
امریکی عوام نسل پرستی سے اتنے باخبر ۱۹۶۰ء میں نہیں تھے جتنے آج واضح طور پر وہ نسل پرستی اور اس کے نقصانات سے آگاہ ہیں۔ ’’بلیک لائف میٹر‘‘ـ تحریک نے امریکی عوام کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ افریقی امریکیوں کے ساتھ برسوں سے قائم متعصبانہ رویے اور نفرت کواب ختم کرنے کی ضرورت ہے، نتیجے کے طور پر امریکا کے نوجوان اب اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ان کی سوسائٹی ’’کلر بلائنڈ‘‘ ہے جیسا کہ پانچ دہائیوں قبل شہری حقوق کی تحریک ’’بلیک لائف میٹر‘‘ کی وجہ سے لاطینی، مقامی امریکی، امریکا میں رہنے والے مسلمانوں اور سیاہ فام امریکیوں کے خلاف نظام کی وجوہات سامنے آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ بھی نسل پرستوں نے متعصبانہ رویہ رکھا اور فلسطینیوں کو امریکا کے ذرائع ابلاغ میں، سیاست میں اور نصابی کتابوں میں نفرت زدہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔
نوجوان اور ترقی پسند طبقہ جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطینیوں کی آواز کو دنیا بھر میں پہنچایا ہے اب کسی طور بھی امریکی سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کو بغیر کسی دلیل کے قبول نہیں کریں گے۔ نوجوان طبقہ یہ سمجھ چکا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ فقط پیچیدہ نہیں یہ اس سے کہیں بڑھ کر نسلی منافرت کی شکل اختیار کرچکا ہے، ترقی پسند امریکی طبقے کو امریکا کے ماضی کے نوآبادیاتی نظام اور فلسطینیوں پر توڑے جانے والے ظلم میں مماثلت نظر آتی ہے۔
فلسطین کے مقامی صحافیوں (جنہوں نے غزہ کے حقیقی حالات دنیا کو دکھائے) کی وجہ سے امریکی عوام اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ امریکی امداد ایک منظم طریقے سے اسرائیل کو فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مدد فراہم کررہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے امریکا میں سیاہ فام امریکیوں کے خلاف عسکریت پسندی اور نسل پرستی کو استعمال کیا جاتا ہے۔
مقبوضہ مشرقی یروشلم سے فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کیے جانے پراور غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیلی فوج کی بمباری نے امریکا میں اسرائیل کے بارے میں رائے عامہ کو بتدریج تبدیل کردیا ہے۔
اس موضوع پر ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۱ء جب رائے شماری ہوئی تو زیادہ تر لوگوں نے اسرائیل کے حق میں بات کی۔ گیلپ سروے کے مطابق پچاس فیصد امریکیوں کی ہمدردی اسرائیل کے ساتھ تھی جب کہ بیس فیصد فلسطین کے ساتھ تھے، لیکن اگر ہم اسے سیاسی تنظیموں کے طور پر دیکھیں تو ’’اسی فیصد‘‘ ریپبلکنز نے اسرائیل کے حق میں رائے دی جب کہ ’’ساٹھ فیصد‘‘ ڈیمو کریٹس نے اسرائیل کی حمایت کی تاہم ’’سات فیصد‘‘ ریپبلکن اور ’’چوبیس فیصد‘‘ ڈیموکریٹس کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ تھیں۔
۲۰۱۸ء جنوری میں کی جانے والی پیو ریسرچ کے مطابق مزید ’’پچیس فیصد‘‘ ڈیموکریٹس اب فلسطین کی حمایت کرتے ہیں جب کہ ریپبلکن ابھی تک ’’اناسی فیصد‘‘ کے ساتھ اسرائیل کو پسند کرتے ہیں، یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پردونوں سیاسی جماعتوں کے خیالات کے درمیان ایک واضح فرق موجود ہے۔
رائے شماری کے سال اتفاقاً طے نہیں ہوئے بلکہ ۲۰۱۸ء وہ سال ہے جب ٹرمپ صدر تھے اس وقت امریکا کی مرکزی سیاست پر دائیں بازو والے حاوی تھے، اس دوران امریکی پولیس افسران نے نہتے سیاہ فام امریکیوں کو قتل کیا اور یہ ویڈیو وائرل ہوئیں۔ اس رائے شماری میں امریکیوں نے ان فرسودہ نسل پرست تصورات کو غلط قرار دیا، جن کے مطابق سیاہ فام امریکی خطرناک، پُرتشدد اور جارحانہ طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔
اس دوران ٹرمپ نے مسلمانوں پر پابندی عائد کی، امریکی پناہ گزینوں کے خاندانوں کو سرحدوں پر تقسیم کر دیا، بغیر کسی حیل و حجت کے نسل پرستانہ رویے کی مرحلہ وار ترویج کی۔ غیر متعصبانہ تحریک اب مقامی سیاست میں ڈیموکریٹ کے کسی بھی ــ’’اندھے تصور‘‘ کو برداشت نہیں کرے گی۔
اس کے نتیجے میں ترقی پسندوں کے لیے حمایت کی ایک لہر بیدار ہوئی، ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں کانگریس میں ترقی پسند امیدواروں کو منتخب کیا گیا۔ امریکی قانون سازی کے یہ منتخب ارکان اپنے حلقوں کی طرف سے واضح اکثریت رکھتے ہیں اور اسی لیے وہ اس بات کے پابند ہیں کہ مظلوموں کی آواز بنیں، نسل پرستی کو ختم کریں نہ کہ صرف اصلاحات کے نام پر گورکھ دھندہ کریں۔
انہی حلقوں کی طرف سے یہ دباؤ بھی ہے کہ فلسطین کے خلاف جرائم کے لیے اسرائیل کو کھلی چھٹی نہ دی جائے۔ مارچ میں ہونے والے مطابق عمومی افراد کے ایک سروے میں ۳۴ فیصد افراد نے اس بات کے حق میں فیصلہ دیا کہ اسرائیل کو فلسطین کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہیے جبکہ ۵۳فیصد ڈیموکریٹ کی رائے بھی یہی تھی۔ یہ رائے شماری ۲۰۱۸ء میں ۲۵ سے ۳۰ فیصد رہی۔ یہ بدلتا رویہ امریکی الیکٹوریٹ کے ترقی پسند اراکین کی وجہ سے پروان چڑھا ہے، جنہوں نے بغیر کسی شرائط کے اسرائیل کو دی جانے والی امداد پر کڑی تنقید کی ہے اور غزہ میں جاری حالیہ اسرائیلی دہشت گردی، گھروں سے جبری بے دخلی اور معصوم شہریوں کے قتل کی بھی مذمت کی ہے۔
۱۳ مئی کو کانگریس کی نمائندہ الیگزینڈر اوکاسیو نے کانگریس میں بائیڈن پر کڑی تنقید کی، انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ــصدر بائیڈن اور دوسرے لوگوں کا یہ جملہ پورے وجود میں گونجتا ہے کہ اسرائیل کو زندہ رہنے کا حق ہے، لیکن کیا فلسطین کوبھی زندہ رہنے کا حق ہے؟ کیا ہم اس پر یقین رکھتے ہیں، اگر ہمیں اس پر یقین ہے تو ہماری ذمہ داری اس حوالے سے بھی اسی طرح بنتی ہے‘‘۔
ایوان کی نمائندہ راشدہ طلیب جو امریکن کانگریس میں پہلی منتخب فلسطینی ہیں نے امریکی حکومت پر فلسطینیوں کی زندگی کو شدت سے نظر انداز کرنے کی سخت مذمت کی ہے انہوں نے ایوان نمائندگان سے یہ سوال کیا کہ ’’کتنے ہی فلسطینی ہیں جنہیں اپنی زندگی کے لیے اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا، انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کی آزادی پوری دنیا کو ظلم کے خلاف جنگ کے لیے اکٹھا کرتی ہے‘‘۔
راشدہ طلیب کے اس بیان نے امریکی نوجوانوں اور مختلف قومیتوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام ترقی پسندامریکیوں کو اپنی گرفت میں لے لیا، جب انہوں نے یہ کہا کہ ’’ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارا ملک اسرائیل کے ساتھ غیر مشروط تعاون کرکے فلسطینیوں کی زندگی کو مٹانے کے قابل ہوگیا ہے‘‘۔
عوامی بیانات کے ساتھ ساتھ کانگریس کے ۲۱؍اراکین نے ’’اسرائیلی فوجیوں کے زیر قبضہ زندگی گزارنے والے فلسطینی بچوں اور فلسطینی خاندانوں کے لیے انسانی حقوق کے دفاع‘‘ کے بِل کی حمایت کی ہے۔ یہ بِل واضح کرتا ہے کہ اسرائیل کو امریکی امداد لینے کے لیے کن کن شرائط کو پورا کرنا ہوگا، اس بِل کی حمایت کرنے والے معروف رُکن بیٹی میکلن نے بل کے پیچھے بل کا مقصد تحریر کیا ہے کہ ’’اسرائیل اب مزید ایک امریکی ڈالر بھی فلسطینیوں کے مکانات مسمار کرنے، فلسطینی بچوں پر تشدد یا ان کو قتل کرنے یا فلسطین کی زمین پر جبری قبضہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا‘‘۔
ایوان نمائندگان کی جانب سے اس طرح کے بیانات پانچ سال پہلے سنے گئے تھے، فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو بغیر کسی دلیل کے ’’یہودی مخالفت‘‘ کے برابر لاکر کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کا دباؤ ابھی موجود ہے لیکن نسل پرستی کے بارے تبدیل ہوتے رویوں نے فلسطین کے حق میں رائے عامہ کوتبدیل کردیا ہے۔
اکیسویں صدی میں ’’یہودی مخالف تحریک‘‘ کی بے دردی سے استعمال ہوتی اصطلاح نے امریکیوں کو یہ بتادیا ہے کہ سیاست اور معیشت میں میڈیا کی طاقت کے ذریعے جوڑتوڑ کرتے ہوئے لوگوں پر ظلم کس طرح کیا جاتا ہے، جبکہ اسی دوران دوسروں پرظلم کا الزام لگا کرخود کو مظلوم بھی ثابت کیا جاتا ہے۔ کئی عشروں سے فلسطینیوں کو اسی طرح سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا امریکی خارجہ پالیسی میں اب فلسطینیوں کی زندگی کو کوئی اہمیت دی جاسکے گی؟
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Racial reckoning is shifting US public opinion on Palestine”. (“aljazeera.com”. May 20, 2021)
Leave a Reply