
دوحہ کے شمال میں موجود صحرا میں روشنیوں سے جگمگاتے کیٹل فارم میں ۳۰۰گائے رکھی گئی تھیں، جو کہ گھاس کھا رہی تھیں ۔ایک طرف بیٹھے نوزائیدہ بچھڑے اپنے کانوں کو ہلارہے تھے ۔پتوں کی چر چراہٹ کے علاوہ وہاں طویل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
ان مویشیوں کی یہاں موجودگی کی بڑی وجہ مشرق وسطی کاسفارتی بحران ہے۔ جب۵ جون کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ،بحرین اور مصر نے قطر پر سخت پابندیاں عائد کیں تو قطری درآمدات میں اچانک کمی واقع ہو گئی، جس کے ازالے کے لیے قطری کمپنی نے سیکڑوں گائے جہاز کے ذریعے درآمد کیں، تاکہ دودھ کی سپلائی جاری رہے۔ بلدنا کمپنی کے سربراہ جان جوزف کا کہنا ہے کہ ’’میں نے گائے یہاں لانے کے احکام دیے تھے اور آج گائے یہاں پہنچ چکی ہیں‘‘ ،وہ سر پر ٹوپی پہنے نیلی شرٹ میں ملبوس تھے ،انہوں نے مزید بتایا کے ۲۰۱۸ء تک ۱۴۰۰۰ گائے درآمد کرنے کامنصوبہ ہے اور اس کے لیے ہمیں چاہے وسکونسن اور کیلیفورنیا جیسے دوردراز علاقوں سے بھی منگوانی پڑے ہم منگوائیں گے تاکہ ملک میں دودھ کی قلت نہ ہو۔کچھ لوگوں کا خیال تھاکہ ہم ایسا نہیں کرسکتے لیکن ہم نے ایسا کر دکھا یا ہے۔
قطر اور مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک کے درمیان سات ہفتوں کے تند و تیز بیانات کے بعدسفارتی تعلقات ختم کر دیے گئے تھے۔ چار عرب ممالک نے مل کر قطر پردہشت گردوں سے تعاون کا الزام لگایا ہے، جس کی قطر نے تردید کی ہے۔ ۲۳ جون کو ان ممالک نے ۱۳ مطالبات کی ایک فہرست جاری کی، جس میں قطر کو ایران اور اخوان المسلمون سے رابطے ختم کرنے کے لیے کہا گیا، اس کے علاوہ الجزیرہ جیسے متنازع اور مشہور چینل کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ لیکن قطر نے جھکنے سے انکار کر دیا۔
قطر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔دنیا میں قدرتی گیس کا سب بڑا برآمد کنندہ اس کی آبادی تلسا اور اوکلاء کے شہریوں سے بھی کم ہے،لیکن دنیا کی امیر ترین قوموں میں سے ایک ہے۔خطے میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ یہیں موجود ہے۔ جہاں سے داعش اور القاعدہ کے ٹھکانوں کو آسانی سے نشانہ بنایا جاتاہے۔قطری حکومت نے پابندیوں کی وجہ سے ممکنہ معاشی بحران سے بچنے کے لیے فوراً متبادل سمندری اور ہوائی تجارتی راستے تلاش کیے اور مویشی وغیرہ برآمد کیے۔قطر پر پابندیاں لگنے کے بعد ہی سپر مارکیٹ کے شیلف خالی ہوگئے تھے، جنہیں قطر نے کمال مہارت سے چند دنوں میں ہی دوبارہ بھر دیا۔
فی الحال قطر کو بین الاقوامی طور پر تنہا نہیں کیا جاسکتا۔ قطر کو یورپ کا تعاون حاصل ہے ،علاقائی طاقتیں جیسے کہ ایران اور ترکی بھی قطر کی بھر پور مدد کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ امریکا کے اعلیٰ بیوروکریٹ ریکس ٹیلرسن بھی قطر کے ساتھ ہیں۔اور انھو ں نے کہا ہے کہ ’’وہ دہشت گردوں کے خلاف قطری اقدامات سے مطمئن ہیں‘‘۔صدر ٹرمپ کے ٹوئیٹر پیغام نے صورتحال کو تھوڑا پیچیدہ کردیا تھا، جو انہوں نے قطر کے خلاف دیا لیکن اس کے بعد سے صدر ٹرمپ تاحال خاموش ہیں۔
سعو دی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سربراہی میں اس اتحاد نے اپنے مطالبات ازسر نو پیش کیے، ان مطالبات میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔ قطری حکومت کا اصرار ہے کہ وہ دہشت گردی سے متعلق پہلے ہی بہت کچھ کر چکے ہیں ۔قطر کے حکومتی ترجمان شیخ سیف بن احمدکے مطابق سعودیہ اور اس کے اتحادی بین الاقوامی سطح پر کافی مضبوط ہیں اور ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ ان کے مطالبات ہماری حاکمیت اور خودمختاری کو نشانہ بنا رہے ہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ پابندیاں لگانے والے ملکوں کو چاہیے کے وہ بحران کا حل نکالیں اور ایک دوسرے کو شرمندہ کیے بغیر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں۔
سعودی عرب، بحرین،متحدہ عرب امارات اور مصر کی حکومتوں نے کچھ اس طرح کے اشارے دیے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ یہ پابندیاں کسی بھی وقت ہٹا لی جائیں گی۔ ۲۵ جولائی کو مصر کے وزیر خارجہ نے کسی بھی طرح کے مذاکرات کی مخالفت کی ہے،امارات کے وزیر خارجہ نے اسے ’ایک طویل بے چینی‘ سے تعبیر کیا ہے۔سعودی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سعودی عرب کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے اور قطراس مسئلے کی نوعیت کو سمجھ نہیں رہا ،اور اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا ۔
اس بحران کی جڑیں بہت گہری ہیں، جس کی وجوہات میں قطر کی اسلامی تحریکوں کی مستقل حمایت اور سعودی عرب کے روایتی حریف ایران سے تعلقات میں گرم جوشی کا مظاہرہ بھی ہے۔ سعودی عرب اور قطر کا سفارتی بحران ایک عرصے سے جاری ہے اور مستقبل قریب میں اس کے حل ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کی سرد جنگ کہلائے گی۔جس کی ابھی صرف شروعات ہیں۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Qatar settles in for a Long Stand off”.(“Time”. Jul 27, 2017)
Leave a Reply