
اکیس نومبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو فلسطینیوں نے سکون کا سانس لیا اور خوشی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے خوشی میں نعرے لگائے اور ان ممالک کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے ان سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں ترکی اور مصر نمایاں ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ ساتھ لوگوں نے قطر کا قومی پرچم بھی لہرایا۔ یہ گویا قطر کی فلسطینی کاز کے لیے حمایت پر اظہار تشکر کا ذریعہ تھا۔
ایک ماہ قبل ہی قطر کے سربراہِ مملکت شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے غزہ کا دورہ کرکے ۴۰ کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ وہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کو باضابطہ طور پر توڑنے والے پہلے سربراہِ مملکت تھے۔ غزہ میں حماس کی حکومت ۲۰۰۷ء میں قائم ہوئی، تب سے اسرائیل نے کسی نہ کسی حالت میں محاصرہ برقرار رکھا ہے۔ قطر نے غزہ کی حمایت میں ایک قدم آگے جاکر خطے کی سیاست میں اپنے لیے ایک بڑے پلیئر کا کردار حاصل کیا۔ قطر کا رقبہ اور آبادی بہت کم ہے مگر دولت کے معاملے میں یہ غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے خطے میں اس کی پوزیشن بھی غیر معمولی ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑنے کے بعد قطر نے چند اہم فیصلوں کے ذریعے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ لیبیا میں عوامی بیداری کی لہر کو سب سے پہلے قبول کرنے والا ملک قطر تھا۔ پھر اس نے شام میں بشارالاسد کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والوں کو قبولیت دی۔ خلیفہ کے غزہ جانے کے فیصلے کو خطے میں حیرت کے ساتھ دیکھا گیا اور پھر مصر کے وزیراعظم بھی وہاں جانے پر مجبور ہوئے، اور اب ترک وزیراعظم غزہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
قطر کا بھی عجیب ہی مخمصہ ہے۔ اس کی حدود میں مکمل اور مطلق آمریت ہے، جبکہ اپنی غیر معمولی امارت کے بل پر اس نے خطے میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ سیاسی مبصرین کے لیے یہ انتہائی حیرت انگیز صورت حال ہے۔ قطر سنی اکثریت کا ملک ہے جس پر انیسویں صدی کے وسط سے ایک ہی خاندان حکومت کرتا آ رہا ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس میں مڈل ایسٹ سینٹر کے فواز جرجز کہتے ہیں کہ قطری حکومت ایسے منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کرتی آرہی ہے جن کے تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملک خطے کا سپر پاور بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ قطر کے امیر کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ خطے میں قائد کی کمی محسوس کی جارہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ قطر قائدانہ کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
نصف صدی قبل قطر کے بیشتر باشندے شدید غربت میں رہا کرتے تھے۔ مچھلیاں پکڑنے اور موتی تلاش کرنے ہی کو معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ قطر میں تیل اور گیس کی دریافت نے لوگوں کا مقدر ہی بدل دیا۔ دس ہزار ارب مکعب فیٹ کے ساتھ قطر میں گیس کے تیسرے بڑے ذخائر ہیں۔ قطر کی فی کس سالانہ آمدنی ۹۸ ہزار ڈالر ہے جو امریکا کی فی کس آمدنی سے تقریباً دُگنی ہے۔
قطر کے حکمرانوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر سدا نہیں رہیں گے۔ اس لیے وہ اربوں ڈالر تعلیم و فنون اور آجرانہ منصوبوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ اس وقت قطری معیشت میں تیل اور گیس کی آمدنی کا حصہ ساٹھ فیصد تک ہے۔
قطر کے ’’الجزیرہ‘‘ چینل کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ’’الجزیرہ‘‘ دیکھنے والوں کی تعداد پندرہ کروڑ سے زائد ہے گوکہ یہ اب تک امریکا کے تمام حصوں میں دستیاب نہیں۔ اس کے ناظرین اور چاہنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عرب دنیا میں یہ چینل اس لیے تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے کہ عوام کے دل کی آواز اس کے ذریعے دنیا تک پہنچتی ہے۔ قطر کے میڈیا کنسلٹنٹ حسن رشید کہتے ہیں: ’’الجزیرہ قطر کے لیے پاسپورٹ کی مانند ہے۔ اس ایک چینل کے ذریعے قطر کی حکومت اپنی بات کہیں بھی پہنچا سکتی ہے‘‘۔
ایک طرف ’’الجزیرہ‘‘ اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور دوسری طرف قطری حکومت تعلیم، کھیل و ثقافت اور بلیو چپ کمپنی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھا رہی ہے جسے محسوس بھی کیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب قطری حکومت معیشت کے مختلف شعبوں کو تیزی سے مستحکم کر رہی ہے تاکہ تیل اور گیس کے ذخائر کم ہونے پر ریاست کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھا جاسکے۔ دارالحکومت دوحہ کے مضافات میں ڈھائی ہزار ایکڑ پر ایجوکیشن سٹی تعمیر کیا گیا ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں موجود آٹھ بین الاقوامی یونیورسٹیز کے کیمپس ہیں۔ ان میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی، کارنیگی میلون اور نارتھ ویسٹرن نمایاں ہیں۔ قطر بروکنگز انسٹی ٹیوشن اور رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ جیسے تھنک ٹینکس کی شاخوں کا میزبان بھی ہے۔ ’’الجزیرہ‘‘ کی طرح یہ ادارے بھی قطعی خودمختار ہیں۔
قطر میں مجموعی طور پر زندگی خاصی پرامن ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے سربراہ یا کابینہ پر تنقید برداشت نہیں کی جاتی۔ عرب بہار کے حوالے سے قطر کے امیر پر تنقید کرنے والے ایک شاعر کو گزشتہ ماہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ انسانی حقوق کی پاسداری نہ کرنے پر بھی قطر کو غیر معمولی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
ملک کو نمایاں کرنے کے معاملے میں قطری حکومت نے کھیلوں کی سرپرستی پر زور دیا ہے۔ قطر فاؤنڈیشن نے ۲۰۱۰ء سے اب تک ایف سی بارسلونا کی سرپرستی کی ہے۔ امریکا اور برطانیہ جیسے ہیوی ویٹس کو ایک طرف کرکے قطر نے ۲۰۲۲ء کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۲۰۲۲ء میں دنیا بھر کے لوگ قطر کو اچھی طرح جان جائیں گے، دیکھ لیں گے۔ بروکنگز دوحہ سینٹر کے مشرق وسطیٰ سے متعلق پروگرام کے ڈائریکٹر سلمان شیخ کہتے ہیں: ’’فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی قطر کو اہم علاقائی قوت میں تبدیل کرسکتی ہے‘‘۔
قطر کا سوورین ویلتھ فنڈ سو ارب ڈالر کے ساتھ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے نکلا ہے۔ برطانیہ کے ہیروڈز ڈیپارٹمنٹل اسٹور کو دو ارب بیس کروڑ ڈالر میں خریدا جاچکا ہے۔ شارڈ میں قطریوں کا حصہ پچانوے فیصد تک ہے۔ لندن کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں قطری سرمایہ کاری دو ارب چالیس کروڑ ڈالر تک ہے۔ پیرس کی سینٹ جرمین فٹبال ٹیم بھی قطری خرید چکے ہیں۔ واکس ویگن، ٹفنی، لوئی وٹون اور کریڈٹ سوئس جیسے بڑے برانڈز میں بھی قطری سرمایہ کاری غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے۔ قطر کے امیر سابق اطالوی وزیراعظم سلویو برلسکونی سے اے سی میلان فٹبال ٹیم بھی ۶۵ کروڑ ڈالر میں خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
قطری بالعموم اس انداز سے سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ مغربی طاقتوں کو برا نہیں لگتا مگر خیر، یہ طریقہ ہمیشہ کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ پیرس میں جب مسلمانوں کی اکثریت والے ایک علاقے میں چھ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تیاری کی تو فرانس کے پریس نے شور مچادیا۔ قطر پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے ۲۰۲۲ ء کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی رشوت اور بے قاعدگی کے ذریعے حاصل کی۔
قطر اسپورٹس فیڈریشن کے حکام اس الزام کے انکاری ہیں۔ آر یو ایس آئی کی دوحہ برانچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ رابرٹس کہتے ہیں: ’’۱۹۹۰ء میں کویت پر عراقی حملے اور قبضے نے خطے میں بہت کچھ بدل دیا۔ قطر نے اس واقعے سے یہ سبق سیکھا کہ اگر خود کو مضبوط کرنا ہے تو دوسروں پر قبضہ کرنا درست نہیں، بلکہ ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تعلیم، ثقافت، کھیل اور دیگر شعبوں میں اپنی پوزیشن بہتر بناکر بھی یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔
دو سال قبل عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر کو آگے بڑھانے اور تبدیلی کی راہ ہموار کرنے میں قطر کے ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی چینل نے اہم کردار ادا کیا۔ اس ٹی وی چینل نے قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ہونے والے مظاہروں، دھرنوں اور احتجاج کو ایسی عمدگی سے پیش کیا کہ پوری عرب دنیا اس چینل کی دیوانی ہوگئی۔ لیبیا میں بھی جب کرنل معمر قذافی کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو ’’الجزیرہ‘‘ نے ان کا خوب ساتھ دیا۔ یہ کوریج قذافی دور سے پہلے کے لیبیا کے قومی پرچم کے ساتھ تھی۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ’’الجزیرہ‘‘ منحرفین کے ساتھ تھا۔ شام میں منحرفین نے جب بشارالاسد انتظامیہ کے سامنے ہتھیار اٹھائے تو ’’الجزیرہ‘‘ ان کی مدد کے لیے حاضر ہوگیا۔ مگر خیر، ’’الجزیرہ‘‘ کے رویے پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ قطر میں حکومت کے خلاف کچھ کہنے والوں کے خلاف کارروائی کی کوریج نہیں کی جاتی۔
یہی حال بحرین کا ہے۔ بحرین میں حکومت کے مخالفین کو کچلا جاتا ہے مگر ’’الجزیرہ‘‘ دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا اور کچھ دکھاتا بھی نہیں۔ ’’الجزیرہ‘‘ پر تنقید رفتہ رفتہ دم توڑنے لگتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جو کچھ ’’الجزیرہ‘‘ دکھاتا ہے، حکومت اس کی مکمل پشت پناہی کرتی ہے۔ غزہ کے معاملے میں قطر کے امیر نے جو کچھ کہا، اسے مزید بامعنی بنانے کے لیے قطری وزیراعظم نے بھی فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ وکی لیکس کے انکشافات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن معاہدہ یقینی بنانے کے لیے قطری وزیراعظم نے طویل مدت تک کام کیا۔ قطری قیادت ویسے تو فلسطینی کاز کے حوالے سے باضابطہ طور پر کچھ کہنے اور قبول کرنے سے گریز کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ قطری امیر کا غزہ کا دورہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اس کی نظر میں حماس کی حکومت جائز ہے۔ اس کے نتیجے میں عرب دنیا میں الفتح تنظیم مزید غیر موثر ہوکر رہ گئی۔
قطر جو کچھ کر رہا ہے وہ بہت حد تک مغربی مفادات کے بھی تابع ہے۔ یا کم از کم ان سے متصادم ہرگز نہیں۔ حماس کو اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں ایران اور شام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ شام نے حماس کے مرکزی رہنما خالد مشعل کو ایک طویل مدت تک اپنے ہاں پناہ دی۔ مگر جب حماس نے شام میں منحرفین کا ساتھ دینا شروع کیا تو بشارالاسد انتظامیہ سے اس کے تعلقات خراب ہوئے اور اب قطر نے شام کے منحرفین اور حماس کی حمایت شروع کردی ہے۔ حماس کو حکومت جاری رکھنے کے لیے لاکھوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ قطر نے اس کی مدد کرکے ایران پر اس کا انحصار کم کرنے میں مدد دی ہے۔
جرجز (Gerges) کہتے ہیں کہ قطر نے حماس کو ایران کے مدار سے نکال کر مغربی دنیا سے قریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ بعض معاملات میں اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ مثلاً قطری حکومت اب تک حماس کے بارے میں امریکی موقف تبدیل کرنے میں ناکام ہے۔ حماس اب بھی امریکی دفتر خارجہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔ دوسری طرف ایران نے اب تک حماس کی حمایت، سرپرستی اور مدد سے ہاتھ نہیں کھینچا ہے۔ امریکا اور قطر کے تعلقات دوستانہ ہیں۔ خطے میں سب سے بڑی امریکی ایئر بیس قطر میں ہے۔ قطر کے امیر نے اپریل ۲۰۱۱ء میں امریکا کا دورہ بھی کیا تھا، جس میں امریکی قیادت سے عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔
قطر جو کچھ کرتا ہے اس کا ہمیشہ خیر مقدم نہیں کیا جاتا۔ بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ اور یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے امریکی قیادت سے شکایت کی کہ قطر ان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ خطے میں آمریت کے خلاف جدوجہد پر قطر میں خوشیاں منائی جاتی رہی ہیں، جس پر سعودی عرب سمیت تمام ہی ہمسائے پریشان رہے ہیں۔ لیبیا میں قذافی حکومت کا تختہ الٹنے میں قطر نے اہم کردار ادا کیا، مگر اب وہاں بھی سابق منحرفین قطری قیادت کے ارادوں سے خائف اور پریشان نظر آتے ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد نے بھی قطری قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طویل مدت تک غربت جھیلنے کے بعد اب قطر کے لوگوں کو راتوں رات دولت ملی ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دولت کے بَل پر جغرافیہ، تاریخ اور علاقائی کردار بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ قطر اس نوع کی تنقید کے لیے تیار ہے کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ جو ملک سفارت کاری کے میدان میں دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتا ہے، اس پر تنقید کرنے والے بھی بہت ہوتے ہیں۔
قطری قیادت خود کو خطے میں بہتر انداز سے منوانے کے لیے تیار کر رہی ہے۔ قطر نے کئی ممالک کے باہمی تنازعات ختم کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب کچھ مستقبل قریب میں اس کے کام آئے گا۔ قطری قیادت جانتی ہے کہ دولت کے ذریعے بہتر حالات کس طور پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ملک کو تعلیم اور ثقافت کے میدان میں ترقی دے کر قطری قیادت اپنے لیے سوفٹ پاور پیدا کر رہی ہے جو یورپ کا وتیرہ رہا ہے۔ خطے میں جو ممالک صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتے وہ یقیناً قطری قیادت کی مہم جوئی سے خوش نہیں ہوں گے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اب قطر نے طے کرلیا ہے کہ وہ خطے میں مرکزی سفارتی کردار ادا کرکے اپنی علاقائی سپر پاور کی حیثیت منواکر دم لے گا۔
(“Qatar Is Tiny and Rich, and it’s Angling for Influence”… “Time”. Dec. 24th, 2012)
Leave a Reply