
افغانستان سے پسپائی کے چوتھائی دہائی بعد روس ایک بار پھر اپنی تاریخی سلطنت کی حدود سے باہر ایک مسلمان ملک کے اندر جنگ میں مصروف ہے۔ تاہم ماسکو کی شام میں مداخلت اس کے طاقت کے گزشتہ استعمالات سے بہت مختلف ہے، جن میں زمینی حملے اور غیر ملکی قبضے نمایاں تھے۔ اس کے علاوہ موجودہ جنگ ایک نئے علاقائی ماحول میں ہو رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بیرونی قوتیں بشمول امریکا گزشتہ سو سال کے مقابلے میں نہایت کم فعال کردار ادا کررہی ہیں اور داعش جیسے غیر ریاستی کردار، عثمانیہ سلطنت کے انہدام کے بعد قائم ہونے والے رہائشی نظام کو بدلنے کے درپے ہیں۔
شام کی جنگ، کم از کم ابھی تک کے حالات کے پیش نظر روس کی پہلی ’امریکی اسٹائل‘ جنگ بن چکی ہے۔ روسی طیارے دشمن پر آسمان سے بمباری کر رہے ہیں اور روسی بحریہ ایک ہزار میل دور سے کروز میزائل داغ رہی ہے۔ دشمن کے پاس، کم از کم ابھی تک، میدانِ جنگ میں روسیوں پر جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں ہے۔ روسی سربراہی میں قائم اتحاد کے اندر ذمہ داریوں کی تقسیم کی بدولت شام میں زمینی افواج فراہم کرنے کی ذمہ داری دمشق، تہران اور حزب اللہ کے پاس ہے۔ مشیروں اور ٹیکنیشنز کے علاوہ شام میں موجود روسی عسکری حکام کا مشن روسی فضائیہ اور طرطوس میں بحری اڈے کی مدد کرنا اور اگر ضرورت پڑے تو ان کی حفاظت کرنا ہے۔ روس مستقبل میں حساس اثاثوں کو محفوظ رکھنے، قبضے میں لینے یا خطرات سے نکالنے کے لیے خصوصی افواج (Spetsnaz) یا فضائی اور بحری افواج کے دستے تعینات کر سکتا ہے۔ تاہم پوٹن شام کی جنگ میں پوری طرح ملوث ہونے سے گریزاں ہیں اور باقاعدہ زمینی افواج یا چیچن افواج روسی منصوبے کا حصہ دکھائی نہیں دیتیں۔
روس کی شام میں محدود لیکن صاف طور پر نہایت گہری مداخلت کی وجوہات کیا ہیں؟ ماسکو کے اصل اہداف اور مقاصد، طریقے اور حکمت عملیاں کیا ہیں؟ تنازع میں اس کی براہ راست عسکری شرکت کے وسیع تر مضمرات کیا ہیں؟ اور مشرق وسطیٰ میں روس کا اپنے کردار کو بڑھانا اس کے امریکا کے ساتھ پہلے ہی متنازعہ تعلقات کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟
روس شام میں اس لیے براہ راست داخل ہوا تھا تاکہ دمشق میں بشارالاسد کی حکومت کو گرنے سے بچایا جاسکے۔ تھکا دینے والی جنگ کے چار سال بعد شامی حکومتی افواج ہمت ہار چکی تھیں اور دمشق کا سقوط اور اس کے ساتھ ہی طرطوس میں گرم پانیوں کی بندرگاہ کا روس کے ہاتھ سے نکل جانے کا امکان نظر آنے لگا تھا۔ یہ امکان مزید قوی ہوتا اگر امریکا اور اس کے اتحادی شام میں ایک نوفلائی زون قائم کر دیتے اور بشارالاسد سے برسرپیکار باغی گروہوں کی مزید معاونت کرتے۔ اس کے بعد روسی نقطۂ نظر سے شام بھی لیبیا جیسی قسمت سے دوچار ہوتا اور آخرکار داعش سب کو پیچھے چھوڑ کر دمشق کو اپنی خلافت کا دارالخلافہ بنالیتی۔
روسیوں کے لیے داعش دو اسباب کی وجہ سے ایک مہلک دشمن ہے۔ پہلا یہ کہ داعش ایک عالمی جہادی تنظیم ہے، جو تمام مسلمان آبادی والے علاقوں پر نگاہ جمائے ہوئے ہے، جس میں وسط ایشیا اور روس کے اپنے علاقے شمالی قفقاز، تاتارستان و دیگر بھی شامل ہیں۔ دوسرا، داعش کے غیر ملکی جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد سابق سوویت علاقوں اور خود روس سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک دفعہ شام اور عراق میں فتح یاب ہونے کے بعد یہ جہادی لوگ اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ سکتے ہیں اور وہاں مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ ولادی میر پوٹن کے لیے یہ بہ وزن بات ہے کہ ان دشمنوں کو اس موقع پر ہی دبا دیا جائے اور جتنوں کو ممکن ہو مار دیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ شام میں صرف بشارالاسد کی حکومت کو استحکام دینا اور جہادی گروہوں کو مارنا ہی روس کے اہداف نہیں ہیں۔ ماسکو کی مداخلت کا امریکا سے بھی اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ داعش سے۔ ۲۰۱۴ء میں یوکرین سے آغاز کرنے کے بعد روس امریکی بالادستی میں قائم بعد از سرد جنگ انتظام (Post Coldwar Order) سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ کریملن کا دعویٰ تھا کہ مشرقی یورپ میں خاص مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دائرۂ اثر قائم کرنا اس کا حق ہے جسے وہ ’روسی دنیا‘ کہتا ہے اور اس طرح روس اور نیٹو کے درمیان ایک سیکورٹی بفر بھی قائم ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں وہ دہشت گردی سے لڑنے اور علاقائی سلامتی کو قائم کرنے میں امریکا کے برابر حق رکھنے کا دعویٰ کررہا ہے۔ اس دعوے کو منوانے کے لیے پوٹن نے فوجی قوت استعمال کی ہے اور اس کے لیے انہوں نے نئے طریقے اختیار کیے ہیں۔ روبناس (مشرقی یوکرین) میں روس ایک ہائبرڈ (Hybrid) جنگ میں ملوث ہوا اور شام میں اس نے فضائی اور بحری طاقت سے کام لیا ہے۔
روس کی فوجی حکمتِ عملی کا مرکزی نکتہ بشارالاسد کے دشمنوں کو اس حد تک کمزور کرنا ہے کہ اس کے بعد بشارالاسد ان پر ایک بھرپور جوابی کارروائی کرنے کے قابل ہو جائے۔ اگرچہ ماسکو کے سرکاری بیانات صرف داعش کے خلاف حملوں کا تذکرہ کرتے ہیں، لیکن درحقیقت روس تمام مخالف قوتوں کو نشانہ بنا رہا ہے، انہیں بھی جنہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے تربیت یافتہ اور ہتھیار بند کیا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسا زمین پر موجود ناقص انٹیلی جنس یا غیر دقیق ہتھیاروں کی وجہ سے ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ روسی داعش، النصرہ فرنٹ، فتح یا دیگر گروہوں میں فرق نہیں کرتے۔ تاہم کرد جو اس تنازع میں امریکی امداد کے تازہ وصول کنندہ ہیں، روسی حملوں سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن شام کے میدانِ جنگ میں روسیوں کی نظر میں کوئی بھی اعتدال پسندوں کے زمرے میں نہیں آتا۔ تاہم بشارالاسد کے لیے مکمل عسکری فتح ناممکن ہے اور روسی یہ جانتے ہیں۔ عسکری فتح کی اہمیت بس اتنی ہے کہ اسے مذاکراتی میز پر سیاسی فائدے میں بدلا جاسکے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۵ء میں روس بشارالاسد کی حکومت اور حزب اختلاف کے چند ارکان کے درمیان بات چیت کے دو ادوار ماسکو ون اور ٹو کے نام سے منعقد کرچکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حزب اختلاف کے مرکزی گروہ بشارالاسد کے لوگوں سے بات کرنے یا کوئی بھی پیش رفت جو ماسکو کی جانب سے ہو اس میں شرکت سے انکار کرتے ہیں۔ اس ڈیڈ لاک کو توڑنے کے لیے روسی اب جرمنوں اور فرانسیسیوں کے تعاون سے دمشق اور اس کے مخالفین (داعش، نصرہ اور کئی دوسروں کو چھوڑ کر) کو طاقت کے اشتراک کے کسی فارمولے پر تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر اسد کو بالآخر رخصت ہونا پڑتا ہے تو روسیوں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مگر بشارالاسد کی یہ رخصتی امریکی دبائو یا امریکی حمایت یافتہ باغیوں کی وجہ سے نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ آئندہ کیا ہوتا ہے، روس آگاہ ہے کہ مرکزی حکومت کے تحت ۲۰۱۱ء تک باقی رہنے والا شام اب ماضی کی بات ہے۔
