
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اچانک قطر کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ دونوں نے قطر پر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور مدد کا الزام عائد کیا ہے۔ قطر کو جھکانے کی سعودی کوشش کامیابی سے ہم کنار ہوگی؟ اس سوال کا جواب فی الحال پورے تیقن کے ساتھ نہیں دیا جاسکتا۔
اس وقت خلیج فارس کا خطہ شدید بحران کی زد میں ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے ہیں۔ مصر، لیبیا، یمن، مالدیپ، بحرین، ماریشس، اردن، جبوتی، ماریطانیہ اور سینیگال نے بھی اس اقدام کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر کی حمایت
آخر کیا سبب ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اچانک قطر سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا؟ قطر نے عرب دنیا میں عوامی سطح پر شعور کی بیداری کی حوالے سے چلائی جانے والی تحریک کی حمایت کی تھی۔ ریاض اور ابوظبی کو یہ پسند نہ آیا۔ دونوں ممالک میں بادشاہت ہے اور وہ کسی بھی حال میں نہیں چاہتے کہ ان کے ہاں جمہوریت پروان چڑھے۔ عرب دنیا میں عوامی سطح پر بیداری کی لہر سے ریاض اور ابوظبی کی قیادت سخت پریشان ہوئی۔ انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں جمہوریت نوازی کی لہر اُن کے اپنے گھر تک نہ آجائے۔
قطر کی حکومت نے اخوان سے تعلقات کسی بھی دور میں کمتر سطح پر نہیں رکھے۔ اس نے جمہوریت کے حوالے سے اخوان کی سوچ کی حمایت کی ہے۔ مصر میں اخوان کے قائدین سے قطر کے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں جب محمد مرسی مصر کے پہلے باضابطہ منتخب صدر بنے تب قطر نے اخوان سے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی۔ اس امر کو ریاض اور ابوظہبی نے اپنے لیے خطرہ گردانا۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں مصر میں فوجی بغاوت برپا ہوئی اور منتخب صدر محمد مرسی کو معزول کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔
خود مختاری کی طلب
قطر کی قیادت چاہتی ہے کہ اپنے بیشتر معاملات میں آزاد اور خود مختار رہے۔ وہ ہر معاملے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طفیلی ریاست کے سے درجے کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتی۔ خلیجی مجلس تعاون میں ایک قطر ہی نہیں، کویت اور عمان (اومان) بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں سعودی عرب کی مرضی کو اولیت دینے کو تیار نہیں۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ خطے میں اُسے قائد کا کردار حاصل رہے۔ مگر معاملات خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شاہ سلمان نے قدرے جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے مگر پھر بھی وہ معاملات کو اپنے حق میں کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہے اور اب قدرے محتاط ہوکر چل رہے ہیں۔
قطر نے ایران سے مراسم بڑھاکر سعودی عرب کو واضح اشارا دے دیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں ریاض کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرسکتا۔ سعودی قیادت کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ قطر کا ایران کی طرف جھکاؤ اس کی علاقائی قائد کی حیثیت کے لیے خطرہ ہے۔ ایسے میں خلیجی مجلس تعاون میں سعودی حکمراں خاندان اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔
بحران کے ممکنہ اثرات
سعودی عرب اور امارات کی طرف سے قطر سے تعلقات کا توڑ لیا جانا قطری قیادت کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔ ایسے میں اس پر خلیجی مجلس تعاون سے نکل جانے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ صورت حال خطے کے واحد فعال اتحاد کے لیے شدید بحران پیدا کر رہی ہے۔ ریاض اور ابوظبی خطے کے رہے سہے اتحاد کو بھی داؤ پر لگارہے ہیں۔ کویت اور عمان بھی جی سی سی سے نکلنے اور نیا اتحاد تشکیل دینے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں عرب دنیا کا انتشار بڑھے گا۔
عرب دنیا میں مزید انتشار کا فائدہ اگر کسی کو پہنچ سکتا ہے تو وہ ایران ہے۔ چند برسوں کے دوران ایران نے اپنے آپ کو خاصا مضبوط بنایا ہے۔ سعودی عرب نے قطر کو سزا دینے کا جو طریقہ اپنایا ہے وہ خاصا بچگانہ، غیر سنجیدہ اور نان پروفیشنل ہے۔ ایسا تو ایک دوسرے کی کٹّر مخالف ریاستوں کے درمیان بھی نہیں ہوتا۔ پروازوں پر پابندی لگادی گئی ہے، فضائی حدود کا استعمال بھی ممنوع ہے اور شہریوں کو بھی نکالا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی اس روش سے کویت اور عمان مزید بدک جائیں گے۔
قطر کے معاملے میں سعودی عرب نے راتوں رات جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ انتہائی نامناسب ہے اور اس کے نتیجے میں سعودی حکمراں خاندان اور پوری ریاست کا وقار داؤ پر لگ گیا ہے۔ مشرق وسطٰی کے تمام ہی ممالک سعودی عرب کو ایک بڑے بھائی کے روپ میں دیکھتے آئے ہیں۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی مناسبت سے سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہے۔ اسے انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جو کچھ سعودی عرب نے قطر کے معاملے میں کیا ہے اس کے نتیجے میں خطے کے ممالک ایران کی طرف جھکنے پر مجبور ہوں گے۔ ریاض نے ایران کے معاملے میں جو کچھ چاہا ہے اُس کے بالکل برعکس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
سعودی عرب ناکام ہوگا … مگر کیوں؟
قطر کو بین الاقوامی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جو کچھ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے کیا ہے وہ پریشانی کا باعث بن رہا ہے مگر خیر، اس سے خود ریاض اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی تو مشکلات بڑھیں گی۔ سعودی عرب کا ساتھ دینے والوں میں مصر، یمن، لیبیا، مالدیپ اور بحرین نمایاں ہیں۔ ان میں سے دو ایک تو ناکام ریاستیں ہیں۔ مالدیپ میں سعودیوں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے اس لیے وہ تو کسی بھی حال میں سعودی عرب کے خلاف جانے کے متحمل نہیں ہوسکتا۔ ۲۰۱۲ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے بعد سے وہاں شدید سیاسی عدم استحکام ہے۔ اپوزیشن نے حکومت پر ۱۹جزائر سعودی عرب کے ہاتھ فروخت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
بحرین امور داخلہ کے معاملے میں خود مختار سہی، امور خارجہ کے معاملے میں وہ سعودی عرب کی طفیلی ریاست جیسا ہے۔ اس وقت اس کی پوزیشن ایسی نہیں کہ کسی بھی حوالے سے سعودی عرب کے خلاف جائے یا اس کی بات ماننے سے انکار کرے۔
مصر میں غیر معمولی سیاسی و معاشی عدم استحکام ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ مصر سے سعودی عرب کے تعلقات مثالی ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ۲۰۱۶ء میں ایران کی طرف جھکاؤ اپنایا تو سعودی عرب نے شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ تب سے اب تک معاملات معمول پر نہیں آسکے ہیں۔ مصر میں سیاسی و معاشی ہی نہیں، معاشرتی عدم استحکام بھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور مصر کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری تو ختم کردی ہے اور دونوں کو ایران کے خلاف محاذ پر یکجا کردیا ہے۔
لیبیا نے سعودی عرب کی حمایت کا اعلان ضرور کیا ہے مگر یہ اعلان لیبیا کی علیحدگی پسند انتظامیہ کی طرف سے آیا ہے جو سعودی عرب اور مصر کی حمایت سے تبروک میں قائم ہے۔ باضابطہ ریاستی سطح پر حمایت کا اعلان کیا جانا ابھی باقی ہے۔
یمن کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی اپنی حالت بہت پتلی ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کچھ زیادہ مفہوم نہیں رکھتا۔ اس وقت یمن میں تین فریق پورے ملک پر تصرف کے دعویدار ہیں۔ سعودی عرب کی حمایت سے عبدربوہادی کی حکومت قائم تو ہے مگر اس کے کنٹرول میں چند ہی علاقے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے تعاون سے الزبیدی فورسز بھی میدان میں ہیں۔ اور ایران کی حمایت سے حوثی قبائل بھی بعض علاقوں پر قابض و متصرف ہیں۔
یمن کے صدر عبد ربو ہادی نے قطر پر دہشت گردی میں معاونت کا الزام عائد کیا ہے مگر یہ بات کسی طور بھلائی نہیں جاسکتی کہ مارچ ۲۰۱۵ء میں اُنہیں حوثیوں کے قبضے سے نکالنے کے آپریشن میں قطر نے بھی حصہ لیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ یمن کے حوالے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے موقف میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ قطر کے خلاف جانے کے نام پر وہ ایک تو ہوئے ہیں مگر بہت جلد اختلافات ابھریں گے۔
گزشتہ مارچ میں صدر عبد ربو ہادی نے جب عدن کے گورنر ادریس الزبیدی کو معزول کیا تھا تب انہوں نے عبوری سیاسی کونسل کا صدر ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن رفتہ رفتہ تقسیم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سعودی حکمراں خاندان کسی بھی حال میں یمن کی تقسیم نہیں چاہتا۔
قطر کے لیے ترکی کی حمایت
ترکی اور جرمنی نے اس بحران میں قطر کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ سگمر گیبریل نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شدید مذمت کی ہے۔ دوسری طرف رجب طیب ایردوان نے پارلیمنٹ میں قطر کے حق میں بیان دیا ہے۔ ترکی نے قطر کو بحرانی کیفیت میں خوراک فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ ۷ جون کو ترک پارلیمان نے ایک قرارداد کے ذریعے قطر میں ترک فوج تعینات کرنے کی منظوری بھی دی۔ ترکی نے واضح پیغام دیا ہے کہ قطر کے خلاف جاکر سعودی عرب نے ایک قابل اعتماد دوست کو بھی ناراض کردیا ہے۔ ترکی خطے کا اہم ملک ہے اور اس حد تک طاقتور ہے کہ سعودی عرب اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ علاقائی اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے بہت سے معاملات میں سعودی عرب اور ترکی ایک پیج پر ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکا پر سعودی عرب پورا بھروسا نہیں کرسکتا۔ امریکی کانگریس نے گزشتہ سال ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت نائن الیون کے واقعات میں ملوث ہونے کے شبہ میں سعودی حکومت پر بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قطر کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں سعودی عرب ہی الگ تھلگ ہوکر رہ جائے۔ بہتر یہ ہے کہ خطے کے مسائل پر مل کر توجہ دی جائے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے معاملات کو افہام و تفہیم سے طے کیا جائے۔
ـ”Qatar-Gulf rift: Can Riyadh be triumphant?”. (“aljazeera.com”. June 9, 2017)
Leave a Reply