
قطر سے پانچ خلیجی ممالک (بحرین، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یمن) کے سفارتی تعلقات ختم کرنے سے طویل مدت سے جاری تنازعہ ایک نئے موڑ پر آگیا ہے جو کہ ان ممالک کی خطے کے معاملات پر مختلف نقطہ نظر کی نشاندہی کرتا ہے۔
بحرین،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے آخری دفعہ ۲۰۱۴ء میں قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کیے تھے اور اپنے سفراء بھی ۹ ماہ کے لیے واپس بلا لیے تھے۔ لیکن اس دفعہ معاملات کچھ زیادہ شدت اختیار کر گئے ہیں اب قطر پر معاشی پابندیاں بھی لگا دی گئی ہیں،جس کی وجہ سے قطر کا واحد زمینی راستہ، جو سعودی عرب سے تھا، وہ بند کر دیا گیا ہے، جس سے غذائی اشیا کی قلت ہو گی اور فضائی اور زمینی سفر میں بھی مشکلات پیش آئیں گی۔ اس سے قطر نہ صرف معاشی مشکلات کا شکار ہو گا بلکہ معاشرتی اور سیاسی افراتفری کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
اگر چہ یہ واضح نہیں ہے کہ سعودی عرب اور امارات کا ’’پلان‘‘ کیا ہے، لیکن قطر سے تنازعات اور کشیدگی کی جڑیں کافی گہری ہیں۔عرب بہار ۲۰۱۱ء میں اسلامی تحریکوں کی مدد اور شمالی افریقا اور شام میں آنے والی تبدیلیوں میں قطر کافی سرگرم رہا ہے۔ درحقیقت ۶ رکنی خلیج تعاون کونسل میں تقریباً پچھلے پچیس برس سے ہر بحران کا ذمہ دار کسی نہ کسی طرح قطر ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ خطے کی پالیسیوں کے حوالے سے قطرکے ’’انفرادی‘‘ فیصلوں پر خلیجی ممالک کے سربراہان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
انیسویں صدی کے وسط میں الثانی خاندان مقامی طور پر ایک طاقتور خاندان کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس نے ۱۸۶۸ء میں برطانوی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا، اس کے بعد خلیج میں اسے بھرپور طاقت حاصل ہو گئی۔ لیکن ان کے طاقت حاصل کرنے سے پہلے قطر میں الخلیفہ خاندان نمایاں تھا، جو بحرین کے موجودہ حکمران ہیں۔ اگرچہ خلیفہ خاندان ۱۷۸۳ء سے بحرین پر حکمرانی کر رہا ہے، لیکن ان کے اور قطر کے مابین ’’ہوار‘‘ کے جزیروں کی ملکیت کے مسئلے پر تنازعہ رہا ہے۔ یہ تنازعہ ۲۰۰۱ ء تک چلتا رہا یہاں تک کہ عالمی عدالت انصاف نے اس معاملے کو حل کروایا۔ ۱۹۸۶ء میں جزائر کے مسئلے پر یہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر آکھڑے ہوئے تھے۔ ۱۹۹۷ء میں یعنی اپنے قیام کے چھبیس برسوں بعد ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
سعودی قطر سرحد کی واضح حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے ۱۹۹۲ء میں سرحدی لڑائی میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حالانکہ ان دونوں ممالک نے ۱۹۶۵ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدوں کا تعین کیا گیا تھا۔لیکن اس تصادم کے بعد قطر نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ۱۹۹۴ ء میں یمن میں ہونے والی خانہ جنگی میں بھی قطر اور سعودی عرب نے الگ الگ گروہوں کی حمایت کی تھی۔ اس کے علاوہ ۱۹۹۵ء میں قطر نے ایک سعودی کی خلیج کونسل کے سیکریٹری کے طور پر تعیناتی کی کھلے عام مخالفت کی تھی۔ اور اس کے جواب میں قطر کے وفد نے دسمبر ۱۹۹۵ء کے اجلاس میں ان تمام میٹنگوں کا بائیکاٹ کیا تھا جس میں سیکرٹری جنرل شریک ہوئے تھے اور اطلاعات کے مطابق قطر نے خلیج کونسل کی رکنیت سے استعفے پر بھی غور شروع کر دیا تھا۔
