
یہودی اور غیر یہودی سب کو امریکا اور اسرائیل کے گناہوں پر شرمسار ہونا ہے، توبہ کرنی ہے اور رب سے معافی مانگنی ہے۔
امریکا اور اسرائیل نے مل کر جو کچھ کیا ہے، وہ ایسا ہے کہ اُس پر ہم سب، خواہ ہم مسلم، ہندو، عیسائی، بدھسٹ یا کچھ اور ہوں، سیکولر ہوں، لبرل ہوں یا کسی اور نظریے یا عقیدے پر یقین رکھتے ہوں، یہودیوں کے نئے سال کی آمد کے موقع پر اور اُن کی سالانہ مذہبی تعطیلات کے دوران جس قدر بھی شرمسار ہوں، کم ہے۔ جو کچھ بھی ہم امریکیوں کے اجتماعی مفاد کے نام پر امریکی حکومت اور اسرائیل نے مل کر کیا ہے، وہ ہمارے سَر شرم سے جھکا دینے کے لیے کافی ہے۔
عبرانی میں گناہ کے لیے لفظ “Cheyt” استعمال ہوتا ہے جس کا مفہوم ہے نشانے سے چُوک جانا۔ ہم سنے گاگ (Synagogue) میں عبادت کے دوران یہ کہتے ہیں کہ ہم روشنی ہیں، ابدی خیر ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم راہ سے ہٹ گئے ہیں، ہم نے اپنا اصل بھلا دیا ہے، روحانیت کا دامن ہم سے چُھوٹ گیا ہے۔ سچ یہی ہے کہ ہم نے اپنا بہت کچھ اچھا بھلا دیا ہے اور بُرے کا یا بُرائی کا دامن تھام لیا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں ساری بُرائیوں اور خرابیوں نے جنم لیا ہے۔ ہم نے جُھوٹ، مکر، فریب اور دغابازی کو اپنا لیا ہے۔ ہم نے اپنے تمام اُصولوں اور فلسفوں سے غداری کی ہے۔ ہم اپنے آپ کو بھلا دینے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
جب تک ہم توبہ نہیں کریں گے، اپنے گناہوں پر شرمسار نہیں ہوں گے، تب تک ہم میں تبدیلی کا جذبہ بھی پیدا یا بیدار نہیں ہوگا۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ہم بہتر محسوس کریں بلکہ ہمیں بہت سے معاملات میں اپنی روش تبدیل کرنی ہے، بہتر ہونا ہے، خود کو بدلنا ہے۔ ہر معاملے میں توبہ کا یہی مقصد ہوا کرتا ہے۔ ہمارے معاملے میں بھی توبہ یہی کردار ادا کرے تو بہتر ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کچھ بہتری آئے اور ہماری زندگی دوسروں کے لیے تبدیل ہو تو انٹرفیتھ اینڈ سیکولر ہیومنسٹ ویل کمنگ نیٹ ورک آف اسپریچوئل پروگریسیویس سے وابستہ ہوجایے۔ یہاں ہم ایک دعا بھی پیش کر رہے ہیں، جو آپ کو یہودیوں کی سالانہ تعطیلات کے دوران پڑھنی ہے تاکہ امریکا اور اسرائیل نے ہمارے نام پر جو گناہ کیے ہیں، اُن پر شرمسار ہونے اور کفارہ ادا کرنے کی کوئی سبیل نکلے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں اِس دنیا میں ہوا ہے اور جو کچھ اسرائیل نے کیا ہے، وہ غلط نہیں یا اُن کے ذمہ دار امریکا یا اسرائیل نہیں تو پھر آپ کو شرم سے سَر جھکانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ جو امریکی اقتصادی و عسکری پالیسی سے اور خفیہ اداروں کے ذریعے جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، اُن میں اسرائیل بھی شریک رہا ہے کیونکہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کو امریکی عوام کی کمائی سے لیے جانے والے ٹیکس سے امداد دی جاتی ہے۔ فلسطینی عوام کے لیے جو مشکلات اسرائیل نے پیدا کی ہیں، وہ امریکیوں کی کمائی سے ملنے والی امداد سے پیدا ہوئی ہیں۔
اگر آپ یہودی ہیں تو اپنے مقامی رَبّی سے کہیے کہ وہ اجتماعی عبادات کے وقت درج ذیل دعا بھی شامل کرے اور اگر وہ انکار کرے تو سنے گاگ میں کھڑے ہو کر یہ دعا پڑھیے جس طور قدیم ادوار کے انبیا ہیکل سلیمانی میں عبادات کے وقت دنیا کے گناہ گِنوا کر اُن پر توبہ کی تحریک دیا کرتے تھے۔
اپنے کیے پر شرمندہ ہونا اور خود کو بدلنے کی کوشش کرنا آسان نہیں ہوا کرتا۔ دنیا کو بدلنے کے لیے خود کو بدلنا پڑتا ہے اور یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اگر ہم تبدیل ہونا چاہتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح یہ کام خود ہی کرنا پڑے گا۔ اگر ہم خود کو بدلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اُن خرابیوں پر معافی مانگنی پڑے گی جن کا مآخذ ہم خود ہیں۔
آئیے، دعا مانگیں۔
اے رب! ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرما کہ تو ہی معاف کرنے والا ہے۔
اے رب! ہمارے گناہوں کو معاف فرما کہ ہم اپنے آپ میں اس قدر مگن ہوگئے ہیں کہ ساری دنیا اور انسانیت کی بھلائی کے بارے میں سوچنا ہی بھول گئے۔
اے رب! ہمیں معاف فرما کہ ہم بیرونی حقیقتوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے معاملے میں بہت کچھ غلط کرگئے اور روحانی سچائیوں کو یکسر فراموش کر دیا۔
اے رب! ہمیں معاف فرما کہ ہم امریکی عوام کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر افغانستان، عراق اور پاکستان پر حملے کر بیٹھے اور غیر معمولی تشدد کا سہارا لیا۔
