
خارجہ پالیسی کے معاملے میں قائداعظم کا وِژن یہ تھا کہ امن سب کے ساتھ ہو، دشمنی کسی سے نہ ہو۔ فروری ۱۹۴۸ء کے ایک نشریے میں امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات میں غیروابستہ رہنا چاہیے۔
قائد کا کہنا تھا: ’’خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ سب سے دوستی ہو اور کسی بھی ملک کے خلاف ناپسندیدہ عزائم نہ رکھے جائیں۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت اور اصولی طریقِ کار اختیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہماری تمام مساعی سے عالمی امن کو یقینی بنانے میں مدد ملے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق زبوں حال اور جبر سے دوچار اقوام کی حمایت اور مدد سے کبھی گریز نہیں کرے گا‘‘۔
قائد نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو رہنما خطوط واضح کیے، اُن پر عمل کرنے سے پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے منشور سے ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی، بالخصوص عدم مداخلت، پُرامن بقائے باہمی، علاقائی سالمیت کے احترام اور دو طرفہ معاملات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے معاملے میں۔
قائد اعظم اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کو جمہوریت، رواداری، اقلیتوں کے احترام، سماجی انصاف، آزاد منڈی کی معیشت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور حقیقی امن و استحکام کے معاملے میں دنیا کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ اختیار کرنا چاہیے۔ قائد کی بصیرت کے مطابق پاکستان کی ممکنہ خارجہ پالیسی یہ ہوسکتی ہے کہ علاقائی سالمیت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی حقیقی آزادی کو بھی زیادہ سے زیادہ تحفظ دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایک جمہوری قوم میں تبدیل ہونے کے عزم پر کاربند رہتے ہوئے حقیقی علاقائی اور عالمی امن کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی جائیں۔
پاکستان کا محل وقوع اُس کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کے معاملات پر بھی نظر رکھے اور اپنے وجود کو بامعنی بنانے کے لیے کوشاں ہو۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کے محل وقوع کی روشنی میں ابھرنے والے چیلنجز کے تابع ہے اور ساتھ ہی ساتھ قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت بھی اوّلین حیثیت رکھتی ہے۔
قیام کے فوراً بعد سے پاکستان کی خارجہ پالیسی جن چار امور کے تابع رہی ہے، وہ کچھ یوں ہیں:
٭ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے وجود کو برقرار رکھنا اور استحکام کی منزل تک پہنچنے کی کوشش کرنا۔
٭ بھارت سے مناقشے جو ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہیں
٭ معاشی، سیاسی اور فوجی بقا کے لیے مغرب پر غیر معمولی انحصار
٭ اسلامی دنیا سے ٹھوس یکجہتی اور ہر اسلامی کاز کی بھرپور حمایت
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ علاقائی صورت حال، پڑوسیوں سے تعلقات کی نوعیت، قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی مساعی، محلِ وقوع کی نوعیت اور گوناگوں اندرونی مسائل کے باعث پاکستان کی خارجہ پالیسی اب تک غیر معمولی نشیب و فراز کی حامل رہی ہے اور یہ سب کچھ بہت حد تک بیلینسنگ ایکٹ کا درجہ اختیار کرتا رہا ہے۔ اس پورے عمل میں پاکستان کو کئی جنگیں بھی لڑنی پڑی ہیں اور اس کی علاقائی سالمیت بھی شدید متاثر ہوئی یعنی اپنے رقبے کے ایک بڑے حصے سے محروم بھی ہونا پڑا ہے۔ پاکستان دو لخت ہونے کے بعد اب تک ایک جارح اور مخاصمت پسند پڑوسی کے ساتھ جی رہا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کا محلِ وقوع غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ سرد جنگ کے اہم فریق سوویت یونین کو قابو میں کرنے اور بعد میں شکست و ریخت سے دوچار کرنے کا عمل ہماری سرزمین پر انجام کو پہنچا۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پروان چڑھا یا چڑھا دیا گیا کہ پاکستان مذہبی انتہا پسندی، تشدد اور عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے والی سرزمین ہے۔
نائن الیون کے بعد کی صورت حال میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے گراؤنڈ زیرو بن کر ابھرا ہے یعنی سب کچھ یہیں طے ہو رہا ہے اور یہیں انجام کو پہنچایا جارہا ہے۔ یہ شدید منفی تاثر پاکستان کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا رہا ہے اور اس کے لیے پالیسی آپشنز گھٹتے جارہے ہیں۔
کئی عشروں تک فوج کی حکمرانی، اداروں کی کمزوری، ہر طرف پھیلی ہوئی کرپشن، جرم پسندی، سرکاری مشینری کی نااہلی، معاملات کو درست کرنے کی ذہنیت اور قانون پر عمل کے رجحان سے یکسر گریز نے ہمیں سیاسی طور پر غیر مستحکم، معاشی طور پر کمزور، معاشرتی طور پر منتشر اور طبعی طور پر منقسم کردیا ہے۔
اندرونی مسائل نے پاکستان کی خارجہ پالیسی ہی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ عالمی سطح پر ملک کا تاثر بھی خطرناک حد تک کمزور اور خراب کردیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کی سطح کا اہم ملک قرار پانے کے بجائے آج ہم اپنی خارجہ پالیسی، عمل پسندی، مسائل اور ترجیحات کے اعتبار سے افغانستان کا ہم پلہ ملک قرار دیے جارہے ہیں۔ یوں پاکستان کا خطے کے اندر اور باہر وہ کردار نہیں رہا، جس کی توقع کی جاتی رہی ہے۔
ہم نے چھ عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران خارجہ پالیسی کے میدان میں بہت سے آپشنز پر عمل کیا ہے۔ مقصود صرف یہ تھا کہ ہم دنیا سے بہتر تعلقات کے حامل ہوں مگر اس نکتے پر کبھی غور نہیں کیا گیا کہ محلِ وقوع کے اعتبار سے ہم جیسے مشکلات سے گِھرے ہوئے ملک کے پاس خارجہ پالیسی کے حوالے سے زیادہ آپشنز نہیں ہوتے۔ چند برسوں کے دوران خطے میں ایسے معاملات ابھرے ہیں جن سے پاکستان کو ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہونے کا موقع ملا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس کی بقا اور استحکام کے حوالے سے بھی متعدد مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ بھارت اور امریکا کے تعلقات میں غیر معمولی استحکام اور وسعت، خطے میں بھارت کی مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن اور افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے پاکستان کے لیے مشکلات دوچند کردی ہیں۔
پاکستان کے لیے اس وقت خارجہ پالیسی کے میدان میں سب سے بڑا چیلنج اپنے محل وقوع کو حقیقی اثاثے میں تبدیل کرنا ہے۔ اسے اپنا امیج درست کرنا ہے تاکہ دنیا کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ ایک امن پسند اور دوسروں کو بھی پُرامن دیکھنے والا ملک ہے۔ پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل پر قابو پانا ہے۔ ایک اہم مسئلہ حکمرانی کا معیار بلند کرنے کا ہے۔ ہمیشہ دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے اپنے اندازِ حکمرانی میں کون کون سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ ہماری سیاسی ناکامیوں ہی نے حکمرانی کے پست معیار کو جنم دیا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔
حکمرانی کے گرتے ہوئے معیار ہی نے ہماری خارجہ پالیسی کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ملک اندرونی طور پر کمزور اور کرپٹ ہو اور بیرونی سطح پر اس کا امیج اچھا ہو اور وہ پڑوسیوں اور دیگر ممالک سے بہتر تعلقات کا حامل ہو۔ اگر کوئی ملک اندرونی طور پر کمزور اور مفلوج ہو تو وہ بیرونی طور پر کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ سوویت یونین جیسی سپر پاور بھی اندرونی کمزوریوں ہی کے باعث بقا کی جنگ ہار گئی۔
ہمارا سب سے بڑا چیلنج حکمرانی کا معیار بلند کرنا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور حقیقی احتساب یقینی بنائے بغیر ہم حکمرانی کا معیار بلند نہیں کرسکتے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں انصاف کو بھی یقینی بنانا ہوگا اور وہ بھی بلاامتیاز۔ اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے ہمیں انتہا پسندی، عسکریت پسندی، عدم رواداری اور عمومی تشدد پسندی کو خیرباد کہنا ہوگا۔
ہمارا سیاسی و سماجی ڈھانچا، سیاسی کلچر، ناخواندگی و افلاس اور دولت و اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم اس امر کی متقاضی ہیں کہ ہم اپنے سیاسی نظام میں جوہری تبدیلیاں لائیں۔ ہمیں اب اپنے فرسودہ سیاسی نظام کو ترک کرکے ایسا صدارتی نظام اپنانا چاہیے جو ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہمیں جاگیرداری کے مسئلے کو بھی حل کرنا ہے تاکہ صوبوں کے درمیان اختلافات اور علاقائی بنیاد پر عدم ہم آہنگی دور ہو۔
ہمیں خود انحصاری کی پالیسی اپنانی ہے۔ قرضوں پر انحصار کم سے کم کرنا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہماری تمام ضرورتیں ہمارے اپنے وسائل کے ذریعے پوری ہوں۔ پاکستان کو اللہ نے وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ ہمیں اپنے قدرتی وسائل اور افرادی قوت کا بھرپور استعمال کرنا ہے۔ زمین زرخیز ہے اور محنت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ سب سے بڑا سوال معاملات کو ہم آہنگ کرنے کا ہے۔ اگر قدرتی وسائل بروئے کار لانے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے اور افرادی قوت سے بہتر طور پر کام لیا جائے تو کوئی سبب نہیں کہ ملک تیزی سے استحکام کی منزل کی طرف نہ بڑھے۔
’’فرینڈز آف پاکستان‘‘ پر اندھا اعتماد لازم نہیں۔ اور یہ منطقی بھی نہیں۔ ہمیں اپنا دوست خود بننا ہے اور اپنے مسائل کو خود ہی حل کرنا ہے۔ اِسی صورت ہم اپنے مسائل کو حل کرنے اور تمام پیچیدگیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ کرپشن کو ہر مقام پر جڑ سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سرکاری ادارے سے اس لعنت کا خاتمہ لازم ہے۔
پاکستان کی علاقائی سالمیت کو ہر حال میں ہر قیمت پر اولین ترجیح دی جائے۔ پاکستان کی علاقائی سالمیت ہر صورت ہمارے لیے بنیادی فریضہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے نیا روڈ میپ تشکیل دینا ہے جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہو:
٭ قائداعظم کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں غیر جانبدار اور متوازن خارجہ پالیسی۔
٭ اقوام متحدہ کے منشور سے مکمل ہم آہنگی۔
٭ عالمی سطح پر منظور شدہ تمام حقوق اور آزادی سے متعلق اقدار کا مکمل احترام۔
پاکستان کو اپنے تمام پڑوسیوں بالخصوصی چین سے بہتر تعلقات استوار رکھنے ہیں اور اسلامی دنیا سے بھی رابطے بنائے رکھنے ہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستوں سے بہتر تعلقات بھی ہماری ترجیح ہونے چاہئیں تاکہ ہمہ گیر ترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔
پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی ایسی سرگرمی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جس کے نتیجے میں ملک کے لیے خارجہ پالیسی کے میدان میں غیر معمولی پیچیدگیاں پیدا ہوں۔ عسکریت پسندی کے لیے ہمیں زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کرنی ہے۔ عسکریت پسندی کو کسی بھی حال میں اور کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے بجائے اقوام متحدہ کے پرچم تلے عالمگیر امن کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ کسی بھی ملک کے لیے ناپسندیدہ صورت حال پیدا نہ ہو اور امن کے لیے اقدامات یقینی بنانے میں خاطر خواہ مدد ملے۔ ہم نے کشمیر پر اصولی مؤقف اختیار کیا ہے اور ہم اس کا پُرامن حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق چاہتے ہیں۔ جنوبی وسط ایشیا کے ممالک سے دوطرفہ اور خطے کی سطح پر ہر ایک کے لیے سودمند معاشی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سارک، ای سی او اور ایس سی او کا فریم ورک اپنایا جاسکتا ہے۔
ہمیں اپنے پڑوسیوں کو یاد دلانا چاہیے کہ ہمارے قائد نے ۱۹۴۷ء میں گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امن پسندی کی بنیاد پر استوار کرنے کا واضح اعلان کردیا تھا۔ گورنر جنرل بننے کے بعد بھی انہوں نے متعدد مواقع پر دنیا کو یقین دلایا کہ پاکستان ہر حال میں صرف امن کے لیے کام کرے گا اور اس سلسلے میں کبھی اپنے بنیادی اصولوں سے رو گردانی کا مرتکب نہیں ہوگا۔
ہمیں قائد اعظم کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں ایسی خارجہ پالیسی اختیار کرنی ہے جو کسی شخص کی پسند و ناپسند پر مبنی نہ ہو بلکہ ایک ادارے کی حیثیت سے مستحکم مقام رکھتی ہو۔ اسی صورت ہم بہتر انداز سے حکمرانی کے قابل ہوسکیں گے اور ہماری خارجہ پالیسی بھی تمام عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے گی۔ پاکستان کو ایک ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو اس کے اندرونی مسائل سے بہت زیادہ اثر نہ لے اور عالمی برادری کو بھی یہ بھرپور تاثر ملے کہ یہ ملک عالمی امن اور حقیقی استحکام میں اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور خواہش اور سکت رکھتا ہے۔
“Quaid’s vision of foreign policy”.
(“Business Recorder” Karachi. April 14, 2013)
Leave a Reply