قطر کے پڑوسی ممالک سے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ۲۰۱۱ء کے بعد کی پالیسیوں سے ہوا، جن کا آغاز شیخ حمد بن خلیفہ الثانی (جو جون ۱۹۹۵ء میں خا موش بغاوت کے ذریعے اپنے والد سے امارت حاصل کرنے کے بعد اقتدار میں آئے تھے) کے امیر بننے کے بعد سے ہوا۔
وزیر خارجہ شیخ حمد بن جاسم الثانی اور امیر حمد نے قطر کے LNG انفراسٹرکچر کو بھرپور ترقی دی اور دنیا بھَر کی اُبھرتی ہوئی معاشی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کیے، اور قطر کی معیشت کو مضبوط بنا دیا۔ لیکن حمد بن الخلیفہ الثانی کے امیر بن جانے سے پڑوسی خلیجی ممالک زیادہ خوش نہ تھے۔ سعودی عرب پر الزام ہے کہ ۱۹۹۶ء میں اس نے معزول امیر کو دوبارہ امارت دلوانے کی کوشش بھی کی۔ قطر کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۵ء میں ہونے والی بغاوت کی دوسری کو شش بھی سعودی عرب نے ہی کی تھی۔ اسی بنیاد پر قطری حکومت نے ’’بنی مُرّۃ‘‘ قبیلے کے ۵۰۰۰ لوگوں کی شہریت منسوخ کر دی تھی، کیوں کہ ان کے افراد پر شبہ تھا کہ انہوں نے اس بغاوت کی کو شش میں سعودی عرب کی مدد کی ہے۔
۱۹۹۵ء کے بعد کی قیادت کی طرف سے اپنائی جانے والی پالیسیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ قطر کو سعودی اثر سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ قطر کی طرف سے اسلامی تحریکوں، خاص کر اخوان المسلمون کی حمایت اور الجزیرہ چینل کو خطے کی دیگر حکومتوں پر تنقید کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنا، کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنا۔ سعودی عرب نے ۲۰۰۲ء میں دوحہ سے اپنا سفیر اس لیے واپس بلا لیا تھا کہ الجزیرہ سعودیہ کے داخلی معاملات کی کوریج دے رہا تھا۔ اس معاملے کو حل کرنے میں پانچ سال لگ گئے۔عرب بہار میں اسلامی تحریکوں کی حمایت ایک بار پھر ان دونوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنی۔اخوان المسلمون کے حوالے سے متحدہ عرب امارات اور قطر نے ایک دوسرے کے مخالف موقف اختیار کیا۔ پھر مصر اور لیبیا، دوحہ اور ابو ظہبی خطے میں بالادستی کی جنگ کے لیے میدان جنگ بن گئے۔
جون ۲۰۱۳ء میں جب ۳۳ سالہ امیر تمیم نے اپنے والد امیر حمد سے اقتدار لیا تو ریاض اور ابو ظہبی پُرامید تھے کہ اب قطر خطے کے معاملات کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر اَزسرِنو غور کرے گا۔لیکن امیر تمیم کے اقتدار سنبھالنے کے ٹھیک پانچ ماہ بعد یعنی نومبر ۲۰۱۳ء میں سعودی اور اَماراتی حکمرانوں نے امریکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اس رپوٹ پر، کہ مصر میں فوجی بغاوت کی وجہ سے معزول ہونے والی اخوان کی قیادت دوحہ میں پناہ لے رہی ہے اور اپنے آپ کو منظم کر رہی ہے، سخت ناراضی کا اظہار کیا۔اسی بنیاد پر شاہ عبداللہ نے امیر قطر کو ریاض طلب کیا اور الٹی میٹم دیا کہ قطر کی پالیسیاں تبدیل کریں اور خطے کے معاملات میں وہی موقف اپنایا جائے جو خلیج کونسل کے بقیہ ممالک اپناتے ہیں۔ امیر تمیم سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کریں، جس کے تحت وہ کسی بھی خلیجی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکیں گے اور ساتھ ساتھ مصروالے معاملے پر معذرت بھی کی جائے۔
۲۰۱۴ء میں یہ بحران شدت اختیار کر گیا،جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دیکھا کہ قطراپنے دستخط شدہ معاہدے پر عمل نہیں کر رہا۔ان کے ساتھ ساتھ بحرین نے بھی اپنے سفیر دوحہ سے واپس بلا لیے۔ متحدہ عرب امارات، جو اخوان کی قیادت پر کریک ڈاؤن کر رہا تھا، ان کو اس بات نے سیخ پا کیا کہ اخوان کی اماراتی شاخ ’’الاصلاح‘‘ کے چند اماراتی ارکان کو ملک سے بھاگنے پرقطر میں پناہ دی گئی۔ یہ کشیدگی کافی عرصہ تک قائم رہی، اس دوران کویت کے امیر، جن کے قطری امیر کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، نے کئی مرتبہ مذاکرات کی کوششیں بھی کیں۔ اس بحران کا خاتمہ ۲۰۱۴ء میں ہو ا جب دوحہ کچھ باتوں پر راضی ہوا اور اس نے اخوان کی قیادت کو دوحہ سے ترکی منتقل کیا، اماراتی مطلوب افراد کو قطر چھوڑنے کا حکم دیا، الجزیرہ کو مصر میں اپنے دفتر بند کرنے کا کہا اور خلیج تعاون کونسل کے سیکورٹی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد کی ہامی بھَری اور خلیجی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کے ساتھ بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔
موجودہ بحران برسوں سے پروان چڑھتا آج اس سطح پر آیا ہے۔اس مرتبہ شاید اس معاملہ میں شدّت آنے کی ایک وجہ اپریل کے مہینے میں ہونے والا قیدیوں کا تبادلہ بھی ہے۔دسمبر ۲۰۱۵ء میں عراق میں شکار کے لیے جانے والے قطر کے ۲۶ رکنی گروہ کو یرغمال بنالیاگیا،جس میں شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔جس گروہ نے یرغمال بنایا اس کا نا م کتائب حزب اللہ تھا،جو کہ شیعہ عسکری گروہ ہے۔قطر نے ان افراد کی بازیابی کے لیے حزب اللہ، ایران، شامی باغیوں اور جُبّۃ النصرۃ سے مذاکرات کیے۔
الزام یہ ہے کہ قطر نے ۵۰۰ ملین ڈالر اس گروہ کو دیے، جس پر نہ صرف خلیجی مما لک نے سخت ناراضی اور برہمی کا اظہار کیا، بلکہ عراقی وزیراعظم نے یہ دعویٰ کیا کہ اس ڈیل پر عراقی حکومت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اگرچہ ابھی تک اس معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں،لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ اتنی بڑی رقم ایران کے حمایت یافتہ گروہ کو دی گئی ہے۔خلیجی دارالحکومتوں کا خیال ہے کہ قطر کا اس طرح ایرانی گروہ کے ساتھ بات چیت کرنا خطے کی سلامتی کے لیے خطر ناک ثابت ہو گا۔
اگر چہ ابھی تک ہونے والے اقدامات سے ایسا نہیں لگتا کہ جنگ ہونے جا رہی ہے۔لیکن قطر اور اُس کے حریف، الزامات کے معاملے میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ جہاں سے واپسی اتنی آسان نہیں ہوگی۔اگر سعودی اوراماراتی حکام ٹرمپ کی بہت زیادہ حمایت حاصل کرتے ہیں تو یہ امریکا کے لیے خود پیچیدہ مسئلہ بن سکتا ہے، کیوں کہ قطر میں امریکا اپنے سیکورٹی، توانائی اور دفاعی مفادات کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کا فی الحال کوئی متبادل ہے۔اس اچانک پیدا ہونے والی کشیدگی نے ٹرمپ انتظامیہ کے لیے مسئلہ کھڑا کر دیا ہے، کیوں کہ وہ اس معاملے کو نظرا نداز نہیں کر سکتے اور اس کے ساتھ ساتھ دو ہفتے قبل ہونے والے ٹرمپ کے دورے کی کامیابی کی جو خوشیاں منائی جا رہی تھیں ان پر بھی اوس پڑ گئی ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Qatar: The Gulf’s problem child”. (“theatlantic.com”. June 5, 2017)
یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ ان کے آپس کے اختلافات بڑھتے جارہے ہیں ۔دور اندیش قیادت کی کمی ہے