روس کے کیسپین سمندر میں موجود بحری جہازوں سے ہونے والے قابل دید کروز میزائل حملے، اور اس سے پہلے کثیر تعداد میں دمشق کو ہتھیاروں کی ترسیل، ماسکو کے تہران اور بغداد کے ساتھ اتحاد کی بدولت ہی ممکن ہوئی ہے جنہوں نے روس کو شام تک پہنچنے کے لیے اپنی اپنی فضائی حدود فراہم کیں۔ شام میں روس کے ممکنہ فضائی حملوں کے بارے میں امریکا کو باقاعدہ طور پر بغداد میں موجود ایک روسی جنرل کے ذریعے آگاہ کیا گیا، جہاں عراق، ایران، شام اور روس کا مشترکہ انسداد دہشت گردی معلوماتی مرکز قائم ہے۔
ماسکو کا مشرقِ وسطیٰ میں موجود شیعہ ریاستوں کے ساتھ بن جانے والا ایک فی الواقع اتحاد اس کی خطے میں حیثیت کے لیے اہم اثرات رکھتا ہے۔ جیسے جیسے بیرونی طاقتیں کنارے ہوتی جارہی ہیں، مشرقِ وسطیٰ کے مرکزی اسٹیج پر دو ممکنہ علاقائی بالادست قوتیں سعودی عرب اور ایران حاوی ہوتے جارہے ہیں، جو بالترتیب سنی اور شیعہ مسلک کے نمائندہ ہیں۔ ابھی تک ماسکو نے مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے دور رہنے کی سعی کی ہے، مگر موجودہ جغرافیائی و سیاسی حقیقتیں اور تزویراتی ملاحظات اس کے پاس شیعہ حکومتوں کے ساتھ ایک قابلِ عمل اتحاد بنانے کے سوا بمشکل ہی کوئی راستہ چھوڑتے ہیں۔
اس کے باوجود بھی روس سنیوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔ اس نے سعودیوں اور ترکوں کے ساتھ مسلسل اور گہرے روابط رکھے ہیں، اگرچہ شام کے مسئلے پر اختلافات دونوں کے ساتھ تعلقات میں شدت کے ساتھ موجود رہے ہیں۔ اس نے مصر کے ساتھ اپنے نومولود رابطوں کو بھی مضبوط کیا ہے۔ شام کی مہم سے ذرا پہلے پوٹن نے اپنے وزیر خارجہ سرگے لیوروو کو خلیج بھیجا اور وہ تقریباً تمام ہی علاقائی رہنمائوں بشمول اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی میزبانی کر چکے ہیں۔ گزشتہ دو وہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران میں اسرائیل اور روس ایک اعتماد کا رشتہ قائم کر چکے ہیں جو باہمی خلوص اور اگر اتفاق نہیں تو کم ازکم خاصی حد تک ہم آہنگی کا موجب ہے۔ روس اسرائیل کے سلامتی مفادات کا دھیان رکھنے کی تاریخ رکھتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں پوٹن نے خود اعتراف کیا تھا کہ شام کو ایس۔۳۰۰ فضائی حفاظتی نظام کی فروخت اسرائیلی تحفظات کی وجہ سے منسوخ کی گئی۔ اس قسم کی یقین دہانیاں نیتن یاہو کو ان کے حالیہ دورۂ ماسکو کے دوران میں بھی کروائی گئی ہوں گی، جب شام میں روس کی فضائی مہم شروع ہونے والی تھی۔ کریملن اس خطے کے بارے میں اسرائیلی ہم منصبوں کو وائٹ ہائوس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مقابلے میں ظالمانہ حد تک حقیقت پسند پاتا ہے۔ چنانچہ بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روسی اور اسرائیلی حکومتوں کے متعلقہ شعبوں کے درمیان بات چیت کا غیر رسمی تبادلہ اب تک کافی تیزی سے ہوتا رہا ہے۔
یہاں یہ بات بھی غیر متعلقہ نہیں ہے کہ شام کے میدانِ جنگ سے ہٹ کر روس اور چین کا تزویراتی ربط و ضبط بڑھ رہا ہے، اور اب دونوں ممالک کے رہنمائوں کا دنیا کے بارے میں نظریہ یکساں ہے۔ وہ امریکا کے ساتھ ملتا جلتا مخاصمتی رویہ رکھتے ہیں اور بہت سے سلامتی اور دیگر مفادات میں بھی دونوں کا اشتراک ہے۔ اسلامی انتہا پسند خاص طور پر روس اور چین دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں امریکی فوجی مہمات کی ناکامی ماسکو اور بیجنگ کے لیے یہ موقع پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد کے لیے ان اہم خطوں میں جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جنجال کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ اسلامی انتہا پسندوں سے نمٹنے اور خطے کے معاملات سلجھانے، ان دونوں کاموں کے لیے سلامتی معاملات سنبھالنے میں روس آگے ہے، کیونکہ اس کے پاس علاقائی تجربہ، فوجی صلاحیت اور خطرات مول لینے کا حوصلہ ہے۔ مگر چین روس کے اقدامات کا قریبی مشاہدہ کررہا ہے۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ ۲۰۱۵ء کے آغاز میں جبکہ شام میں مداخلت کا فیصلہ یقینا ماسکو میں کیا جاچکا ہوگا، چینی اور روسی بحری افواج نے مشرقی بحرِروم میں مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا۔ اب ایک چینی طیارہ بردار بحری جہاز شام کے ساحل پر روسی بیڑے کے ساتھ آملا ہے۔ اب جبکہ ماسکو واشنگٹن اور نیٹو کو بطور سلامتی شراکت دار نہیں دیکھتا بلکہ مشکلات کے ماخذوں کے طور پر دیکھتا ہے، نئے یوریشیائی سلامتی انتظامات دو طرفہ اور سہ طرفہ تعلقات کی بنیاد پر تعمیر ہو رہے ہیں جن میں روس، چین، ایران، بھارت اور وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں۔
ان وسیع تر انتظامات کے تناظر میں اور روس کے اپنے مسلمان نسلی گروہوں کی بدامنی پیدا کرنے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، پوٹن نے اسلام کے لیے روس کے احترام پر زور دینے کا خاص خیال رکھا ہے۔ شام پر حملوں کے موقع پر انہوں نے ماسکو کی کیتھیڈرل مسجد کا افتتاح کیا، جو پورے روس میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ ترکی کے رجب طیب ایردوان اور فلسطین کے محمود عباس کے علاوہ روس کے تمام دنیاوی اور روحانی مسلمان رہنمائوں نے جن میں چیچنیا کے رمضان قادروف بھی شامل ہیں، ان کے اقدام کو سراہا۔ کریملن اور روس کے سرکاری مسلم علما کا پیغام یہ ہے کہ روس مذموم، غیر اسلامی مقاصد کے لیے اسلام کو استعمال کرنے والوں کے خلاف اچھے مسلمانوں کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ اب تک یہ پیغام کسی ردعمل کا موجب نہیں بنا ہے۔ مگر روس کے اندر اسلامی انتہا پسند اور بنیاد پرست روسی مداخلت کو اسلام کے خلاف ’’صلیبی‘‘ جارحیت کے طور پر پیش کرنے کے لیے کام کر رہے ہوں گے۔ یہ تاثر روسی قدامت پسند چرچ کے غیر دانشمندانہ اقدامات کی وجہ سے مضبوط ہو سکتا ہے، جو اپنے حب الوطنی کے جوش میں روس کو شام میں استعمال کرنے کے لیے ہتھیاروں سے نواز رہا ہے۔
وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو شام میں روسی مداخلت نے روسی معاشرے میں ملے جلے تاثرات کو جنم دیا ہے۔ کسی کو ایک نئے افغانستان میں پھنسنے کا خوف ہے تو کوئی روسی طاقت کی نمائش کی وجہ سے مطمئن ہے۔ اکثریت نے عمومی طور پر حکومت کو جنگ جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن شام میں زمینی افواج، خاص طور پر جبری بھرتی کو اتارنے اور ہلاکتوں کو برداشت کرنے کو عوام تیار نہیں، چاہے وہ شام کے میدانِ جنگ میں ہوں یا دہشت گردوں کے روس میں حملوں کے نتیجے میں۔ روسی مداخلت کا اقتصادی بوجھ کساد بازاری کے موجودہ حالات میں بھی اب تک نسبتاً ہلکا اور قابل برداشت ہے۔
