندیوں کے باوجود ہتھیاروں کی فروخت کا حجم بڑھ رہا ہے، خاص طور پر لاطینی امریکا اور مشرقِ وسطیٰ میں‘‘۔
ایران کے ساتھ دوستی (اور ایک ایسے ایران کے ساتھ جس کے پاس پابندیاں ہٹنے کے بعد خرچ کرنے کے لیے زیادہ پیسے ہوں گے) روس کی جنگی صنعت کے لیے اچھی ثابت ہوسکتی ہے۔ گزشتہ سال ماسکو نے دنیا بھر میں ۱۵؍بلین ڈالر سے زائد کا جنگی ساز و سامان فروخت کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ان روسی کمپنیوں کے لیے بھی فائدے کا باعث ہو سکتا ہے جو ایران میں سڑکیں، پائپ لائنیں اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن یہ مفادات اس کاری ضرب کے آگے مات ہیں جو روس کی معیشت کو گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور گم شدہ گیس منڈیوں کی وجہ سے برداشت کرنا پڑیں گے۔
روس کے منجھے ہوئے وزیرِ خارجہ سرجے لیوروف ایران پر سے پابندیاں اٹھانے پر بہت عرصے سے اور بہت شدت کے ساتھ زور دیتے رہے ہیں۔ کیوں؟ ایک سادہ وجہ تو عادت ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں مختلف انتظامی قوتوں کے تحت بیشتر عرصہ امریکا پابندیاں لگانے پر زور دیتا رہا ہے اور روس نے اس کی مخالفت کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ مگر ۲۰۱۲ء کے بعد سے واشنگٹن اور تہران دونوں اطراف میں تعلقات کی بحالی کی طرف پالیسی کی تبدیلی کے بعد غیر متوقع طور پر ماسکو اپنے آپ کو اپنے روایتی حریف امریکا کے ہم خیال پاتا ہے۔
گزشتہ سال کے دوران روس کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ کریملن کے لیے جغرافیائی سیاست (Geopolitics) معاشی مفاد کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ روس کے کریمیا کے ساتھ الحاق کر لینے کے بعد امریکا اور یورپ کی جانب سے لگنے والی پابندیوں اور چیمیزوف اور پیوٹن کے دیگر درجنوں قریبی دوستوں کے اثاثوں کے انجماد نے روس کی معیشت کو سخت مشکل میں دھکیل دیا ہے۔ اس کے باوجود مشرقی یوکرین میں پیوٹن کی طرف سے باغیوں کی حمایت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اب جبکہ امریکا کا ایران کے ساتھ عظیم سودا اپنے آخری اور سب سے تکلیف دہ دور میں داخل ہو چکا ہے، ماسکو یقینا ایران بات چیت سے فائدہ اٹھا کر اُن پابندیوں میں توسیع کو پیشگی روکنے کی کوشش کرے گا جو پیوٹن کے لیے واقعی اہمیت رکھتی ہیں، یعنی وہ پابندیاں جو روس پر عائد ہیں۔
گیلوٹی کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر مشرقِ وسطیٰ میں روس کا مفاد اس امر میں پنہاں ہے کہ ’’ہانڈی پکتی رہے لیکن اس میں جوش نہ آئے، چاہے وہ شام اور عراق میں داعش ہو یا یمن کا بحران۔ مشرقِ وسطیٰ جتنا زیادہ افراتفری کا شکار ہوگا، اُتنا ہی زیادہ مغرب اور واشنگٹن کی نظر اس خطے پر مرکوز رہے گی اور یوکرین یامجموعی طور پر یوریشیا کی طر ف منتقل نہیں ہو گی۔‘‘
“Putin’s Iran Scam”. (“Newsweek”. April 18, 2015)
Leave a Reply