انڈیا انقلاب کے دوراہے پر ہے۔ اس لیے کہ جو آدمی رہنمائی کر رہا ہے وہ نہ تو کوئی جذباتی نظریاتی ہے اور نہ ہی کوئی عسکری گوریلا۔ بلکہ وہ دنیا کے ایک مشہور اور نامور سیاسی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ یہ ۳۸ سالہ راہول گاندھی اس موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ جس نے اسے قوت اور اختیار دیا۔ پہلی ترجیح میں وہ ۱۲۵ سالہ قدیم انڈین نیشنل کانگریس کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تنظیم جس کی بنیاد ان کے دادا جواہر لال نہرو، ان کی دادی اندرا گاندھی اور ان کے والد راجیو گاندھی نے رکھی اور اب جو کہ ان کی والدہ سونیا گاندھی کی سربراہی میں انڈیا کی نمایاں اور باوقار سیاسی تنظیم کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن راہول کی تدبیریں نہایت ماہرانہ ہیں۔ وہ نچلی سطح پر فعال ہونے اور کام کرنے پر زور دے رہے ہیں انڈیا کے دیہی علاقوں سے تعلق جوڑ رہے ہیں اور کانگریس پارٹی کے اپنے پیروکاری نظام کو جمہوری طرز پر ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں اور واقعی یہ سب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انڈیا بہت جلد ایک بہت بڑی سیاسی تبدیلی کی طرف جائے گا اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بہترین نمونہ رہنمائی بنے گا جو کہ ایک فلاحی حکومت کی کامیاب جمہوریت اور معاشی استحکام کا ملاپ ہو گا۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو راہول اپنے سیاسی مستقبل کو اس قوم کے سربراہ کی حیثیت سے یقینی بنائیں گے۔
راہول پہلے ہی پورے ملک میں جانے جاتے ہیں جیسا کہ انہیں گزشتہ انتخابات میں کانگریس کی بھرپور فتح سے نمایاں شہرت حاصل ہوئی۔ صرف یہ وجہ نہیں کہ وہ جنرل سیکرٹری تھے بلکہ انہوں نے انتخابات کی مہم کے دوران ۱۲۵ ریلیوں سے ۶ ہفتوں کی مدت میں خطاب کیا۔ جبکہ ان کی والدہ نے ۷۵ اور وزیراعظم من موہن سنگھ نے ۵۰ خطابات کیے۔ وہ اس مہم کی حکمت عملی بنانے میں بھی پیش پیش رہے۔ کانگریس کو ملک کی قومی جماعت کے طور پر اس طر ح پیش کرنا کہ جو سیکولرازم، فلاحی حکومت اور ترقی کی بات کرتی ہے راہول گاندھی کی یہ سوچ خطروں سے دور نہیں البتہ یہ سب ان کی والدہ سونیا گاندھی کی تائید کردہ تھی۔ لیکن یہ تدبیریں انڈیا کی ۲۰ سالہ مرکزی سیاست سے بہت متضاد تھیں کہ جہاں تنظیمیں رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر عروج پر تھیں۔ اس دور میں کانگریس نے اپنے وقار، عروج، طاقت اور پیسہ حاصل کرنے کے لیے ان تمام علاقائی گروپوں سے اتحاد بنائے۔ لیکن علاقائی سیاست کو ان رنگ و نسل کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں کے حوالے کرنے کی اس حکمت عملی نے کانگریس کے قومی طاقت ہونے کے تاثر کو کافی حد تک کم کیا۔ راہول پُراعتماد تھے کہ کانگریس کی سابقہ قوت کو بحال کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انتخابات خودمختار ہو کر لڑے جائیں خصوصاً اترپردیش اور بہار میں جو کہ کل ۱۲۰ نشستیں بنتی ہیں اور انڈین پارلیمنٹ لوئر ہائوس کی ۵۴۳ نشستوں میں ہر سیاسی تنظیم کے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔
انتخابات سے پہلے یہ ایک عام خیال تھا کہ راہول کا اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ ایک بہت بڑی غلطی ہو سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا جسے سب نے دیکھا۔ کانگریس نے اترپردیش میں اپنی ۹ سابقہ نشستوں سے بڑھ کر ۲۱ نشستیں حاصل کیں اور اسی طرح دیگر حلقوں میں بھی کانگریس نے نمایاں برتری حاصل کی۔ گو کہ بہار میں صرف دو نشستیں حاصل ہوئیں لیکن وہ ان نسل پرست تنظیموں کے ووٹوں سے دور رہنے میں، مضبوط علاقائی سیاست اور ان اتحادیوں کی اہمیت کو کم کرنے میں کامیاب رہے۔ بہرحال کانگریس نے عوامی رائے دہی کو اپنی طرف جھکایا اور نتیجہ سب نے دیکھا۔ سینٹر فار پالیسی ریسرچ دہلی کے صدر پراتاب بھانو کہتے ہیں کہ یہ سب راہول گاندھی کے مرہون منت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس نے اپنے مخالفین کی محدود نسل پرست علاقائی سیاست سے بالاتر ہو کر ثابت کر دیا کہ انڈیا کے عوام تحمل ، رواداری اور جامعیت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔
راہول نے نوجوان نمائندوں کو انتخابات میں کھڑا کر کے اس تاثر کو بھی ختم کیا کہ جہاں عمر کو ملحوظ رکھا جاتا تھا اور عمومی طور پر ۸۰ سالہ سیاست دان ہی نظر آتے تھے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس ملک میں ۷۰ فیصد آبادی ۲۵ سے ۴۰ سال کے لوگوں پر مشتمل ہے لہٰذا نوجوانوں کی سیاست کامیاب ہو گی اور یہ بات ثابت ہوئی۔ اس کے کئی نئے چہروں نے کامیابی حاصل کی اور ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو کہ پارٹی میں ایک آزاد اور جمہوری نظام کے تحت اوپر لائے گئے تھے اور کانگریس کے عمومی چمچوں سے زیادہ عوام سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔
ان کامیاب نمائندوں میں ایک مثال مینا کشی نتراجان کی ہے جو کہ بائیوکیمسٹری میں گریجویٹ ہیں اور راہول کے قریبی احبابوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم مدھیا پردیش کے ایک چھوٹے گائوں رتلم سے مکمل کی۔ نترا جان ایک مثالی انڈین سیاستدان سے زیادہ مختلف نہیں ہو سکتیں۔ ان کے خاندان میں سیاست سے کبھی بھی کسی کا تعلق نہیں رہا وہ عام پبلک بسوں میں سفر کرتی ہیں اور دہلی میں ایک چھوٹے سے کرائے کے اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت طلباء میں صلاحیتیں پیدا کرنے اور نوجوانوں کا پارٹی سے تعلق پیدا کرنے میں صَرف کرتی ہیں۔ ایسا انڈیا میں کبھی دیکھا نہیں گیا کہ جہاں سیاسی نمائندے ۲۰ گاڑیوں اور سیکڑوں سیاسی کارکنوں اور محافظوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ نترا جان کا کہنا ہے کہ اس دنیا نے ہمارے کانگریس کے نوجوانوں کی تنظیموں کو جمہوری اور عوامی بنانے کے اس ابتدائی اقدام کو نہیں سمجھا‘‘۔ لیکن ووٹرز نے ایسا نہیں کیا سیاسی تجزیہ نگار راجیو دیسائی کہتے ہیں کہ ’’راہول نئے خیالات، قابلیت اور نوجوان صلاحیت کے لیے ایک جگہ پیدا کر رہا ہے، اگر یہ ایسا کر سکے تو یقینا اس سے پارٹی میں پرانے لوگوں کا او رپائور بروکرز کا تاثر ختم ہو جائے گا‘‘۔
انتخابات ہی سے کانگریس میں اس بات پر زور دیا جانے لگا کہ راہول کابینہ کی ایک نشست لیں اور خود وزیراعظم بنیں۔ یہاں تک کہ من موہن سنگھ نے بھی یہی کہا کہ وہ سونیا گاندھی کو مائل کریں اور حکومت میں خود شامل ہوں۔ لیکن راہول نے شائستگی کے ساتھ اس پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ فی الحال صرف اپنی پارٹی پر توجہ رکھنا چاہتے ہیں۔ جس سے راہول کے عوامی تاثر کو تقویت ملی۔ سام پترودا راہول کے قریبی احباب ہیں جو کہ انڈیا کے ٹیلی کام انقلاب کے بانی مانے جاتے ہیں اور آجکل ملک کے نیشنل نالج کمیشن کے سربراہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’راہول یہاں قلیل المیعاد مقاصد کے لیے نہیں ہیں بلکہ وہ طویل مطمع نظر اور ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ محنت کرنے والا، تجزیاتی انداز سے سوچنے والا، اصول پسند اور حلیم انسان ہے‘‘۔
بدقسمتی سے راہول گاندھی اس وقت میں اپنا کردارادا نہیں کر سکے کہ جب علاقائی اور طبقاتی سیاستدان، مفاد پرست اور بددیانت لوگوں کی موجودگی میں کانگریس پارٹی کو کئی سالوں سے اپنی تنظیم اور مہم کو چلانے کے لیے ناجائز پیسوں پرانحصار کرنا پڑ رہا تھا۔ جبکہ دیگر جماعتیں تو اس سے بھی بری حالتوں میں تھیں جو کہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھیں جو لوگوں میں خوف اور نفرتوں کو پھیلا کر رنگ، نسل، مذہب کی تفریق کو مضبوط کرتے تھے ان کی مہمات کے نعرے عموماً منفی اور تفریق پر مبنی ہوتے تھے اور سیاست دان حکومتی وسائل کو استعمال کرنے، اپنی تجوریاں بھرنے اور رشوت خوری کی وجہ سے بدنام تھے۔ بہرحال اب انڈیا میں ایسے بھی شہری ہیں جو کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور ایسے بھی علاقے ہیں جو غریبوں اور مفلسوں پر مشتمل ہیں۔ ابھی بھی اس ملک کے ۲ء۱ بلین عوام کا پچاس سے زائد فیصد حصہ ایک دن میں ۲۰ پیسے پر زندہ ہے۔ کانگریس پارٹی کے جس نے ۶۲ سالوں میں ۴۵ سال انڈیا پر حکومت کی گزشتہ دو دہائیوں سے اپنے سب سے بڑے حریف مسلم مخالف ہندو قوم پرست بھارتی جنتا پارٹی کے مقابلے میں آہستہ آہستہ میدان چھوڑ رہی ہے۔ لہٰذا حکومت کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی خاطر کانگریس مجبوراً چھوٹی تنظیموں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی تھی۔
راہول گاندھی نے اپنی جماعت کی اس تنزلی اور پستی کو ہمیشہ گہری نظروں سے دیکھا۔ اس کی اپنی زندگی بھی نعمتوں اور حادثات دونوں پر مشتمل تھی۔ وہ صرف ۱۴ سال کا تھا جب دادی کو ۱۹۸۴ء میں ان کے اپنے ہی سکھ محافظ نے قتل کیا اور اس کے فوراً بعد ہی راہول اور اس کی چھوٹی بہن پریانکا نے اپنے آپ کو سیکورٹی کے خول میں بند پایا اور اپنے بچپن کی بے غم و بے فکر زندگی جو انہوں نے گزاری تھی اسے بھلا دیا۔ اس کے بعد تقریباً سات سال ہی گزرے تھے کہ ان بچوں نے اپنے باپ راجیو گاندھی کو کھو دیا۔ راجیو ایک ایئر لائن میں پائلٹ تھے اور اس نوکری کو چھوڑ کر سیاست میں داخل ہوئے تھے۔ راجیو گاندھی کو ۱۹۹۱ء میں جنوبی انڈیا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران تامل خودکش حملہ آور نے ہلاک کیا۔
حفاظتی اقدامات کے لیے راجیو گاندھی کو ایک اسکول سے دوسرے اسکول منتقل کرنے کے بعد آخر کار امریکا بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے رولنس کالج سے گریجویٹ کیا اور پھر کیمبرج یونیورسٹی سے ڈیولپمنٹ اسٹڈیز میں ایم فل کیا۔ اس کے بعد ۳ سال تک انہوں نے لندن میں ایک نجی کمپنی میں کام کیا اور ۲۰۰۲ء میں انڈیا واپس آئے۔
راہول گاندھی کی عدم موجودگی کے اس دور میں اور کانگریس کی خستہ حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے کافی استحکام حاصل کیا اور دیگر فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ اتحاد کر کے مزید قوت حاصل کی جبکہ کانگریس اپنی اصل حیثیت اور قوت کو کھو رہی تھی۔ پارٹی کے قائدین بہت دل شکستہ اور مایوس ہو چکے تھے اور نہرو جیسا لیڈر کی توقع رکھتے تھے۔ آخر کار انہوں نے راہول کی گوشہ گیر اٹالین نژاد ماں سونیا گاندھی کی سربراہی میں تمام حالات پر قابو پایا اور سونیا بہت جلد اپنے شوہر کی اس تنظیم کو سنبھالنے اور فنا ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کی انتھک محنتوں، سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں نے کانگریس کو دوبارہ سے کھڑا کیا اور ۲۰۰۴ء میں اقتدار دیا۔
اگرچہ سونیا گاندھی نے پارٹی میں نئی اصلاحات لانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ اپنے پرانے وقتوں کے وفاداروں اور خاندانی وارثوں کے حصار ہی میں جڑی رہیں جس نے انہیں نچلی سطح تک تعلق قائم کرنے سے دور رکھا۔ لہٰذا کانگریس پارٹی روایتی طریقے سے معاشرے کے مختلف طبقوں کو متاثر کر کے انڈین سیاست کا حصہ بنی رہی جبکہ اس گروہ بندی اور نئے خیالات کے بحران نے کانگریس کی قوت کو کافی حد تک کم کیا۔
اس دوران راہول گاندھی نے عوامی نمائندگی اور شہرت سے دور رہ کر انڈیا کے نظام کو قریب سے دیکھا اور اپنی پارٹی کے طریقہ کار کو سمجھا۔ انہوں نے اس کی ابتدا اپنی ماں کے پارلیمانی حلقے اترپردیش کے علاقے امیتھا سے کی۔ اترپردیش انڈیا کی سب سے بڑی ریاست ہے اور ایسی جگہ جہاں کانگریس تقریباً اپنا اثر کھو چکی تھی جب عام انتخابات ۲۰۰۴ء کا اعلان ہوا تو راہول اور اس کی ماں سونیا نے پورے ملک میں پرجوش انداز میں مہم چلائی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی محنت رنگ لائی۔ راہول کو اپنی نشست پر کامیابی حاصل ہوئی اور کانگریس بی جے پی اور ان کے اتحادیوں کو دھکیلنے میں کامیاب ہوئی۔
گزشتہ ۳ سالوںمیں راہول گاندھی نے اپنے آپ کو انڈیا کے غریب اور دیہاتی لوگوں کے ساتھ جوڑا۔ انہوں نے انڈیا کے دور دراز اور دیہی علاقوں کے بے تحاشہ دورے کیے جہاں انہوں نے رہائشیوں کی شکایات خود سنیں۔ ان کے ساتھ زمین پر بیٹھے ان کے گھر پر کھانا کھایا اور بعض اوقات ان کے ساتھ ہی سوئے۔ اکثر موقع کی مناسبت سے وہ گائوں اور دیہات کے لوگوں کو حکومتی افسران سے ملواتے، ان کی سہولیات کے مطالبے رکھواتے اور ان کے ساتھ دھرنوں میں بھی شامل ہوتے تاکہ ان غریبوں کی پست حالت کو اجاگر کیا جا سکے۔ لیکن راہول کے ان دوروں کو میڈیا پر سراہا نہیں گیا بلکہ ان کے بعض مخالفین نے ان کی تحقیر بھی کی۔ پھر بھی راہول اکثر دور دراز علاقوں کے غیر اعلانیہ دوروں پر زور دیتے ہیں جو کہ ان کی سیکوریٹی کے حوالے سے نقصان دہ ہیں۔ اس قسم کے دورے گاندھی جیسے سیاستدانوں میں شاید ہی دیکھنے کو ملیں وہ زیادہ تر ایئر کنڈیشن اور آرام دہ سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔
راہول کا معیشت کے حوالے سے بھی نقطہ نظر انہی دوروں کا مظہر نظر آتا ہے۔ ویسے تو وہ سرمایہ داری ہی کے حامی ہیں لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام تر پیداوار اور ترقی میں غریبوں کو سہولیات ملنی چاہئیں۔ وہ اپنی انتخابی ریلیوں میں اکثر امیر اور غریب کے فرق کے حوالے سے بات کرتے اور کہا کرتے تھے کہ انڈیا کی غریب ریاستوں میں بھی ایسی ہی قابلیت اور صلاحیتیں موجود ہیں جیسی دوسری جگہ پر ہیں یہ حکومت کی نااہلی رہی ہے کہ یہ علاقے ابھی تک پست ہیں۔
وہ نئی معاشی اصلاحات پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ عالمی مالیاتی بحران کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ قلیل میعاد انتشار ہے اگر بڑی ریاستیں جیسے انڈیا اور چین اس وقت اپنے آپ کو سنبھال لیں تو وہ بہت طویل بنیادوں پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ راہول نے غریبوں کو روزگار فراہم کرنے اور کسانوں کو ان کے قرضے معاف کروانے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے لیکن ان اقدامات کی سرمایہ داروں کی طرف سے تذلیل کی گئی جبکہ اس اقدام سے کانگریس کا سیاسی استحکام بڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور انڈیا کے دیہی علاقوں کو موجودہ مالی بحران کی تباہی سے تحفظ بھی ملے گا۔
راہول گاندھی کے ارادوں میں بہت زیادہ اہم کام جس کو وہ ترجیح دے رہے ہیں وہ ۱۰ ملین نوجوانوں کو کانگریس کے یوتھ ونگ میں شامل کرنا ہے اور نئی قیادتوں کو کھڑا کرنے کے لیے ان کے درمیان انتخابات کروانا۔ اپنے اس مقصد کے لیے وہ اب تک تین اپوزیشن ریاستوں پنجاب، گجرات اور اتراکھنڈ میں ۵ء۱ ملین نوجوانوں کی تنظیم سازی کر چکے ہیں۔ کانگریس پارٹی کو زیادہ سے زیادہ جمہوری طرز پر لانے کا راہول کا یہ طریقہ کار ان کی دادی کے سیاست سے بالکل مختلف ہے جو کہ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں تمام علاقائی لیڈروں کو خود منتخب کیا کرتی تھیں۔
تاہم طاقت کا مرکز ابھی بھی کہیں اور ہے جو کہ بہت مضبوط ہے اور یہ راہول کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو کہ انہیں درپیش ہو گی۔ اس کے علاوہ انہیں دیگر مشکلات کا سامنا بھی ہو گا۔ کانگریس ازخود تمام ایسے اقدامات کی مزاحمت کرے گی جو اس پارٹی کے پرانے منصب دار اور صاحبِ اقتدار لوگوں کی حیثیت کو کمزور کرے۔ علاقائی حکومتیں نئی قیادتوں کو رنگ و نسل کی سیاست کے مدمقابل ابھرنے نہیں دیں گی۔ انڈین بیورو کریسی عوام کی خدمت کرنے کے بجائے لازمی طور پر راہول کے راستے میں خلل پیدا کرے گی۔ اور سرمایہ دار بھی اس بات پر خوش ہوں گے کہ ان نئی اصلاحات کو کسی طرح روکا جائے۔
بہرحال راہول گاندھی نے جس نظام اور طریقہ کار کی ابتدا کر دی ہے اس میں اتنی سکت ہے کہ وہ انڈیا کو ایسی مثالی ریاست بنا دے کہ جو مختلف نسل اور مذہب رکھنے کے باوجود معیشت اور جمہوریت میں کامیاب ہو۔ یہ بات درست ہے کہ اس مقصد میں انہیں بہت رکاوٹوں اور مزاحمتوں کا سامنا ہو گا لیکن اس کوشش سے وہ اپنے اور اپنے خاندان کا نام روشن کر سکیں گے اور اس مقصد میں راہول گاندھی اسی وقت کامیاب ہو سکیں گے کہ جب وہ اپنے آپ کو ہر قسم کی کرپشن سے پاک رکھیں اور ایک روایتی سیاستدان سے ہٹ کر اپنا کردار ادا کریں۔
(بحوالہ: ’’نیوزویک‘‘ شمارہ ۸ جون ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: فرقان انصاری)
Leave a Reply