
یہ منظر چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کا ہے۔ ایک بڑی گاڑی گزر رہی ہے جس میں سے چند بڑی گنوں کی نالیاں جھانک رہی ہیں۔ سڑک پر چند خواتین چل رہی ہیں جنہوں نے اسکرٹس پہن رکھے ہیں اور سروں پر اسکارف بھی نہیں۔ اچانک فائر کھول دیا جاتا ہے۔ سڑک پر بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ ہر طرف بدحواسی ہے۔ کیمرہ دکھاتا ہے کہ گاڑی جاچکی ہے اور خواتین تحفظ کے لیے ایک دکان میں داخل ہو رہی ہیں۔
چیچنیا میں اسلام کو بزور نافذ کرنے کے خواہش مند عناصر ایک بار پھر سرگرم دکھائی دہے رہے ہیں۔ چیچنیا کے صدر رمضان قادروف نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے نام پر غیراسلامی شعائر کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ دی سینٹر فار مورل اینڈ اسپریچوئل ایجوکیشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کے نام سے انہوں نے گزشتہ برس طالبان کے سے انداز کی حامل اخلاقی پولیس قائم کی ہے۔ انہوں نے نیوز ویک سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ چیچنیا میں کوئی بھی عورت بے پردہ گھر سے نہ نکلے۔ اس محکمے کے لوگ سیاہ یونیفارم میں سڑکوں پر گشت کرتے ہیں۔ اس گشت کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عورتیں کھلے بالوں کے ساتھ نہ گھومیں اور ان کا لباس بے حیائی کو فروغ نہ دیتا ہو۔
۳۴ سالہ رمضان قادروف نے اب تک چیچنیا میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے حوالے سے غیر معمولی اقدامات کیے ہیں۔ ان کی کارکردگی اس قدر عمدہ رہی ہے کہ کریملن میں روسی قیادت کو بھی ان پر بھروسہ ہے۔ انہوں نے اسلامی طرز زندگی کو اپنانے پر زور ضرور دیا ہے تاہم ان کا اصل مقصد چیچنیا میں امن کے قیام کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے معاملات کو قابو میں رکھنے میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے۔ ویسے تو چیچنیا نے صدیوں روسی تسلط کے خلاف جدوجہد کی ہے تاہم چند برسوں کے دوران اس میں غیر معمولی تیزی دکھائی دی ہے۔ ماسکو کارنیگی سینٹر کی ماشا لپمین کا کہنا ہے کہ روس کا افغانستان تو اس کی اپنی حدود میں واقع ہے۔ چیچن جانبازوں نے ۲۰۰۴ء میں ماسکو کے ایک تھیٹر پر قبضہ کرلیا تھا اور دوسرے مقامات پر بھی لوگوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ سال رواں کے دوران چیچن جانبازوں نے زیر زمین ریلوے نظام میں دھماکوں سے ۴۰ افراد کو ہلاک کیا۔ شمالی کاکیشیا میں بھی تسلسل سے دھماکے ہوتے رہے ہیں۔ روس کی فوج اور اس کے مقامی ایجنٹس جس سفاک انداز سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کچلتے ہیں اس سے باغیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ روسی حکومت نے اب روس کے دو کروڑ مسلمانوں کو معاشرے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی انقلابی اقدامات کیے ہیں۔ ملک بھر میں مسلمانوں کے لیے جامعات میں اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ خصوصی مراکز قائم کیے جارہے ہیں۔ اس منصوبے پر تیس کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔ شام اور سعودی عرب کی منظور شدہ جامعات میں اعلیٰ تعلیم کا حصول یقینی بنایا جارہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ شمالی کاکیشیا کے معاملات میں ماسکو کے منظور شدہ مذہبی علماء کا کردار بڑھے۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو تربیت بھی دی گئی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے اور اخلاقی اقدار کا اعلیٰ معیار برقرار رکھنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب کاکیشیا میں روسی فوج باغیوں کو تلاش کرکے ٹھکانے لگا رہی ہے۔
ولادیمیر پوٹن کو رمضان قادروف پر پورا بھروسہ ہے۔ انہیں ۲۰۰۷ء میں صدر بنایا گیا تھا۔ سعودی عرب کے وہابی مسلک اور اسامہ بن لادن کے انتہا پسندانہ نظریات سے ہٹ کر قادروف نے چیچنیا میں صوفی ازم پر مشتمل اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ چیچنیا میں جس نوعیت کی اسلامی تعلیمات پھیلائی جارہی ہیں ان میں روایتی ذکر بھی شامل ہے جس میں چند مرد مل کر حلقے کی شکل میں ورد اور رقص کرتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں جب چیچنیا نے روس کے تسلط سے آزاد ہونے کی تحریک شروع کی تب رمضان قادروف کے والد احمد قادروف چیف مفتی تھے۔ انہوں نے بعد میں روس سے مصالحت کرلی اور ۲۰۰۴ء میں انہیں قتل کردیا گیا۔ والد کی علمی وراثت کو رمضان قادروف نے سنبھالا ہے۔ وہ کبھی کبھی صوفیوں کے مخصوص لباس میں طلباء اور اسکالروں سے خطاب بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مکہ دا یعنی ’’بابائے قوم‘‘ کہلوانے کے لیے صدر کا منصب چھوڑنے کو بھی تیار ہیں۔ یہ لقب عام طور پر ان علماء کو دیا جاتا ہے جو روسی تسلط کے خلاف جدوجہد کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں۔ ویسے رمضان قادروف کو یہ زیادہ پسند ہے کہ انہیں ’’پادشاہ‘‘ کہا جائے۔
رمضان قادروف نے وہابی مسلک کے بجائے ملک میں اسلام کا ایسا ورژن نافذ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں خاصی لچک ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو بعض امور میں نرمی سے سمجھایا جائے۔ خواتین کی بے پردگی کے معاملے میں حکومتی رویہ خاصا غیرلچکدار ہے۔ ایک سرکاری پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بہنو! ہم نے اب کی بار تو صرف ’پینٹ‘ پر اکتفا کیا ہے، آئندہ معافی نہیں ملے گی۔ ہمیں انتہائی اقدامات پر مجبور نہ کیا جائے۔‘‘ تمام سرکاری اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں خواتین کے لیے اسکارف لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ شراب کی فروخت پر پابندی عائد ہے۔ پیشہ ور طوائفوں کو پکڑ کر منفرد سزا دی جاتی ہے۔ ان کے سر مونڈ دیے جاتے ہیں، بھنویں بھی صاف کردی جاتی ہیں اور کھوپڑی پر سبز پینٹ کردیا جاتا ہے۔ قادروف اس بات کے حق میں نہیں کہ کوئی بھی عورت کسی بھی مرد کے ساتھ بھاگ جائے۔ انہوں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ عزت کے نام پر قتل کرنا درست ہے۔ تعلیمی پالیسی میں اس بات کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ کوئی شخص بیرونی دنیا سے غیرضروری تعلق رکھے اور ان کی زندگی میں خرابیوں کی راہ ہموار ہو۔ مثلاً وہ انٹرنیٹ کے غیر ضروری استعمال کے بھی خلاف ہیں۔
رمضان قادروف کی زندگی بھی خاصی عجیب ہے۔ ایک طرف تو ان میں صوفیوں والی پارسائی ہے اور دوسری طرف وہ خانگی حیثیت میں خاصی پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ اپنے کمپاؤنڈ میں ایک ہزار افراد کا اجتماع منعقد کرتے ہیں جس میں پانچ پانچ گھنٹوں تک رقص بھی کیا جاتا ہے! جب قادروف جولائی میں مکہ مکرمہ جانے اور عمرہ کرنے کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ جاتا ہے۔ سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز نے انہیں اور ان کے ۲۷ ساتھیوں کو خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی خصوصی اجازت دی۔ یہ ایسا زبردست روحانی تجربہ تھا کہ وطن واپسی پر رمضان قادروف نے چیچنیا کے ۱۱۷ خاندانوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے نام پر آپس کی دشمنی ختم کردیں۔
