مئی۲۳ (IFSWF)International Forum of Sovereign Wealth Funds نے ترکی کی درخواست رکنیت منظور کرلی ، جو گزشتہ سال جلد بازی میں دی گئی تھی، اور جسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ ایک متوازی بجٹ ہے جو کہ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ آئی ایف ایس ڈبلیو ایف، ایک عالمی خودمختار فنڈ کا نیٹ ورک ہے جس میں ۳۰سے زائد ممالک شامل ہیں، جس کے زیر انتظام ۳ کھرب ڈالر کے عالمی اثاثہ جات ہیں ۔
Turkey Wealth Fund(TVF) جس کے زیر انتظام ۴۰؍ارب ڈالرسے زائد کے اثاثہ جات ہیں، لیکن یہ ابھی اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے اور دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ فنڈ کے ذریعہ سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔ایسا پہلا فنڈ روس کے ساتھ قائم کیا گیا تھا اور قطر کے ساتھ دوسرا فنڈ قائم کرنے کے لیے دستاویزات پر دستخط ہو چکے تھے۔ معاہدے کے بعد اپریل میں یہ افواہیں سنی گئیں کہ TVF کے زیر انتظام چائے بنانے والی سب بڑی کمپنی Caykur جوکہ ریاست کی ملکیت تھی، اسے کسی قطری نے خرید لیا ہے،لیکن حکام نے اس خبر کو مسترد کر دیا۔ حقیقت میں Caykur کا معاملہ ایسا ہے کہ اسے قطرترکی فنڈ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ ان اقدامات میں سے ایک ہے جن کے ذریعے سے ترکی قطر مشترکہ فنڈ کو مضبو ط کیا جا رہا ہے۔
ترکی کی حکومتی جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی‘‘ (AKP) کے لیے حالیہ عرصے میں قطر ایک اہم ملک کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ فروری میں قطر کے دورے کے بعد صدر طیب ایردوان نے واضح کیا ہے کہ انقرہ کے لیے دوطرفہ تعلقات معاشی لحاظ سے کتنے اہم ہیں۔ ترکی میں قطری سرمایہ کاری، جو کہ ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر ہے، پر زور دیتے ہوئے ایردوان نے کہاکہ ’’ہم اسے بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، قطریوں نے Digiturk کو خرید کر اہم قدم اٹھایا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ قطر BMC میں ۵۰ فیصد کا شراکت دار ہے۔ طرابزون میں ہونے والی ترکی قطر سپریم اسٹریٹجک کمیٹی کے اجلاس کے دوران میں امیر قطر کو اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر دورے کے لیے لے گیا۔ وہ برف باری کا موسم تھا۔ پہاڑوں پر برف موجود تھی۔ انہوں نے مجھ سے یہاں موسم سرما کے دوران سیاحت کے حوالے سے کی جانے والی پیش رفت کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے تجویز دی کہ ہم مشترکہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ قطر کے ترکی میں دو بینک بھی ہیں (Finansbank, Abank)۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۷ء میں ۲؍ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے دفاعی صنعتی پروجیکٹس پر بھی کام کیا جائے گا۔
اقتصادی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں قطر کی سرمایہ کاری ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہے ۔یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں،کیونکہ قطر کی بیرون ممالک ۵۳؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے، اور قطر میں دوسرے ممالک کی سرمایہ کاری ۳۶ ارب ڈالر کے قریب ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق ترکی میں قطری سرمایہ کاری میں ۲۰۱۳ء کے بعد سے مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ایک اعشاریہ پانچ میں سے ایک اعشاریہ دوارب ڈالر کی سرمایہ کاری گزشتہ چار سالوں میں ہوئی ہے۔قطر کی بنیادی سرمایہ کاری پولٹری کمپنی Banvit میں ہے اور بکتر بند گاڑیوں کی کمپنی BMC میں ۵۰ فیصد حصہ ہے ،اس کے علاوہ فنانس بینک، اے بینک، ٹی وی Digiturk اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری شامل ہے۔مگر اس کے باوجود بھی ترکی میں بیرونی مما لک کی براہ راست سرمایہ کاری ۱۴۱؍ارب ڈالر ہے جو کہ قطر کے مقابلے میں زمین آسمان کا فرق رکھتی ہے۔
اے کے پی کی حکومت کے مختصر مدتی مقاصد میں قطر کی براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قطری حکومت کی جانب سے FIFA فٹبال ورلڈ کپ ۲۰۲۲ء کی میزبانی کے لیے بنائے جانے والے انفرااسٹرکچر منصوبے میں ترکی اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرناچاہتا ہے۔
قطر کے تعمیراتی شعبے میں نومبر تک ترکی کے حصے سے متعلق ترکی کے ڈپٹی وزیر اعظم مہمت کا کہنا ہے کہ’’ترکی کی کمپنیاں قطر میں ۱۳؍اعشاریہ ۷ ارب ڈالرکے منصوبے حاصل کر چکی ہیں۔قطر کا نمبر ان ممالک میں ساتواں ہے جہاں ترکی کی کمپنیاں سب زیادہ پراجیکٹس پر کام کر رہی ہیں۔ ترکی اور قطر کے تعلقات صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملی بھی ہیں۔یہ مضبوط روابط اب ایک مستحکم اتحاد میں بدل چکے ہیں ۔ترکی کے کنٹریکٹرز میٹرو، بندرگاہ اور ائیرپورٹ کے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔دوحہ میٹرو اور ائیرپورٹ منصوبے میں ہماری کمپنیوں کی کامیابی قابل ذکر ہے۔ میں اس بات کو یہاں واضح کرنا چاہوں گا کہ ہم ۲۰۲۲ء کے ورلڈ کپ کے لیے اپنے قطری بھائیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں‘‘۔
ورلڈ کپ کے لیے ۱۷۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ اس لیے ترکی کمپنیوں کے لیے یہ نادر موقع ہے کہ وہ زیادہ حصہ حاصل کریں۔اس سلسلے میں اپریل میں ایکسپو ترکی کے نام سے دوحہ میں ایک نمائش منعقد کی گئی ۔ترکی کے تاجر اور نمائش کے منتظم، کرٹ ہاکان کے مطابق اس نمائش کے ذریعے ترکی نے قطر میں ۱۳؍ارب ڈالر کے معاہدے کیے اور مزید ۵ء۷؍ ارب ڈالر کے منصوبوں پر پیش رفت جاری ہے۔ ’’ہمیں امید ہے کہ ۲۰۲۲ ء تک ترکی قطر میں ۱۵سے ۲۰؍ارب ڈالر تک کے منصوبو ں پر کام کر رہا ہو گا۔ قطر کی جانب سے کی جانے والی نمائش اس کام میں معاون ثابت ہوگی‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قطر کے پاس جو دولت اور توانائی کے وسائل ہیں، وہ اسے صرف ترکی کے لیے ہی نہیں بلکہ خطے یا عالمی ممالک کے سامنے تجارتی شراکت داری کے لیے ایک اہم ملک کے طور پر پیش کرتے ہیں۔پچیس لاکھ کی آبادی والی یہ چھوٹی سی ریاست جہاں کی آبادی کا ۸۳ فیصد غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔قطر کی فی کس آمدنی ۷۵۰۰۰ ہزار ڈالر ہے جو کہ قطر کو دنیا کا امیر ترین ملک بناتی ہے اور کاروباری افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔حالانکہ قطر کی معیشت ۱۵۶ بلین ڈالر کی ہے، جو کہ ترکی کی معیشت کا پانچواں حصہ ہے،ہر کوئی قطر کو اپنا سامان فروخت کرنا چاہتا ہے،اپنے ممالک کے لیے قطری سرمایہ لانا چاہتے ہیں۔ ریاست کی توانائی کے وسائل، ۲۵ ٹریلین کیوبک میٹر قدرتی گیس ، دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ،اس کے علاوہ ۲۵ ارب بیرل تیل کے ذخائر بھی قطر کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی اہم وجہ ہوسکتے ہیں۔حال اور مستقبل دونوں میں ۔
قطر،اس گلوبل ویلج میں امیر ترین اقلیت ہے، جس کو اپنے وسائل کی حفاظت میں دشواریوں کا سامنا ہے۔بہت سے ممالک ریاست کو دفاعی خدمات دینے کے لیے تیار ہیں، ترکی بھی ان میں شامل ہے۔ ال مانیٹر (Al Monitor) کے ایک کالم نگار Fehim Tastekin نے ترکی اور قطر کے دفاعی معاہدے کے حوالے سے تجزیہ کیا ہے اور ترکی کے ٹی وی چینل ”ٹی آرٹی‘‘ نے تبصروں کے ذریعے معاہدے کے معاشی عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔چینل نے مزید اس معاہدے کے بارے میں بتایا جس میں ترک افواج کی قطر میں تعیناتی شامل ہے، ’’ ترکی کو اس طرح اپنی دفاعی صنعت کاری کے لیے نئی منڈی مل جائے گی۔ ترکی او ر قطر مشرق وسطیٰ کے موجودہ بحران پر جو کوششیں کر ر ہے ہیں، ان سے لگتا ہے کہ وہ دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں ۔عراق ، یمن اور شام میں حزب اختلاف کی حمایت کے حوالے سے دونوں ممالک کا موقف ایک ہی ہے۔دوحہ کی حکومت کے لیے اس معاہدے کی مزید اہمیت یہ بھی ہے کہ دوحہ کی سُنی حکومت امریکا اور تہران کے درمیان ختم ہوتی ہوئی کشیدگی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ دوحہ حکومت امریکی افواج کی موجودگی کو اپنی حفاظت کے لیے نا کافی سمجھتی ہے۔ لہٰذا ترکی کے ساتھ مل کر وہ اپنی اس کمی پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘۔
(ترجمہ: عبدالرحمن کامران)
“Qatari money increasingly important for Turkey”. (“al-monitor.com”. May 31, 2017)