
یکم اور دو مئی کو قطر میں ہونے والے افغان مذاکرات کے بارے میں بعض ذمہ دار افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ایک کانفرنس تھی جو ترکی کے شہر انقرہ میں ’’پگواش‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونا تھی۔ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ کانفرنس آخری لمحات میں قطر میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں افغان حکومت، طالبان، حزب اسلامی اور دیگر گروپوں کے تیس افراد کو دعوت دی گئی تھی۔
طالبان کی جانب سے آٹھ افراد: مولوی شاہ محمد عباس ستانکزی، قاری دین محمد حنیف، شہاب الدین دلاور، مولوی عبدالسلام حنیفی، محمد سہیل شاہین، مولوی جان محمد حنیفی، مولوی عبدالرحمن اور مولوی محمد رسول حلیم شریک ہوئے۔
کابل حکومت کی جانب سے بیس افراد نے شرکت کی، جن کے نام یہ ہیں۔ صدر اشرف غنی کے بھائی کوچی غنی احمد زی، مولوی شہزادہ شاہد، مولوی عطاء اللہ لودین، قطب الدین ہلال، قاضی امین وقاد، معصوم ستانکزی، خلیلی، محقق وغیرہ شامل ہوئے۔
حزب اسلامی کی طرف سے ڈاکٹر غیرت بہیر اور قریب الرحمن سعید شریک ہوئے۔ جب کہ امریکی نمائندوں کے علاوہ پاکستانی، ایرانی، برطانوی، فرانسیسی اور دیگر ممالک کے نمائندے بھی شریک تھے۔
طالبان کی طرف سے تین اہم مطالبات پیش کیے گئے۔
الف۔ تمام بیرونی قوتیں بشمول امریکا فوری طور پر افغانستان سے نکل جائیں۔
ب۔ افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کی جائے۔
ج۔ قطر میں امارات اسلامی افغانستان کے دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے اور تحریک کے ذمہ دار افراد پر سفری پابندیاں ختم کی جائیں تاکہ وہ آزادی سے نقل و حرکت کرسکیں۔ واضح رہے کہ طالبان کے نمائندوں نے اس سے پہلے جاپان اور فرانس میں بھی اس طرح کی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔
حزب اسلامی کی جانب سے دو نکات پر زیادہ زور دیا گیا:
الف۔ افغانستان سے امریکا سمیت تمام بیرونی قوتیں نکل جائیں۔
ب۔ افغان قوم کی مرضی سے ایک خودمختار اور اسلامی حکومت قائم کی جائے۔
Leave a Reply