
۳ جولائی ۲۰۱۳ء کو جب مصر کے وزیر دفاع جنرل عبدالفتاح السیسی نے منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، تب بہتوں کا خیال تھا کہ صدر مرسی اور ان کے ساتھی بہت جلد مخالفت اور مزاحمت ترک کرکے نئی زمینی حقیقت کو قبول کرلیں گے۔
اقتدار پر قابض ہونے والے ٹولے نے صدر مرسی کو برطرف کیے جانے کے چند ہی گھنٹوں کے اندر اخوان المسلمون اور دیگر گروپوں کے ہزاروں ارکان اور سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ ان ٹی وی اور ریڈیو چینلوں کو بھی بند کردیا تھا، جن پر فوجی بغاوت کے خلاف کچھ بھی کہا جارہا تھا۔ اقتدار پر قبضہ کرتے وقت جنرل السیسی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے خانہ جنگی کی راہ مسدود کرنے کے لیے اقتدار پر قبضہ کیا اور یہ کہ وہ بہت جلد ملک میں امن، استحکام اور خوش حالی یقینی بنائیں گے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ جنرل السیسی اور ان کی ڈور ہلانے والوں نے حالات کو سمجھنے اور اندازے قائم کرنے میں غلطی کی تھی۔ خونیں فوجی بغاوت کو چار ماہ ہوچکے ہیں مگر اب تک ملک مستحکم نہیں ہوسکا اور بحران ہے کہ سنگین تر ہی ہوتا جارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی بغاوت کو ان لاکھوں مصریوں کی حمایت حاصل تھی جو اخوان المسلمون کو پسند نہیں کرتے تھے اور جو چاہتے تھے کہ ملک سیاسی اور معاشی ابتری کے دور سے باہر نکلے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر مرسی کے مخالفین میں وہ لوگ سر فہرست تھے جنہیں ان کے صدر بننے کے باعث اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔ سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں جن لوگوں نے غیر معمولی کرپشن کے ذریعے اپنے اور آنے والی سات نسلوں کے لیے بھی تعیش کا سامان کیا تھا، وہ اخوان کا اقتدار کسی طور قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ حسنی مبارک کے دور میں اقتدار پر پنجے گاڑنے والے کرپٹ عناصر کا تعلق فوج، خفیہ اداروں، سکیورٹی اداروں، اعلیٰ بیورو کریسی، پولیس، میڈیا اور عدلیہ سے تھا۔
صدر مرسی کا اقتدار صرف ایک سال رہا۔ اس ایک سال کے دوران انہوں نے معاملات درست کرنے کی کوشش کی مگر حقیقت یہ ہے کہ حسنی دور کے کرپٹ عناصر کی مذموم سرگرمیوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں محض ایک سال کی مدت میں اکھاڑا نہیں جاسکتا۔ اور یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حسنی دور کے (تاحال فعال) کرپٹ نظام نے صدر مرسی کو قبول ہی نہیں کیا۔ ایک فوٹیج بھی سامنے آئی ہے، جس میں پولیس کا ایک اعلیٰ افسر اپنے ماتحت افسران کے سامنے اعتراف کر رہا ہے کہ صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش بہت پہلے تیار کرلی گئی تھی۔ صدر مرسی کے خلاف اچانک اور تیزی سے ابھرنے اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیم ’’تمرد‘‘ کے ایک لیڈر نے اپنی ایک آڈیو پوسٹ میں اس بات پر شدید تاسف اور دکھ کا اظہار کیا ہے کہ وہ صدر مرسی کو ہٹانے کی سازش میں آلۂ کار بنے اور ساتھ ہی اس لیڈر نے مبارک نواز سکیورٹی سیٹ اپ کے ان لوگوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو ایک منتخب صدر کو برطرف کرنے کی سازش کے بنیادی کردار تھے۔
حقیقت کا ادراک ہوتے ہی لاکھوں مصریوں نے سڑکوں پر آکر احتجاج کو وتیرہ بنالیا ہے۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے باوجود یہ لوگ منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ نوزائیدہ جمہوریت، ملک کے پہلے منتخب صدر، منتخب پارلیمان اور آئین کو بحال کیا جائے۔ یہ وہی آئین ہے جو چھ ماہ قبل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔
فوجی بغاوت مخالفین کو کچلنے میں ناکام رہی ہے!
جنرل عبدالفتاح السیسی اور ان کے رفقائے کار اب تک ایسا کوئی بھی منصوبہ سامنے نہیں لاسکے ہیں، جس کی مدد سے مخالفین کو خاموش رکھا یا کچلا جاسکے۔ جنرل السیسی نے تین مفروضوں کی بنیاد پر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ پہلا مفروضہ یہ تھا کہ صدر مرسی بھی حسنی مبارک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقتدار سے دستبردار ہوکر خاموشی اختیار کریں گے۔ فوج نے صدر مرسی کو اغوا کرکے ہفتوں ایک خفیہ مقام پر رکھا تاکہ ان پر دباؤ پڑے اور وہ اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار ہوجائیں، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ محمد مرسی نے ہر طرح کا دباؤ یکسر نظر انداز اور مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ منتخب صدر ہیں اور انہیں فوری طور پر بحال کیا جائے۔ مصر کی فوجی حکومت نے جب یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کو ثالث کی حیثیت سے مدعو کرکے محمد مرسی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اب سمجھ جائیں کہ ان کا اقتدار ختم ہوچکا ہے۔ اس موقع پر بھی انہوں نے فوجی حکومت کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور اس نکتے پر ڈٹے رہے کہ وہ ملک کے منتخب صدر ہیں۔
دوسرے حربے کے طور پر جنرل السیسی اور ان کے ساتھیوں نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ خوفزدہ ہوں اور اقتدار کے نئے سیٹ اپ اور ملک کو چلانے کے حوالے سے اُن کے روڈ میپ کو قبول کرلیں مگر یہ مقصد بھی فوجی حکومت اب تک حاصل نہیں کرسکی ہے۔ ہزار جبر کے باوجود اخوان المسلمون کے رہنما اور کارکن جھکنے کو تیار نہیں، اور اب بھی اس مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقے سے ختم کی گئی ہے، اس لیے کوئی بھی دوسری حکومت قبول نہیں کی جاسکتی۔ حکومت نے انہیں عہدوں کا لالچ بھی دیا ہے اور ڈرایا دھمکایا بھی ہے، مگر کوئی بھی حربہ ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں لاسکا ہے۔ وہ اب بھی جمہوری طور پر منتخب صدر، جمہوری حکومت اور آئین کی بحالی کے مطالبے پر ثابت قدم ہیں۔
اصولی طور پر تو اقتدار پر قابض گروپ اور برطرف جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کی جانی چاہیے تھی تاکہ معاملات کو درست کرنے اور ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کی کوئی صورت نکلتی۔ حسنی دور کے ریاستی سکیورٹی سیٹ اپ اور فوجی خفیہ اداروں کے بعض اسلام مخالف اعلیٰ افسران نے مذاکرات کی راہ مسدود کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے معاملات کو درست کرنے کے لیے فوجی کارروائی پر زور دیا۔ فوج نے جو ہتھکنڈے استعمال کیے، اُن سے وہ لوگ بھی متنفر ہوئے جنہوں نے ابتدا میں فوجی بغاوت کی حمایت کی تھی، مثلاً محمد البرادعی یا پھر وہ جنہوں نے بعد میں فوجی حکومت کو قبول کرلیا تھا مثلاً عبدالمنعم ابوالفتوح۔
جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد قائم کی جانے والی فوجی حکومت کا ساتھ دینے والوں میں ملٹری انٹیلی جنس ادارے، سکیورٹی کے تمام ادارے، سرکاری کنٹرول والا میڈیا، عدلیہ، وکلا اور غیر سرکاری تنظیمیں، سبھی شامل تھے۔ جس کسی نے بھی کورس سے ہٹ کر کچھ گانے کی کوشش کی، اسے سختی سے نظر انداز یا کچل دیا گیا۔ اس صورت حال کے نتیجے میں مصر میں شدید تنگ نظری پر مبنی حب الوطنی اور قوم پرستی پیدا ہوئی۔ مصر کے باشندوں نے دو برسوں کے دوران جو بھی آزادی حاصل کی تھی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں تحلیل ہوگئی۔
