قطر خطے میں سب سے بڑی مالیاتی حقیقت اور اصلاحات کا علمبردار بن کر ابھرا ہے مگر قطریوں کو اُس وقت خفت کا سامنا ہوسکتا ہے، جب کوئی پوچھے کہ تمہارے اپنے ملک میں جمہوریت کیوں نہیں ہے؟ جبکہ تمہارے قائدین دیگر ممالک میں سیاسی اصلاحات اور بالخصوص جمہوریت پر زور دیتے رہتے ہیں۔ قطر میں صرف سیاسی جماعتوں ہی پر نہیں بلکہ مظاہروں، مزدور انجمنوں اور عوامی امور کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں پر بھی پابندی عائد ہے۔ مجلس شوریٰ نے اعلان کیا تھا کہ انتخابات ۲۰۰۴ء میں ہوں گے۔ پھر یہ ہوا کہ معاملات ٹلتے رہے۔ شاید قطر میں کوئی ایک بھی نہیں جو یہ مشورہ دے کہ مجلسِ شوریٰ کے پاس قانون سازی کا اختیار بھی ہونا چاہیے۔ قطر سے شائع ہونے والے ٹی وی چینل الجزیرہ پر لوگ بے باکی سے عرب دنیا میں جمہوریت متعارف کرانے کی باتیں کرتے رہتے ہیں مگر خود قطر کے بارے میں ایسی کوئی بات مشکل سے ہو پاتی ہے، وہ بھی سرگوشیوں کی شکل میں۔
دو برس سے زائد مدت کے دوران قطر نے عرب دنیا میں عوامی بیداری کے حوالے سے جو کردار ادا کیا ہے، اس پر عرب دنیا کے چند ایک باشندوں کو فخر ہے مگر قطر کے حالات کے بارے میں تشویش میں مبتلا افراد کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ قطری حکام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے امیر حماد بن خلیفہ الثانی کے بعد ملک کا کیا ہوگا۔ قطر کی حکومت نے شام میں باغیوں کا ساتھ دیا مگر اس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ چالیس لاکھ شامی باشندے بے گھر ہیں۔ بہت سے قطری حکام یہ بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کٹّر وہابی ہیں تو پھر اخوان المسلمون کی حمایت کیوں کر رہے ہیں۔
قطر میں بڑے ترقیاتی منصوبوں یا بیرون ملک سرمایہ کاری سے متعلق وینچرز کے بارے میں شک کی فضا بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ ۲۰۲۲ء کا فٹبال ورلڈ کپ قطر میں ہوگا۔ اس حوالے سے ریل نیٹ ورک بر وقت مکمل کرنے کے لیے حکومت نے ۴۰؍ ارب ڈالر مختص کیے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی تو یہ منصوبہ ۲۰؍ ارب ڈالر میں بھی مکمل کیا جاسکتا تھا۔ قطر تیل کی دولت سے مالا مال ہے مگر حکمراں خاندان کی جانب سے اس دولت کے بارے میں کوئی مشاورتی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ سب کچھ اس خاندان کی ملکیت گردانا جاتا ہے۔ بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے باضابطہ ادارے نہ ہونے کے باعث اجلاس شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں میں ہی ہوتے ہیں۔ قطری نوجوان اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔
قطر کی خام قومی پیداوار ۱۸۳؍ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی ایک لاکھ ڈالر تک ہے۔ قطر میں ۱۹؍ لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان میں صرف بارہ فیصد قطر کے شہری ہیں۔ باقی سب مختلف ممالک اور خطوں سے آئے ہوئے ہیں۔ قطری باشندوں کو وسائل سے ملنے والا حصہ غیر معمولی ہے۔ قطری باشندوں کو تاحیات ملازمت ملتی ہے، کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا اور کسی بھی بیرونی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم مفت پانے کے حق دار ہیں۔ تنخواہوں میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
معیشت پر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی کا کنٹرول غیر معمولی ہے۔ دبئی میں نجی شعبے کو بھی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا ہے مگر قطر میں اس کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ قطر کے امیر کی طرف سے قریبی حلقے کے لوگوں کو زمین کے بڑے قطعات، الاٹ کیے جاتے ہیں۔ وہ بلند و بالا عمارتیں تیار کراتے ہیں جن میں دفاتر کا بڑا حصہ شیخ کرائے پر اٹھا دیتا ہے اور کرایہ سرکاری خزانے کے بجائے ان کی جیب میں جاتا ہے۔
عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایسے میں خطے کی دیگر بادشاہتوں کی طرح قطر بھی پریشان ہے، بالخصوص انٹرنیٹ بلاگرز اور سوشل میڈیا سائٹس سے۔ الخلیفہ الکواری کی لکھی ہوئی کتاب ’’قطر میں بھی لوگ اصلاحات چاہتے ہیں‘‘ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ الخلیفہ الکواری نے ایسے ماہانہ جلسوں کی حمایت کی تھی، جن میں شریک ہوکر لوگ اپنے سیاسی نظریات کے حوالے سے کھل کر بات کرسکیں۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں ایک مشہور شاعر محمد العجمی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جو بعد میں شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے پندرہ سال قید میں تبدیل کردی۔ جن غیر ملکی جامعات اور تھنک ٹینکس نے قطر میں شاخیں کھول رکھی ہیں، ان میں پڑھانے اور پڑھنے والے حکومت کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
قطر میں یہ بات اب کھل کر کہی جارہی ہے کہ شیخ حماد بن خلیفہ الثانی، جنہوں نے اٹھارہ سال قبل اپنے والد کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا، اب اپنے ۳۳ سالہ بیٹے ولی عہد تمیم کو سونپنا چاہتے ہیں۔ تمیم کو ۲۴ بھائی بہنوں میں نمایاں مقام حاصل ہے کیونکہ وہ سرکاری پریس میں وزیراعظم حماد بن جسیم الثانی سے بھی زیادہ جگہ پاتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹا بیٹا وزیراعظم بن سکتا ہے جبکہ بہتوں کی یہ رائے بھی ہے کہ خلیفہ رضاکارانہ طور پر امارت چھوڑ کر ولی عہد کو آئینی طور پر اقتدار سونپ سکتا ہے۔
اب تک کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ تمیم کے آنے سے قطر کے معاملات میں کون سی بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔ حماد بن خلیفہ الثانی نے اب تک اخوان المسلمون کی طرف جھکاؤ ظاہر کیا ہے، جس پر خطے کی دیگر بادشاہتیں خاصی جُزبُز دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ گردانتی آئی ہیں۔ متوقع امیر نے سینڈہرسٹ یونیورسٹی سے تعلیم پائی ہے۔ اب تک انہوں نے سب سے نمایاں کام یہ کیا ہے کہ قطر میں تعلیم کی زبان انگریزی سے عربی کردی ہے۔ وہ لیبیا میں اخوان المسلمون کے حامی بھی رہے ہیں مگر خیر، اُن سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ قطر میں جمہوریت متعارف کرانے میں دلچسپی لیں گے۔
(“Qatar: Democracy? That’s for other Arabs”… “The Economist”. June 8, 2013)
Leave a Reply