آخری بات یہ کہ شام میں روس کی فوجی ہتھیار بندی کے ذریعے پوٹن نے نیویارک میں صدر اوباما کے ساتھ براہ راست بات چیت کا راستہ بنایا، جو روس کو سفارتی طور پر ’تنہا‘ کرنے کی امریکی مہم کے بعد دونوں کی پہلی اہم ملاقات ہے۔ چونکہ اوباما انتظامیہ کریملن کو ایک ’برابر کا شریک‘ ساتھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ لہٰذا شام میں مداخلت کی شرائط پر دونوں میں لڑائی جاری رہنے کا امکان ہے۔ پوٹن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی موجودگی کو بھی ایک وسیع انسدادِ دہشت گردی اتحاد کے تصور کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا، جس میں عرب دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ تہران اور دمشق شامل ہوں اور ماسکو اور واشنگٹن بھی برابر کے شریک ہوں۔ لیکن جیسا کہ اندازہ تھا یہ خیال امریکا اور اس کے اتحادیوں کو متاثر نہ کرسکا۔ مگر پوٹن اپنی فعالیت کی بدولت خاصی مشہوری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، خاص طور پر اس لیے کہ اوباما کا وائٹ ہائوس تذبذب اور صلاحیت کے فقدان کا شکار رہا۔ ایک متوازی اقدام کے طور پر روس نے روبناس میں تنازع کی شدت کم کر دی ہے تاکہ جرمن اور دیگر یورپی ان پابندیوں کو نرم کرنے یا اٹھانے کے بارے میں غور کریں جو انہوں نے روس پر گزشتہ سال عائد کی تھیں۔ کارنیگی انڈومنٹ کے سابق صدر جیسیکا میتھیوز کے الفاظ میں کوئی بھی دوسرا سیاست دان کمزور پتوں کے ساتھ اتنا اچھا نہیں کھیل سکتا جتنا کہ ولادی میر پوٹن۔
کہا جاتا ہے کہ روس کو شام میں مداخلت کی تیاری کرنے کے لیے نو ماہ لگے۔ تاہم کسی جنگ میں داخل ہونا، جنگ میں داخل ہو کر باہر نکلنے سے کہیں آسان ہے۔ روس کو کئی چیلنجوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ اس کو اپنی فوجی حکمت عملی شام میں سیاسی حکمت عملی اور خطے میں سفارتی حکمت عملی کے مطابق کرنا ہوگی۔ اس کو اپنی مہارت بڑھانے اور اپنے روابط وسیع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جہاں وہ کام کررہا ہے، وہاں کے تیزی سے بدلتے ماحول کو بہتر انداز میں سمجھ سکے۔ سب سے بڑھ کر اس کو اپنے ملک میں لوگوں اور اثاثوں کی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے، جبکہ ابھی روسی ہوائی جہاز شام میں اہداف کو نشانہ بنا ہی رہے تھے کہ ایک طالبان گروہ نے قندوز کا قبضہ حاصل کرلیا، جو تاجک سرحد سے کوئی ۶۰ میل دور افغانستان کا صوبائی دارالحکومت ہے۔ روس کا تاجکستان میں ایک فوجی اڈہ ہے اور وہ اسے جہادیوں کے وسط ایشیا کی طرف آگے بڑھنے کی راہ میں بطور رکاوٹ دیکھتا ہے۔ پوٹن نے قندوز پر قبضے کے فوراً بعد ہی تاجک صدر کو سوچی (Sochi) طلب کرلیا۔ جب کہ افغانستان میں صورتحال موروثی طور پر غیر مستحکم ہے اور وسط ایشیائی ممالک کو جو چیلنج درپیش ہیں، وہ عرب بہار کے دوران میں عرب ریاستوں کو درپیش چیلنجوں سے زیادہ مختلف نہیں، چنانچہ روسی صدر کے پاس فعال ہونے کی خاطر خواہ وجوہات موجود ہیں۔
“Putin’s Syria gambit aims at something bigger than Syria”. (“carnegie.ru”. Oct. 13, 2015)
Leave a Reply