
ملائیشیا کے سابق وزیراعظم اور بزرگ سیاست دان مہاتیر محمد اپنے دورِ اقتدار میں بھی اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ سے متعلق مغربی ملکوں کی پالیسی کے ناقد رہے ہیں اور اب اقتدار سے دستبرداری کے بعد بھی وہ وقتاً فوقتاً خطے کے مسائل اور معاملات پر اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مسلسل ۲۲ برس تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد مہاتیر محمد ۲۰۰۳ء میں اقتدار سے الگ ہوگئے تھے۔ لیکن عملی سیاست سے کنارہ کشی اور نوّے برس کی عمر کے باوجود، انہوں نے اب بھی خود کو خاصا متحرک رکھا ہوا ہے اور مختلف قومی اور بین الاقوامی تقریبات سے خطاب، ان کی معمول کی مصروفیات کا حصہ ہے۔ حال ہی میں مہاتیر محمد نے ملائیشیا کے انتظامی دارالحکومت پتراجایا میں واقع اپنے دفتر میں نشریاتی ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کو ایک انٹرویو دیا ہے، جس میں انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں داعش کی سرگرمیوں اور مغربی ملکوں کی جانب سے اپنائی گئی جوابی حکمتِ عملی پر کھل کر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں داعش کے عروج کے ڈانڈے خطے سے متعلق مغرب کی پالیسی سے ملتے ہیں، جس نے خطے میں کشیدگی اور نفرت کو ہوا دی ہے۔ اس انٹرویو کے اقتباسات ذیل میں پیش ہیں:
سوال:مغربی ممالک نے پیرس حملوں کے بعد شام میں داعش کے خلاف فضائی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ آپ اِس اِقدام کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب: مغربی ممالک کا یہ قدم صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔ فضائی کارروائیوں میں معصوم عرب شہری مارے جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں داعش کے لیے نفرت کے بجائے حمایت بڑھے گی اور داعش مزید مؤثر اور بے رحم ہوگی۔ اس صورتحال میں وہاں دوسرے شدت پسند گروہ بھی جنم لے سکتے ہیں، جو چونکہ خود پر بمباری کرنے والے ’’دشمن‘‘ سے بدلہ لینے کے قابل نہیں ہوں گے، اس لیے ہر وہ قدم اٹھائیں گے جو اُن کے بس میں ہوگا اور یوں دہشت گردی مزید پھیلے گی۔ میری رائے میں فضا سے بم برسانا بھی دہشت گردی ہے۔ فضائی حملوں سے بھی لوگ دہشت زدہ ہوتے ہیں۔
سوال: کیا آپ جنگ وسیع ہونے کے امکان سے پریشان ہیں؟
جواب: یہ جنگ پہلے ہی خاصی پھیل چکی ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ مسئلہ تب کھڑا ہوا، جب فلسطین پر قبضہ کر کے اُسے یہودیوں کے حوالے کردیا گیا تاکہ وہ وہاں اپنی ریاست قائم کرلیں۔ بعد میں یہودیوں نے پورے فلسطین کو مقبوضہ علاقہ بنادیا۔ اپنی بستیاں تعمیر کیں، لوگوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگائیں۔ شروع میں عرب ممالک نے اس قبضے کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہے، کیونکہ یورپ اور امریکا نے اسرائیل کی مدد کی۔ اس کے بعد سے ہی اسرائیل بے دھڑک ہر طرح کے بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کا غیر قانونی محاصرہ کر رکھا ہے۔ وہ سمندر میں کشتیاں تک روک لیتے ہیں اور مغرب ان سب حقائق سے نظریں چراتا ہے۔ مغرب کو کرنا یہ چاہیے تھا کہ وہ غیر جانبدار رہ کر فریقین کی بات سنتا۔ اسرائیل کے پاس اپنے مخالفین کو دبانے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ یہ کہ اگر تم ایک اسرائیلی مارو گے تو ہم تمہارے دس لوگ ماریں گے اور اگر تم دس مارو گے تو ہم تمہارے سو لوگ ماریں گے۔ ہم تمہیں ہر طرح سے سزا دیں گے۔ یہ اسرائیلی فارمولہ ہے، جو دُنیا دیکھ رہی ہے اور برداشت کر رہی ہے۔
سوال: لیکن اسرائیل کے قیام اور اس کی پالیسیوں کے علاوہ بھی داعش کے عروج کی کئی وجوہات ہیں۔
جواب: جی ہاں! اس کی اور کئی وجوہات بھی ہیں جو بتدریج بدتر ہوتی جارہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ گوریلا جنگ روایتی طریقے سے نہیں لڑی جاسکتی، فضا سے نہیں لڑی جاسکتی۔ ملائیشیا میں ہمارا تجربہ ہے کہ جب ہمارے یہاں گوریلا جنگجو سرگرم تھے، ہم نے ان کے مقابلے کے لیے مقامی لوگوں کے دل جیتے تاکہ وہ ان جنگجوئوں کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ اس طرح ہمیں کامیابی ملی۔ لیکن اس وقت داعش کے مقابلے پر جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے، اس کے ذریعے ہم عربوں کی مشکلات کم نہیں کر رہے۔ اس وقت عربوں میں غم و غصہ ہے اور بے بسی کا ایک احساس ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: تو کیا مغرب کے سیاست دان ماضی کی غلطیاں دُہرا رہے ہیں؟
جواب: جی ہاں! اگر آپ یہاں داعش کو ماریں گے تو کل کلاں کو کہیں اور دوسری داعش پیدا ہوجائے گی۔ مغرب جنگ کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ ملائیشیا تک میں داعش کے حمایتی ہیں۔ لوگ غصے میں آکر انتہا پسندی کی طرف راغب ہورہے ہیں، جو ہماری ثقافت کے لیے ایک اجنبی رویہ ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں، جب سنتا ہوں کہ ملائیشیا کے شہری اپنے بال بچوں سمیت مشرقِ وسطیٰ جاکر ان سرگرمیوں کا حصہ بن رہے ہیں، جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں۔
سوال: ان سب حالات میں بہتر حکمتِ عملی کیا ہو سکتی ہے؟
جواب: انتقامی! یعنی ’’تم ہمارے لوگ مار رہے ہو، تو ہم تمہارے ماریں گے‘‘ والی پالیسی اب نہیں چلے گی۔ ہمیں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ یہ لوگ اتنے بھیانک کام کیوں کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں۔ اب وہ لوگ ٹی وی کیمروں کے سامنے دہشت گردی کرتے ہیں۔ یہ اُن کے نئے ہتھیار ہیں۔ مسلم ممالک سمیت پوری دُنیا ان کارروائیوں سے دہشت زدہ ہے۔ یہ لوگ صرف فوجیوں کو نہیں مار رہے بلکہ جس پر بس چلتا ہے، اُسے قتل کر رہے ہیں۔ پوری دُنیا کے سامنے معصوم لوگوں کو ذبح کردیتے ہیں۔
سوال: اس تنازع کا حل کیسے ممکن ہے؟
جواب: میرے خیال میں یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم مہاجرین کی مدد کریں۔ اگر ہم ان مہاجرین کو مختلف ممالک میں بانٹ لیں تو یہ کسی کے لیے بھی بڑا بوجھ نہیں بنیں گے۔ چالیس لاکھ سے زائد لوگ، یعنی شام کی تقریباً آدھی آبادی اس وقت بے گھر ہے۔ ہر ملک کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے ان ممالک میں نہیں رہیں گے، جو انہیں پناہ فراہم کر رہے ہیں۔ یہ بے گھر لوگ خود بھی اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ اس وقت سب سے اہم بات شام کی خانہ جنگی کا حل نکالنا ہے۔ فضا سے بمباری کردینا کوئی حل نہیں۔ مسئلہ زمین پر ہے، فضا میں نہیں۔ اس فضائی بمباری کا نشانہ صرف داعش نہیں بن رہی بلکہ اس میں معصوم لوگ بھی مارے جارہے ہیں اور پورا ملک تباہ ہورہا ہے۔
(مترجم: علی حارث)
“Q&A: Malaysia’s Mahathir Mohamad on West vs ISIL”. (“aljazeera.com”. Dec. 4, 2015)
Leave a Reply