فوجی حکومت سے شہ پاکر اور انتقام کے جذبے سے ’’سرشار‘‘ ریاستی سکیورٹی اداروں نے اخوان المسلمون کے خلاف وہ آپریشن شروع کیا، جسے خطے میں کسی بھی جماعت یا تحریک کے خلاف سب سے بڑا آپریشن قرار دیا جاسکتا ہے۔ فوجی بغاوت کے خلاف جانے یا محض مخالفت کا اظہار کرنے کی پاداش میں اخوان المسلمون کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا۔ کارروائی کی زد میں دیگر تنظیمیں بھی آئیں، جن میں الوسط پارٹی بھی نمایاں ہے۔ دونوں گروپوں کے دوسری اور تیسری سطح کے دو ہزار سے زائد قائدین کو پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ ان پر تشدد کے لیے اکسانے یا محض فوجی حکومت کے خلاف جانے کا الزام تھا۔ جن لوگوں کو تحویل میں لیا گیا، اُن میں جامعات اور کلیات کے سو سے زائد پروفیسر اور پروفیشنل سنڈیکیٹ کے ارکان بھی شامل تھے۔ اس کے فوراً بعد فوجی حکومت نے اخوان پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کے تمام فلاحی ادارے بند کردیے۔ کوئی عدالتی حکم آنے سے پہلے ہی فوجی حکومت نے اخوان کے اثاثے بھی ضبط کرلیے، جن میں بہت سی املاک کے علاوہ بینک اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔
سرکاری میڈیا پر اخوان المسلمون اور اس کے ہم خیال گروپوں کو ملک دشمن، انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دینے کی کوششوں کے باوجود اخوان کے کارکنان نے حکومت سے کسی بھی قسم کی ڈیل سے صاف انکار کیا اور پرامن مظاہروں اور قابل قبول انداز کی سول نافرمانی کے ذریعے اپنے اس مطالبے پر ڈٹے رہے کہ جمہوری حکومت بحال کی جائے۔ چھ ہفتوں تک اخوان اور اس کے ہم خیال گروپوں کے کارکن قاہرہ کے دو بڑے چوراہوں اور دیگر صوبوں میں دھرنا دے کر حکومت کی بحالی کا مطالبہ کرتے رہے۔
جنوری ۲۰۱۱ء میں جو انقلاب برپا ہوا، اس کا ایک بڑا مثبت نتیجہ تو یہ نکلا کہ چھ عشروں سے مصر شدید خوف کے جس عالم میں تھا، اس کا خاتمہ ہوا۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ انہیں حقیقی آزادی نصیب ہوئی ہے اور وہ کسی خوف کے بغیر جی سکتے ہیں۔ انہیں جو آزادی اور اختیار کبھی ملا ہی نہیں تھا، اس کا انہوں نے بھرپور استعمال کیا۔ فوجی حکومت کا تیسرا حربہ یا ہتھکنڈا یہ تھا کہ لوگوں کو ایک بار پھر شدید خوف میں مبتلا کردیا جائے تاکہ وہ جمہوری اصولوں اور جمہوری روایات کے عادی ہوکر نہ رہ جائیں۔
عوام کو زیادہ سے زیادہ خوفزدہ کرنا اور اپنی طاقت منوانا فوجی حکومت کا بنیادی مقصد تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آٹھ ہفتوں میں چھ مرتبہ قتلِ عام کیا گیا۔ خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت کم و بیش پانچ ہزار افراد کو شہید کردیا گیا۔ بیس ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا اور ان میں بارہ ہزار سے زائد کو ہنگامی حالت میں نافذ قوانین کے تحت پابندِ سلاسل کیا گیا۔ بہتوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسی سیکڑوں ویڈیو موجود ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصر کی فوجی حکومت نے انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کا صریح ارتکاب کیا ہے۔
یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کی ان تمام کوششوں کے باوجود مصر میں ہزاروں افراد اب بھی احتجاج کرتے ہوئے اس مطالبے پر زور دے رہے ہیں کہ انہیں جمہوریت واپس کردی جائے۔ وہ کسی بھی طور فوجی بغاوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ احتجاج کرنے والوں میں کسان بھی شامل ہیں اور شہروں کے رہنے والے بھی، خواتین بھی نمایاں ہیں اور بچے بھی۔ ان میں عام شہری بھی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ تربیت پانے والے بھی۔ احتجاج کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے اور دوسری طرف معیشت کی حالت کسی بھی طور بہتری کی طرف مائل نہیں۔ سلامتی کی صورت حال بھی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔
جنرل السیسی نے ابتدا میں علاقائی دوستوں اور مغربی دنیا کو یقین دلایا تھا کہ چند ہی دنوں میں حالات معمول پر آجائیں گے اور ملک بھر میں استحکام قائم ہوجائے گا۔ یہ وعدہ ہفتوں میں تبدیل ہوا اور اب جنرل السیسی نے حالات بہتر کرنے کے لیے چھ سے بارہ ماہ طلب کیے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ملک شدید غیر یقینی صورت حال اور طرح طرح کی خرابیوں سے اٹا پڑا ہے اور بہتری کے آثار دور تک نہیں۔ خطے کے امریکی حلیفوں (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، اردن اور اسرائیل) نے مصر کی فوجی حکومت کو تسلیم کیا ہے مگر باقی دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس حکومت کو تسلیم بھی نہیں کرسکتی اور وہاں قتلِ عام سے نظر بھی نہیں چرا سکتی۔ ستمبر میں مصر کے وزیر خارجہ نے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو اس کے سامنے تقریباً خالی ہال تھا کیونکہ اس تقریر کا ۱۲۲؍ ممالک نے بائیکاٹ کیا۔ افریقی اتحاد کی تنظیم نے بھی مصر کی رکنیت معطل کرتے ہوئے جمہوریت کی بحالی تک اپنے کسی بھی ادارے میں اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
متعصب جج، جانبدار وکلا
محمد مرسی کی ثابت قدمی اور استقلال نے فوجی حکومت کی قانونی حیثیت کے لیے بحران پیدا کیا ہے۔ وہ انتہائی شفاف طریقے سے صدر منتخب ہوئے تھے اور ایک فوجی حکومت نے انہیں برطرف کیا۔ فوجی حکومت کی پشت پر موجود قوتوں کا خیال تھا کہ وہ محمد مرسی کو اس بات پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی کہ وہ حالات کی خرابی کو قبول کرتے ہوئے اپنے حقِ (صدارت) سے دستبردار ہوجائیں گے۔ جولائی کے اوائل میں فوج کی جانب سے اغوا کیے جانے کے بعد سے سرکاری وکلا نے ان پر غداری سمیت کئی الزامات عائد کیے مگر کسی بھی الزام کے ساتھ شواہد پیش نہیں کیے جاسکے ہیں۔ سرکاری وکلا کو اندازہ تھا کہ ان کے الزامات کھوکھلے اور بھونڈے ہیں اور کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا، اس لیے انہوں نے بالآخر ان پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے سرکاری محافظین کو ۵ دسمبر ۲۰۱۲ء کو صدارتی محل کے باہر مظاہرین کو قتل کرنے پر اکسایا تھا۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس رات ہوا کیا تھا؟
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ سابق صدر حسنی مبارک کے وفاداروں کے ساتھ مل کر چند اعلیٰ سرکاری افسران اس رات محمد مرسی کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ صدارتی گارڈز کے سربراہ بریگیڈیئر طارق الگوہری نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے چند اعلیٰ افسران کو یہ کہتے سنا تھا کہ یہ محمد مرسی کی آخری رات ہے۔ بریگیڈیئر طارق الگوہری نے جب صدر کی حفاظت کے لیے گارڈز کو جمع ہونے کا حکم دیا تو ان میں کئی ایک نے حکم ماننے سے انکار کردیا، اور چند ایسے بھی تھے جو اپنی پوزیشن چھوڑ گئے۔
جب صدر مرسی کو بتایا گیا کہ صدارتی گارڈز اپنا فریضہ انجام دینے کو تیار نہیں، تو انہوں نے وزارتِ داخلہ سے بات کرکے اسے صورت حال بتائی مگر کوئی بھی حفاظتی دستہ بھیجنے کے بجائے اس نے کہا کہ طاقت کے بے محابا استعمال کا حکم دیے جانے تک وہ کوئی دستہ نہیں بھیجے گی۔ صدر مرسی نے کسی اور سے نہیں، اس وقت کے سکیورٹی انچارج جنرل احمد جمال الدین سے بات کی تھی۔ وزیر انصاف جسٹس احمد مکی نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ مسلح گینگ صدارتی محل پر پٹرول بم پھینک رہے تھے اور پانچ صدارتی گاڑیوں کو آگ لگ چکی تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے لائیو ایمونیشن کے استعمال کی اجازت دینے سے گریز کیا۔ مظاہرین کا ایک اور ٹولہ تو بلڈوزر بھی لے آیا تاکہ مرکزی دروازے کو توڑ کر صدارتی محل پر باضابطہ حملہ کیا جائے۔
جب اخوان المسلمون اور دیگر گروپوں نے سنا کہ صدارتی محل کے گارڈز اور پولیس نے صدر کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے سے انکار کردیا ہے تو ہزاروں افراد صدر کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے صدارتی محل کی طرف دوڑے۔ اس کے بعد صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پرتشدد تصادم ہوا۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں نے صدارتی محل کے نزدیک احتجاج کرنے والوں کے کیمپ اکھاڑ دیے۔ بہت سے دوسرے کارکنوں پر مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ رات بھر کے تصادم میں دس افراد مارے گئے۔ یہ سب کے سب سڑک کے اُس جانب تھے جہاں اخوان کے کارکن جمع تھے۔ گَرد چَھٹی تو معلوم ہوا کہ مارے جانے والوں میں آٹھ اخوان کے کارکن تھے اور دو وہ تھے جو غلط سمت پر چلے گئے تھے۔ ان میں ایک بائیں بازو کا صحافی الحسینی الضائف تھا جو اخوان مخالف تھا۔ اپوزیشن نے اس کے قتل کا الزام بھی اخوان پر عائد کردیا جبکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ طبی ماہرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ الحسینی کو جو گولیاں لگی تھیں، وہ اُن گنوں سے داغی گئی تھیں، جو اخوان کے مخالفین نے تھام رکھی تھیں۔
محمد مرسی کے حامیوں نے اس رات ۴۹ مسلح افراد کو گرفتار کیا اور ان پر مظاہرین کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا۔ ان تمام افراد کو پولیس کے حوالے کردیا مگر پراسیکیوٹر جنرل مصطفی خاطر نے انہیں ۲۴ گھنٹے کے اندر یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ ان کے خلاف شواہد ناکافی ہیں۔ ان کے خلاف ۱۹؍اگست کو مقدمہ چلایا گیا مگر ایک ہی سماعت میں انہیں بری کردیا گیا جبکہ ان میں سے کئی ایک گرفتاری کے وقت مسلح تھے۔
