
اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کے سابق سربراہان سے انٹرویو کیے گئے،جس میں ایران کے بارے میں ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی گئی۔۶ حیات سربراہان میں سے ۳ انٹرویو دینے پر راضی ہوئے۔یہ سب ایران کے بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔کچھ اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور کسی نے امریکا کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
Efraim Halevy
۱۹۹۸ء تا۲۰۰۲ء
سوال:ایران کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
ایران ایک کثیر جہتی اور پیچیدہ ملک ہے،اس لیے یہ باقاعدہ مقالے یا کتاب کا ایک مضمون ہے۔میرے خیال میں ایران ایک قدیم روایات اور کلچر کا حامل ملک ہے اور یہ ایک بڑا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً دس کروڑ ہے اور خطے میں آبادی کے لحاظ سے ترکی اور مصر کی ٹکر کا ملک ہے۔یہ ملک جو کچھ بھی کرتا ہے یا جس رخ پر بھی چلتا ہے اس کے نہ صرف خطے پر اثرات پڑتے ہیں بلکہ عالمی حالات پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔
سوال:آپ کے خیال میں ایران سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
جواب: عالمی برادری کو ایران کے حوالے سے پیش آنے والے چیلنجوں کو ہلکا نہیں لینا چاہیے، خالی دھمکی آمیز بیانات دے کر آپ ان چیلنجوں سے نہیں نمٹ سکتے۔ایران کی طرف سے تبدیل ہوتی ہوئی حکمت عملی کے جواب میں دھمکی آمیز یا دوستانہ بیانات کے بارے میں لکھ دینا بہت آسان ہے، جب کہ ان سے حقیقی طور پر نمٹنا ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے۔ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے نہ صرف تدبر کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ان معاملات کی تفصیلی معلومات، کیوں کہ شیطانی منصوبے ان معلومات میں چھپے ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو ایران سے جو خطرات لاحق ہیں ان سے نمٹنے کے لیے مذاکرات کرنے کی اہلیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔
گزشتہ پچیس برسوں سے ان معاملات کو نظرا نداز کرنے کے بعد اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ باراک اوباما کا یہ فیصلہ ٹھیک تھا کہ ایٹمی پروگرام پر ایران سے مذاکرات کیے جائیں اور اس کے علاوہ پانچ بڑی طاقتوں کا ایک اتحاد تشکیل دیا جائے،جو کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ممالک پر مشتمل ہو اور ان سے ایران کی طرف سے دنیا کو لاحق ایٹمی خطرات پر بات چیت کی جائے۔میرے خیال میں جو ممالک مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے وہ ٹھیک تھے۔اگرچہ میں اس معاہدے کو مکمل طور ٹھیک نہیں سمجھتا،لیکن کسی معاہدے کی عدم موجودگی سے بہتر کسی لنگڑے لولے معاہدے کاموجود ہونا ہے۔اور یہ صحیح سمت میں اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔اگرچہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں ایران پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے ملک میں ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں درست معلومات دیتا ہو گا، لیکن پھر بھی کسی نہ کسی سمجھوتے کا ہونا ضروری تھا۔اب اگلے دس برسوں میں ایران کے ساتھ مختلف معاہدے اور سمجھوتے مزید ہونا چاہیے، اس امید کے ساتھ کہ دس برسوں بعد ایران ایک بہتر پوزیشن پر ہوگا۔
سوال:آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکا ایران کے ساتھ صحیح طریقے سے نمٹ رہے ہیں؟
جواب:صدر ٹرمپ کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی منسوخی کے فیصلے نے امریکا کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں اب ان دونوں کے درمیان نہ ہی کوئی بات چیت کا عمل جاری رہا اور نہ ہی کوئی معاہدہ باقی رہا۔اس وقت جو اتحاد بنا تھا وہ اب ٹوٹ چکا ہے،امریکا ایک طرف ہے اور بقیہ ممالک دوسری طرف۔اور ایران ایک ایسی صورتحال سے گزر رہا ہے، جہاں اس سے مذاکرات کرنے والے ممالک پر وہ اعتماد قائم نہیں رکھ سکتا ہے کیوں کہ اس سے مذاکرات کرنے والے ممالک کسی بھی وقت اپنی بات سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، یا دوسری صورت میں ان کے کیے گئے معاہدے حکومتوں اور شخصیات کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں۔اور یہ ہر نقطہ نظر سے غیر یقینی کی صورت حال ہے۔
میرا خیال ہے کہ ایران خطے میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کر رہا ہے۔شام کی زمین پر اب اس کی موجودگی ایک حقیقت ہے، شام کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہیں، جس کی وجہ سے شام ایران کا پرانا ہدف رہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ امریکا ایران کو شام سے نکالنے میں کامیاب ہوگا، اور نہ ہی روس یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ ایران کو شام سے نکلنے کا حکم دے۔ مجھے لگتا ہے کہ جن لوگوں نے ایران سے فوجی طریقے سے نمٹنے کی تجویز دی وہ اب نمایاں ہوتے جارہے ہیں، اسی لیے اب جنگ کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن ایسی کسی بھی جنگ کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔آپ جنگ شروع کرنے کا طریقہ تو جانتے ہیں،لیکن اس کو روکا کیسے جائے یہ نہیں جانتے۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ایران ایک بڑا ملک ہے،ایران پر بمباری کرنے کے بیانات دینا تو آسان ہے لیکن اس ہدف کو حاصل کرنا نا ممکن۔اس کام کے لیے امریکا کو بہت سے فوجی وسائل بروئے کار لانا ہوں گے۔ فوری طور پر تو امریکا ایسے کسی بھی حملے کی نہ ہی اہلیت رکھتا ہے اور نہ ہی صدر ٹرمپ کے ووٹر ان کی حمایت کریں گے، اور نہ ہی ان کے مخالفین ایسے کسی اقدام کو برداشت کریں گے۔
Danny Yatom
۱۹۹۶ء تا ۱۹۹۸ء
سوال:آپ ایران کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب:ایران ایک بدمعاش ملک ہے۔یہ صرف مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لیے خطرہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرے کی علامت ہے۔میں آپ کو مثال دے سکتا ہوں۔سب سے پہلا خطرہ ایران کی طرف سے یہ ہے کہ خدا نخواستہ اگر ایران ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر لیتا ہے تو مشرق وسطیٰ میں کسی بھی قسم کی مداخلت تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔ دوسرا خطرہ یہ ہے کہ ایران اس وقت شام، لبنان، عراق، یمن اور افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے، نہ صرف یہ بلکہ اکثرو بیشتر اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے جنوبی امریکا اور یورپ میں قاتلوں کی ٹیمیں بھیجتا رہتا ہے۔تیسرا یہ کہ ایران مختلف دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرتا ہے اور ’’پراکسی‘‘ جنگوں میں بھی ملوث ہے۔ایران لبنانی تنظیم ’’حزب اللہ‘‘کو سالانہ ستر کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک امداد کرتا ہے،جس میں اسلحہ کی فراہمی، تربیت کی فراہمی اور ماہرین کی ٹیمیں بھیجنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح کی مدد وہ غزہ میں موجود ’’حماس‘‘ اور ’’اسلامک جہاد‘‘ نامی تنظیموں کی بھی کرتا ہے۔اس کے علاوہ دیگر بہت سی دہشت گرد تنظیمیں ہیں جن کو ایرانی سرپرستی حاصل ہے،جیسا کہ یمن میں ’’حوثی باغی‘‘اور افریقا کی مختلف عسکری تنظیمیں۔یہ ہے ایران کا اصل چہرہ۔
سوال:ایران کے ساتھ نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
جواب:میں امریکا کے اس معاہدے سے نکلنے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتا،کیوں کہ آپ معاہدے میں رہتے ہوئے ایران پر نسبتاً زیادہ دباؤ ڈال سکتے تھے۔
میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس معاہدے میں بہت سی خرابیاں ہیں، مثلاً اس معاہدے میں بیلسٹک میزائل سسٹم پر کوئی بات نہیں کی گئی۔یہ معاہدہ ایرانیوں کو یورینیم کی افزودگی کی اجازت دیتا ہے۔سینٹری فیوجز کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ صرف اسے الگ کردیا گیا۔تو یہ کسی بھی وقت دوبارہ جوڑکر پیداوار شروع کی جاسکتی ہے۔اس معاہدے سے نکلنے کے بعد اب میرا خیال ہے کہ امریکا کو ایران پر مزید سخت پابندیاں لگانی چاہییں تاکہ ایران دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئے اور مزید معاملات پر بات چیت کرنے پر رضامند ہو۔
سوال: آپ کے خیال میں امریکا اور اسرائیل، ایران سے صحیح طریقے سے نمٹ رہے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں فی الوقت تو دونوں ممالک ایران کے ساتھ صحیح طریقے سے معاملات کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی توجہ اس نکتے پر مرکوز ہے کہ ایرانی فوج اور اس سے متصل جتنی بھی طاقتیں ہیں ان کو شام سے نکلنے پر مجبور کیا جائے۔اسرائیل کو جب پتہ چلتا ہے کہ ایرانی اس کی سرحد کے قریب آتے جا رہے ہیں، یہ سرحد کے نزدیک اسلحہ پہنچا رہے ہیں،جن سے ہمارے طیاروں اور تنصیبات کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے،جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے،تو اسرائیل ان تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے،چاہے وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے،لیکن میری اطلاع کے مطابق ان حملوں کے پیچھے اسرائیل کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔اور یہ حکمت عملی بالکل درست ہے۔میرے خیال میں امریکا کا شام اور مشرق وسطیٰ سے نکلنا ایک غلطی ہو گی،اگرچہ صدر ٹرمپ یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔اگر امریکا اس خطے سے نکل جاتا ہے تو’’ کردوں‘‘ کی بنی ہوئی راہدار ی کا خاتمہ ہو جائے گا،جو کہ بشار الاسد اور ایران کے لیے ایک اور فتح کی علامت ہو گی۔اور عالمی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی امریکا کو مشرق وسطیٰ میں ایسا خلا نہیں چھورنا چاہیے، جس کو پر کرنے کا موقع روس کو ملے جیسا کہ وہ آج کل کر رہا ہے۔دس سال پہلے کے مقابلے میں خطے کی بڑی قوت روس ہے نہ کہ امریکا، جو کہ امریکی سلامتی اور مفادات کے خلاف ہے۔
Shabtai Shavit
(۱۹۸۹ء تا۱۹۹۶ء)
سوال:ایران کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:ایران ایک ایساملک ہے جو ۲۰۰۰ سالہ تاریخ رکھتا ہے،اور اس تاریخی حیثیت کے لحاظ سے وہ ایک سلطنت کے طو ر پر قائم رہا ہے۔موجودہ حکومت خطے میں ایران کی پرانی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے کو شاں ہے،یعنی کے خطے کی سب بڑی طاقت بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔جو بھی ایران کے حوالے سے معلومات رکھتا ہے یقینا اس کے علم میں یہ بات ہو گی کہ اگرچہ ایرانی مسلمان ہیں، لیکن وہ عرب نہیں ہیں،جس کی وجہ سے ان کو مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
میرے خیال میں ایران اپنے اثرورسوخ کو پورے خطے میں پھیلانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے۔جیسا کہ شام،یمن اور عراق میں ایران کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے۔اس کے علاوہ ایسے وقت میں جب اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، ایران اپنے مالی وسائل کا ایک بڑا حصہ غیر ممالک میں خرچ کرتا ہے۔
آج کل حزب اختلاف کی جانب سے تقریبا روزانہ ہی وہاں مظاہرے کیے جا رہے ہیں،اگرچہ ایسے مظاہرے حکومت کے لیے خطرے کا باعث تو نہیں،لیکن اگر یہ مظاہرے جاری رہتے ہیں تو حزب اختلاف ایسی پوزیشن پر آجائے گی جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی۔ کیونکہ معیشت کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ ایسے وقت میں امریکی پابندیاں ایران کے لیے مشکلات پیدا کریں گی اور اس کی معاشی حالت مزید بگڑ جائے گی۔ میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ ملک کی داخلی صورتحال اور ملک کی معاشرتی اور معاشی صورتحال اگر اسی طرح خراب ہوتی چلی گئی تو اس کے اثرات خارجہ پالیسی پر بھی پڑیں گے۔
سوال:ایران کے ساتھ نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
جواب:کوئی جادوئی طاقت اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ایران پر دوبارہ سے پابندیاں لگا رہا ہو اور ان کے سپریم لیڈر ’’آیت اللہ خامنہ ای‘‘ کو ملاقات کی دعوت دے رہا ہو، جیسا کہ وہ شمالی کوریا کے صدر سے مل چکے ہیں، تاکہ وہ مل کر اس مسئلے کا کوئی بنیادی حل تلاش کرسکیں، باوجود اس کے کہ صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کے مابین ملاقات کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ لیکن یہاں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ ملاقات کس سے کی جائے، سپریم لیڈر سے یا پھر ایرانی صدر سے؟ کیوں کہ اگر ایسی کوئی ملاقات طے ہوتی ہے تو ایران کی نمائندگی ایرانی صدر کریں گے، لیکن پھر بھی فیصلہ سازی کا اختیار سپریم لیڈر کو ہی ہو گا۔
مختصر یہ کہ بات چیت ہر صورت میں جاری رہنی چاہیے، کیوں کہ مذاکرات سے مسئلے کے حل کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور مذاکرات کا نہ ہونا سیاسی مسائل کے حل کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Q&A: Ex-Mossad Chiefs Discuss the Iranian Threat”. (“atlanticcouncil.org”. Nov.1st, 2018)
Leave a Reply