
ممتاز قادری اللہ کے حضور پہنچ گیا۔ سلمان تاثیر بھی وہیں ہے۔ جو جس قابل ہوا، وہ اللہ سے پا لے گا۔ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو گستاخ سمجھ کے مار ڈالا تھا۔ وہ پنجاب پولیس ایلیٹ فورس کا جوان تھا اور اس دن سلمان تاثیر کا محافظ۔ تحفظ کے بجائے اس نے سلمان تاثیر کو سرکاری گن سے قتل کر ڈالا تھا، جس دن یہ واقعہ ہوا، اُس دن ممتاز قادری کی ڈیوٹی نہیں تھی، اس نے خود ڈیوٹی لگوائی اور پھر ایسی ڈیوٹی اد اکی کہ بعد میں اس ڈیوٹی کی نہ سلمان تاثیر کو ضرورت رہی نہ ممتاز قادری کو۔ سلمان تاثیر سے گستاخی ہوئی تھی یا نہیں؟ یہ بات زیادہ واضح نہیں ہو سکی تھی۔ ابھی تک بھی نہیں ہو سکی ہے۔ بہرحال ممتاز نے ایسا ہی سمجھا تھا اور پھر اس پر جو مناسب سمجھا کر ڈالا۔ گستاخی ہوئی تھی یا نہیں؟ سلمان تاثیر سے بے احتیاطی ضرور ہوگئی تھی۔ وہ بڑے خاص طرح کے حالات تھے۔ رحمۃ للعالمین کے خاکے بنانے کے عالمی مقابلے کروائے جا رہے تھے۔ مسلمان شدید اذیت میں تھے۔ دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے۔ افغانستان میں کئی مظاہرین جانیں وار گئے تھے۔ پاکستان میں حرمتِ رسولؐ کے نام سے تحریکیں چل رہی تھیں۔ آئے روز تقاریر ہو رہی تھیں۔ خون اور ایمان گرمائے جا رہے تھے۔ ایسے میں آسیہ کا واقعہ پیش آگیا۔
آسیہ عیسائی تھی۔ ننکانہ کے نواح میں واقع اٹاں والی گاؤں کی رہنے والی تھی۔ بے حد غریب تھی۔ گاؤں میں مزدوری کرتی تھی۔ اس دن گاؤں کے کھیتوں میں مرچوں کی چنائی ہو رہی تھی۔ مسلمان خواتین نے کھانے کے وقفے میں شاید اسے اپنے برتن میں پانی نہیں پینے دیا تھا۔ اس پر جیسا کہ کہا گیا آسیہ نے شانِ رسالت میں کوئی ناموزوں کلمات کہہ دیے۔ بات بڑھ گئی مگر گاؤں والوں نے قانون سے تجاوز نہیں ہونے دیا۔ آسیہ پولیس کے حوالے کر دی گئی۔ عالمی اور ملکی گرم حالات کے تناظر میں یہ واقعہ نمایاں شہرت حاصل کر گیا۔ اپنے اخبار کے سلسلے میں مَیں بھی اٹاں والی میں تحصیلِ احوال کے لیے پہنچا۔ بعد ازاں مختلف مسالک کے علماء کو لاہور کے ایک ہوٹل میں بریفنگ بھی دی۔ سلمان تاثیر اس وقت زرداری حکومت کی جانب سے پنجاب کے گورنر تھے۔ انہوں نے ایک تو اس قانون کو کالا قانون کہہ دیا اور پھر جیل جا کر آسیہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی تھی۔ وہ کہتے تھے آسیہ کو بچایا جائے گا۔ لوگ چونک اٹھے۔ انگلیاں اٹھنے لگیں کہ گورنر کی طرف سے یہ ریاستی طاقت کا ناجائز استعمال ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور مذہبی جلسوں میں گفتگو جاری تھی کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں عین ڈیوٹی کے دوران ۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو قتل کر دیا۔ یہ اس معاملے کا چونکا دینے والا پہلو تھا۔ اس واقعہ نے کئی قسم کے تحفظات اور امکانات کو سامنے لا کھڑا کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے مذہبی عدم برداشت کی ایک ہولناک مثال قرار دیا تو دوسری طرف یہ پہلو بھی سب کے سامنے آگیا کہ عشقِ رسولؐ بہرحال ایک بے پناہ اور کہیں نہ روکا جا سکنے والا لازوال جذبہ ہے۔ یہ کہیں سے اور کسی بھی وقت اٹھ کر حالات کا دھارا بدل سکتا ہے۔
ممتاز قادری نے یہ اقدام کرنے کا سوچتے ہی جان داؤ پر لگا دی تھی۔ اس نے جو پسند کیا، وہ پا لیا، اس پر زیادہ بحث کی گنجائش نہیں۔ قادری نے جو کیا، وہ اپنے عشق کے تحت کیا اور حکومت نے جو کیا، وہ اپنے قانون کے تحت کیا۔ اب علماء اس پر فقہی بحثیں کریں گے اور حکومت میڈیا کنٹرول کرے گی مگر ایک بات طے ہے کہ دنیا میں اب ممتاز قادری کو شہید کے درجے سے کوئی نہیں گرا سکتا۔ نہ کوئی حکومتی طاقت، نہ کوئی گروہی عداوت اور نہ کوئی فقہی بحث۔ ہاں، آخرت کے معاملے اللہ کے سپرد ہیں۔ یہاں سوال مگر کچھ اور ہیں، مثلاً غور کیجیے، مقتول سلمان تاثیر زرداری حکومت کا گورنر تھا۔ واقعہ بہت شدید تھا۔ معاملہ گورنر کے قتل کا تھا۔ قتل سرکاری محافظ کے ہاتھوں سرکاری گن سے ہوا تھا۔ حکومت اپنی تھی۔ مذہبی طبقہ بھی کچھ نہ کچھ بیک فٹ پر جاچکا تھا۔ پھانسی کا کام تب بھی ہو سکتا تھا، مگر معاملے کی مذہبی حساسیت کے پیشِ نظر حیرت انگیز طور پر پی پی پی نے سلمان تاثیر سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ میڈیا اور عدالت، دونوں جگہ سلمان تاثیر لاوارث نظر آتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ ان سب مواقع کے باوجود زرداری نے جس بل میں ہاتھ نہیں گھسائے، میاں صاحب نے وہاں بازو کیوں گھسیڑ دیے؟ جب کہ شدید نوعیت کے مذہبی عناصر سے ملک پہلے ہی بر سرِپیکار تھا۔ جہاں ریمنڈ ڈیوس چھوڑا جا سکتا ہے، کیا وہاں ممتاز قادری کو عمر قید کے سیل میں چھوڑا نہ جا سکتا تھا؟ اشتعال کے قتل میں جو لچک قانون دیتا ہے، اس سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکتا تھا؟ آخر پورے ملک کے مجرم مشرف پہ دانت کچکچا کے بھی تو شریف برادران پیچھے ہٹ گئے تھے۔ یہاں بھی یہ ہو سکتا تھا یقینا! مگر یوں نہ ہوا۔ تو ظاہر ہوا، معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ حکومت نے بہت سوچ سمجھ کے بعض مقاصد کے تحت یہ اقدام کیا ہے۔ اصل یہ اقدام نہیں، اصل وہ اِقدامات ہیں جو اس مرحلے کے ٹیسٹ کے بعد کیے جائیں گے۔ اب اس بات پر بھی غور کیجیے کہ پنجاب میں خواتین بل کے تحت میاں صاحبان پہلے ہی علماء کرام اور بعض اپنے ہی پارٹی قائدین بلکہ ایک طرح سے مشرقی تہذیب کے بھی مقابل ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب آپ وزیرِاعظم کا وہ بیان یاد کیجیے کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ اب پاکستان کا مستقبل لبرل پاکستان ہے۔ چنانچہ آپ یہ دیکھیے کہ وزیراعظم شرمین عبید چنائے کو ایوانِ وزیراعظم میں بلا کر پذیرائی بخشتے ہیں۔ پھر یہ دیکھیے کہ پھانسی کے لیے عین اس دن کا انتخاب کیا جاتا ہے، جب عبید اپنا آسکر جیتتی ہے اور یوں میڈیا ایک علامت کے اختتام اور دوسری کے آغاز کا منظر دکھانے لگتا ہے۔ یوں ہمیں یہ علامتوں کا کھیل بھی لگنے لگتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ووٹر کو متاثر کرنے والے کاموں کے علاوہ حکومت اگر کسی معاملے میں سنجیدگی دکھائے تو ضرور ان کو کہیں اور سے اس سنجیدگی دکھانے کے لیے مجبور کیا جارہا ہوتا ہے۔ اس پر آپ خود غور کر لیجیے کہ اسلامی ملک اور مشرقی معاشرے میں لبرل ازم، تحفظِ عورت کے نام پر غیر منطقی بل اور ایک خوابیدہ پھانسی سے پاکستان میں کسی حکومت کے ووٹ بڑھ سکتے ہیں یا گھٹ سکتے ہیں۔ پوری بات سمجھ میں آجائے گی۔ واضح رہے کہ توہینِ رسالت کی شِق ۲۹۵۔سی کے سلسلے میں پہلے ہی مغربی دنیا اور یورپی یونین پاکستان کے در پے ہے۔ یہ ہیں وہ معروضی حالات جن کا اشارہ ہے کہ بات نہ قانون کی بالادستی کی طرف بڑھ رہی ہے اور نہ عورتوں کے تحفظ کی طرف، بلکہ بات صرف نواز شریف کے وژن لبرل پاکستان کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ایسا اس لیے بھی لگتاہے کہ حکومت جن معاملات میں علماء کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے، نظریاتی کونسل سے مشاورت کر سکتی ہے، وہ ان معاملات میں بھی انہیں للکار کر چل رہی ہے۔ شاید اس لیے کہ آہستہ آہستہ علماء کو آئندہ کے لیے ان چیزوں کا عادی بنایا جاسکے اور ان کی مزاحمت کی حدیں بھی چیک کر لی جائیں۔ اگر ایسا ہے تو اسلام پسندوں کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اب یہ خالی خولی حکومتی دعوے یا خواہشات نہیں رہیں گی، بلکہ حکومت اس سلسلے میں بے حد سنجیدہ نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے جو کام ووٹ کی قیمت پر بھی انتہائی سنجیدگی سے کیا جا رہا ہو، اس کی شدت یا اس کے پسِ پشت طاقت کی شدت کا اندازہ کرنا آپ کے لیے کچھ زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ یقیناً حکومت ہر حد تک جانے کے لیے خود کو تیار کر چکی ہے۔
چنانچہ اب یہ مذہبی طبقے کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح سے ان حالات سے سیکھتا ہے اور کس طرح سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آج مذہبی طبقے اپنے گروہی نظریات سے اٹھ کر بظاہر نظر آتے مستقبل کو نہیں دیکھتے، اکٹھے ہو کر موزوں ترین لائحۂ عمل تیار نہیں کرتے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حالات محض اتفاقات کا نتیجہ ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علماء کو کل یہاں تاجکستان کے ڈاڑھیاں نوچنے اور پردے کھینچنے کے مناظر بھی دیکھنے پڑیں۔ ضرورت ممتاز قادری کی پھانسی میں الجھ جانے کی نہیں۔ ضرورت پوری تصویر کو سمجھنے کی ہے۔ یاد رہے کہ ان پھانسیوں پر اور اقدار کی پامالی پر میڈیا آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔ آپ کو اپنی یہ لڑائی خود ہی لڑنی ہوگی، بلکہ ہو سکتاہے کل آپ سے سوشل میڈیا بھی چھن جائے۔ بہرحال سرِدست لبرلز کامیاب ہیں، حکومت بڑی تیاری اور مستعدی سے اپنے پتّے پھینک رہی ہے اور مذہی طبقہ بساط پر سوائے پِٹنے کے کچھ اور کرتا نظر نہیں آتا۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’دنیا پاکستان‘‘ لاہور۔ یکم مارچ ۲۰۱۶ء)
ایک اچھا اور متوازن تجزیہ
ACCORDING TO TRADITIONS OF PROPHET P.B.U.H. ACTION OF MUMTAZ QAADRI SHEHEED IS CORRECT.