اے رب! ہمیں اس بات پر معاف فرما کہ ہم نے افغانستان، عراق اور پاکستان پر، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے، حملے تو کیے مگر وہاں ہونے والی تباہی کے ازالے کے لیے تعمیرِ نو سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
اے رب! ہمیں معاف کر دے کہ ہم اپنے اُن لوگوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہ کر سکے جنہوں نے دنیا بھر میں امریکی حراستی مراکز اور امریکی سرزمین پر جیلوں میں قیدیوں پر غیر معمولی تشدد کیا اور اُن کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔
اے رب! ہمیں معاف کر دینا کہ ہم نے ماحول کو محفوظ تر بنانے کے حوالے سے اپنے منتخب نمائندوں پر دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ ایسے قوانین وضع اور نافذ کریں جن کی مدد سے کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر زہریلی گیسوں کے اخراج کا گراف نیچے آئے۔
اے رب! ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرما کہ ہم اپنے نمائندوں کو ملک کے بہترین مفاد میں کام کرنے کا پابند بناسکیں، نہ کہ بڑے اداروں کے مفادات کے لیے کام کرنے کا۔
اے رب! ہمیں معاف کر کہ ہم نے دنیا بھر کی دولت اپنے ہاتھوں میں جمع کرلی ہے اور دنیا بھر میں ڈھائی ارب سے زائد افراد انتہائی افلاس زدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
یارب! ہمیں عالمگیریت کی ایسی شکلوں کی حمایت کرنے پر معاف کردے، جن کی مدد سے دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوئی ہے اور دنیا بھر کے غریبوں کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
اے رب! ہمیں معاف کر کہ ہم اپنی حکومت کو اس بات سے نہ روک سکے کہ وہ غیر قانونی طور پر آنے والے تارکینِ وطن کو ان کے وطن واپس بھیج دے جبکہ وہ انتہائی پریشانی کی حالت میں ہم تک پہنچے تھے اور اس بات پر بھی ہمیں معاف کر کہ ہم یہ بھول گئے کہ ہماری اپنی سرزمین بھی تارکینِ وطن کے ذریعے ہی آباد کی گئی تھی۔ اور اے رب! ہمیں اس بات پر بھی معاف کر کہ غیر قانونی طور پر امریکا آنے والے افلاس زدہ تارکینِ وطن کی تمام مشکلات ہماری اپنی پالیسیوں ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ امریکی تجارتی معاہدوں اور دیگر جابرانہ دستاویزات ہی نے اَن گنت ممالک کے عوام کو شدید ترین مشکلات سے دوچار کیا ہے اور اب وہ دوسرے خطوں میں بہتر امکانات تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
الٰہی! ہمیں اس بات پر بھی معاف کر دے کہ ہم شدید نسل پرستی کی راہ پر گامزن ہوئے اور بالخصوص افریقی امریکیوں کے خلاف متحرک ہوئے جنہیں اپنے حقوق کے لیے بالآخر سڑکوں پر آنا پڑا اور لڑ جھگڑ کر اپنے حقوق حاصل کرنا پڑے۔
اے رب! ہمیں اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ شام، القاعدہ اور دیگر گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے لیے معاف کر دے کہ اُنہوں نے ہمارے مظالم کے جواب ہی میں تشدد کی راہ پر گامزن ہونے کا آپشن اپنایا۔
اے رب! ہمیں اس بات پر معاف کر کہ چند مسلمانوں کے انتہا پسند رویے کی بنیاد پر ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے بیٹھے ہیں اور اب بھی ڈرون حملوں کے لیے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ سب کچھ ہم محض شک اور خدشہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔
اے رب! ہمیں معاف کر دے کہ ہمیں زمین کے ماحول اور وسائل کی کچھ پروا نہیں۔ ہم اپنے سیارے کی حالت بہتر بنانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے اور پانی جیسی نعمت کو بھی چند بڑے اداروں کی ملکیت میں دینے پر تُلے ہیں تاکہ وہ اِسے اپنے منافع میں اضافے کے لیے استعمال کریں۔
الٰہی! ہمیں معاف کر دے کہ ہم دنیا کو بہتر بنانے کی مہارت اور سَکَت رکھنے کے باوجود ایسا کچھ نہیں کر رہے جس سے اربوں انسانوں کے لیے جینا سہل ہو اور وہ بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اے رب! ہمیں معاف کر دے کہ ہم دنیا میں استحصال اور تشدد میں اضافے کا باعث بنے ہوئے ہیں جبکہ ہم غریبوں اور نوجوانوں کے لیے بہتر امکانات تلاش کرنے میں ان کی بہتر انداز سے مدد کرنے کی اہلیت اور سکت رکھتے ہیں۔
یارب! ہمیں معاف کر دے کہ ہم نے مالداروں پر زیادہ ٹیکس نہیں لگایا اور فوجی اخراجات بڑھائے جس کے نتیجے میں ہم غریبوں کے حالات بہتر بنانے کے قابل نہیں ہو پائے۔
یارب! ہمیں معاف کر دے کہ ہم نے اپنے اہل خانہ اور احباب کو وہ محبت نہیں دی جو انہیں درکار تھی اور جس کی مدد سے ان کی زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوسکتی تھیں۔
(“Rabbi to Jews: Atone for Israels Sins! “The Daily Beast” New York. Sep. 24, 2014)
Leave a Reply