
حال ہی میں چین نے بنگلا دیش کو امریکا کی سربراہی میں تشکیل دیے جانے والے ’کواڈ‘ اتحاد میں شمولیت سے خبردار کیا ہے۔ چین کی طرف سے یہ تنبیہ چین کے سفیر لی جیمنگ نے صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں دی جو بظاہر بڑی جارحانہ اور چین کی طرف سے پیش بندی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس پر بھارت میں غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
چین کی طرف سے یہ تنبیہ کوئی غیر متوقع چیز بھی نہیں کیونکہ چین اس خطے میں امریکی اقدامات پر بڑی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکا خطے کے ملکوں سے اپنے تعلقات مضبوط کر رہا ہے اور ’کواڈ‘ اس سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔
چین سفارتی سطح پر اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے ذریعے خطے میں امریکی سرگرمیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ چین کے سرکاری ادارے ’گلوبل ٹائمز‘ نے لی جیمنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکا چین اور بنگلا دیش کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
دریں اثنا بنگلا دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے فوری طور پر چینی سفیر کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان افسوس ناک ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بنگلا دیش اپنی خارجہ پالیسی کا خود تعین کرتا ہے اور کسی بھی دوسرے ملک کی اپنی سوچ اور اپنا مؤقف ہو سکتا ہے۔
چین کے اس جارحانہ رویے کا محرک کیا ہے؟
چین کے سفیر کی طرف سے ۱۰ مئی کو یہ بیان دیا گیا تھا کہ اگر بنگلا دیش کی حکومت نے کواڈ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو ڈھاکا اور بیجنگ کے تعلقات شدید طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔ بنگلا دیش کی حکومت اور ملکی ذرائع ابلاغ کے لیے چینی سفیر کا یہ بیان باعث حیرت تھا۔
بنگلا دیش میں شائع ہونے والے اخبار ’دی ڈیلی اسٹار‘ نے ۱۲ مئی کے اپنے شمارے میں لکھا کہ ’لگتا ہے کہ چین کی حکومت اس امکان پر پریشانی کا شکار ہے کہ کہیں بنگلا دیش اس اتحاد کا حصہ نہ بن جائے۔ اس پریشانی کی کیا وجہ ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ جو کچھ بھی ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار بنگلا دیش کی حکومت کا ہے۔‘
گو کہ چین نے پہلے کبھی بنگلا دیش کو کواڈ سے دور رہنے کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں کہا لیکن اس بارے میں کافی عرصے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کو اکتوبر ۲۰۲۰ء میں لی جیمنگ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکا مسلسل اپنے خفیہ عزائم کے تحت چاہ رہا ہے کہ بنگلا دیش کو بھی اس چین کے مخالف اتحاد کا حصہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اس وقت کے امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کی بنگلا دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد سے فون پر ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیا اور امریکا کے نائب وزیر خارجہ اسٹیفن بیگن کے بنگلا دیش دورے کی بھی نشاندہی کی۔
چینی سفیر نے کہا کہ ’کووڈ۔۱۹ کی وبا، چین اور امریکا کے درمیان شدید کشیدگی اور چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع نے بنگلا دیش کے لیے بیرونی ماحول کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔‘
چینی سفیر کے الفاظ ’ولف واریئر ڈپلومیسی‘ کی طرح ہیں جس میں پیغام رساں چین کے دفاعی اور تجارتی مفادات کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتا ہے۔ بھارت میں شائع ہونے والے اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے ۱۸ مئی کو لکھا کہ ’چینی سفیر نے اپنے میزبان ملک میں اتنا سخت رویہ کیوں اختیار کیا جب کہ بنگلا دیش نے چین کے لیے حساس موضوعات پر کبھی بات نہیں کی ہے۔ ڈھاکا اور کواڈ کے بارے میں بات کر کے چینی سفیر نے دراصل بنگلا دیش کے لیے ایک سرخ لکیر کھینچ دی ہے۔‘
ایک بنگلا دیشی اخبار نے یکم مئی کو ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ چین کے وزیر دفاع ویر فینگہی نے اس سال اپریل میں ڈھاکا میں بنگلا دیش کے صدر محمد عبداللہ حمید سے کہا تھا کہ چین چاہتا ہے کہ بنگلا دیش خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے چین کا ساتھ دے۔
دفاعی اور تجارتی مفادات
بنگلا دیش دفاعی ساز و سامان کی خریداری پر بڑی حد تک چین پر انحصار کرتا ہے۔ بھارت کے اخبار ’فنانشیل ایکسپریس‘ کے مطابق بنگلا دیش کا ۸۶ فیصد اسلحہ چینی ساخت کا ہے۔
وی فینگہی نے اپریل میں کہا تھا کہ چین اور بنگلا دیش کو ایسی طاقت کے خلاف متحد ہونا چاہیے جو باہر بیٹھ کر خطے میں اتحاد بنا رہی ہے۔ ان کا واضح اشارہ امریکا کی طرف تھا جس کی بنگلا دیش سے تعلقات بہتر کرنے میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۹ء میں بنگلا دیش نے امریکا سے اپاچی ہیلی کاپٹر اور میزائل خریدنے کے لیے بات چیت شروع کی تھی۔
ڈھاکا میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے کہا گیا کہ ’ہم ۲۰۳۰ء تک بنگلا دیش کی فوج جدید خطوط پر استوار کرنے کی خواہش کی حمایت کرتے ہیں۔‘
بنگلا دیش اور امریکا کے درمیان خفیہ معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے بھی مذاکرات ہو رہے ہیں جو کہ جنرل سکیورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ اور ایکوزیشن کراس سروسنگ ایگریمنٹ کے تحت ہو سکتا ہے۔
اس سال مارچ میں بھارت نے جو کہ کواڈ کا رکن ہے، اس نے بنگلا دیش کو ۵۰ کروڑ ڈالر مالیت کا اسلحہ خریدنے کے لیے قرضہ فراہم کیا تھا۔
کیا بنگلا دیش کواڈ کا رکن بنے گا؟
اگر کواڈ کے بارے میں بنگلا دیش کے حالیہ بیانات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ بنگلا دیش اپنی متوازن اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی جاری رکھے گا۔
بھارت بھی یہ کہہ چکا ہے کہ کواڈ کو وسعت دینے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق بنگلا دیش کے وزیر خارجہ نے چین کے وزیر دفاع کی طرف سے کواڈ کے حوالے سے جن توقعات اور امیدوں کا اظہار کیا گیا تھا ان پر کچھ نہیں کہا ہے۔
دریں اثنا چین نے جنوبی ایشیا کے ملک سے تعلقات کو مزید بہتر کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ چین کے وزیر دفاع نے اس سال اپریل میں بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی یاد میں تعمیر کیے گئے عجائب گھر پر بھی حاضری دی تھی۔ یہ چین کے کسی اعلیٰ اہلکار کا شیخ مجیب الرحمان کی یادگار پر پہلا دورہ تھا۔
بنگلا دیش کی چین مخالف اتحاد کا حصہ بننے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن چین کی طرف سے جاری کردہ تنبیہ سے لگتا ہے کہ چین چاہتا ہے کہ بنگلا دیش اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی ترک کر دے اور عالمی سطح پر امریکا کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے ساتھ آ کر کھڑا ہو جائے۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۱۰ جون ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply