مصری فوج اور پولیس کی جانب سے ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء کو رابعہ العدویہ کے قتل عام کے چند ہفتوں بعد قاہرہ بیورو آف NPRکے ایک صحافی نے میرا انٹرویو کیا۔مجھے اس صحافی کا نام تو یاد نہیں لیکن میں وہ کہانی کبھی نہیں بھولوں گی جو اس نے مجھے ایک فوٹوگرافر کے بارے میں بتائی، جس نے ۱۹۸۹ء میں تیا ن من اسکوائر، بیجنگ کی کوریج کی تھی۔
اس فوٹوگرافر نے نہ صرف اپنی آنکھوں سے اس قتل عام کو دیکھا تھا، جو فوجیوں نے جمہوریت کے لیے تحریک چلانے والوں کا کیا تھا، بلکہ اسے ریکارڈ بھی کیا تھا۔اس قتل عام کے نتیجے میں سیکڑوں مظاہرین مارے گئے تھے۔اور یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ گرفتار ہونے سے بچ گئی تھی۔اس نے بعد میں بتایا کہ جتنی دیر میں، میں نے اس قتلِ عام کی تصویریں کیمرے سے نکلوا کر تیار کیں، اتنی دیر میں تیان من اسکوائر سے اس قتل عام کے تمام نشانات مٹا دیے گئے تھے۔اورٹیلی ویژن والے روزمرہ کے معاملات دکھا رہے تھے۔ایک موقع پر تو مجھے بھی ایسا لگا کہ اگر میں نے یہ منظر خود نہ دیکھا ہوتا تو شاید میں بھی شک میں پڑ جاتی کہ ایسا ہوا بھی ہے یا نہیں۔
لوگوں کے صدمے سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کے مختلف انداز ہوتے ہیں۔۲۰۱۳ء کے قتلِ عام سے کچھ دن قبل میں نے رابعہ اور النہضہ اسکوائر کا دورہ کیا تھا،جہاں اخوان المسلمون کی سربراہی میں احتجاجی کیمپ لگے ہوئے تھے۔یہ شدید گرمی کے دن تھے،اس وقت رمضان کا مہینہ چل رہا تھا اور مظاہرین سب روزے سے تھے۔ میں نے ان احتجاجی کیمپوں میں گھوم پھر کر دیکھا اور ان دہشت گردوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی، جن کے بارے میں ریاستی اور نجی ذرائع ابلاغ نے شور مچایا ہوا تھا کہ یہ لوگ خوف وہراس پھیلا رہے ہیں اور وہاں سے گزرنے والوں پر فائرنگ کر رہے ہیں،لیکن مجھے ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے اور ان کی بتائی ہوئی تمام باتیں غلط تھیں۔میں نے جو دیکھا وہ یہ تھا کہ کچھ ’’عام لوگ‘‘ کچھ ’’خاص کام‘‘ کر رہے تھے۔ حالات ان لوگوں کے خلاف ہونے کے باوجود وہ لوگ بغیر کسی خوف کے احتجاج کے حق کو استعمال کررہے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ۲۰۱۱ء میں تحریر اسکوائر کی جدو جہد سے جو کچھ قوم نے حاصل کیا تھا، اب سب اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ تحریر اسکوائر کی جدو جہد صرف اس لیے نہیں تھی کہ تیس سال سے موجود آمر اور اس کے کارندوں، جنہوں نے نوجوانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہواتھا اور وہ سب غربت کی چکی میں پس رہے تھے، ان سے نجات حاصل کی جائے۔بلکہ یہ جدوجہد تو دراصل جمہوری عمل کے آغاز اور تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کے لیے تھی،تا کہ ووٹ کا تقدس برقرار رکھا جا سکے اور اختیارات فوج سے لے کر سویلین حکومت کو منتقل کیے جا سکیں۔
کچھ دنوں بعد میں نے الجزیرہ سے اس حکومتی دعوے کی تصدیق کی کوشش کی، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ کہ وہ نہتے مرد، خواتین اور بچے اس پولیس اور فوج پر حملہ کرنا چاہ رہے تھے، جو ان کو بحفاظت وہاں سے نکلنے کا راستہ دے رہے تھے۔
باوجود اس کے کہ حکومتی اداروں نے سٹیلائٹ اسٹیشن پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کی،لیکن میں کچھ براہ راست تصاویر دیکھنے میں کامیاب ہو گئی۔ان تصاویر کے علاوہ کچھ ہی دیر میں یوٹیوب پر سینکڑوں کی تعداد میں ایسی ویڈیوز آنا شروع ہوئیں جو بالکل مختلف کہانی بیان کر رہی تھیں۔ان ویڈیوز میں لاشیں خون سے بھری ہوئی چادروں میں لپٹی ہوئی تھیں، جن پر پولیس نے بلڈوزر چلا دیا تھا،نوجوان رابعہ مسجد میں بننے والے عارضی ہسپتال میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے اور آخر کار اس مسجد کو جہاں بہت سے زخمی موجود تھے جلا ہی دیا گیا۔
پچھلے سال ۲۰؍اگست کو چھپنے والے اداریہ کے بعد سے میں نے لکھنا بند کر دیا تھا۔میں نے بغور دیکھا اور سنا کہ کس طرح فوج کی پروپیگنڈا مشین اور اس کے تربیت یافتہ اور نام نہاد لبرل میڈیا۱۴؍اگست کو ہونے والے واقعات کی حقیقت کو چھپانے کی مہم چلا رہے ہیں۔
میں نے غور کیا کہ کس طرح باقاعدہ ایک منصوبہ بندی سے ۵ جولائی کو جب اخوان المسلمون کے پرامن مظاہرین ریپبلکن گارڈ کلب کی عمارت کے سامنے احتجاج کر رہے تھے،جہاں ان کے خیا ل میں مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو قید میں رکھا گیا تھا،وہاں ایک پر امن احتجاج کرنے والے کو گولی مار دی گئی۔ تین دن بعد بالکل اسی مقام پر مزید قتل عام کیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پولیس اور فوج نے مل کر ۵ جولائی سے ۸ جولائی تک ۸۸ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس سارے واقعہ کو مقامی میڈیا میں بالکل بھی کوریج نہیں دی گئی۔ اس واقعہ کے فوراً بعد سے پروپیگنڈا مشین نے اپنا کام شروع کیا۔تمام غیر ملکی ذرائع ابلاغ (خا ص طور پر الجزیرہ)میں اس قتل عام سے متعلق آنے والی ویڈیوز کو من گھڑت اور غیر حقیقی قرار دینے کی بھر پور کوشش کی گئی۔اور عینی شاہدین کی بنائی ہوئی ویڈیوز کو اس پروپیگنڈا ٹیم کے ذریعے انٹر نیٹ سے ہٹانے کی کوششیں بھی کی گئی۔ اور آخر میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، جو لوگ یا تو کسی انسانی حقوق کی تنظیم سے وابستہ تھے، یا انہوں نے ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، ان کے حوالے سے بھی خصوصی منصوبہ بندی کی گئی۔
نیویارک ٹائمز میں ۶ جولائی کو ایک خبر چھپی، جس میں ایک اخبار کے رپورٹر کا بیان تھا، اس کے مدیر نے اپنے ملازمین کو سختی سے ہدایات دی ہیں کہ ’’مرسی کے حمایتی گروہ کو کسی بھی قسم کی کوریج نہ دی جائے اور مختلف کالموں میں پروپیگنڈا کیا جائے کہ اس فساد کے ذمہ دار اسلامسٹ ہیں‘‘۔ اداروں کو ہدایات دی گئیں کہ اگر آپ نے سرکاری موقف اور سرکار کی مرضی کے خلاف جانے کی کوشش کی تو نہ صرف متعلقہ چینل کادفتربند کر دیا جائے گا بلکہ ان کے دفاتر پر چھا پے بھی مارے جائیں گے۔ چوراہے پر وائٹ واش کا کام بھی بہت پھرتی سے کیا گیا۔ چوراہے کو صاف کر کے ایک ماہ کے اندر عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔مسجد کو ازسر نو تعمیر کر کے اسے سفید رنگ کر دیا گیا۔
قتل عام کی دوسری برسی پر حکومت نے را بعہ نامی اس چوراہے کو ہشام برکات (مشہور و معروف پراسیکیوٹر جنرل) کے نام سے منسوب کر دیا، جو جون ۲۰۱۵ء میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ ہشام برکات نے فوج کی جانب سے محمد مرسی کی برطرفی کے دس دن بعد یعنی ۱۰؍جولائی ۲۰۱۳ء کوپراسیکیوٹر جنرل کا عہدہ سنبھالا۔ان کے دور میں عدالتوں نے اخوان کے سیکڑوں ارکان کو سزائے موت کی سزاسنائی،واضح رہے کہ ان عدالتوں کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کٹھ پتلی عدالتیں قرار دیا۔
ہٹلر نے Mein Kampf میں لکھا ہے کہ ’’پروپیگنڈا ایک نظریہ کوعام لوگوں پر نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پروپیگنڈا عام لوگوں پر ایک مخصو ص نظریہ کی نمائندگی کرتے ہوئے کام کرتا ہے، اور ان لوگوں کو استعمال کر کے اپنے ہدف میں کامیابی حاصل کرتا ہے‘‘۔اس نظریہ کے ہی نتائج تھے کے ہٹلر نے جرمنی کے نازی کیمپ بنائے۔اور آج اسی نظریہ کے نتیجے میں ۴۰,۰۰۰ لوگ ظلم کا شکار ہو چکے ہیں،جن میں سے بہت سے لوگوں کو غائب کر دیا گیا،جس سے آخر کار دوبارہ سے خاموشی اور بے حسی کا کلچر فروغ پا گیا ہے۔ لیکن اپنے نازی ساتھی اور دوسرے فوجی آمروں کے برعکس، جنرل سیسی کی پروپیگنڈا مشین نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے، جہاں اسلامسٹوں کے خلاف ظلم کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔اورجب حالات خراب ہوتے ہیں تو پھر حکومت اس میں دخل اندازی کر کے ’’حالات بہتر‘‘ کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے عوامی رائے ہموار کی کہ صرف فوجی قیادت ہی مصر کو خوشحالی کی جانب لے جا سکتی ہے۔لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے،مصری عوام نے پچھلے چار سالوں میں نہ صرف غربت میں اضافہ کا سامنا کیا ہے بلکہ روزمرہ کے استعمال کی اشیااور پیٹرول کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں۔
ان کے پاس کوئی جذبہ نہیں کہ وہ ان سب نا انصافیوں پر سوچیں،یہ لوگ چار سال پہلے ہی مر چکے تھے۔
خوف کی فضا
میں اپنی تحریر کا اختتام اس واقعہ سے کرتی ہوں، جو آج کے مصر کے حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔یہ جولائی ۲۰۱۵ء کی بات ہے،جب فوجی بغاوت کی دوسری برسی قریب تھی۔اور میں اپنے سفید لباس میں قاہرہ کی کڑکتی ہوئی دھوپ کا سامنا کر رہی تھی۔میں ایک دستاویزی فلم پر کام کر رہی تھی جس میں ایک اکیس سالہ نوجوان نے قاہرہ میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم پر اپنے دفاع کے حق کا استعمال کیا تھا۔اس کے لیے مجھے چند سیکنڈکاایک کلپ بنانا تھا، جس میں ایک فرد زیر زمین اسٹیشن سے باہر آ رہا ہو۔
میرے پاس صرف ایک آئی فون تھا، جس سے مجھے وہ ویڈیو بنانی تھی۔میں نے میٹرو اسٹیشن کے خارجی دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر فلم بنانا شروع کی،تو تین منٹ سے بھی کم وقت میں کچھ لوگوں نے مجھ پر حملہ کر دیا،ان میں سے ایک خاتون تھی جو کم عمر کی لگ رہی تھی،مجھے اس کی شکل اب بھی یاد ہے۔ اس نے نہایت بلند آواز میں شور مچاتے ہوئے مجھ پر الزام لگانا شروع کر دیا کہ میں الجزیرہ چینل کے لیے جاسوسی کر رہی ہوں۔ وہ اس بات پر بضد تھی کہ مجھے پولیس اسٹیشن لے جایا جائے۔ میرے لیے یہ ایک خطرناک صورتحال تھی، میں نے گشت پر مامور ایک نسبتاً بزرگ آفیسر کو اپنی طرف متوجہ کیا،اس افسر نے محسوس کیا کہ اس خاتون کو اس ہجوم سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کا شناختی کارڈ اور موبائل فون لے لیا جائے اور اسے پولیس اسٹیشن لے جایا جائے۔
یہ ترکیب کا رگر ثابت ہوئی۔میں اس ساری کارروائی کے دوران دیکھتی رہی کہ کس طرح سول کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار میرے پرس کی تلاشی لے رہے تھے، میرے موبائل میں موجود تمام تصاویر دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ موبائل میں موجود صوتی پیغامات بھی سُن رہے تھے۔ اسی دوران، میں جب اپنے بارے میں ان کے فیصلے کا انتظار کر رہی تھی، ایک بوڑھا اور خوفزدہ شخص روتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ اس نے دو مشکوک افراد کو ریل پر چڑھتے دیکھا ہے۔ اس کو یقین تھا کہ وہ دہشت گرد ہیں۔
یہ ہے مصر کی موجودہ صورتحال،خوف میں جکڑا ایک بوڑھا فرد اور ایک مشتعل ہجوم۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Rabaa was a massacre of innocents Egypt must never forget”(“middleeasteye.net”. Aug.14,2017)
Leave a Reply