سال ۲۰۰۱ء کے موسم گرما نے کئی شعلے بھڑکتے دیکھے۔ پہلی آگ نیویارک کی قسمت میں آئی جب اُس کے افق سوختہ ساماں نظر آئے۔ پھر افغانستان کی باری آئی اور اسے پتھر کے دَور میں واپس دھکیلنے کی خواہش میں امریکا اور اس کے حلیفوں نے انسانی تاریخ کی بدترین بمباری کی۔ اس آگ کی تپش پاکستان تک بھی پہنچی۔ جونہی امریکا کا چند حرفی پیغام آیا: ’’تم یا تو ہمارے ساتھ ہو، ورنہ دہشت گردوں کے ساتھی‘‘ تو پاکستان کا اسلامی امتیاز ہکلانے لگا، گویا اسلامی احساسِ فکر، اس کی روح میں اُتری ہوئی حقیقت نہ ہو بلکہ محض اتفاقی رویہ ہو۔
ہیئت مقتدرہ کی غیروں کی نگاہ میں بااعتبار رہنے کی تڑپ یا بالفاظ دیگر ’’تشخص کی زیردستی‘‘ ہر دوسری چیز ناپنے کا پیمانہ بن گئی۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ سیکولرازم کو اقتدار کے ایوانوں میں اتنی گستاخ اور توانا گونج اٹھانے کا موقع ملا ہو۔ کسی چینی یا جاپانی خاتون کی طرح جو سرجری قبول کرتی ہے کہ اس کا روپ آریائی ہو جائے، ہم نے تالیوں کی گونج میں نیا بہروپ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ کسی نے اسے ’’نیا ترقی پسند پاکستان‘‘ کہا اور کسی نے اسے ’’معتدل پاکستان‘‘ کا نام دیا۔
اس عمل کے دوران صاحبانِ اقتدار اور ان کے سیکولر ہم نوائوں کو یہ یاد نہ رہا کہ ایک ایسی قومی نفسیات سے کھیلنا جس کی جڑیں ایک توانا روایت میں پیوست ہوں اور اس کی جگہ ایک نئی ذہنی کیفیت پیدا کرنا، جس کا قومی تاریخ سے کوئی واسطہ نہ ہو، نری بربادی کا راستہ ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنے وجود کے اجزائے ترکیبی کو بھول جائیں۔ ان کی تاریخ، ان کے اطوار و روایات اور سب سے زیادہ محترم ان کی روح کی وہ سرگوشی کہ وہ دوسروں سے مختلف ایک منفرد تہذیبی مقام کی حامل قوم ہیں اور جس کی جداگانہ حیثیت اسلام کی عطا ہے۔ اس ترکیب کو نئی شکل دینے کا مطلب عوام الناس کی فطرت سے جنگ ہے۔ مسلمانوں کی اپنے عقیدۂ حیات سے بے پناہ محبت کہ جس نے انہیں اس جہانِ ہست و بود میں عزت اور سربلندی دی اور ان کے شرفِ انسانی کو سندِ جواز بخشا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بقراطی عقل کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کی اس ذہنی اور نفسیاتی ترکیب کو نئی شکل دینے کا مطلب عوام الناس کی فطرت سے جنگ ہے۔ لبرل ہیئتِ مقتدرہ جانتی نہیں، یا جانتے بوجھتے انجان بن رہی ہے کہ اسلامیت کو ختم کرنے کی یہ مشق ہماری قوم کو محض مشت خاک بنا دے گی۔ لیکن افسوس دوسروں کو خوش کرنے کی ترنگ نے ہر قدرِ خیر کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا۔
ان صورت گروں کو البتہ دو باتوں نے خوف زدہ کر رکھا ہے: قومی ہیئت کذائی میں اس نویلی تبدیلی کو کیسے برحق ثابت کریں؟ بعض نے کہا کہ نیم سیکولر نظم اپنالو اور اس بات کی پروا مت کرو کہ اس تشکیلِ نو کے لیے پیش کی جانے والی منطق کتنی بودی اور بے معنی ہے۔ دوسروں نے رائے دی کہ آزاد لبرل ازم کو گلے لگائو (گویا یہ زیادہ قابلِ قبول شکل تھی) لیکن اس کے خدوخال بیان کرنے کا تکلف مت کرو۔ ایک تیسرا حلقہ بھی ہے جس نے یہ دونوں اصطلاحات مترادف استعمال کیں۔ آخر میں ایسے بھی ہیں جو انہیں یوں پیش کر رہے ہیں جیسے لبرل ازم اور سیکولرازم اپنی اصل میں مختلف ہوں۔ پاکستان کی اس بزدلانہ اور بددیانت فضائے دانش میں، جہاں یہ سیکولر ہم سفر ابہام کو ترجیح دیتے ہیں، کوئی وضاحتی تعریف سامنے نہیں آتی کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنے حرفِ محبوب کی تشریح کر دی تو انہیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
چنانچہ انہوں نے قائداعظم کی ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا سہارا لیا، جسے یہ اکثر پارہ پارہ کر کے سناتے رہتے ہیں، تاکہ لوگوں کو یقین آجائے کہ قائداعظمؒ نے اپنی زندگی میں بس یہی کچھ فرمایا تھا۔ انہوں نے بعض منتخب حصے ایک طرف اٹھا کر رکھ دیے اور چند دل پسند پہلوئوں کی ملمع کاری شروع کر دی۔ حالانکہ قائد کے تصور اور شخصیت کو سمجھنے کے لیے مجموعی متن اور جدوجہد کے پورے منظر نامے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ مثلاً سیکولر طرزِفکر کے لوگ اسی امر واقعی سے صَرفِ نظر کرتے ہیں کہ قائداعظم کی سیاسی زندگی کم و بیش پچاس سال پر محیط ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے انہیں سُنا اور تشکیلِ پاکستان کے کاز میں ان کے ہم آواز اور ہم رکاب رہے۔ اور یہ سب کچھ دن کے اجالے اور تاریخ کی روشنی میں ہوا۔ صرف ۱۱؍اگست کی تقریر نہ تو یکتا تھی کہ قائداعظمؒ کسی اور موضوع پر نہ بولے ہوں اور نہ یہ ان کا آخری خطاب تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قائداعظمؒ نے ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کے عرصے میں ایسی ۹۰؍ اہم تقاریر کیں، جن میں انہوں نے مسلم عوام کو یقین دلایا کہ جو پاکستان وجود میں آرہا ہے وہ اسلامی ہوگا۔ ان کا ذیل میں قول دیکھیے:
’’پاکستان کا مطلب محض آزادی اور استقلال نہیں۔ اس کا مطلب مسلم نظریہ ہے جسے ہم نے بچانا ہے، جو ہم تک ایک بیش قیمت ہدیے اور خزانے کے طور پر منتقل ہوا، اور جس کے متعلق ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ اس سے مستفید ہوں گے‘‘۔
قائداعظمؒ نے یہ بھی فرمایا کہ مسلم لیگ پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہی ہے تاکہ مسلم عوام ’’وہاں اسلامی قوانین کے تحت حکمرانی کریں‘‘۔ دستور ساز اسمبلی کی نوعیت واضح کرتے ہوئے قائد نے فرمایا: ’’مجلس دستوریہ… مسلمانوں کے لیے ایسی قانون سازی کر سکے گی، جو شرعی قوانین سے متصادم نہیں ہوگی۔ مسلمان اب مزید مجبور نہیں ہوں گے کہ غیر اسلامی قوانین کا اتباع کریں‘‘۔
اب اگر سیکولر حلقہ یہ کوشش کرتا ہے کہ قائداعظمؒ کو ایک متلون مزاج شخصیت کے طور پر پیش کیا جائے، جس نے اسلامی پاکستان کے ضمن میں عوام سے کیا ہوا وعدہ گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کو اٹھا کر طاقِ نسیاں پر رکھ دیا تھا تو وہ اصلاً اخلاقی حوالے سے قائد کی کردار کشی پر تُلا ہوا ہے اور پوری ڈھٹائی سے ایسا کر رہا ہے۔
یہ کوئی ایک موقع نہیں جب سیکولر حضرات نے قائداعظمؒ کی توہین کی ہو۔ نہ انہوں نے اپنی ان کوششوں میں کمی آنے دی ہے کہ تحریکِ پاکستان میں رچا بسا اسلامی رنگ کھرچ کر رکھ دیں۔ علامہ اقبالؒ کی زندگی کا ایک واقعہ اس صورتحال کی وضاحت کر دیتا ہے۔ میاں افتخار الدین اور جواہر لال نہرو جیسے لادین ان کے پاس آئے اور انہیں قائل کرنا چاہا کہ وہ مسلمانوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں، کیونکہ مسلمان جناح سے زیادہ اُن کی عزت کرتے ہیں۔ علامہ مرحوم نے اس تجویز میں چھپا فتنہ بھانپ لیا کہ وہ قائد کے زیر کمان قائم مسلم اتحاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ غصے میں بھرے ہوئے علامہ نے جواب دیا: ’’مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں اور میں تو ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں‘‘۔ اقبال جو اسلام کے شیدائی تھے، جانتے تھے کہ ان کے اسلامی پاکستان کے خواب کی تعبیر قائداعظمؒ ہی کے ہاتھوں ممکن تھی۔ ارسطو کو سکندراعظم کی پشت پر کھڑا ہونا ہی تھا۔
قائداعظمؒ کے اسلامی جوہر کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے رتّی بائی سے شادی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ پہلے اسلام قبول کرے۔ پھر سول میرج کے بجائے اپنا نکاح ایک ’’مولوی‘‘ سے پڑھوایا۔ قائداعظمؒ نے اپنی اکلوتی بیٹی سے صرف اس لیے قطع تعلق کر لیا کہ اس نے ایک غیر مسلم سے شادی کرکے اسلام سے ناشائستگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ قائد کے سوانح نگار اسٹینلے ولپرٹ (Stanley Wolpert) انہیں ایک قدامت پسند انسان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ رتّی بیگم سے ان کی تفریق کی وجہ قائد کا روز بروز اسلام کی طرف رجحان تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے مذہبی بنیادوں پر اپنی قومیت کے اظہار پر نہ صرف اصرار فرمایا اور سیکولر ہند سے اس وقت اپنی راہ جدا کرلی، جب انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی حالت زار کا ادراک کرلیا۔ اس سے وابستہ یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ اسلامی نظام کی بقا میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ دیکھ رہے تھے۔ اس لیے جب انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان اسلامی طرز حیات کی تجربہ گاہ ہوگا تو مسلمان دیوانہ وار ان کی آواز پر لپک پڑے۔
سیکولر حلقے نے مسلمانوں کے اس تاریخی رویے کو یوں نظر انداز کیا جیسے یہ کوئی امر واقعہ نہ تھا بلکہ کوئی اضافہ تھا۔ وہ یہ سب کچھ نگل گئے۔ اُن کی یہ متشددانہ خواہش کہ کسی طرح مملکت پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے محروم کر دیا جائے، انہیں ہر قسم کے جھوٹ اور مکر پر مسلسل مجبور کر رہا ہے۔ وہ قرآن، حدیث نبوی اور پاکستان کی دستوری تاریخ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے تو عاجز ہیں، کیونکہ ان ماخذوں میں انہیں کوئی مفید مطلب نکتہ ہاتھ نہیں آرہا۔ آخری حربے کے طور پر صرف محمد علی جناح ہی کو سیکولر میک اپ دے کر کچھ سند جواز حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ لیکن یہاں بھی سوائے گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کی اکلوتی تقریر کے، جسے ان لوگوں نے پوری بے دردی سے سیکولر پس منظر میں رکھ کر دکھانے کی کوشش کی، باقی کچھ بھی عام لوگوں کے سامنے لانے سے قاصر رہے۔ معمار پاکستان نے انہیں بہت بُری طرح مایوس کیا۔
مثلاً، وہ قائداعظم کو ایک ایسا آزاد خیال باور کراتے ہیں جس کے پیش نظر ایک لادین سیکولر ریاست تھی۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو دستور کا حوالہ دیتے ہیں اور مملکت پاکستان کے اسلامی جوہر پر زور دیتے ہیں، وہ سب ان کی نگاہ میں ’’عقل و برہان کے دشمن‘‘ ہیں۔ ہر طرح کی حسیات کو پائے استحقار سے ٹھکراتے ہوئے ان لادینوں نے دستور اور اسلام کی بات کرنے والوں پر بہتان و دشنام کی بوچھاڑ کردی کہ یہ ’’جنونی‘‘ سر پھرے ہیں، ’’رجعت پسند‘‘ ہیں اور ’’ہٹ دھرم‘‘ ہیں۔
لیکن خود یہ لبرل ازم (آزاد روی، روشن خیالی وغیرہ) کیا بَلا ہے؟ جب یہ لوگ جناح صاحب پر لبرل ہونے کا ٹھپہ لگاتے ہیں تو وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ وہ اس کی کوئی وضاحت نہیں کرتے۔ لیکن جب تک لبرل ازم کی باقاعدہ تعریف متعین نہ کی جائے تو لفظ ’’لبرل‘‘ جیسا کہ یہ لبرل حضرات استعمال کرتے ہیں، محض ایک ڈھیلا ڈھالا اظہار رہے گا۔
یہ بات ایک رمزیہ مذاق سے کم نہیں لگتی، لیکن واقعہ یہی ہے کہ جب کُل ہند مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے پاکستان کا مطالبہ کیا تو ہندوئوں کو اس کی ہجو میں رجعت پسندی کی پھبتی ہی سوچھی تھی۔ جواہر لال نہرو نے انڈین کانگریس کے روبرو اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ عام مسلمان آبادی رجعت پسند نہ تھی کیونکہ وہ کانگریس کی ہم نوا تھی۔ نہرو کے بقول رجعت پسند سب کے سب مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔
۳۰ مارچ ۱۹۴۱ء کی اشاعت میں کانگریس پارٹی کے اخبار میں ہندوئوں کی ذہنی ترجمانی کرتے ہوئے ایک مضمون چھپا، جس میں انہوں نے واشگاف کہا: ’’دو باتوں پر کوئی مصالحت ممکن نہیں۔ ملک کی ایسی تقسیم ناقبول ہوگی جس سے جنونیوں (Fanatics) کے ارادوں کی تکمیل اور ان کے ذوق کی تشفی کا ساماں ہو‘‘۔
قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کے مدراس سیشن کے خطبۂ صدارت میں مذکورہ بیان کا تعاقب کیا اور ہندو سیکولر چیخ و پکار کی حقیقت اپنے مشہور زمانہ اسلوب بیان سے کھول کر رکھ دی، جو پوری تحریک کے دوران ان کا امتیاز رہا۔ قائد کے الفاظ تھے:
’’جب یہ لوگ تقسیم کا ذکر کرتے ہیں تو مسلمان کو جنونی بتاتے ہیں، لیکن جب یہ خود ہندو ازم کی بات کرتے ہیں تو اپنے آپ کو لبرل اور قوم پرست کا نام دیتے ہیں‘‘۔
فی الحقیقت برطانوی ہند میں یہ مسلم قومیت کا اسلامی چہرہ اور کردار ہی تھا، جس نے ہندو اور مسلمان میں مستقل جدائی ڈالی۔ قائداعظمؒ لالہ لاجپت رائے کے سی آر داس کے نام خط (دیکھیے اندرا پراکاش کی کتاب) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
رائے کہتا ہے: ’’میں نے گزشتہ چھ ماہ اپنا بہت سا وقت مسلم تاریخ اور مسلم قانون کے مطالعے میں صَرف کیا، اور میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہندو مسلم اتحاد نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی قابل عمل… میرا خیال ہے ان کا مذہب ایسی کوشش پر مؤثر روک لگاتا ہے… تمہیں میری حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر کچلو سے گفتگو یاد ہے، جو میں نے تمہیں کلکتہ میں سنائی تھی۔ ہندوستان میں حکیم اجمل خان سے زیادہ نفیس مسلمان کوئی نہیں، لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسامسلمان لیڈر موجود ہے جو قرآن کو پس پشت رکھ کر فیصلہ کر سکے؟ کاش میرا اسلامی قانون کا مطالعہ جو نتائج دے رہا ہے وہ صحیح نہ ہو‘‘۔
یہاں پہنچ کر قائداعظمؒ کا چہرہ ایک اندرونی تاثر سے جگمگا اٹھتا ہے۔ وہ ایک روشن چھب ڈھب کے ساتھ اپنی بنی سنوری مسکراہٹ لبوں پر لاتے ہیں اور ایک ڈرامائی توقف کے بعد کہتے ہیں: ’’میرا خیال ہے رائے کا مطالعہ بالکل صحیح ہے‘‘۔ (محفل میں زور دار قہقہہ)
یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ اُس تاریخی مکالمہ میں ہندو حضرات، قائداعظم کو الزام دیتے ہیں کہ وہ ’’رجعت پسند‘‘ تھے، کیونکہ وہ علاقے اور نسل کی بنیاد پر قائم قومیت کے لادین تصور کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
پھر یہ لبرل ازم ہے کیا جس کی تعریف سیکولر کھل کر نہیں کرتے؟
’’انسائیکلوپیڈیا آف سوشل سائنسز‘‘ میں گیدودی روگیرو (Guido De Ruggiero) لبرل ازم کا تعارف یوں کراتا ہے:
’’وہ گہرا پختہ رویہ جو پہلے سے طے کردہ مزعومات کی روشنی میں انسانی معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے انسانی معاشرہ کے مختلف النوع عقلی، اخلاقی، دینی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو مربوط دکھانے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔
چنانچہ لبرل ازم کے سامنے اپنا ہی ایک سماج ہے، جس میں انسان خود ہی خیر و شر کے درمیان ثالث اور حکم بنا بیٹھا ہوتا ہے جبکہ مذہب اور اخلاقیات کو کنارے لگا کر غیر منفعل بنا دیا جاتا ہے۔ دی روگیرو بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:
’’ایسی کسی مداخلت خواہ وہ اخلاقیات کی طرف سے ہو یا مذہب کی طرف سے یا پھر عقل، سماجی، اقتصادی اور سیاسی دائروں میں ہو رہی ہو، لبرل ازم نے ہمیشہ اپنی فوجیں صف آرا رکھیں‘‘۔
چنانچہ یہ لبرل اصطلاح کی تعریف نہیں بلکہ تحریف ہوگی کہ اسے ایک روشن خیال ذہن، ایک کھلے دل اور آزادی پسند روح ثابت کیا جائے۔ لفظ لبرل کے استعمال میں یہ تشکیلی انداز کچھ دکھانے سے زیادہ چھپانے کی کوشش ہوگی۔ ڈیوڈ سمتھ تو یہاں تک کہتا ہے: ’’آزاد رو اکثر مذہب (کے معاملے) میں غیر مقلد، بلکہ لادین اور متشکک (Skeptics)، یہاں تک کہ مذہب کے دشمن واقع ہوئے ہیں‘‘؟
کیا سیکولرازم اور لبرل ازم ایک ہی چیز ہیں؟ یہ دونوں باہم مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور یکساں بھی، حالانکہ اختلاف محض گردان میں ہوگا۔ دونوں ہی مذہب کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور انسانی زندگی میں خدا کے مرکزی کردار کے منکر ہیں۔ دونوں کو اصرار ہے کہ وہی ایسے طریق ہائے حیات ہیں جن پر کوئی حرف گیری نہیں ہوسکتی۔ مزید برآں یہ ہمیشہ سیکولر رواج اور مزاج رہا ہے کہ مذہب کو برداشت نہیں کرنا، بالخصوص جہاں مذہب پبلک معاملات میں کردار ادا کرنے اور خود ترجیحات متعین کرنے پرزور دیتا ہے۔ مغرب ہو یا مشرق، سیکولر ہر جگہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مکالمہ کے دروبست وہ خود طے کریںگے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کا زاویۂ نظر بھی خود ہی تخلیق کرتے اور بتاتے رہتے ہیں، بلکہ ان کے عقیدہ و نظریہ کے اجزائے ترکیبی بھی طے کر دیتے ہیں۔ امریکی اسکالر ایڈورڈ سعید جو خود بھی لبرل ہے، اس طرح کے رویوں کو زبردستی کی مشق کا نام دیتا ہے۔
روح قائد کو بے چین کرنے کے لیے یہ الزام عائد کر دینا کافی ہے کہ وہ سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اپنی ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کی وہ تقریر ضرور دہراتے جو انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے سامنے کی تھی۔ قائد نے کہا تھا:
’’وہ ایسے لوگوں (سیکولر پڑھیے) کو سمجھ نہیں پائے، جو جان بوجھ کر فتنے کھڑے کرتے ہیں اور پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شرعی بنیادوں پر تشکیل نہیں دیا جائے گا‘‘۔
یہ کہنے کے بعد اس خیال سے کہ کوئی ذرّہ بھر شک باقی نہ رہے، قائد نے ایک حتمی بات کہی:
’’اسلامی اصولِ حیات آج بھی ویسے ہی قابلِ عمل ہیں، جیسے ۱۳۰۰؍برس پہلے تھے‘‘۔
قائد کایہ خطاب گیارہ اگست کی تقریر کے بعد کا ہے۔
اس لیے سیکولر حضرات کے پاس اب دو ہی راستے ہیں:
٭ یا تو اعلان کر دیں کہ جناح نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے یا بعد میں اسلامی پاکستان کے حق میں کوئی تقریر نہیں کی تھی۔
٭ یا یہ مان لیں کہ قائد نے اسلامی پاکستان کا وعدہ تو کیا تھا، لیکن چونکہ گیارہ اگست والی تقریر ان کا آخری خطاب تھا، لہٰذا اس نے پہلی والی تقاریر پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔
پہلا رویہ تاریخ کے منہ پر کھلا جھوٹ ہوگا۔ دوسرا رویہ یہ اصول طے کرتا ہے کہ آخری بیان گزشتہ بیان کو منسوخ کر دیتا ہے۔ چنانچہ کیا سیکولر حضرات اپنے قائم کردہ معیار کی روشنی میں یہ ماننے پر تیار ہیں کہ جناح کی ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کی تقریر نے گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کے بیان کو بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے؟ بہتر ہو گا اگر یہ لوگ فیصلہ خود کر لیں۔
(بحوالہ: کتاب ’’سیکولرازم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ مصنف: طارق جان)
Leave a Reply