ان افراد کے بری کیے جانے کے دو ہفتے بعد برطرف صدر مرسی اور اخوان کے ۱۴ دوسرے رہنماؤں پر اس رات قتل و غارت کی تحریک دینے کا الزام عائد کیا گیا۔ مگر ہلاک ہونے والوں میں سے آٹھ کے پس ماندگان نے بتایا کہ قاتل تو وہ غنڈے ہیں جو سکیورٹی سیٹ اپ کے حکم پر قتل و غارت اور خوف و دہشت کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے پیاروں کے قتل کا الزام سابق وزیر داخلہ جنرل احمد جمال الدین پر عائد کیا۔ مدعا علیہان میں محمد مرسی کے علاوہ ایوان صدر میں ان کے دست راست اعصام الاریان اور محمد البلتاجی بھی شامل تھے۔ اخوان کے یہ دونوں سینئر لیڈر تحریر اسکوائر میں حسنی مبارک کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے روح رواں بھی تھے۔ جو لوگ اقتدار سے محروم کیے گئے تھے، وہ کسی نہ کسی طور ان دونوں سے بھی بدلہ لینا چاہتے تھے، اس لیے انہیں بھی جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا گیا۔
محمد مرسی کو ۴ نومبر کو عدالت میں لایا گیا اور عوام نے برطرف کیے جانے کے بعد انہیں پہلی بار دیکھا۔ وزیر داخلہ جنرل محمد ابراہیم نے، جو فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کے خلاف آپریشن کے قائد بھی رہے ہیں، پولیس اکیڈمی میں قائم عدالت کی حفاظت کے نام پر بیس ہزار پولیس اہلکاروں کے ساتھ طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ محمد مرسی کے خلاف حکومت کی طرف سے مقدمہ لڑنے والا کوئی اور نہیں، مصطفی خاطر تھا جس نے صدر کے قتل کی سازش میں شریک افراد کو بری کرادیا تھا۔ پراسیکیوٹر نے فردِ جرم میں صرف دو غیر اخوان ارکان کا ذکر کیا۔ ۵ دسمبر ۲۰۱۲ء کی رات مارے جانے والے آٹھ افراد کے پس ماندگان نے اس پر پراسیکیوٹر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور صدر مرسی اور ان کے رفقا کو اپنے عزیزوں کے قتل سے بری الذمہ قرار دیا۔ انہوں نے سلامتی کے ریاستی اداروں پر قاتلوں کو پناہ اور قانونی تحفظ دینے کا الزام بھی عائد کیا۔
صدر محمد مرسی سمیت جن آٹھ افراد پر الزامات عائد کیے گئے، ان میں سے کوئی بھی جائے وقوع پر موجود نہ تھا۔ پولیس نے کمرۂ عدالت میں صرف چار وکلائے صفائی کو داخل ہونے کی اجازت دی۔ ۲۶ دیگر وکلائے صفائی کو عدالت نے گرین سگنل دے دیا تھا مگر پولیس نے سکیورٹی کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے انہیں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ دو تسلیم شدہ غیر اخوان ہلاک شدگان کے لیے عدالت نے ۳۰۰ وکلائے صفائی کو کلیئرنس دی تھی مگر پولیس نے ان میں سے کسی کو کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہ دی۔ چند ایک غیر ملکی صحافیوں کے علاوہ ملک بھر سے معدودے چند صحافیوں ہی کو مقدمے کی کارروائی کی کوریج کی اجازت دی گئی اور یہ لوگ وہ تھے جو فوجی حکومت کے واضح حامی تھے۔ جن صحافیوں کے بارے میں انتظامیہ جانتی تھی کہ وہ فوجی حکومت کے مخالفین میں سے ہیں، انہیں عدالت کے نزدیک بھی پھٹکنے نہیں دیا گیا۔
عدالت کے جج احمد صابری نے جب محمد مرسی سے کہا کہ وہ اپنا تعارف کرائیں تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس ملک کے منتخب صدر ہیں اور اس لحاظ سے خود عدالت کو بھی اختیار نہیں کہ ان پر مقدمہ چلائے۔ انہوں نے جسٹس احمد صابری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس امر کو تسلیم کریں کہ ان کے پاس منتخب صدر کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار نہیں۔ محمد مرسی کو خاموش کرنے کے لیے عدالت میں موجود فوجی حکومت کے حامی وکلا اور صحافیوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ انہوں نے نعرے لگاتے ہوئے محمد مرسی اور دیگر مدعا علیہان کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ جسٹس صابری جب عدالت میں برپا ہونے والے ہنگامے پر قابو پانے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے تو انہوں نے سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔
بیشتر مصری اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ محمد مرسی کے خلاف مقدمہ چلانے والے وکلا اور سماعت کرنے والے جج اقتدار پر قابض سابق ٹولے کی باقیات میں سے ہیں۔ یہ لوگ اخوان المسلمون اور بالخصوص محمد مرسی سے بدلہ لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ مصطفی خاطر حسنی مبارک کے دور کے آخری وزیر اعظم احمد شفیق کے معاون تھے۔ احمد شفیق صدارتی انتخاب میں محمد مرسی کے حریف بھی تھے۔ وہ حسنی مبارک کے خلاف مقدمے میں پراسیکیوٹر بھی تھے۔ انہوں نے اس قدر کمزور استغاثہ تیار کیا کہ حسنی مبارک کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ کیا جاسکا۔ انقلابی گروپوں نے احمد شفیق پر حسنی مبارک کو بچانے کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے حسنی مبارک اور ان کے بیٹوں کو کرپشن کے چند الزامات واپس لینے کے جواب میں کچھ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کی اجازت بھی دی۔
جسٹس احمد صابری نے سال رواں کے اوائل میں احمد شفیق کو کرپشن کے تمام الزامات سے بری کردیا تھا جبکہ ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود تھے۔ اسی جج نے اخوان کے چار کارکنان کے خلاف مقدمہ ختم کرنے سے انکار کردیا تھا جبکہ مدعی نے عدالت میں خود کہا تھا کہ جنہیں ملزم قرار دیا جارہا ہے انہوں نے تو اس کی مدد کی تھی اور یہ کہ اس پر تشدد پولیس نے کیا تھا۔ اس نے عدالت میں یہ بھی بتایا کہ اس پر پولیس افسران نے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اخوان کے ان چار ارکان کے خلاف تشدد کے الزامات عائد کرے۔
فوجی بغاوت کی ڈوریں ہلانے والوں کو یقین تھا کہ وہ محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر اب بازی پلٹ چکی ہے۔ محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کے بجائے مقدمہ ان کے خلاف جارہا ہے جو فوجی حکومت کی باگیں تھامے ہوئے ہیں۔ عدالتی کارروائی کو ٹی وی پر دکھانے کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔ فوجی بغاوت کے سرخیلوں کو ڈر تھا کہ کہیں محمد مرسی کمرۂ عدالت میں سچ بول کر انہیں بے نقاب نہ کردیں۔ بہر حال، ٹی وی اسکرین پر لوگوں نے اپنے پراعتماد اور مستقل مزاج قائد کی جھلک ضرور دیکھی جو خاصی دقتوں سے حاصل شدہ آزادی کے تحفظ کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار نظر آتا ہے۔ محمد مرسی کے اعتماد نے ان لاکھوں مصریوں کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے جو کسی بھی طور فوجی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہر حال میں جمہوریت کی بحالی چاہتے ہیں۔ یہ سب لوگ احتجاج کی راہ پر گامزن رہ کر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ محمد مرسی اب فوجی حکومت کے خاتمے، جمہوریت کی بحالی، عوامی امنگوں کی بارآوری اور آزادی کے تحفظ کے حوالے سے امتیازی نشان کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
(“Putting Egypt’s Coup on Trial”… “Counter Punch”. Nov. 8-10, 2013)
Leave a Reply