رمضان قادروف اپنے برانڈ کے اسلام کا خوب پرچار کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں وبائی نظریات کی بنیاد پر اپنایا جانے والا مسلک خطرناک اور غیر صالح ہے۔ انہوں نے کریملن کو مشورہ دیا ہے کہ روسی مساجد میں امام تبدیل کیے جائیں، انہیں چیچن اماموں سے تربیت دلائی جائے اور روسی مساجد میں پڑھنے کے لیے خصوصی خطاب اور خطبہ تیار کرایا جائے جو حالات کے مطابق ہو اور جس میں حکومت سے وفاداری خاص طور پر سکھائی گئی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ روسی مسلمان اگر اپنے مزاج میں نرمی پیدا نہیں کریں گے تو مزید الگ تھلگ ہو جائیں گے اور پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ وہ اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ باہر سے آنے والے کسی بھی مسلک کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ وہاب ازم کو وہ ملک کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیچنیا میں اسلام کے حوالے سے جو روایتی تصورات پائے جاتے ہیں وہی کافی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاب ازم جیسا کوئی مسلک ہم میں نہ تھا اور ہم اسے قبول بھی نہیں کریں گے۔
ایک طرف تو چیچنیا کی حکومت اسلام کا نرم ورژن اختیار کرنے پر زور دے رہی ہے اور دوسری طرف روسی حکومت صرف جبر سے کام لے کر مفاہمت پر مشتمل اپنی پالیسی کو خاک میں ملا رہی ہے۔ فاؤنڈیشن فار سپورٹ ٹو اسلامک ایجوکیشن اینڈ کلچر اولیگ خماکوف اور ایسے ہی دوسرے بہت سے علماء کو کریملن سے فنڈز مل رہے ہیں جن کا مقصد مسلمانوں میں معاشرے سے ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ یہ لوگ چیچن مسلمانوں میں انتہا پسند نظریات کی بیخ کنی کے لیے قطر، مصر، عمان اور ملائیشیا کی جامعات میں انہیں داخلہ دلا سکتے ہیں۔ عوام پر اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ اب بھی دیہات میں مکانات جلائے جارہے ہیں۔ عسکریت پسند بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ماسکو میں انسانی حقوق کے گروپ میموریل کے ڈائریکٹر اولیگ اورلوف کا کہنا ہے کہ روسی فوجی بھی کسی کو گرفتار کرتے ہیں تو اس پر خاصا تشدد کرتے ہیں جس کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں اب بھی چیچن جانباز حملے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اگست میں صدر قادروف کے آبائی گاؤں سینتروئی پر حملہ کیا تھا۔ صدر کے آبائی مکان کی حفاظت پر مامور سات پولیس اہلکار مارے گئے۔ صدر نے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد دینے، معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے تین لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہے۔ چیچنیا سے ملحق علاقے داغستان میں کئی دیہات کے نوجوانوں نے کریملن کے حمایت یافتہ اسکواڈ کے ہاتھوں ہلاکت سے بہتر یہ سمجھا ہے کہ چیچن جانبازوں کی صفوں میں شامل ہوکر مرکزی حکومت کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ روس چاہتا ہے کہ چیچنیا میں شورش کچل دی جائے مگر اس سلسلے میں وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ یکسر مخالف نوعیت ہے۔ جو کچھ روسی ایجنٹ کر رہے ہیں اس سے چیچنیا کے مسلمانوں میں یہ تاثر پھیل سکتا ہے کہ انہیں صرف دیوار سے لگایا جارہا ہے اور اسلام کے نرم ورژن کے نام پر جہاد سے دور کیا جارہا ہے۔ چیچنیا کی صورت حال سے رمضان قادروف قدرے لاتعلق سے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ولادیمیر پوٹن ان کے ساتھ ہیں، وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان۔ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply