
چند برسوں کے دوران علاقائی سیاست میں قطر غیر معمولی تیزی سے ابھرا ہے۔ اس نے ایک ایسی ریاست کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کی ہے، جو علاقائی مسائل کے حل کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ سفارت کاری کے محاذ پر قطر نے ایسی ثابت قدمی دکھائی ہے جس کے بارے میں سوچنا محال تھا۔ خلیج کی بیشتر ریاستیں اب تک سیاسی اور سفارتی امور میں غیر معمولی احتیاط کا دامن تھامتی چلی آئی ہیں مگر قطر نے دنیا کو بتانا چاہا ہے کہ قدرے کم رقبے کے باوجود وہ محلِ وقوع کے اعتبار سے اپنی اہمیت منوانے اور ثابت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
معروف تجزیہ کار اور سفارتی امور کے ماہر ڈیوڈ بی رابرٹس نے قطر کی ’’نرم قوت‘‘ کے موضوع پر ایک موقر رپورٹ تیار کی ہے، جو تمام متعلقہ امور کا عمدگی سے احاطہ کرتی ہے۔ اس دستاویز کو پالیسی بریف کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ بروکنگ انسٹی ٹیوشن نے جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے برکلے سینٹر فار ریلیجن، پیس اینڈ ورلڈ افیئرز کے اشتراک سے ’دی جیو پالیٹکس آف ریلیجس سوفٹ پاور‘ کے زیر عنوان ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ ڈیوڈ بی رابرٹس کی تیار کردہ پالیسی بریف اِسی منصوبے کا محض ایک حصہ ہے۔ یہاں اس کی ایگزیکٹو سمری پیش کی جارہی ہے۔ اس پالیسی بریف میں پیش کیے جانے والے تمام نکات مصنف (ڈیوڈ بی رابرٹس) کے ذاتی خیالات کا عکس ہیں اور اِن کا کسی بھی ادارے کی سوچ اور پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ ادارہ
۔۔۔۔۔
چند برسوں کے دوران قطر نے ایک ایسی ریاست کی حیثیت سے شناخت بنائی اور نام کمایا ہے، جو مشرق کے مختلف حصوں میں فعال اسلامی گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرتی اور ان کی مدد کرتی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں اور حیرت انگیز بھی نہیں۔ قطر نے ایک عشرے کے دوران حماس سے اخوان تک متعدد تنظیموں اور گروپوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان تنظیموں اور گروپوں کا تعلق مصر، تیونس، لیبیا اور شام سے ہے۔ اور ہاں، اِن میں طالبان بھی شامل ہیں۔
یہ سب کچھ دیکھ کر کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قطر کی قیادت اسلامی گروپس کو اپناکر اس حوالے سے کوئی واضح شناخت قائم کرنا چاہتی ہے اور یہ کہ آگے چل کر اس کا ارادہ اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کا ہے۔ بعض کے نزدیک قطر خود کو ایک بڑے اسلامک ایکٹر (گروپ) کی حیثیت سے سامنے لانا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ محض تاثر ہے۔ حقیقت اِس سے بہت مختلف اور بالکل سادہ ہے۔
خطے کی صورتِ حال اور قطر کی پالیسیوں کے رخ کو دیکھتے ہوئے جو بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ قطر انتہائی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح اور مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ دوسری تمام ریاستوں کی طرح اُس کی بھی خواہش اور کوشش ہے کہ اُس کی طاقت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ وہ عسکری طور پر اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں سفارتی سطح ہی پر کچھ کرنے کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ ایسے میں محلِ وقوع کو ذہن نشین رکھتے ہوئے پالیسیاں تبدیل کرنے کا آپشن زیادہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اور قطری قیادت اِسی سمت سفر کر رہی ہے۔
چند ایک معاملات میں قطر کمزور ہے اور دوسرے چند معاملات میں اس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے۔ مالیاتی اعتبار سے قطر کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ مالیاتی وسائل غیر معمولی ہیں۔ آبادی بہت کم ہے جس کے نتیجے میں عمومی سطح پر انتہائی بلند معیارِ زندگی ممکن بنانا زیادہ دشوار ثابت نہیں ہوا۔ عام قطری باشندے غیر معمولی سہولتوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قطری قیادت کو اندازہ ہے کہ آبادی بہت کم ہونے کے باعث وہ علاقائی سیاست میں زیادہ فعال نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا ہے کہ دیگر امور پر توجہ دی جائے۔ اور دی جارہی ہے۔ مثلاً قطری قائدین ملک کی پوزیشن سیاست اور سفارت کے حوالے سے مستحکم تر کرنے کے لیے ذاتی روابط کا سہارا لے رہے ہیں۔ وہ علاقائی سطح پر قطر کو قابلِ رشک حد تک بلند کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں جن کے ذریعے طاقتور ممالک کو بڑی تعداد میں قطر کے مفادات سے جوڑنا ممکن ہو۔
اخوان المسلمون سے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے قطر کو حیرت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں زیادہ حیرت کی گنجائش ہے نہیں۔ اخوان ایک بڑی تنظیم ہے جو صرف منظم اور طاقتور ہی نہیں ہے بلکہ کئی ممالک میں جڑیں رکھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قطر کا حکمراں طبقہ اخوان کو شک کی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ ایک بڑی تنظیم ہونے کے ناطے اُس سے تعمیری تعلقات کا قیام چاہتا ہے۔ اس حوالے سے قطر کے حکمراں طبقے کو کسی بھی سطح پر کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے قطر کی پالیسی بھی بالکل واضح رہی ہے۔
قطر اور اخوان کے تعلقات طویل مدت سے تھے۔ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے اٹھنے کے بعد یہ تعلقات بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ قطر نے پالیسی میں چند ایک تبدیلیاں کی ہیں تاکہ خطے کے دیگر ممالک کی نظر میں زیادہ مشکوک ثابت ہونے سے بچا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کے اٹھنے کے بعد اسلامی گروپوں بالخصوص اخوان سے قطر کے تعلقات کو حیرت اور شک کی نظر سے دیکھا گیا جبکہ یہ تعلقات طویل مدت پر مبنی رہے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے قطری قیادت کو پالیسیوں میں موزوں تبدیلیوں کی تحریک دی ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ قطری قیادت نے اب تک ایسا عندیہ نہیں دیا کہ وہ اسلامی گروپوں سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوجائے گی اور اُن کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرے گی جیسا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کیس میں ہوا ہے۔ ان دونوں ممالک نے اخوان المسلمون کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے صدر کو ہٹاکر اقتدار پر دوبارہ قابض ہو جانے والی فوج کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھرپور مالی امداد اِس کی ایک واضح مثال ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply